• 26 جون, 2025

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عظیم مقام و مرتبہ

حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینا رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عظیم مقام و مرتبہ

(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےارشادات کی روشنی میں)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت کلام میں متفرق جگہوں پر حضرت امام حسین ؓ کے حقیقی مقام اور مرتبہ کے متعلق حقائق و معارف سے بھرپورمواد موجود ہے۔مسلمانوں کے ایک گروہ نے حضرت امام حسینؓ کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں مافوق البشر قرار دیا،ان کا درجہ انبیاء سے بڑا بتایا تو دوسری طرف ایک گروہ نے ان کی شان میں تحقیر اور گستاخی کی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا مقام آنحضرتﷺ کے ارشادات کی روشنی میں حکم و عدل کا تھا۔ آپ کی تحریرات و ارشادات اسلامی فرقوں کے اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت امام حسین ؓ کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام الزماں ؑ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں:۔

جو شخص حسین کی تحقیر کرتا ہے
وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے

}واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گذرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرے اور لعن طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ با ت کہہ دی ہو۔جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بد زبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْ ا اَسْلَمْنَا۔ مو من وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقوی کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محوہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خوا وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں۔ لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینا رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقوی اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقوی اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیو نکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت کی جاتی۔غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔جو شخص مجھے برا کہتا ہے یا لعن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے۔ایسے موقع پر درگذر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 544 تا 546۔اشتہار بعنوان ’’تبلیغ الحق‘‘ 8 اکتوبر 1905ء)

تیرے لیے شہادت مقدر ہے

میں نے ایک جگہ دیکھا ہے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ فتوحات کے لیے دعا کرتے تھے۔ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ تیرے لیے شہادت مقدر ہے اگر تو صبر نہ کرے گا تو اخیار ابرار کے دفتر سے تیرا نام کٹ جائے گا۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ299)

وہ سابقین کے ساتھ مل گئے

دیکھو حضرت امام حُسین جنہوں نے ہمیشہ ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اور سیّد سیّد کر کے پکارے جاتے تھے۔ انہوں نے بھی تو سختی کا زمانہ نہ دیکھا۔ان کو ایسے ایسے زمانے دیکھنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھا کہ وہ اُن صحابہ کے مراتب کو پہنچ سکتے۔ان کی ساری زندگی ناز ونعمت میں گذری تھی نہ انہوں نے کسی جہاد میں حصہ لیا تھا نہ کسی کفر ہی کو توڑا تھا تو خدا نے جو اُن کو شہید کیا۔ کیا اُن پر ظلم کیا ؟ہرگز نہیں۔ انہوں نے پچاس پچپن برس کی عمر تک وہ زمانہ نہ دیکھا تھاکہ شدائدکیا ہوا کرتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ جب صحا بہ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے تھے تو پھر ان کا کیا حق تھا کہ وہ شہداء میں درجہ پا تے یا کسی طرح آخرت میں خدا کے قرب میں عزت پا تے۔ کیا ان کو فاطمہ رضی اللہ عنہاکا بیٹا کہلا نے کا فخر بس تھا؟ اور ان کے واسطے یہی کا فی تھا ؟ نہیں اس سے تو رسول اللہﷺ نے بھی منع فر مایا تھا۔اس سے کو ئی حق قرب الٰہی نہیں ہو سکتا تھا۔ غرض انکی اپنی تو ایسی بظاہر کا رنمائی نہ تھی جس سے وہ ان درجات اعلیٰ کے وارث یا حقدار ہو تے۔مگر چونکہ ان کو آنحضرت ﷺ سے ایک قسم کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ چا ہا کہ آنحضر تﷺسے اس قسم کا تعلق رکھنے والے کو ضائع کر ے۔سو ان کے واسطے ایسے ایسے ساما ن میسر کر دئے کہ وہ خدا کی راہ میں شہادت پا نے کے قابل ہو گئے اور اس طرح وہ سابقین کے ساتھ مل گئے جن کے حالات سے وہ محض نا واقف تھے۔ایک ذراسی تکلیف اور اجر عظیم مل گیا۔شیعہ ہیں کہ اس حکمت الٰہی کی طرف تو غور نہیں کر تے اور الٹا روتے ہیں کہ ان کوشہید کر دیا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ149-150)

یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں

بھلا امام حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعا نہ مانگی ہو گی اور آنحضرتﷺ کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دُعا نہ کی ہو گی۔ بات یہ ہے کہ یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ443)

انبیاء پر اگر کوئی واقعہ مصیبت کے رنگ میں آتا ہے تو اس سے خدا تعالےٰ کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ ان کے اخلاق کو وہ دنیا پر ظاہر کرے کہ جو ہماری طرف سے آتے ہیں اور ہمارے ہو جاتے ہیں وہ کن اخلاق فاضلہ کے صاحب ہوتے ہیں۔امام حسین پر بھی ایسا واقعہ گذرا۔ آنحضرتﷺ پر بھی ایسے واقعات گذرے مگر صبر اور استقلال اور خدا تعالیٰ کی رضا کو کس طرح مقدم رکھ کر بتلایا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ470)

خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔

مَیں نے اِس قصیدہ (قصیدہ اعجاز احمدی۔ناقل) میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ یہ انسانی کارروائی نہیں۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور وعید مَنْ عَادَوَلِیًّالِی دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مُبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ149)

کوفہ کے لوگوں کا کردار

امام حسین کو قریباً پچاس ہزار کوفے کے آدمیوں نے خط لکھا کہ آپ آئیں ہم نے بیعت کرنی ہے اور جب وہ آئے تو سب مل کر قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے تو کوئی خط روانہ نہیں کیا اور صاف انکار کر دیا۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ303)

حضرت امام حسین پر بھی ایک ایسا وقت آیا تھا کہ جب مسلم نے70 ہزار آدمیوں کو نماز پڑھائی اور ان سے حضرت امام حسین کی رفاقت کا عہد لیا، مگر جب کسی شخص نے یزید کے آنے کی خبر دی تو سب کے سب آپ کو تنہا چھوڑ گئے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ249)

ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں

حسن نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہو گئے پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لیے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔چونکہ حضرت حسن کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسن پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسن نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسین نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ579-580)

وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرتﷺکے آل تھے
ا س میں کس ایمان دار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفت اور ائمة الہدیٰ تھے اور وہ بلا شبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرتﷺکے آل تھے۔ لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسن اور حسین کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی جس کی رو سے وہ آنحضرتﷺ کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر ہی نہیں کرتے اور ایک فانی رشتہ کو بار بار پیش کیا جاتا ہے جس کے ساتھ روحانی وراثت لازم ملزوم نہیں۔ اور اگر یہ فانی رشتہ جو جسمانی تعلق سے پیدا ہوتا ہے ضروری طور پر خدا تعالیٰ کے نزدیک حقدار ہو تا ہے تو سب سے پہلے قابیل کو یہ حق ملتا جو حضرت آدم علیہ السلام کو پہلوٹا بیٹا اور پیغمبر زادہ تھا اور پھر اس کے بعد حضرت نوح آدم ثانی کے اُس بیٹے کو حق ملتا جس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اِنَّہ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ کا لقب پایا۔ سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما آنحضرتﷺکے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے۔ وہ بلاشبہ آنحضرتﷺ کے روحانی مال کے وارث ہوتے۔ جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں۔ بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے۔ اب ایک عقلمند انسان سوچ سکتا ہے کہ کیا لازوال اور ابدی طور پر آلِ رسول ہونا جائے فخر ہے یا جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا جو بغیر تقویٰ اور طہارت اور ایمان کے کچھ بھی چیز نہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہل بیت رسول اللہﷺ کی کسرِ شان کرتے ہیں بلکہ اس تحریر سے ہمارا مدعا یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق صرف جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا نہیں کیونکہ وہ بغیر روحانی تعلق کے ہیچ ہے۔ اور حقیقی تعلق اُن ہی عزیزوں کا رسول اللہﷺ سے ہے کہ جو روحانی طور پر اس کی آل میں داخل ہیں۔ رسولوں کے معارف اور انوار روحانی رسولوں کے لئے بجائے اولاد ہیں جو ان کے پاک وجود سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ ان معارف اور انوار سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں اور ایک پیدائش جدید اُن انوار کے ذریعہ سے پاتے ہیں۔ وہی ہیں جو روحانی طور پر آل محمد کہلاتے ہیں۔

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد نمبر15حاشیہ صفحہ364-366)

حضرت عیسی اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کا علم ہے دوسرے کو نہیں ہے

اور یہ بالکل غلط ہے کہ میں انبیاء ورسل یا صلحاء امّت کی تحقیر کرتا ہوں۔جیسے میں ابرارواخیار کا درجہ سمجھ سکتا ہوں اور اُن کے مقام وقرب کا جتنا علم مجھے ہے کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم سب ایک ہی گروہ سے ہیں اور الجنس مع الجنس کے موافق دوسرے اس درجہ کے سمجھنے سے عاری ہیں۔حضرت عیسی اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کا علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ اُن کے رُتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا ویں مگر وہ اُن کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ530)

اگر واقعی ان کو امام حسین سے محبت ہے تو ان کی پیروی کریں

یہ امام حسین کے فضائل بے شک بیان کریں ہم منع نہیں کرتے اور جس حد تک انبیاء کرام کی تکذیب لازم نہ آئے اور راستبازوں کی ہتک نہ ہو ہم ماننے کو تیار ہیں مگر یہ تو نہیں کہ انہیں خدا بنا لیں۔اگر واقعی ان کو امام حسین سے محبت ہے تو ان کی پیروی کریں۔ جس سے انسان کو محبت ہو وہ اس کے رنگ سے رنگین ہونا چاہتا ہے اور اُس کے سے کام کرنا اپنا دین و ایمان سمجھتا ہے۔ اتنے پیغمبر گذرے ہیں کیا کبھی کسی نے کہا ہے کہ میری بندگی کرو؟ اصل بات تو یہ ہے کہ دُور دُو رسے گمراہوں کا جو اسلام میں ہو کر اس درجہ تک پہنچے ہدایت پانا نسبتاً مشکل ہے۔ امام حسین کو میں نے دو مرتبہ دیکھا کہ دُور سے ایک شخص چلا آرہا ہے اور میری زبان سے یہ لفظ نکلا ابو عبداللہ حسین۔ پھر دوبارہ دیکھا۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ449)

قضاء وقدر کا سارا معاملہ اور تصرِف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے

دیکھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک گھنٹہ میں72 آدمی آپ کے شہید ہو گئے۔ اس وقت آپ سخت نرغہ میں تھے۔اب طبعاًہر ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جبکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اپنے لیے خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جاوے لیکن وہ دُعا اس وقت منشاء الٰہی کے خلاف تھی اور قضاء وقدر اس کے مخالف تھے۔اس لیے وہ ایسی جگہ شہید ہو گئے۔اگر ان کے قبضہ واختیار میں کوئی بات ہو تی تو انہوں نے کو نسا دقیقہ اپنے بچاؤکے لیے اُٹھا رکھا تھا مگر کچھ بھی کار گر نہ ہو ا۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ قضاء وقدر کا سارا معاملہ اور تصرِف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدر ذخیرہ قدرت کا رکھتا ہے اور حیّ وقیوم ہے اس کو چھوڑ کر جو مُردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پر جاکر اُن سے مُرادیں مانگتا ہے اس سے بڑھ کر بے نصیب کون ہو سکتا ہے؟

(ملفوظات جلد سوم صفحہ522-523)

قرآن شریف میں آپ کا نام ایک مر تبہ بھی اللہ تعالیٰ نے نہ لیا
شیعہ لوگوں کے ذکر پر فر ما یا :۔ہمیں ان لوگوں کی حالت پر رحم آتا ہے۔ اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایسی ہی شان اور عظمت تھی جو یہ بیان کرتے ہیں اور کل نبیوں کی نجات ان ہی کی شفا عت سے ہو ئی ہے تو پھر تعجب ہے کہ قرآن شریف میں آپ کا نام ایک مر تبہ بھی اللہ تعالیٰ نے نہ لیا۔ زید جو ایک معمولی صحابی تھے ان کا نام تو قرآن نے لے لیا مگر امام حسین رضی اللہ عنہ کا جو ایسے جلیل القدر منجی اور کل انبیا ء علیہم السلام کے شفیع تھے ان کا نام بھی قرآن شر یف نے نہ لیا۔ کیا قرآن شریف کو بھی ان سے کچھ عداوت تھی؟

(ملفوظات جلد سوم صفحہ283)

ہم منع نہیں کرتے کہ کوئی کسی بزرگ کی محبت یا جدائی میں آنسوؤں سے رولے

اہلِ تشیع کو جو محبت حضرت امام حسین سے ہے اور آپ کے واقعہ شہادت کو سُن کر جس طرح ان کے جگر پارہ پارہ ہو تے ہیں اس میں سے تکلّف اور تصنع کو دور کرکے باقی ان لوگوں کے حق میں جو دلی خلوص سے امام صاحب سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی شان میں ہر ایک قسم کے غلو کو معیوب قرار دیتے ہیں۔فر مایا کہ اس سے ہم منع نہیں کرتے کہ کوئی کسی بزرگ کی محبت یا جدائی میں آنسوؤں سے رولے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ550)

مسیح نے تو امام حسین علیہ السلام جتنا حوصلہ بھی نہ دکھلایا

مسیح نے تو امام حسین علیہ السلام جتنا حوصلہ بھی نہ دکھلایا کیونکہ ان کو مفر کی گنجائش تھی اگر چاہتے تو جا سکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہو کر جان دی اور مسیح کو تو مفر ہی کوئی نہ تھا یہودیوں کی قید میں تھے حوصلہ کیا دکھلاتے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ437)

ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ صلحاء، اتقیاء اور ابرار سے محبت رکھی جاوے

ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ صلحاء، اتقیاء اور ابرار سے محبت رکھی جاوے مگر حد سے گذر جانا حتیٰ کہ آنحضرتﷺ پر ان کو مقدم رکھنا یہ مناسب نہیں ہے جیسے کہ گذشتہ ایام میں بعض شیعہ کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس میں لکھا تھا کہ صرف امام حسین کی شفاعت سے تمام انبیاء نے نجات پائی۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کی کسر شان ہے۔اس سے تو ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ نے غلطی کی کہ آنحضرتﷺ پر قرآن نازل کیا اور حسین پر نہ کیا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ268)

حفظ مراتب بڑی ضروری شے ہے

ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہئے لیکن حفظ مراتب بڑی ضروری شے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حد سے گذر کر خود ہی گنہگار ہو جائیں اور آنحضرتﷺ یا دوسرے نبیوں کی ہتک ہو جائے وہ شخص جو کہتا ہے کہ کُل انبیاء علیھم السلام حتّٰی کہ آنحضرتﷺبھی امام حسین کی شفاعت سے نجات پائیں گے اس نے کیسا غلو کیا ہے جس سے سب نبیوں کی اور آنحضرتﷺکی ہتک ہوتی ہے مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ان لوگوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تعریف میں اس قدر غلو کیا ہے۔ مگر امام حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے وقت ان لوگوں سے ایسا دلی جوش صادر نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ معلوم نہیں کیا ہے شاید یہی باعث ہو کہ انہوں نے حضرت معاویہ کی بیعت کر لی تھی۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ268-269حاشیہ)

انبیاء کے آنے کی غرض اور غایت

ایسا ہی شیعہ ہیں۔ انہوں نے فقط اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے لیے روپیٹ لینا ہی نجات کے واسطے کافی ہے۔ یہ کبھی ان کو خواہش نہیں ہوتی کہ ہم امام حسین کی اتباع میں ایسے کھوئے جاویں کہ خود حسین بن جاویں۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس وقت تک نجات نہیں جب تک انسان نبی کا روپ نہ ہو جاوے۔ وہ انسان جو اپنے مراتب اور مدارج میں ترقی نہیں چاہتا وہ مخنثوں کی طرح ہے۔ میں کھول کر کہتا ہوں کہ جس قدر انبیاء و رسل گذرے ہیں ان سب کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے آنے کی غرض اور غایت ہی یہی تھی کہ لوگ اس نمونہ اور اسوہ پر چلیں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ407)

اسلامی فرقوں کے غلط عقائد

ایک طرف شیعہ ہیں کہ حسین کو مثل لات کے بنا رکھا ہے۔ تو ایک شخص کہہ دے گا کہ کہاں جاؤں۔ شیعہ حسین پرست بنے ہوئے ہیں۔ خوارج علی کو گالیاں دیتے ہیں۔ درمیان میں اہلِ سنّت ہیں۔ اگرچہ بظاہر اُن کا اعتدال نظر آتا ہے مگر اب انہوں نے ایسے قابل شرم اعتقاد بنا رکھے ہیں کہ وہ شرک تک پہنچ گئے ہیں مثلاً مسیح کو خالق بنا رکھا ہے احیائے موتی کرنے والا مانا ہوا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ۔330.331)

ہماری نسبت یہ کلمات در حقیقت خد اتعالیٰ کی اپنی عزت کے اظہار اور نبی کریمﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں

حضرت عیسیٰ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خد اکا عرش کانپتا ہے۔ اب جب کہ کرو ڑ ہا آدمی حضرت عیسیٰ کی مدح و ثناء سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلو ق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلا ک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزتو ں کے کپڑے جو بیجا طور پر ان کو پہنا ئے گئے تھے۔ اُ ن سے اُتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں۔ پس ہماری نسبت یہ کلمات در حقیقت خد اتعالیٰ کی اپنی عزت کے اظہار اور نبی کریمﷺ کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ215)

دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طورپر استعمال کیا گیا ہے

غرض مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالےٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکاہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزارہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے وہ دمشق ہی ہے اوریزیدیوں کو اُ ن یہودیوں سے بہت مشابہت ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھی ایسا ہی حضرت امام حسین کو بھی اپنی مظلومانہ زندگی کی رو سے حضرت مسیح سے غایت درجہ کی مماثلت ہے۔

پس مسیح کا دمشق میں اُترنا صاف دلالت کرتا ہے کہ کوئی مثیل مسیح جو حسین سے بھی بوجہ مشابہت ان دونوں بزرگوں کے مماثلت رکھتا ہے۔ یزیدیوں کی تنبیہ اور ملزم کرنے کے لئے جو مثیل یہود ہیں اُترے گا اور ظاہر ہے کہ یزیدی الطبع لوگ یہویوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دراصل یہودی ہیں۔اس لئے دمشق کا لفظ صاف طور پر بیان کر رہا ہے کہ مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی دراصل مسیح نہیں ہے بلکہ جیسا کہ یزیدی لوگ مثیل یہود ہیں ایساہی مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی مثیل مسیح ہے اور حسینی الفطرت ہے۔ یہ نکتہ ایک نہایت لطیف نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے صاف طور پر کھل جاتا ہے کہ دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طورپر استعمال کیاگیاہے۔ چونکہ امام حسین کامظلومانہ واقعہ خدائے تعالےٰ کی نظر میں بہت عظمت اور وقعت رکھتا ہے اور یہ واقعہ حضرت مسیح کے واقعہ سے ایسا ہمرنگ ہے کہ عیسائیوں کو بھی اس میں کلام نہیں ہوگی اس لئے خدائے تعالےٰ نے چاہا کہ آنے والے زمانہ کو بھی اس کی عظمت سے اور مسیحی مشابہت سے متنبہ کرے اس وجہ سے دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا تا پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آجائے جس میں لخت جگر رسول اللہﷺ حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اور جور وجفا کی راہ سے دمشقی اشقیا کے محاصرہ میں آکر قتل کئے گئے۔ سو خدائے تعالیٰ نے اس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگدل اور سیاہ درون لوگ پیدا ہوگئے تھے اس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈکوارٹر ہوگا۔ کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدائے تعالےٰ لعنت کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے۔

اس استعارہ کو خدائے تعالےٰ نے اس لئے اختیار کیا کہ تا پڑھنے والے دو فائدے اس سے حاصل کریں ایک یہ کہ امام مظلوم حسین رضی اللہ عنہ کا دردناک واقعۂ شہادت جس کی دمشق کے لفظ میں بطورپیشگوئی اشارہ کی طرز پر حدیث نبوی میں خبر دی گئی ہے اس کی عظمت اور وقعت دلوں پر کھل جائے۔ دوسرے یہ کہ تا یقینی طور پر معلوم کرجاویں کہ جیسے دمشق میں رہنے والے دراصل یہودی نہیں تھے مگر یہودیوں کے کا م انہوں نے کئے۔ ایسا ہی جو مسیح اُترنے والا ہے دراصل مسیح نہیں ہے مگر مسیح کی روحانی حالت کا مثیل ہے اور اس جگہ بغیر اس شخص کے کہ جس کے د ل میں واقعہ حسین کی وہ عظمت نہ ہو جو ہونی چاہیئے ہر ایک شخص اس دمشقی خصوصیت کو جو ہم نے بیان کی ہے بکمال انشراح ضرور قبول کرلے گا اور نہ صرف قبول بلکہ اس مضمون پر نظر امعان کرنے سے گویا حق الیقین تک پہنچ جائے گا اور حضرت مسیح کو جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی گئی ہے یہ بھی استعارہ در استعارہ ہے۔

(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ136-137حاشیہ)

(ساجد محمود بٹر۔ گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020