• 5 مئی, 2024

واقعہ کربلا

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان ایک لمبا عرصہ جنگ وجدل سے مسلمانوں کی ایک جماعت کو خیال پیدا ہو اکہ امت اسلامیہ کی خونریزی اور اس کے افتراق کی ساری ذمہ داری معاویہؓ، عمروبن العاصؓ اور علیؓ کے سر ہے اس لئے اگر تینوں کا قصہ پاک کر دیا جائے مسلمانوں کو اس مصیبت عظمیٰ سے نجات مل جائے گی۔ چنانچہ برک بن عبداللہ ملجم اور عمر وبن بکر نے تینوں اشخاص کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور ایک ہی شب میں اپنے اپنے شکار پرخفیہ حملہ آور ہوئے۔ ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو شہید کیا۔ عمر وبن بکر، عمرو بن العاص پر حملہ آور ہوا۔ اس دن ان کی بجائے دوسرا شخص نماز پڑھنے کے لئے نکلا ان کے دھوکے میں وہ ما را گیا اور عمر و بن العاص بچ گئے۔ برک بن عبداللہ نے امیر معاویہ پر حملہ کیا اور وہ زخمی ہوئے۔ حملہ آور کو فوراً گرفتار کر کے اسی وقت قتل کر دیا گیا اور امیر معاویہؓ علاج سے شفا یاب ہو گئے اسی دن انہوں نے اپنی حفاظت کے لئے مسجد میں مقصورہ (وہ چھوٹا سا قبہ نما حجرہ جس میں نماز کے وقت مسلمان بادشاہ بیٹھا کرتے تھے) بنوایا اور رات حفاظت کے لئے ایک دستہ مقرر کیا۔

حضرت حسن کا خلافت سے دستبردار ہونا

حضرت علیؓ کی وفات کے بعد امیر معاویہؓ کے مقبوضہ علاقہ کے علاوہ باقی سارے ملک کی نظریں حضرت حسنؓ کی طرف تھیں۔ چنانچہ والد بزرگوار کی تدفین سے فراغت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ جامع مسجد کوفہ تشریف لائے۔ مسلمانوں نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے، آپ نے ان سے بیعت لی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر بن کریز کو مقدمۃ الجیش کے طور پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کے لئے بھیجا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ کوفہ سے مدائن کی طرف بڑھے۔ ساباط پہنچ کر اپنی فوج میں کمزوری اور پہلو تہی دیکھی اسی لئے اس مقام پر رک کر حسب ذیل تقریر کی۔

’’میں کسی دل کے لئے دل میں کینہ نہیں رکھتا اورتمہارے لئے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں امید ہے کہ اسے مسترد نہ کرو گے۔ جس اتحاد اوریکجہتی کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تفرقہ اور اختلاف سے کہیں افضل و بہتر ہے جسے تم چاہتے ہو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر اشخاص جنگ سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور لڑنے سے بزدلی دکھا رہے ہیں میں تم لوگوں کو تمہاری مرضی کے خلاف مجبور نہیں کرنا چاہتا‘‘

صلح کے شرائط

عبد اللہ بن عامر نے بڑھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو مدائن میں گھیر لیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ پہلے ہی امیر معاویہ سے صلح کرنے پر آمادہ تھے اپنے ساتھیوں کی بزدلی اور کمزوری کا تجربہ کرنے کے بعد جنگ کاخیال بالکل ترک کردیا اور چند شرائط پر امیر معاویہؓ کے ساتھ صلح کر لی اور یہ شرائط عبد اللہ بن عامر کے ذریعہ سے امیر معاویہؓ کے پاس بھجوا دیں جو یہ ہیں:۔
1۔ کوئی عراقی محض بغض و کینہ کی و جہ سے نہ پکڑا جائے گا۔
2۔ بلا استثناء سب کو امان دی جائے گی۔
3۔ علاقہ اہواز فارس کا کل خراج حسنؓ کے لئے مخصوص کر دیا جائے گا۔
4۔ حسینؓ کو دو لاکھ سالانہ علیحدہ دیا جائے گا۔
5۔ بنی ہاشم کو صلات و عطا یا میں بنی عبد شمس (بنو امیہ) پر ترجیح دی جائے گی۔

عبد اللہ بن عامر نے یہ شرائط امیر معاویہؓ کے پاس بھجوادیں انہوں نے بلا کسی ترمیم کے یہ شرائط منظور کر لیں اور معززین و عمائد کی شہادتیں لکھو اکر حضرت حسنؓ کے پاس بھجوا دیا۔

حکم و عدل حضرت مسیح موعود کا فیصلہ

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیاکہ خلافت سے الگ ہو گئے پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گزارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثناء خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہو۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ انما الا عمال بنیات۔ یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا‘‘

حضرت حسن کی وفات

صلح کے بعد حضرت حسنؓ آخری لمحہ حیات تک اپنے جد بزرگوار کے جوار میں خاموشی اور سکون کی زندگی بسر کرتے رہے۔ پچاس ہجری میں آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعس نے کسی وجہ سے زہر دے دیا۔ جس سے آپ کی وفات ہو گئی۔ حضرت حسنؓ کو آنحضور ﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کی بڑی تمنا تھی۔ اس لئے حضرت عائشہؓ سے حجرہ نبوی میں دفن ہونے کی اجازت چاہی انہوں نے خوشی کے ساتھ اجازت دے دی۔ مروان کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ حسنؓ کسی طرح روضہ نبوی میں دفن نہیں کئے جا سکتے۔ ان لوگوں نے عثمان کو تو یہاں دفن نہ ہونے دیااور حسن کو دفن کرنا چاہتے ہیں یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ حضرت حسینؓ نے آپ کو جنت البقیع میں حضرت فاطمۃ الزہرا ء کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا۔

امیر معاویہ کا یزید کو ولی عہد بنانے کا فیصلہ

حضر ت امام حسینؓ اور امیر معاویہؓ دونوں کے ظاہری تعلقات خوشگوار تھے اور امیر معاویہؓ ان کا بڑا لحاظ رکھتے تھے۔ حضرت حسنؓ نے صلح کے وقت حضرت امام حسینؓ کے لئے جو رقم شرط لکھوائی تھی وہ امیر معاویہؓ انہیں برابر پہنچاتے رہے بلکہ اس رقم کے علاوہ بھی تحائف وغیرہ دیتے رہتے تھے۔ 56ھ میں امیر معاویہ نے اپنی وفات کے بعد مسلمانوں کو خانہ جنگی سے بچانے اور ان کی مرکزیت کو مستحکم کرنے کے خیال سے تمام پہلوؤں اور دشواریوں کو نظر انداز کر کے یزید کی ولی عہدی کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت امیر معاویہؓ اس بات پر مجبور تھے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ضرور اور کئی لوگ اسلامی بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر لیتے اور دوبارہ خونریزی کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ شامی کبھی بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرتے۔

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:۔
’’ہم معاویہ کو بھی گنہگار نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے اس وقت کے لحاظ سے مجبور ہو کر ایسا کیا مگر یزید کو بھی بلکہ خود معاویہ کو بھی خلیفہ نہیں کہہ سکتے ہاں ایک بادشاہ کہہ سکتے ہیں‘‘

(انوار العلوم جلد 15 صفحہ556)

کبار صحابہ کا یزید کی ولی عہدی سے انکار کرنا

امیر معاویہؓ نے یزید کی اہل حجاز سے بیعت کے لئے مروان کو حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ زبیرؓ، حضرت حسینؓ اور عبدا لرحمن بن ابی بکرؓ نے یزید کی ولی عہدی سے اختلاف کیا۔ مروان نے یہ رنگ دیکھا تو امیر معاویہؓ کو اس کی اطلاع دی، چنانچہ یہ خود آئے اور مکہ مدینہ والوں سے بیعت کا مطالبہ کیا۔ ابن عمرؓ، ابن زبیرؓ، ابن عباسؓ، ابن ابی بکرؓ اور حسینؓ کے علاوہ سبھی نے بیعت کر لی۔ بیعت عام کے بعد پھر انہوں نے فرداً فرداً ان پانچوں بزرگوں سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کہاکہ تم پانچوں کے سوا سب نے بیعت کر لی ہے۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ اگر عامۃ المسلمین بیعت کر لیں گے تو ہمیں بھی کوئی عذر نہ ہوگا۔ اس جواب کے بعد امیر معاویہؓ نے پھر ان لوگوں سے کوئی اصرار نہ کیا۔

امیر معایہ کی یزید کو وصیت

59ھ میں امیر معاویہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئے اس وقت ان کی عمر 78سال تھی۔ وفات سے قبل امیر معاویہؓ نے یزید سے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم معاملہ خلافت کا ہے اس میں حسین بن علیؓ، عبد اللہ بن عمرؓ، عبد الرحمن بن ابی بکرؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓکے علاوہ کوئی تمہارا حریف نہیں ہے۔ لیکن عبد اللہ بن عمر سے کوئی خطر ہ نہیں انہیں زہد وعبادت کے علاوہ کسی چیز سے واسطہ نہیں ہے اس لئے عام مسلمانوں کی بیعت کے بعد ان کو بھی عذر نہیں ہوگا۔ عبد الرحمن بن ابی بکر ؓکوئی ذاتی اہمیت اور حوصلہ نہیں رکھتے۔ جوان کے ساتھی کریں وہ بھی اس کے پیرو ہو جائیں گے۔ البتہ حسینؓ کی جانب سے خطرہ ہے ان کو عراق والے تمہارے مقابلہ پر لا کر چھوڑیں گے۔ اسلئے جب وہ تمہارے مقابلہ پر آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو در گزر سے کام لینا کیونکہ وہ قرابت دار اور رسول اللہ ﷺ کے عزیز ہیں البتہ جو شخص لومڑی کی طرح داؤ دے کر شیر کی طرح حملہ آور ہوگا وہ عبد اللہ بن زبیر ہے۔ اس لئے اگر وہ صلح کریں تو کر لینا ورنہ موقع پانے کے بعد ان کو ہر گز نہ چھوڑنا۔

خاندان کو وصیت

اس وصیت کے بعد اہل خاندان کو وصیت کی۔

’’خدا کا خوف کرتے رہنا کیونکہ خداخوف کرنے والوں کو مصائب سے بچاتا ہے۔ جو خدا سے نہیں ڈرتا اس کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘ پھر اپنا آدھا مال بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا اور تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایت کی کہ مجھ کو رسو ل اللہ ﷺ نے ایک کرتہ مرحمت فرمایا تھا اور وہ اسی دن کے لئے محفوظ رکھا ہے اور آپ کے ناخن اور موئے مبارک شیشہ میں محفوظ ہیں۔ مجھے اس کرتہ میں کفنانا اور موئے مبارک کو آنکھوں اور منہ کے اندر رکھ دینا۔ شاید خدا اسی کے طفیل میں اوراس کی برکت سے میری مغفرت فرمادے۔‘‘

امیر معاویہ کی وفات اور یزید کا ولی عہد بننا

حضرت امیر معاویہؓ نے 60ھ میں وفات پائی۔ ضحاک نے نماز جنازہ پڑھائی معاویہ دمشق کی زمین میں سپرد خاک کئے گئے اور مدت حکومت 19سال 3ماہ تھی۔ وفات کے بعد ان کا جانشین تخت نشین ہوا۔ ان کے لئے سب سے اہم معاملہ حضرت امام حسینؓ اور ابن زبیر کی بیعت کا تھا۔ ابن زبیرؓ کے دعویٰ خلافت سے حجاز میں (یعنی مکہ اور مدینہ) یزید کی مخالفت کا خطرہ تھا اور امام حسینؓ کی وجہ سے عراق میں شورش برپا ہو سکتی تھی۔ ان اسباب کی بناء پر اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لئے یزید نے ان دونوں سے بیعت لینا ضروری سمجھا۔ اگر وہ سمجھ داری سے کام لے کر ان بزرگوں کو ساتھ ملا لیتا تو بہت ممکن تھا کہ وہ ناگوار واقعات پیش نہ آتے جنہوں نے یزید کو ساری دنیا میںبدنا م کیا۔ یزید نے ولید بن عتبہ حاکم ِ مدینہ کو امام حسینؓ اور ابن زبیر کی بیعت لینے کا حکم دیا۔ ولید نے انہیں امیر معاویہؓ کی موت کی خبرسنا کر یزید کی بیعت کے لئے کہا۔ حضرت حسینؓ نے تعزیت کے بعد یہ عذر کیا کہ میرے جیسا آدمی چھُپ کر بیعت نہیں کر سکتا جب تم عام لوگوں کو بیعت کے لئے نہ بلاؤ گے۔ ولید کے پاس واپس آنے کے بعد حضرت حسینؓ بڑی کشمکش میں تھے۔ آپ کو اس مشکل سے مفرّ کی کوئی صورت نظرنہ آتی تھی۔ آپ یزید کی بیعت دل سے ناپسند کرتے تھے کیونکہ یہ قیصرو کسریٰ کے طرز کی پہلی شخصی و موروثی بیعت تھی۔ دوسرے جمہورِ امت کے خلاف بھی نہیں چاہتے تھے۔ تیسرے اہل عراق آ پ کو خود خلیفہ بنانا چاہتے تھے اس وقت مدینہ بہت پُر آشوب ہو رہا تھا ان کے مقابلہ میںاگر کہیں امن تھا تو وہ مکہ میں تھا۔

حضرت امام حسینؓ کا مدینہ سے مکہ کوچ کرنا

حضر ت حسینؓ نے مدینہ چھوڑ کر مکہ جانے کا قصد کیا۔ چنانچہ شعبان 60ھ میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ آپ کی آمد کی خبر سن کر لوگ جوق در جوق زیارت کے لئے آنے لگے اور کو فیوں کے بلاوے کے خطوط لگا تار آنے لگے۔ عمائد کوفہ کے وفد نے آکر عرض کیا کہ آپ جلد سے جلد کوفہ تشریف لے چلئے۔ وہاں کی مسند خلافت آپ کے لئے خالی ہے اور ہماری گردنیں آپ کے لئے حاضر ہیں۔ حضرت حسینؓ نے یہ اشتیاق سن کر فرمایا میں تمہاری محبت اور ہمدردی کا شکر گزار ہوں لیکن فی الحال نہیں جاسکتا پہلے اپنے بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں۔

مسلم رضی اللہ عنہ ٗ بن عقیل کا کوفہ بھیجا جانا

مسلم دو آدمیوں کو لے کر کوفہ روانہ ہو گئے۔ راستہ میں بڑی دشواریاں پیش آئیں پانی کی قلت کی وجہ سے وہ دونوں ہلاک ہوگئے۔ مسلم کے پہنچتے ہی کوفہ میںیزید کی اعلانیہ مخالفت شروع ہوگئی۔ مسلم کے کوفہ پہنچنے کے بعد شام کے جاسوسوں نے یزید کو اطلاع دے دی کہ حسین کی طرف سے مسلم بیعت لینے کے لئے کوفہ آگئے ہیں۔ یزید نے عبید اللہ بن زیاد کے نام تاکیدی حکم دیا کہ تم فوراًکوفہ جا کر مسلم کو نکال دو۔ اگر وہ اس میں مزاحمت کریں تو قتل کردو اس اعلان سے مسلم گھبرا گئے اور رات کو اپنی قیام گاہ سے نکل کر اہل بیعت کے ایک مخلص ہانی بن عروہ حجی کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے مسلم کو زنانہ مکان کے محفوظ حصہ میں چھپا دیا۔

حضرت حسینؓ کے حامیوں کی خفیہ آمدورفت شروع ہو گئی اور ان کی بیعت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اٹھارہ ہزار اہل کوفہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت حسینؓ کے زمرہ عقیدت میں داخل ہوگئے۔ ابن زیادکو مسلم کی تلاش میں عرصہ گزر چکا تھا۔ آخرکار اس نے اپنے ایک غلام معقل کو سراغ رسانی پر معمور کیا۔ معقل نے ایک شخص کو مسلسل نمازیں پڑھتے دیکھا تو قیاس کیا کہ یہ حضرت حسینؓ کے حامیوں میں سے ہے اور اس کے پاس جا کر کہا کہ میں شامی غلام ہوں خدا نے میرے دل میں اہل بیت نبوی کی محبت ڈال دی ہے۔ میرے پا س تین ہزار درہم ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ یہاں حسینؓ کا کوئی داعی آیا ہے میں یہ حقیر رقم اس کی خدمت میں نذر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ معقل کی اس پُر فریب گفتگو سے وہ شخص دام میں آگیا۔ اس کو معقل کی حمایت حسین کا یقین ہو گیا۔

ہانی بن عروہ کے قتل کی افواہ اور مسلم رضی اللہ عنہ بن عقیل کا حملہ کرنا

چنانچہ اس ملاقات کے دوسرے دن معقل اس داعی کے ہمراہ مسلم کے پاس پہنچا اور تین ہزار درہم پیش کر کے بیعت کی اور حالات کا پتہ چلانے کے لئے اظہار عقیدت و خدمت کے بہانے انہی کے پاس رہنے لگا۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلایا اور کہا کہ خدا کی قسم ! کہ تم کو یہاں سے واپس نہیں جانے دوں گا جب تک مسلم یہاں نہ آجائے۔ ہانی نے جواب دیا یہ نہیں ہو سکتا خدا کی قسم میں اپنے مہمان اورپنا ہ گزین کو قتل کے لئے تمہارے حوالے نہیں کروں گایہ جواب سن کر ابن زیاد بیتاب ہو گیا اور اس نے زور سے بید مارا کہ ان کی ناک پھٹ گئی اور آبرو کی ہڈی ٹوٹ گئی اور انہیں ایک گھر میں ڈلوا دیا۔ شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل کر دئیے گئے ہیں مسلم بن عقیل نے ہانی کے قتل کی افواہ سنی تو اپنے اٹھارہ ہزار آدمیوں کے ساتھ قصر امارت پر حملہ کر کے ابن زیاد کو گھیر لیا۔ اس وقت ابن زیادکے پاس صرف پچاس آدمی تھے۔ اس نے محل کا پھاٹک بند کروالیا اور لوگوں سے کہا کہ تم لوگ نکل کر اپنے اپنے قبیلہ کوڈراؤ اور طمع اور لالچ کے ذریعہ سے مسلم کا ساتھ دینے سے علیحدہ کر دو اور عمائد کوفہ کو حکم دیا قصر کی چھت پر چڑھ کر یہ اعلان کریں کہ اس وقت جو شخص امیر یعنی ابن زیاد کی اطاعت کرے گا اس کو انعام و اکرام دیا جائے گا اور جو بغاوت کرے گا اس کونہایت سنگین سزا دی جائے گی۔

اہل کوفہ کی غداری اور مسلم رضی اللہ عنہ ٗبن عقیل کا ایک گھر میں پناہ لینا

عمائد کوفہ کے اس اعلان پرمسلم کے بہت سے ساتھی منتشر ہوگئے۔ چھٹتے چھٹتے مسلم کے ساتھ کل تیس آدمی رہ گئے جب انہوں نے کوفی حامیان حسین کی غداری دیکھی تو کندہ کے محلہ کی طرف چلے گئے اور یہاں باقی ماندہ تیس آدمیوں نے بھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ دیا اور مسلم تن تنہارہ گئے۔ اس کسمپرسی کی حالت میں مسلم ٹھوکریں کھاتے ہوئے طوعہ نامی ایک عورت کے دروازہ پر پہنچے۔ مسلم نے کہا میں اس شہر میں پردیسی ہوں۔ میرے اقرباء یہاں نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں تم میرے ساتھ کس قسم کا سلوک کر سکتی ہو؟ عورت نے پوچھا کس قسم کا؟ مسلم نے کہا میں مسلم بن عقیل ہوں۔ کوفہ والوں نے میرے ساتھ غداری کی ہے۔ بوڑھی عورت خدا ترس تھی مسلم کی داستان سن کر انہیں اپنے مکان میں چھپا دیا اور ان کی خبر گیری کرتی رہی۔ اس کے لڑکے نے جب ماں کو مکان کے خاص حصہ میںزیادہ آتے جاتے دیکھا تو سبب پوچھا۔ بیٹے کے اصرار پر ماں نے راز کھول دیا۔ ابن زیاد نے لوگوں کو دھمکی دے رکھی تھی کہ جس کے گھر سے مسلم برآمد ہوا اسے سنگین سزا دی جائے گی اور جو گرفتا ر کرکے لائے گا اسے انعام دیا جائے گا۔ اس لڑکے نے ابن زیاد کو اطلاع دے دی۔

مسلم رضی اللہ عنہ ٗبن عقیل کا شہید کیا جانا

ا بن زیاد نے اسی وقت ستر آدمی کا ایک دستہ مسلم کی گرفتاری کے لئے بھیج دیا۔ دستہ کی آمد کا شور سن کر مسلم سمجھ گئے لیکن مسلم خوفزدہ نہ ہوئے۔ اور تن تنہا پورے دستہ کا نہایت شجاعت و بہادری سے مقابلہ کر کے انہیں گھر سے باہر کر دیا۔ یہ لوگ پھر ریلا کر کے اندر گھسے مسلم نے پھر نکال باہر کیا۔ اتنے میں بکیر بن حمران نے مسلم کے چہرہ پر ایسا وار کیا کہ اوپر کا ہونٹ کٹ گیا اورسامنے کے دانت ٹوٹ گئے اور چھت پر چڑھ کر مسلم پر آگ اورپتھر برسانے لگے۔ مسلم نے یہ بزدلی دیکھی تو گلی میں نکل آئے اور بڑا پرزور مقابلہ کیا مگر زخموں سے چور ہو گئے۔ مزید مقابلہ کی طاقت باقی نہ رہی اس لئے مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ عمرہ بن عبید اللہ سلمی نے انہیں خچر پر سوار کیا اور ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ مسلم نے جاتے ہوئے محمد بن اشعث سے کہاکہ امام حسینؓ کو میری حالت کی خبر پہنچا دینا اور کہہ دینا کہ واپس لوٹ جائیں، اہل کوفہ پر ہر گز اعتماد نہ کریں۔ محمد بن اشعث نے کہا میں ضرور پیغام پہنچا دوں گا۔

ابن زیاد نے حکم دیا کہ مسلم کو محل کی بالائی منزل پر لے جا کر قتل کر دو اور قتل کرنے کے بعد ان کا دھڑ نیچے پھینک دو۔ جلاد نے مقام قتل پرلے جاکر گردن ماردی اور سر کے ساتھ دھڑ بھی نیچے پھینک دیا۔ اس دردناک طریقہ پر حضرت حسینؓ کا ایک نہایت قوی بازو ٹوٹ گیا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کا کوفہ کے لئے روانہ ہونا

مسلم جب کوفہ آئے تھے تو یہاں کے باشندوں نے خوش آمدید کہا تھا اور اٹھارہ ہزار کوفیوں نے حضرت حسینؓ کی خلافت اور ان کی حمایت میں جنگ کرنے پر بیعت کی تھی۔ مسلم نے اپنی گرفتاری سے قبل ان ظاہری حالات کو دیکھ کر حضرت حسینؓ کو لکھ بھیجا تھا کہ سارا شہر آپ کا منتظر ہے فوراً تشریف لائیے۔ حضرت حسینؓ نے یہ خط پا کر سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب آپ کی تیاریوں کی خبر مشہور ہوئی تو تمام مخلصوں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ ان لوگوں نے پہلے حضرت علیؓ سے غداری کی اور پھر آپ کے بھائی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آپ کے سامنے ہے علاوہ ازیں وہاں حاکم بھی شامی ہی ہے۔ ان روکنے والوں میں عمرو بن عبدالرحمن، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗم شامل تھے۔ آپ نے فرمایا اگر میںحرم سے ایک بالشت بھی باہر قتل کیا جاؤں تو وہ مجھے حرم میں قتل ہونے سے زیادہ پسند ہے او ر کسی طرح حرم میں قیام کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ آپ نے سفر شروع کیا اور جب صفاح پہنچے جہاں فرزوق شاعر ملا۔ آپ نے اس سے عراق کے حالات پوچھے۔ اس نے کہا آپ نے ایک باخبر شخص سے حال پوچھا ہے لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔

حضر ت عبدا للہ بن جعفر کا خط

راستہ میں عبداللہ بن جعفر کا خط ملا کہ میں خدا کا واسطہ دلاتا ہوں۔ خط ملتے ہی فوراً واپس لوٹ جائیے مجھے ڈر ہے کہ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بر بادی ہے اور عمر و بن سعید حاکم مکہ سے امان کا خط بھی لکھوایا پڑھ کر فرمایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے اس میں آپ نے مجھے ایک حکم دیا ہے کہ میں اس حکم کو پورا کروں گا خواہ اس کا نتیجہ میرے موافق نکلے یا مخالف عبداللہ اور یحیٰ نے پوچھا کیا خواب تھا؟ فرمایا میں نے اسے نہ کسی سے بیان کیا اور نہ مرتے دم تک بیان کروں گا۔

مسلم بن عقیل کی شہادت کی اطلاع ملنا

آپ کی آمد کی خبر سن کر ابن زیاد نے قادسیہ سے لے کر خفان، قطقطانہ اور جبل لعلع تک سواریوں کا تانتا باندھ دیا تاکہ اہل بیت کا قافلہ کی نقل حرکت کی خبریں دم بدم ملتی رہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے قیس بن صیدادی کو اپنی آمد کا اطلاعی خط دیا اور کوفہ روانہ کیا لیکن اموی حکام نے انہیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا جس نے آپ کو قتل کراکر بلند مقام سے نیچے پھینک دیا۔ مقام ثعلبیہ میں ایک اسدی سے جو کوفہ سے آرہا تھا مسلم کے قتل کی خبر پہنچی۔ مسلم کے بھائیوں نے کہاکہ ہم اپنے بھائی کا بدلہ جب تک نہ لے لیں یا قتل نہ کئے جائیں اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے لہٰذا حضرت امام حسینؓ نے سفر جاری رکھا۔ حضرت حسینؓ کو جب یہ خبریں پہنچیں تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے کہا مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ قیس بن مسہر کے قتل کی دردناک خبریں موصول ہو چکی ہیں ہمارے ساتھیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے اس لئے تم میں سے جو شخص لوٹنا چاہے وہ خوشی سے لوٹ سکتا ہے۔ ہماری طرف سے جانے سے اس پر کوئی الزام نہیں۔ یہ سن کر عوام کا ہجوم چھٹنے لگا اور صرف جانثارباقی رہ گئے جو مکہ سے ساتھ آئے تھے۔

عمر و بن سعد کا لشکر کشی اور محاصرہ کرنا

محرم 61ھ کا خون آشام سال شروع ہو چکا تھا۔ ذی چشمہ میں حُربن یزید بن تمیمی جو حکومت شام کی جانب سے حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو گھیر کر کوفہ لانے کے لئے بھیجا گیا تھا اور حضرت امام حسینؓ کے سامنے قیام کیا۔ حُر نے کہا کہ ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ جس جگہ بھی ملاقات ہو اس جگہ سے آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں اور آپ کو ساتھ لے جا کر ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا دیں۔ آپؓ نے فرمایا میں تمہار ا کہنا نہیںمان سکتا۔ حُر نے کہا تو پھر میں آپ کو چھوڑنہیں سکتا مناسب یہ ہے کہ ایسا رستہ اختیار کیا جائے جو نہ کوفہ پہنچا ئے اور نہ مدینہ واپس کرے اس درمیان میں ابن زیاد کو لکھتا ہوں اور آپ یزید کو لکھئے۔ شاید خدا عافیت کی کوئی صورت پیدا کردے اور میں آپ کے معاملہ میں آزمائش سے جاؤں۔ حُر کے اس مشورہ پر حضرت حسینؓ عذیب اور قادسیہ کے بائیں جانب ہٹ کے چلنے لگے۔ حُر بھی ساتھ ساتھ چلا۔ قافلہ نینوہ میں اترا۔ حُر ساتھ ساتھ تھا یہاں اس کو ابن زیاد کا فرمان ملا کہ میرے خط کو دیکھتے ہی حسین کو گھیرکر ایسے چٹیل میدان میں لا کر اتارو جہاں کوئی قلعہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو۔ حُر نے یہ فرمان حضرت امام حسینؓ کو سنا دیا۔ ابن زیاد نے ابن سعد کو امام حسینؓ کے مقابلہ کے لئے کہا۔ عمر و بن سعد نے کہا خدا امیر پررحم کرے مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔ ابن زیاد نے کہا اگر تم کو اس سے عذر ہے تو رَے کی حکومت نہ ملے گی۔ 3محرم61ھ کو چار ہزار افواج کے ساتھ ابن سعد نینوہ پہنچا۔ دوسرا حکم یہ پہنچا کہ حسین رضی اللہ عنہٗ اور ان کے ساتھیوں پرپانی بند کر دو۔ اس حکم پر ابن سعد نے پانچ سو سواروں کا ایک دستہ فرات پر پانی روکنے کے لئے متعین کردیا۔ اس دستہ نے ساتویں محرم سے پانی روک دیا۔ جب حسینی لشکر پر پیاس کا غلبہ ہوا تو حضرت حسینؓ نے اپنے سوتیلے بھائی عباس بن علیؓ کو تیس سواروں اور بیس پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا۔ یہ چشمے پر پہنچے تو عمرو بن حجاج مزاحم ہوا لیکن عباس نے مقابلہ کرکے ہٹا دیا اور پیادوں نے ریلا کر کے مشقیں بھر لیں اور واپس آگئے۔

ابن سعد دنیاوی جاہ و حشم کی طمع میں حضرت حسینؓ سے لڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا پھر بھی اس کا دل برابر ملامت کر رہا تھا۔ اس لئے برابر جنگ ٹالتا رہاکہ کسی طرح اس گناہ عظیم سے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ ابن زیاد نے نہایت سخت فرمان بھیجا کہ یا تو فوراً حملہ کرو یا فوج ذی الجوشن کے حوالہ کر کے الگ ہو جاؤ۔ ابن سعد کے ضمیر میں اب بھی کشمکش جاری تھی لیکن رَے کی حکومت نہیں چھوڑی جاتی تھی اس لئے نفس غالب آگیا اور وہ اس بارِ عظیم کو اٹھانے کے لئے آمادہ ہو گیا۔ 9محرم کو عصر کے وقت ابن سعد کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت حسینؓ کی فرودگاہ پر آیا اور کہا کہ ہم فلاں فلاں مقصد کے لئے آئے ہیں جس میں آغاز جنگ کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ رات بھر کی اور مہلت دے دو تاکہ اس آخری رات کو دعائیں مانگ لیں اور توبہ و استغفار کر لیں۔

حضر ت امام حسین ر ضی اللہ عنہٗ کا خطبہ

ان لوگو ں کی واپسی کے بعد امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے یہ خطبہ دیا:
’’میں خدا کا بہترین ثناء خواں ہوںاور مصیبت اور راحت ہر حال میں اس کا شکر گزار ہوں۔ خدایا میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے ہم لوگوں کو نبوت سے سرفراز کیا۔ ہم کوقرآن سکھایا اور دین میں فہم عطاکیا اب ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما۔ امّا بعد مجھے کسی کے ساتھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور کسی کے اہل اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکو کار اور صلہ رحمی کرنے والا کوئی دوسرا معلوم نہیں ہوتا۔ خدا تم لوگوں کو میری طرف سے جزائے خیر دے۔ میں تم لوگوں کو بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں۔ میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی۔ رات ہو چکی ہے۔ ایک ایک اونٹ لے لو اور ایک ایک آدمی میرے ایک ایک اہل بیت کا ہاتھ پکڑکے ساتھ لے لے۔ خدا تم سب کو جزائے خیر دے۔ تم لوگ اپنے اپنے شہروں اور دیہاتوں میں چلے جاؤ یہاں تک کہ خدا یہ مصیبت آسان کردے یہ اس لئے کہہ رہاہوں کہ لوگ مجھی کو ڈھونڈیں گے میرے بعد کسی کو تلاش نہ کریں گے‘‘

سب اعزہ نے یک زبان ہو کر جواب دیا کہ ہم صرف اس لئے چلے جائیں کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا ہم کو یہ دن نہ دکھائے۔ اس کے جواب پر حضرت حسینؓ نے بنو عقیل سے فرمایا کہ مسلم کا قتل تمہارے لئے بہت ہو چکا اس لئے تم کو اجازت دیتا ہوں کہ تم لوگ لوٹ جاؤ۔ لیکن باحمیت بھائیوں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے کہ اپنے سردار اپنے آقا اور اپنے چچا کے بیٹے کو چھوڑ آئے ایک تیر بھی نہ چلایا، ایک نیزہ بھی نہ مارا اور تلوار کا ایک وار بھی نہ کیا اور معلوم نہیں کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ خد اکی قسم ہم ہرگز ایسانہ کریں گے۔ حضرت امام حسینؓ نے رات جان دینے کے لئے تیاریاں شروع کیں۔ چنانچہ آپ نے منتشر خیموں کو ایک جگہ تر تیب سے نصب کروایا۔ پشت پر خندق کھدوا کر آگ جلادی کہ دشمن عقب سے حملہ آور نہ ہو سکیں۔ اگلے دن صبح یہ بہتّر جان نثار میدان مقابلہ میں آئے۔ دوسری طرف چار ہزار شامی تھے۔ فوج کے قریب جاکر حضرت امام حسینؓ نے بطور اتمام حجت فرمایا لوگو! میرے نسب پر غور کرو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے آپ کو ملامت کرو خیال کرو کہ میرا قتل اور میری آبرو ریزی تمہارے لئے زیبا ہے کہ کیامیں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ جنت کے سردار ہوں گے۔ خدا کی قسم! آج مشرق سے لے کر مغرب میں روئے زمین پر تم میں اور کسی غیر قوم میں بھی میرے سوا کسی نبی کا نواسہ موجود نہیں۔ مجھے بتاؤ کہ تم لوگ میرے خون کے کیوں خواست گار ہو؟ کیا میں نے کسی کا قتل کیا ہے، کسی کا مال لوٹا ہے؟ کسی کو زخمی کیا ہے؟ تمہی لوگوں نے مجھے بلایا تھا۔ لوگو! تم پر میرا آنا ناگوار ہے تو مجھے چھوڑ دو تاکہ میں کسی پُر امن خطہ کی طرف چلاجاؤں‘‘

حُر کا لشکر ِحسینی رضی اللہ عنہٗ میں شامل ہونا

اس تقریر کے بعد آپ سواری بٹھا کر اتر پڑے اور شامی آپ کی طرف بڑھے۔ ظہیر بن قیس نے شامیوں کے سامنے بڑی پُرجوش تقریر کی اور کہا کہ حضرت امام حسینؓ کا معاملہ ان کے اور ان کے چچا کے بیٹے یزید پر چھوڑ دو۔ وہ حسینؓ کو قتل نہ کرنے کی صورت میں تم سے زیادہ رضا مند ہوگا اور بآواز بلند کوفیوں سے خطاب کیا کہ تم ابن زیاد سنگدل ظالم کے فریب میں نہ آؤ۔ خدا کی قسم!جو لوگ حضرت محمد ﷺ کی اولاد اور اہل بیت کا خون بہائیں گے وہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ سوائے ایک شخص کے کسی پر باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا اور وہ شخص حُر تھے۔ عین اس وقت جب جنگ شروع ہونے پہ تھی آپ کوفی فوج کا ساتھ چھوڑ کر حضرت امام حسینؓ کی فوج میں چلے آئے۔

باقاعدہ جنگ کا آغاز

ابن سعد علم لے کر آگے بڑھا اور پہلا تیر چلاکر اعلان جنگ کر دیا۔ پہلے ایک ایک شخص مقابلہ کے لئے نکلتا تھا مگر شامی لشکر سے جو نکلا وہ بچ کر نہ گیا اس لئے عمرو بن سعد نے فرداً فرداًمبارزت سے روک دیا اور عام جنگ کا آغاز ہوگیا۔ دوپہر تک بڑی پُرزور جنگ ہوئی۔ شمع امامت کے بہت سے پروانے فدا ہوگئے اور صرف چند جان نثار باقی رہ گئے۔ ظہر کے بعد دوبارہ گھمسان کا رَن پڑا اور سارے فدایان ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کر گئے۔ اب اہل بیت کی باری آئی اور سب سے اول حضرت امام حسینؓ کے بیٹے اختر علی اکبر میدان میں آئے۔ مرّہ نے تاک کر کے ایسا نیزہ مارا کہ جسم اطہر میں پیوست ہو گیا۔ نیزہ لگتے ہی شامی ہر طرف ٹوٹ پڑے اور آپ کے جسم مطہر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ یہ بھی عجیب بے کسی کا عالم تھا کہ تما اعزہ اور اقرباء شہید ہوچکے ہیں۔ ایک طرف جان نثاروں کی تڑپتی ہوئی لاشیں ہیں اور دوسری طرف جوان بیٹے کا پاش پاش بدن ہے۔ تیسری طرف زینب خستہ حال پر غشی طاری ہے۔ اب اس بے کسی کے عالم میں کبھی علی اکبر کی لاش کو دیکھتے ہیں اور کبھی آسمان کی طر ف نظر اٹھاتے ہیں کہ آج تیرے وفادار بندہ نے تیری راہ میں سب سے بڑی نذر پیش کر کے سنت ابراہیمی پوری کی تو اسے قبول فرما۔ اس کے بعد باری باری مسلم بن عقیلؓ کے صاحبزاد ے عبداللہؓ، جعفر طیارؓ کے پوتے علیؓ، عقیلؓ کے صاحبزادے عبدالرحمنؓ اور محمد بن عقیلؓ، حضرت حسنؓ کے صاحبزادے قاسم اور ابو بکر، حضرت حسنین کے بھائی عبداللہ جعفر، عثمان اور عباس شہید ہوئے اور اب اہل بیت میں خود حضرت امام حسینؓ اور حضرت زین العابدینؓ جو بیمار تھے رہ گئے۔

تاریخ کے آئینہ میں

ایک وہ وقت تھا کہ رسول اللہ ﷺ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔ دشمنان اسلام کی ساری قوتیں پاش پاش ہو چکی تھیں۔ رحمت عالم کے دامن عفو وکرم کے علاوہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہ گئی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان جیسے مجرم کے ساتھ حضور ﷺ نے یہ سلوک کیا کہ فرمایا من دخل دار ابی سفیان فھو امن دوسری طرف باون برس کے بعد زمانہ کا رخ بدلتا ہے۔ ایک طرف انہی ابو سفیان کے پوتے عبید اللہ بن زیاد کی طاغوتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف رحمت اللعالمین کی ستم رسیدہ اولاد ہے۔ جگر گوشہ رسول کے سامنے گھر بھر کی لاشیں تڑپ رہی ہیں۔ اعزہ قتل پر آنکھیں خون بار ہیں۔ بھائیوں کی شہادت پر سینہ وقف ماتم ہے۔ جوان مرگ لڑکوں اور بھتیجوں کی موت پر دل فگار ہے لیکن جگر گوشہ رسول کے لئے امان نہیں۔ آج وہی تلوار یں جو فتح مکہ میں مفتوح ہو چکی تھیں۔ دشتِ کربلا میں نوجوانانِ اہل بیت کا خون پی کر بھی سیرنہیں ہوئیں اور حسینؓ کے خون کی پیاسی ہیں۔

شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ

بالآخر وہ قیامت خیز ساعت بھی آگئی کہ حضرت حسینؓ میدان میں آئے اور شامی فوج کی طرف بڑھے۔ کوفیوں کے لئے آپ کاکام تمام کردینا آسان تھا لیکن وہ لاکھ سنگدل اور جفا پیشہ سہی، پھر بھی مسلمان تھے اس لئے جگر گوشہ رسول کا بارِ عظیم اپنے سر نہ لینا چاہتے تھے۔ ہمت کر کے بڑھتے تھے لیکن جرأت نہ پڑتی تھی۔ ضمیر ملامت کرتا تھا اور پلٹ جاتے تھے۔ حضرت حسینؓ کی پیاس لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی۔ آخر جب پیاس کی شدت ناقابلِ برداشت ہو گئی تو نرغہ اعداء سے فرات کی طرف بڑھے۔ پانی لے کر پینا چاہتے تھے کہ حسین بن نمیر نے ایسا تیر مارا کہ دہن ِ مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا۔ آپ نے چلو میں پانی لے کر آسمان کی طرف اچھالا۔ فرمایا کہ خدایا!جو کچھ تیرے نبی کے نواسے کے ساتھ کیا جارہا ہے اس کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں۔ اس کے بعد شامیوں نے حضرت امام حسینؓ کوگھیر لیا۔ آپ کو محصور دیکھ کر اہل بیت کے خیمہ سے ایک بچہ دوڑتا ہوا نکل آیااور بحیربن کعب سے جو حضرت حسینؓ کی طرف بڑھ رہا تھا معصومانہ انداز سے کہا۔ خبیث عورت کے بچے کیا میرے چچا کو قتل کرے گا۔ اس نے بچہ پر وار کیا اور ہاتھ کٹ گیا۔ حضرت حسینؓ نے بچہ کو نیم بسمل دیکھ کر سینہ سے چمٹا لیا۔ کسی سنگدل نے ایسا تیر مارا کہ بچہ تڑپ کر رہ گیا۔ حضرت حسینؓ کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہوتی جار ہی تھی۔ لیکن کسی کو شہید کرنے کی ہمت نہ پڑ تی تھی۔ ایک شخص نے تیر مارا۔ تیر گردن میں آکر بیٹھ گیا۔ امام نے اس کو اپنے ہاتھ سے نکا ل کر الگ کیا۔ شخص نے پہلے بائیں ہاتھ پر اور پھر گردن پر وار کیا اور امام حسینؓ بالکل نڈھال ہو گئے اعضاء جواب دے گئے اور کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی۔ آپ اٹھتے تھے اور سکت نہ پا کر گرپڑتے تھے۔ سنان بن انس نے کھینچ کر ایسا نیزہ مارا کہ آپ شہید ہوگئے۔ اسی بدبخت نے آپ کا سر جسم اطہر سے جدا کر دیا اور یہ دن دس محرم الحرام 61ھ بمطابق ستمبر 681ء تھا۔

حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک یزید کے سامنے پیش کیا جانا

اس بہیمانہ شقاوت کے بعد لٹیرے پردہ نشینان عفاف کے خیموں کی طرف بڑھے اور اہل بیت کا کل سامان لوٹ لیا۔ ابھی ایک صاحبزادے زین العابدین باقی تھے۔ عمر و بن سعد نے کہا خبر دار کوئی شخص خیموں میں نہ جائے اور نہ اس بیمار کو ہا تھ لگائے۔ شہادت کے دوسرے یا تیسرے روز غاضریہ کے باشندوں نے لاشیں دفن کیں۔ ابنِ سعد نے قافلہ کوفہ لے جاکر ابن زیاد کے سامنے پیش کیا۔ ابن زیاد نے اہل بیت کے حالات اور شہداء کے سروں کا معائنہ کر کے انہیں شام روانہ کر دیا۔ جب حضرت امام حسینؓ اور دوسرے شہداء کے سر یزید کے سامنے پیش کئے گئے تو اس نے حضرت امام حسینؓ کے سر پر ایک نگاہ ڈالی اور ایک شعر پڑ ھ کر کہا کہ خدا کی قسم !حسینؓ اگر میں تمہارے ساتھ ہوتا تو تم کو قتل نہ کرتا۔ پھر عورتوں اور بچوں کو بلا کر اپنے سامنے بٹھایا اس وقت یہ سب ابتر حالت میں تھے۔ یزید نے ان کی حالت کو دیکھ کر کہا:خدا ابن مرجانہ (ابن زیاد) کا بُرا کرے۔ اگر اس کے اور تمہارے درمیان قرابت ہوتی تو تمہارے ساتھ یہ سلوک نہ کرتا۔ یزید نے لوٹے ہوئے سامان کی پوری پوری تلافی کی بلکہ دونا مال دلوایا۔ چند دن قیام کے بعد اس نے اہل بیت کو مدینہ بھجوا دیا۔

حَکم وعدل حضرت مسیح موعود کا فیصلہ

حضرت مسیح موعودؑ نے یزید کو ’’یزید پلید‘‘ کہا ہے۔ آپ نے ایک اشتہار شائع کیا اور فرمایا:
’’واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امامؓ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ پر ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔ مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرّے اور لعن و طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو۔ جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بد زبانی کے مقابل پر جو آنحضرتﷺ کی شان میں کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ اپنی جماعت کو اطلاع دیتاہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑہ اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کو نسبت فرماتا ہے قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا۔ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کرلیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہوجاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب اپنے تئیں دور ترلے جاتے ہیں۔ لیکن بد نصیب یزید کو یہ کہاں حاصل تھیں۔ دُنیاکی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسینؓ طاہر مطہّر تھا اور بلاشبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوب صورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دنیاکی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دُنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی۔ کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اگست 2020