احمدیت کی راہ میں دو لختِ جگر قربان کرنے والے
ایک صابر باپ سے یادگار ملاقات
دُشمن کو ظُلم کی برچھی سے تم سینہ و دل برمانے دو
یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو
یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سنچیے بغیر نہ پنپیں گے
اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو
جماعت احمدیہ ہمیشہ سے قربانیاں پیش کرتی آئی ہے۔ ہماری راہِ ایمان خدا کی راہ ہے۔ اور اس راہ میں جان کی کیا پرواہ!
سوا صدی قبل کابل کی سر زمین سے قربانیوں کے سلسلہ کا آغاز ہوا اور پھر 2010ء کا دلخراش واقعہ جماعت کی تاریخ کا صرف ایک سنگ میل نہیں بلکہ ایک بِل بورڈ ہے جو ترقی کی شاہراہ پر ہر گزرنے والے کو جھنجوڑ کے بتاتا ہے کہ یہاں سے ترقی کی شاہراہ کشادہ ہورہی ہے۔
خاکسار کو 2013ء میں لاہور میں والد محترم کے عزیز ننہیالی کزن سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان کا نام صوبیدار ریٹائرڈ منیر احمد صاحب تھا۔ اسی ایک مختصر ملاقات کا احوال پیش کرنا مقصود ہے۔
لاہور کے ایک دوست کے ساتھ گلشن پارک تک پہنچا اور اُنہیں فون کر کے آگے کا راستہ معلوم کیا اور گلی تک بھی پہنچ گئے۔ اب لاہور جیسے شہر میں کسی اور سے راستہ پوچھنا وقت کی بربادی کی نشانی سمجھا جاتا ہے بہرحال ایک باریش شخص سے ہمت کر کے سلام کیا۔ بڑے پرتپاک انداز اور ’’ع‘‘ کی اصل ادائیگی کے ساتھ جواب ملا۔ ان سے جب گھر کا پتہ پوچھا تو نام سن کر ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونا ابھی تک آنکھوں کے سامنے ہے گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ ابھی چند لمحے پہلے سلامتی کے جواب سے ان کا منہ کڑوا ہو گیا ہے۔ انہوں نے بادِل نخواستہ اور بڑی بے مروتی سے کہا: او ریا سامنے انّے او کی۔ (وہ سامنے ہے اندھے ہو کیا)۔ احمدی احباب کو پاکستان اور خصوصاً لاہور میں اس بے مروتی کا کئی بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فون پر صوبیدار صاحب سے کئی بار بات ہوئی تھی لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ میری ان سے ملاقات ہوئی۔ بظاہر ایک ضعیف العمر انسان تھے۔ شاید سرکاری نوکری کر رہے تھے۔
بیل بجا کر ہم کھڑے ہو گئے۔ چپل گھسٹنے کی ہلکی سے آواز کے ساتھ اچھا کی آواز نے ہمیں انتظار کا عندیہ دیا لیکن فوراً ہی دروازہ کھل گیا۔
دروازہ کھول کر انہوں نے پرتپاک انداز میں استقبال کیا اور اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چلنے لگے۔ میں نے سہارا دینا چاہا لیکن ان کے ہاتھ کے اشارے سے ہی رک گیا۔گویا وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ابھی مجھ میں دَم ہے۔
دروازے سے کمرے تک ایک مختصر برآمدہ تھا لیکن آرام سے چلتے وہاں پہنچے۔ ہمارے پہنچنے سے قبل میز پر چائے بسکٹ اور دیگر لوازمات پڑے تھے۔
سلام دعا کے بعد میں نے بات افسوس سے شروع کی۔ لیکن انہوں نے فوراً ٹوکا اور کہا افسوس کیسا۔ دکھ تو اس وقت ہی ختم ہوگیا تھا جب حضور نے غم بانٹ لیا تھا۔
میں نے اس وقت ان کی آواز میں بڑھتا ارتعاش محسوس کیا تھا۔ وہ خاموش ہوگئے اور کمرے میں سکوت طاری رہا۔ مئی کی ابتدائی ایام تھے۔ بارش ہو کر ختم ہوئی تھی۔ کمرے میں خنکی تھی اور پنکھے کے چلنے کی آواز کا زیروبَم محسوس ہو رہا تھا۔
اس بوڑھے جسم کی لڑکھڑاتی آواز میں موجود درد واضح تھا جسے چھپانے کی کوشش ناکام ہوتی نظر آرہی تھی۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے خاندان میں احمدیت، رشتہ داروں کے تعارف تک گئی۔ پھر 28 مئی کو ہونے والے سانحہ پر گفتگو کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس دن ہال کی منظر کشی سنائی جسے اب یاد کر کے ہی ایک کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اس دن ہال میں موجود احباب کی اس ہمت و بہادری کو بھی سلام پیش ہے جنہوں نے اس کشت و خون کے بازار میں وہ چند گھنٹے گزارے لیکن وہ ہمیشہ کے لئے ان کی ناقابلِ فراموش یادداشت کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیشہ جمعہ اپنے بیٹے کے ہمراہ گڑھی شاہو کی مسجد دار الذکر میں ادا کرتے تھے۔ اس روز بھی وہ گڑھی شاہو پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ وہ فوج میں رہے تھے اس لئے چھٹی حس کسی خطرے سے خبردار کر رہی تھی۔ ایک بیٹے کے ہمراہ گڑھی شاہو پہنچ گئے تھے جبکہ دوسرا بیٹا ابھی آنا تھا۔
بیٹے کے ہمراہ محراب کے قریب ہی نوافل و سنن ادا کئے اور خطبہ سننے لگے۔ اس خطرہ کا محسوس ہونا غلط نہ تھا۔ اچانک فائرنگ شروع ہوئی۔
انیس شہید کو انہوں نے کہا کہ چھپ جاؤ لیکن اس نے چھپنے کے بجائے لوگوں کی مدد کرنی شروع کی۔ اسی دوران اس باپ کی آنکھوں نے جوان بیٹے کو دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنتے دیکھا۔ اور انا للہ پڑھ کر الوداع کر دیا۔
اسی دوران منور شہید کو اپنے بوڑھے والد کی فکر ہوئی۔ انہیں نسبتاً محفوظ مقام پر بٹھا کر بڑی مستعدی سے لوگوں کی مدد کرنے میں جُت گیا۔
وہ واقعات بتاتے جارہے تھے اور میں چشم تصور سے اپنے آپ کو اس ہال میں کھڑا محسوس کر رہا تھا کہ ایک بوڑھا باپ اپنے دوسرے لخت جگر کو بھی مقتل میں بھیجتے ہوئے زیرِ لب دعائیں کر رہا تھا۔ اس باپ نے اپنے بیٹے کو زمین پر قلابازی لگا کر ہال کا مین گیٹ بند کرتے دیکھا تھا۔
ان بوڑھے کانوں نے منور شہید کو لوگوں سے گَن مانگتے سنا تھا لیکن نمازیوں کے پاس گن کہاں تھی۔
اس باپ کے سامنے اپنے ایک جوان بیٹے سمیت ایسے نمازی تھے جن کی جبینیں اور سجدہ گاہیں دونوں لہو سے تر تھیں۔ جن کے درمیان وہ اپنے دوسرے بیٹے کو ادھر ادھر پھلانگتے لوگوں کی مدد کرتے اور پانی پلاتے دیکھ رہا تھا اور سب کی سلامتی کی دعائیں کر رہا تھا۔ لیکن خطرے کی وہ حس خطرہ بڑھنے کاعندیہ دے رہی تھی۔
شہادت مقدر تھی۔ ان بوڑھی ہڈیوں نے اپنے بیٹے کو ایک دہشت گرد کی جانب بڑھتے اور پھر اس سے ہاتھا پائی کرتے اور دبوچتے وقت سرسراہٹ محسوس کی تھی۔
پھر ان بوڑھی آنکھوں نے دہشت گرد کا ہاتھ نچھلی جانب بڑھتے دیکھا تھا۔ اور پھر ان لاچار آنکھوں نے اپنے جوان جگر گوشے کو یکدم ایک زور دار آواز کے ساتھ ہوا میں اچھل کر دور گرتے دیکھا تھا۔
زیر لب دعائیں کرتے جب اس بوڑھے وجود نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں تو وہ اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کر چکا تھا۔
منور احمد شہید اپنے گھر فون پر اپنے بھائی انیس احمد کی شہادت کی اور والد کی خیریت کی خبر دے چکا تھا لیکن جب ایک فوجی اسے بغل میں دبائے باہر لایا تو دنیا نے دیکھا کہ کیسے سر تا پا وہ خون میں نہایا ہوا تھا۔
ہم سر جھکائے، ضبط کا بندھن تھامے، غم کو دبا کر اس واقعہ کی آنکھوں دیکھی داستان سننے میں مگن تھے کہ یکدم اس بوڑھی لڑکھڑاتی آواز میں مضبوطی پیدا ہوئی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو کرسی سے ٹیک ہٹا چکے تھے۔ انہوں نے جوشیلے انداز میں سینہ تان لیا اور اپنے سینے پر مکا مارتے ہوئے گویا ہوئے کہ
’’پورے لاہور میں سے میں وہ خوش نصیب باپ ہوں جس نے اس دن اپنے دو جوان کندھے احمدیت کے لئے پیش کر دئیے۔ یہ فخر اور سعادت صرف مجھے نصیب ہوئی اور کسی کو نہیں۔‘‘
میں حیرانگی سے اس بوڑھے وجود کی آنکھوں کی چمک دیکھنے لگا۔ اگر یہ فخر دنیا میں اتنا بڑا اعزاز ہے تو آخرت میں کتنا نمایاں اعزاز ہوگا۔
باتیں کرتے کرتے کئی بار انہوں نے بطور میزبان چائے نوش کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ان سے اس دلخراش واقعہ سننے کی محویت کے سبب بالآخر یخ بستہ چائے وہیں چھوڑ کر بوجھل دل کے ساتھ ہم نے واپسی کی راہ لی۔
دسمبر 2018ء میں اچانک صوبیدار صاحب کی وفات کی اطلاع ملی۔ ان کی صاحبزادی ان کا جنازہ ربوہ لائیں۔ ان کے چار بیٹوں میں سے کوئی اس وقت جنازے کو کندھا دینے کے لئے موجود نہ تھا لیکن اس منفرد اعزاز نے انہیں کئی کندھے نصیب کر دئے اور کئی لوگوں نے اس سعادت میں حصہ لیا۔
اس ایک ملاقات نے اس وجود کی عظمت دل میں ایسی قائم کی کہ آج بھی وہ گلوگیر آواز دل و دماغ پر دستک دے کر کہتی ہے کہ
’’پورے لاہور میں سے میں وہ خوش نصیب باپ ہوں جس نے اس دن اپنے دو جوان کندھے احمدیت کے لئے پیش کر دئیے۔ یہ فخر اور سعادت صرف مجھے نصیب ہوئی اور کسی کو نہیں۔‘‘
26 دسمبر 2018ء کو آپ کی وفات ہوئی اور اسی روز قریباً چھ بجے شام دارالضیافت ربوہ میں ہی نماز جنازہ ادا کی گئی اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی پُرشفقت اجازت سے ان کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ہوئی۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)