حضرت امیر معاویہ ؓنے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کر دیا تھا۔ حضرت امام حسینؓ نے اس کی مخالفت کی تھی جس پر شام سے آپ کی جواب طلبی ہوئی۔ جواب میں آپ نے حکومت کی سخت تنقید کی اور اپنے خیالات واضح کرتے ہوئے یزید کے ولی عہد کے ناجائز ہونے کا اعلان کیا۔
رجب 60ھ میں یزید نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور مدینہ منورہ میں اپنے والد کی وفات کا خط لکھا اور ایک مختصر حکم بھیجا۔
’’حسینؓ اور عبدا للہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت پر مجبور کر و اور پوری سختی کرویہاں تک یہ لوگ بیعت کر لیں۔‘‘
ولیدبن عتبہ بن ابو سفیان مدینے کا گورنر تھا۔ اس وقت والئ مدینہ مروان بھی موجود تھا۔ یزید کے خط کے مضمون کو سن کر حضرت امام حسینؓ نے فرمایا:
خدا تم لوگوں کو اس مصیبت میں صبر عطا کرے۔ رہی بیعت تو شاید تم میرے ایسے شخص کی مخفی بیعت کو کافی نہ سمجھو۔ جب مجمع عام میں یہ بات رکھو گے تو مجھ سے مطالبہ کرنا۔
ولیدنے کہا: درست ہے۔ مروان نے بات کاٹی اور کہا:
ولید کیا غضب کرتے ہو اگر حسینؓ اس وقت تمہارے ہاتھ سے نکل گیا اور بیعت نہ کی تو پھر ایسا موقع نہ آ سکے گا جب تک فریقین کے بہت سے لوگ قتل نہ ہوں بہتر یہ ہے کہ انہیں گرفتار کر لو اور یہ تمہارے گھر سے جانے نہ پائیں۔ جب تک بیعت نہ کر لیں یا قتل نہ کر دئیے جائیں۔
یہ سن کر ولید نے کہا:
میں حسین کے خون سے ہاتھ نہیں رنگ سکتا۔
ولید سے حضرت امام حسینؓ کی ملاقات 27رجب کو ہوئی۔ اسی دن حضرت امام حسینؓ نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا رخ کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کے فرزند، بھتیجے اور دوسرے اہل بیت تھے۔ اس موقع پر محمد بن حنفیہ نے نئے اقدامات کے لئے پیش بندیوں کے مشورے دئیے۔ امام حسینؓ نے شکریہ کے ساتھ سب کچھ سنا اور بھائی کو خدا حافظ کہا۔
حضرت امام حسینؓ پہلے رسول اللہ ﷺ کے مزار اور اپنی والدہ ماجدہ کی قبر پر آئے۔ اس کے بعد مدینے سے عام شاہراہ سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ میں 4شعبان 60ھ کو داخل ہوئے۔ مکہ میں آپ کا قیام شعب ابی طالب میں رہا۔ یہاں لوگ آپ سے ملنے آتے رہے۔
ایران کے شیعان علی ابتداء سے حضرت امیر معاویہؓ کے خلاف تھے ان کی وفات کے بعد انہوں نے خلافت کا منصب اہل بیت میں منتقل کرنے کی کوشش کی اور حضرت امام حسین ؓکے مکہ پہنچنے کے بعد آپ کو بلاوے کے خطوط لکھے۔ پھر عمائد کوفہ نے خود آکر کوفہ چلنے کی درخواست کی۔ اس دعوت پر آپ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کے لئے کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا:
تمہارے خطوط ملے۔ تمہاری خواہش معلوم ہوئی۔ میں اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو حالات کی تحقیق کے لئے بھیجتا ہوں۔ جیسا کہ تم نے لکھاہے اور تمہارے آدمیوں کا بیان ہے کہ اگر واقعی تم لوگ میری خلافت پر متفق ہو تو مسلم وہاں دیکھ کر مجھے اطلاع دیں گے۔ میں فوراً روانہ ہوجاؤں گا۔‘‘
یہ خط لے کر مسلم کوفہ پہنچے اور مختار بن ابو عبید کے گھر قیام کیا۔ ان کی آمد کی خبر سن کر ان کے پاس شیعان علی کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر کو اس کی خبرہوئی لیکن وہ بڑے دیندار، نیک فطرت اور امن پسند آدمی تھے۔ اس لئے کسی قسم کی سختی نہ کی بلکہ لوگوں کو بلا کر سمجھایا کہ :
’’فتنہ و اختلاف میں نہ پڑو۔ اس میں جان ومال دونوں کی ہلاکت و بر بادی ہے۔ جب تک کوئی شخص میرے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہوگا اس وقت تک محض بد گمانی پر کسی سے باز پرس نہ کروں گا۔‘‘
لیکن یزید کے جاسوسوں نے دمشق اطلاع بھیج دی کی مسلم بن عقیل آگئے ہیں اور لوگوں کو برگشتہ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت کی بقا منظور ہے تو فوراً اس کا تدارک کیا جائے۔ اس اطلاع پر یزید نے عبد اللہ بن زیاد والئی مصر کو حکم بھیجا کہ:
کوفہ جا کر جس طرح ممکن ہو مسلم کو نکال دو یا انہیں گرفتار کر لو۔
یہ حکم پا کر وہ کوفہ پہنچا اور اس نے ہر محلہ کے بااثر شخص کو اس کے محلے کا ذمہ دار بنایا اور کہا کہ وہ اپنے محلہ کے فتنہ پر داز خوارج اور مشتبہ لوگوں کا نام لکھ کراطلاع کریں۔ جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا اس کے دروازہ پر اس کو سولی پر لٹکایا جائے گا۔
ان حالات کو دیکھ کر مسلم بن عقیل مختار کے گھر سے نکل کر اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں منتقل ہوگئے۔ یہاں بھی شیعان علی کی آمدورفت جاری رہی۔ چنانچہ مقتل ابومخنف میں درج ہے:
چنانچہ مسلم بن عقیل نے حضرت امام حسینؓ کو لکھ بھیجا کہ حالات موافق ہیں۔ آپ فوراً تشریف لائیے۔
ابن زیاد مسلم بن عقیل کی تلاش میں لگا ہوا تھا لیکن پتہ نہ چلتا تھا۔ آخر اس کے غلام معقل نے شیعان علی کا بھیس بدل کر پتہ چلا لیا اور مسلم سے مل کر عبد اللہ بن زیاد کو آگاہ کر دیا۔
ابن زیاد نے محمد بن اشعث کو گرفتاری کے لئے بھیجا۔ ابن اشعث جان بخشی کا وعدہ کر کے انہیں ابن زیاد کے پاس لے آیا لیکن ابن زیاد جان بخشی پر راضی نہ ہوا۔
چنانچہ مسلم نے ابن اشعث سے کہا کہ:
میرا بچانا تمہارے بس میں نہیں۔ لیکن اتنا کرنا کہ حضرت امام حسینؓ کو میرے انجام کی خبر کر کے کہلا دینا کہ وہ کوفہ والوں پر ہر گز اعتبار نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہیں وہیں سے لوٹ جائیں۔
ابن اشعث نے وعدہ ایفا کیا۔ اس کے بعد ابن زیاد نے انہیں قتل کرادیا۔ ان کی شہادت سے حضرت امام حسینؓ کا ایک قوی بازو ٹوٹ گیا۔ مسلم بن عقیل کے بلاوے پر حضرت امام حسینؓ نے روانگی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ اہل مکہ اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھی کوفیوں کی غداری سے پوری طرح واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے آپ کو سفر سے روکنا چاہا۔ عمر و بن عبد الرحمان نے کہا:
میں نے سنا ہے کہ آپ عراق جا رہے ہیں۔ وہاں آپ کے دشمنوں کی حکومت ہے ان کے حکام موجود ہیں۔ ان کے ہاتھ میں فوج اور خزانہ ہے عوام بندہ زر ہوتے ہیں۔ مجھ کو خطرہ ہے کہ جن لوگوں نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہی آپ سے لڑیں گے۔
حضرت ابن عباسؓ نے سمجھایا:
خدارا اس ارادہ سے باز آؤ۔ شاہی حکام کے ہوتے ہوئے کوئی آپ کا ساتھ نہ دے گا۔ سب آپ کو بے یارو مددگار چھوڑدیں گے اور آپ کے خلاف لڑیں گے۔
حضرت ابن عباسؓ نے یہ بھی فرمایا:
اگرآپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل وعیال کو ساتھ نہ لے جائیں۔ مجھے ڈر ہے کہ عثمان کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کر دئیے جائیں گے۔
لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی۔ اس لئے خیرخواہوں کی ساری کوششیں بے کار گئیں۔ حضرت اما م حسینؓ ذوالحجہ 60ھ کو مع اہل و عیال مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے۔
آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچیرے بھائی عبدا للہ بن جعفر نے عمروبن سعید اموی حاکم مکہ سے خط لکھوا کر بھیجا کہ آپ واپس لوٹ آئیں۔ آپ کی یہاں ہر طرح کی حفاظت کی جائے گی۔ آپ نے عمروبن سعید کو شکریہ کا خط لکھا لیکن واپس نہ آئے۔
شامی حکومت کو آپ کی روانگی کی خبر مل چکی تھی۔ اس نے آپ کی نقل و حرکت کی اطلاع اور آپ کے اور اہل کوفہ کے درمیان بات چیت کا سلسلہ منقطع کرنے کے لئے ایک قاصد قیس بن مسہر صیداوی جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کی خبر لانے کے لئے بھیجا تھا۔ گرفتار کر کے قتل کر دئیے۔
مقام ثعلبہ پر پہنچ کر آپ کو کوفہ کے ایک مسافر سے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی۔ اہل قافلہ نے واپسی کا مشورہ دیا لیکن عقیل کے بھائیوں نے کہا:
اللہ کی قسم!ہم واپس نہیں جائیں گے یہاں تک کہ ہم اپنے بھائی کے دشمنوں کو پکڑ لیں۔ غرض سفر جاری رہا۔ کچھ دور چل کر محمد بن اشعث اور عمر و بن سعد کے قاصد جنہیں ان دونوں کی وصیت کے مطابق حضرت امام حسینؓ کو کوفہ آنے سے روکنے کے لئے بھیجا تھا ملے۔ ان سے کوفہ کے تفصیلی حالات سننے کے بعد حضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا:
ایھا الناس فمن کان یصبر علی حد السیف و طعن ال سنیۃ فلیقم معنا والا فلینصرف عنا
اے لوگو! جو ہمارے ساتھ تلواروں کے سامنے صبر کر سکتا ہے اور جان قربان کر سکتاہے وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہے اور دوسرے جا سکتے ہیں۔ آگے چل کر ذی چشم مقام پر حُربن یزید ایک ہزار سپاہی کے ساتھ ابن زیاد کے حکم پر آپ کو گھیر کرلے جانے کے لئے آیا۔ اس سے آپ نے فرمایا:
میں خود نہیں آیا ہوں بلکہ تم لوگوں کے خطوط اور آدمی آئے تھے کہ آپ آکر ہماری رہنمائی کریں۔ اگر تم لوگ اس بیان پر قائم ہو تو میں تمہارے شہر چلوں ورنہ یہیں سے لوٹ جاؤں۔
اس نے کہا: ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہمیں تو حکم ملا ہے کہ آپ جہاں کہیں مل جائیں آ پ کو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیں۔
جب حُر کا لشکر آپ کو ملا اس وقت دوپہر کا وقت تھا چنانچہ حضرت امام حسینؓ نے ان کو پانی پینے کے لئے دیا۔ ؎
کیا سخی تھا صاحب تسنیم و کوثر کا پسر
غیر کو پانی پلایا آپ پیاسا رہ گیا
ذی خم کے مقام پر حضر ت امام حسینؓ کے ساتھیوں نے عقیدت مندانہ تقاریر کیں اور عہد کیا کہ:
اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ﷺ کے نواسے ! اللہ نے ہم پراحسان کیاہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے یہاں تک کہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑ ے ہوجائیں۔ پھر قیامت کے دن آپ کے نانا ہماری شفاعت کریں گے۔
جب حضرت امام حسینؓ نینوا کے قریب پہنچے تو ابن زیاد کی طرف سے حُرکو خط آیا کہ حسینؓ کو قید کرو اور ایسے چٹیل میدان میں ٹھہراؤ جہاں پانی اور کوئی محفوظ مقام نہ ہو۔ چنانچہ حضرت امام حسینؓ کو ارض کربلا میں پہنچنے کے بعد روک دیا گیا۔
2محرم 61ھ کو حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں اپنا قافلہ اتارا تھا۔ 3محرم کو عمر بن سعد چار ہزارفوج لے کے کربلا پہنچا۔ عمر بن سعد نے ابن زیاد کو لکھا کہ حضرت امام حسینؓ واپس جانے کو تیار ہیں۔ وہاں سے حکم آیا کہ پہلے ان کی بیعت لے لو۔ اس کے بعد غور کیا جائے گا۔ اس کے بعد دوسرا حکم پانی بند کر دینے کا پہنچا۔
اس حکم کے بعد 7 محرم سے عمر بن سعد کے حکم سے فرات پر پہرہ بٹھا دیا گیا۔ 9محرم کو عمر بن سعد نے حضرت امام حسینؓ سے مصالحت کی بات کی۔ لیکن حضر ت امام حسینؓ بیعت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ چنانچہ یہ آخری گفتگو بھی ناکام رہی۔ حضرت امام حسینؓ نے اہل بیت کے خیموں کی حفاظت کا سامان کر کے 72 جاں نثاروں کی مختصر فوج مرتب کی۔ زہیربن قیس اور حبیب بن مطہر کو دو مقامات پر متعین کیا اور عباس کو علم مرحمت فرمایا۔
اور آغاز جنگ سے پہلے خدا کے حضور دعا کی۔ دعا کے بعد دشمنوں کو مخاطب کر کے تقریر کی اس میں آپ نے اپنی شخصیت بتائی اور اپنے آنے کے اسباب بیان کر کے واپسی کی اجازت چاہی۔ جواب ملا کہ یزید کی بیعت کر لو۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! میں ذلیل کی طرح یزید کی بیعت کر کے غلام کی طرح اس کی خدمت تسلیم نہ کروں گا۔‘‘
آپ کے بعد جاں نثاروں نے تقاریر کیں لیکن عراقی فوج پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ حر بن یزید عراقیوں کا ساتھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہو گئے۔
صبح عاشورہ قیامت کا نمونہ تھی۔ جس اندوہ مصیبت میں حضرت امام حسینؓ اور آپ کے ہمراہی گرفتار تھے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آٹھویں محرم کی صبح سے حضرت امام حسینؓ کے خیام میں پانی کا ایک قطرہ نہ تھا۔ بوڑھوں، جوانوں اور بچوں کے گلے شدت پیاس سے خشک تھے اور کوئی بھی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ قیامت تو یہ تھی کہ دریائے فرات آنکھوں کے سامنے لہریں مار رہا تھا۔ مگر ان کی بے بسی اور مجبوری کی یہ حالت ہو رہی تھی کہ وہ تین دن کے پیاسے تھے اور اس سے ایک قطرہ بھی نہیں لے سکتے تھے۔
آہ وہ ریگستانی میدان، وہ آفت کی گرمی، وہ بلا کی دھوپ اور پانی کا بند ہونا۔ گویا کربلا کا میدان محشر کا نمونہ تھا۔ عابد بیمار اور اصغر شیر خوار کی بے تابانہ حالت کسی سے دیکھی نہ جاتی تھی۔
ان حالات میں لڑائی شروع ہوئی۔ پہلے ایک ایک میدان میں آیا اور حسینی فوج کے چند آدمی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوگئی۔ دونوں لشکروں کی قوت میں کوئی تناسب نہ تھا۔ ایک طرف چار ہزار مسلمان سپاہ تھی۔ دوسری طرف کل بہتر 72 آدمی۔ تاہم وہ مٹھی بھر آدمی بڑی شجاعت سے لڑے۔ دوپہر تک حضرت امام حسینؓ کے بہت سے آدمی شہید ہوگئے۔
ان کے بعد باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلم، حضرت جعفر طیارؓ کے پوتے عدی، عقیل کے فرزند عبدا لرحمان، ان کے بھائی، حضرت امام حسین کے صاحبزادے قاسم اور ابو بکر میدان میں آئے اور شہید ہو گئے۔ ان کے بعد حضرت امام حسینؓ نکلے۔ عراقیوں نے ہر طرف سے یورش کی۔ آپ کے بھائی عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان آپ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور چاروں نے شہادت حاصل کی۔ اب حضرت امام حسینؓ بالکل خستہ اور نڈھال ہو چکے تھے۔ پیاس کا غلبہ تھا۔ فرات کی طرف بڑھے۔ پانی لے کے پینا چاہتے تھے کہ حسین بن عنبر نے تیر چلایا۔ چہرۂ مبارک زخمی ہو گیا۔ آپ فرات سے لوٹے اب آپ میں کوئی سکت باقی نہ تھی۔ عراقیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وار کئے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ زخموں سے چور ہو کر گر پڑے۔ آپ کے گرنے کے بعد سنان بن انس نے سر اقدس جسدِ مطہر سے جدا کر دیا۔ ؎
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
٭…٭…٭