• 24 اپریل, 2024

استغفار توبہ پر مقدم

’’استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدّم ہے۔ کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے۔ اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے۔……… توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے۔ اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے۔ پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی۔ سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ ہر ایک حِس کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے۔ ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہید نہیں ہو سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 68-69۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’وعید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔ صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدّوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخصِ مجرم کو سزا دے۔ … پھر جب شخصِ مجرم توبہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الٰہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر محجوب و مستور کر دیتا ہے۔ یہی معنی ہیں اس آیت کےکہ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ (الاعراف: 157)۔ یعنی رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ۔‘‘

(تحفہ غزنویہ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 537)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020