• 7 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے(قسط 62)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 62

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت یکم اپریل 2011ء میں صفحہ 17 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’جمال و حسن و قرآن، نور جان ہر مسلمان ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ قبل اس کے کہ خاکسار مضمون کا خلاصہ بیان کرے۔ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ یہ مضمون گینزول میں ایک غیر معروف پادری نے جو قرآن کریم کو نَعُوْذ ُبِاللہ ِ جلانے کا اعلان کیا تھا اس کے بارے میں ہے۔

باقی دنیا کی طرح یہاں بھی مسلمانوں نے وہی ردّ عمل دکھایا جو دیگر ممالک میں مسلمانوں کی تنظیموں نے دکھایا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ردّ عمل خلیفۂ وقت حضرت سیدنا مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق اور آپ کی راہنمائی میں تھا۔

  1. ایک تو یہی کہ دنیا کو قرآن کریم کی صحیح تعلیمات سے مع نمونہ کے آگاہ کیا جائے۔
  2. قرآن کریم کے بارے میں نمائش لگائی جائے۔
  3. قرآن کریم کے بارہ میں گینزول میں خصوصاً پڑھے لکھے طبقہ اور سیاسی و مذہبی لیڈروں سے رابطہ کر کے اس غیر معروف پادری کو اس مذموم حرکت سے باز رکھا جائے۔
  4. اور امریکہ کی ساری جماعتوں میں اس پر عمل کیا جائے۔
  5. پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا کیا بھی گیا اور جس کےنتیجے میں ملک میں ہر جگہ سیاسی و مذہبی لیڈروں نے اس مذموم حرکت کی مذمت بھی کی۔اور اس شخص کے ساتھ اپنے رابطے کی نفی کی کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے چرچ کے ساتھ یا عیسائی عقائد کے ساتھ اس کا بالکل بھی کچھ تعلق نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر محاذ پر اس رنگ میں اسے شکست ہوئی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

مضمون کاخلاصہ یہ ہے۔ فلوریڈا۔ گینزول کے ایک غیر معروف چرچ کے ایک پادری ’’ٹیری جونز ‘‘ نے آخر وہ مذموم حرکت کر ڈالی جس سے اسے باز رکھنے کے لئے امریکہ کی بہت ساری مذہبی و سیاسی تنظیموں نے روکا تھا۔ یعنی قرآن پاک جلانے کی مذموم حرکت۔ نَعُوْذُ بِاللہ ِمن ذالک

قرآن حکیم تو اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو متقین اور محسنین کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔ پادری کی اس حرکت پر مسلمانوں کے دل بہت مجروح ہوئے ہیں۔ اور ہم خدا تعالیٰ کے حضور اپنی شکایت اور گریہ و زاری کرتے ہیں جس طرح حضرت یعقوبؑ نے خدا کے حضور کی تھی۔ اور جس طرح ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حضور اس طرح گریہ و زاری پیش فرمائی۔ میں اپنا شکوہ اور غم بس خدا کے حضور ہی پیش کرتا ہوں۔ یہی ہمارا ردّ عمل ہے۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ ادھر آج پاکستانی TVپر خبریں بھی دیکھیں اور سنیں جس میں اس ناپاک حرکت اور مذموم حرکت پر جلوس نکالے جارہے تھے۔ شعلہ بیان تقریریں بھی تھیں، ٹائر جلائے جارہے تھے۔امریکہ کے جھنڈے کو پاؤں تلے روندا جارہا تھا۔ تو ڑ پھوڑ بھی تھی۔ ایک یہ ردّعمل بھی دیکھنے میں آیا۔

ایک اور ردّ عمل جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لندن سے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں احباب جماعت عالمگیر کو یہ بھی نصائح فرمائیں کہ مخالفین اسلام کو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے خلاف اپنے دلوں کے بغض، عناد اور کینہ نکالنے کا وبال اٹھتا رہتا ہے۔ بد فطرت امریکی پادری نے قرآن حکیم کو جلانے کی حرکت کی ہے۔ ہر مومن کو اس سے تکلیف ہوئی ہے لیکن اس پر مسلمانوں کا یہ ردّ عمل کہ اس کے سر کی قیمت لگاؤ، جلوس نکالو، یا توڑ پھوڑ کرو۔ یہ درست نہیں ہے اس سے تو آپ دشمن کے ہاتھ اور مضبوط کرنے والے ہوگے۔ اصل ردّ عمل یہ ہے کہ قرآن کریم کی اپنے قول و عمل اور کردار سے ایسی تعلیم پیش کرو کہ دنیا خود ہی اس پر لعن طعن کرنے لگ جائے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ سب دجالی چالیں ہیں جو کہتے ہیں کہ مسلمان تو بُرے نہیں البتہ قرآن کریم کی بعض ایسی تعلیمات ہیں جو انہیں دہشت گرد بناتی ہیں۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سر کی قیمت لگانے، توڑ پھوڑ یا جلوس نکالنے سے قرآن کریم کی برتری ثابت نہیں ہوگی۔ اس کی خوبصورتی تو اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ثابت ہوگی۔ اسی سے مومنوں کی اور قرآن کریم کی فتح ہوگی۔آپ نے جماعت احمدیہ کے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ ہمیں قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے بھیجا گیا ہے اس ضمن میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بعض تحریرات بھی پیش فرمائیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچاوے کہ دنیا کے مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے‘‘

برکات الدعا میں آپ فرماتے ہیں:
’’ اے بزرگانِ اسلام !خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کاسچا خادم بناوے۔ میں اس وقت محض لِلّٰہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔‘‘

آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھا دوں۔‘‘

آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے۔

جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

پس ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے کردار سے، اعمال سے اسلام اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا تک پہنچائیں۔ دنیا کے دل فتح کریں۔ اس وقت امریکہ و یورپ میں اسلام کی تعلیم کو پھیلانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ اسلام کے احکامات کی مسلمان فرقوں کی طرف سے مختلف تشریحات ہیں جن سے لوگ کنفیوژ ہورہے ہیں۔ خاکسارنے مضمون میں یہ احادیث بھی نقل کی ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن شریف کی وجہ سے بہت سے لوگو ں کے مرتبہ کو بلند فرماتے ہیں اور بہت سے لوگوں کا مرتبہ گھٹاتے ہیں۔ یعنی جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دینا و آخرت میں ان کو عزت عطا فرماتا ہے اور جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے ان کو ذلیل و رسوا فرماتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیوں کہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ’’تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں‘‘ یہی با ت سچ ہے…… خدا نے تم پر بہت احسان کیا کہ قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے………پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے‘‘

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت یکم تا 7 اپریل 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ نفس مضمون بالکل وہی ہے جو دوسرے اخبار کے حوالے سے اوپر گذر چکا ہے۔

یو ایس اے ٹوڈے۔ امریکہ کا لیڈنگ اور بہت بڑا اخبار ہے جسے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پڑھا جاتا ہے، نے اپنی اشاعت 4 اپریل 2011 میں صفحہ 9Aپر ایک رنگین تصویر شائع کی ہے اور یہ خبر شائع کی ہے کہ ’’افغانستان میں بے چینی بڑھ رہی ہے‘‘ یہ خبر USA Today کے رپورٹر ولیم ایم ویلیج نے دی ہے۔ سب سے اوپر جو تصویر دی گئی ہے اس میں بہت سارے مسلمان دکھائے گئے ہیں ( یہ رنگین تصویر ہے)یعنی مسلمان نوجوانوں نے اپنے سر پر کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی پٹی باندھی ہوئی ہے بعض نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی، کلمہ کا جھنڈا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک شخص نے ہاتھ لمبا کیا ہوا ہے اور ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرتے دکھائی دے رہا ہے۔ اس تصویر کے نیچے لکھا گیا ہے۔

جلال آباد (افغانستان ) احتجاجی مظاہرہ کرنے والے امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔مظاہرین اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں جو امریکہ میں پادری جونز ٹیری نے قرآن شریف جلایا ہے۔ اور یہ احتجاجی مظاہروں کا آج تیسرا دن ہے۔ اور طالبان نے اپیل کی ہے کہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اخبار نے پاسٹر کی تصویر بھی دی ہے کہ اس نے قرآن جلا دیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ افغانستان میں مظاہرے ہورہے ہیں،پاسٹر کے خلاف جس نے امریکہ میں قرآن جلایا ہے اور ان مظاہروں میں شدت ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ امریکہ میں مسلم لیڈروں نے اور سیاسی لیڈروں نے اس حرکت کی مذمت بھی کی ہے۔ اخبار نے اس ضمن میں دیگر لیڈروں کے بیانات بھی شامل کئے ہیں۔ جلال آباد میں مظاہرین کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار کو مار بھی دیا گیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ پادری اب فون کالز کا جواب نہیں دے رہا۔ جب بھی اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اخبار نے خاکسار کا بیان بھی شائع کیا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ امام شمشاد ناصر جو کہ جماعت احمدیہ مسجد بیت الحمید چینو کے لیڈر ہیں نے کہا ہے کہ پادری جونز’’بے وقوف‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی شمشاد نے کہا کہ ان کی جماعت اور گروپ ان تمام احتجاجوں اور قتل و غارت کی بھی نفی کرتی ہے جو مذہب کے نام پر دنیا میں کسی جگہ بھی کئے جارہے ہیں یا کئے جاتے ہیں۔ اور خواہ وہ دنیا میں کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ اور بزرگ کتاب الٰہی کے بارے میں کیوں نہ ہو۔‘‘

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 7 اپریل 2011ء میں نصف صفحہ پر ہمارا تبلیغی اشتہار شائع کیا ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی ہے۔ اور عنوان یہ لکھا ہے۔ Waiting for jesus کیا آپ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتظار کر رہے ہیں؟

اس میں بائبل کا بیان لکھا گیا ہے کہ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا کہ ان کی آمد ثانی ایک چور کی طرح ہوگی جو رات کو آتا ہے۔ اور لوگ اس کو نہ پہچانیں گے اور نہ ہی دیکھ سکیں گے۔

اس کے بعد اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ مزید معلومات کے لئے مسجد بیت الحمید سے رابطہ کریں۔ فون نمبر، ایڈریس اور ویب سائٹ دی گئی ہے۔ نیز یہ کہ ہمارے ریڈیو کے ہفتہ وار پروگرام میں بھی آپ ہمیں سوال کر سکتے ہیں۔ مسجد بیت الحمید کی تصویر بھی دی گئی ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 8 تا 14 اپریل 2011ء میں ایک مضمون اس نام سے شائع کیا ہے ’’ٹیری جونز کے نام کھلا خط‘‘ یہ خط مکرم و محترم مولانا عبدالسمیع خان صاحب سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل نے لکھا تھا۔ لیکن اخبار نے خاکسار کے نام اور تصویر سے شائع کیا ہے۔

اس مضمون میں انہوں نے لکھا کہ:
ٹیری جونز ! تُو نے 21 مارچ 2011ء کو امریکہ میں قرآن کریم کو جلایا۔ تُو نے قرآن کریم کا تو کوئی نقصان نہیں کیا کیوں کہ وہ خدائے قادر کی حفاظت میں ہے۔ ہاں !تُو نے لاکھوں کروڑوں سینوں کو جلا دیا۔ تُو نے اُن کے دلوں پر وہ چرکہ لگایا ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔ کیا دنیا کے قوانین اور ہتک عزت کے قواعد کے تابع کروڑوں انسانوں کے جذبات کے خون کا بدلہ خون نہیں؟ کیا امریکہ میں ہی معمولی لڑائیوں پر ایک دوسرے کو قتل نہیں کر دیتے؟ کیا ذرا سی خانگی لڑائی پر میاں بیوی ایک دوسرے پر سخت تشدد نہیں کرتے اور بہت سے ایک دوسرے کو مار نہیں دیتے؟ پھر کروڑوں جذبات کا خون کرنے کے بعد کون سی چیز تمہارا خون کرنے میں مانع ہے؟ قرآن اور صرف قرآن!

یہ قرآن کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں تمہاری زندگی بخش دی ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو ایسی تعلیم دی ہے کہ وہ عفو و درگذر کو اپنا شعار بنائیں، سخت جانی دشمنوں پر بھی احسان کریں، بُرائی کا بدلہ نیکی سے دیں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ اور بدلہ لیتے ہوئے بھی انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ تم نے قرآن جلانے سے پہلے اپنی حمائتی انتہاء پسندوں کی عدالت لگائی، خود ہی وکیل خود گواہ اور خود ہی جج بن گئے اور انصاف کے منہ پر تھپڑ مارا۔ کیا طرفہ تماشا ہے کہ یہ سب تو امن کے داعی، اور قرآن نَعُوْذُ بِاللہِ دنیا میں فساد پھیلا رہا ہے جو رب العالمین اور رحمۃ للعالمین سے معمور ہے ………قرآن نے تو جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ سر ولیم میور کا بیان ہی پڑھ لو۔’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایت کے ماتحت انصار و مہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا‘‘۔انہوں نے مشہور مستشرق سٹینلے پول کا فتح مکہ پر جو بیان ہے اسے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد صحابہ نے اپنی زندگیوں میں جو غلام آزاد کئے ا ن کی تعداد لکھی گئی ہے۔ محترم سمیع خان صاحب لکھتے ہیں:
ٹیری جونز ! قرآن تو وہ کتاب ہے جو تمام پیشوایان مذاہب کی عزت اور تعظیم کی تعلیم دیتا ہے۔ تمام نبیوں کی حرمت قائم کرتا ہے۔ اگر قرآن یسوع مسیح کی پاکیزگی بیان نہ کرتا تو دنیا کے لئے انہیں سچا اور پاکباز نبی تسلیم کرنے کا کوئی ثبوت نہ تھا کیوں کہ یہود کے الزامات نے ان کا دامن داغدار کر رکھا تھا۔ پس جس یسوع مسیح کے نام پر تم قرآن کی بے حرمتی کر رہے ہو وہی قرآن ہے جو مسیح کو خدا کے پیاروں میں داخل کر تا ہے اور الزام لگانے والے یہودیوں کو لعنتی قرار دیتا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے عیسائیوں کی تاریخ کو دہرایا ہے کہ کس طرح انہوں نے سپین میں اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں پر مظالم کئے جس کے مقابل پر مسلمانوں کی ساری تاریخ عیسائیوں کے ساتھ امن اور روا داری کی ہے۔

آج تم قرآن کے مرہون احسان ہونے کی بجائے اسے جلاتے اور اس کی بے حرمتی کرتے ہو۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کے سارے لوگ قرآن کی توہین نہیں کرتے۔ بہت کثرت سے وہ بھی ہیں جو قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

یہ سب لوگ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اختلاف رائے کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ مگر اس کو ظلم اور تعدی اور فساد کے مقام پر پہنچا دینا یہ ظالموں اور بے راہ رووں کا و طیرہ ہے۔ تم قرآن پر جائز اور باعزت طریق سے اعتراض کرو ہم اس کا جواب دینے کے لئے حاضر ہیں مگر تم نے جو آگ لگانے کا طریق اختیار کیا ہے یہ تو دنیا میں نئے فساد کو جنم دے گا‘‘۔

انڈیا ویسٹ

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 8 اپریل 2011ء میں صفحہ A6پر خاکسار کا ایک خط شائع کیا ہے۔ یہ خط اس مضمون پر مشتمل ہے جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے۔ جس میں ریپلیکن پیٹرکنگ نے تمام مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جس پر خاکسار نے بیان بھی دیا اور پیٹرکنگ کے الزامات کو مسترد کیا۔ اور بتایا کہ اس قسم کے بیانات مسلمانوں کو نزدیک کرنے کی بجائے اور دور کریں گے۔ اور اس طرح وہ جو سماعت کر رہے ہیں اس کا نتیجہ بھی صفر نکلے گا۔ یہ پوری خبر اور مضمون اس کے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 14 اپریل پر ہماری ایک خبر ایک تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان ہے کہ ’’جنوبی کیلی فورینا کی احمدیہ مسلم کمیونٹی نے یوم مسیح موعود منایا‘‘۔ تصویر میں مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب اور مکرم عاصم انصاری صاحب سٹیج پر تشریف رکھتے ہیں جب کہ خاکسار سید شمشاد ناصر تقریر کر رہا ہے۔

خبر کا خلاصہ یہ ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ مسجد بیت الحمید چینو کے امام سید شمشاد احمد ناصر یہاں مسجد میں یوم مسیح موعود کے موقع پر تقریر کررہے ہیں جس میں کہ 350 سے زائد لوگ شامل ہوئے۔ ایک تصویر بھی دی گئی ہے۔ امام کی تقریر کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ’’مسیح موعود کا مشن کیا ہے؟‘‘یعنی یہ کہ آپ کے ماننے والے اخلاقی اور روحانیت کی قدرو ں میں مزید آگے بڑھیں۔ اور تزکیہ نفوس کریں۔ اور تقویٰ کی اعلیٰ راہوں پر قدم ماریں۔ اس ضمن میں امام ناصر نے 6 اہم باتوں کا ذکر کیا جس سے وہ اس بات کو تقویت دے سکتے ہیں اور اپنے اندر ان خصوصیات کو پیدا کریں۔

اخبار نے ہیڈ ٹیبل پر بیٹھے احباب کا بھی تعارف کرایا کہ اس یوم مسیح موعود کی صدارت عاصم انصاری صاحب نے کی۔ اور بتایا کہ جس مسیح کا لمبے عرصہ سے انتظار ہو رہا تھا وہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں۔ جنہوں نے اس زمانے میں مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور انہوں نے ہی اس جماعت کی بنیاد 23 مارچ 1889ء کو رکھی۔

الانتشار العربی اور الاخبار

الانتشار العربی اور الاخبار جو کہ دونوں عربی کے اخبارات ہیں۔ ہر دو نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ اپنی اپنی اشاعت میں حضورکی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ جمعہ میں حضور انور نے سورۃ المومنون کی آیت اِنَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَۃِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ بیان کر کے مومنوں کی خاصیت اور صفت بیان فرمائی ہے۔

آپ نے بیان فرمایا کہ مومن اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان رکھتے ہیں اور ہر تکلیف اور مصیبت کے وقت اسی کے آستانہ پر جھکتے اور مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان سے کوئی ایسا عمل یا زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکل جائے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بن جائے۔ اور ان کے دل خدا کے خوف سے بھرے رہتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا ہر معاملہ میں، خواہ تکلیف و مصیبت کا ہو یا خوشی کا ہو، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی خشیت رکھتے ہیں۔

حضور انور نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت بھی اس ضمن میں بیان کی جب بھی تیز ہوا، آندھی چلتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً خدا کے حضور عاجزانہ دعا میں لگ جاتے۔ اے اللہ ! میں اس آندھی کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور خیر کا طالب ہوں اور تجھ سے ہر بھلائی کا طالب ہوں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار خشیت تھا۔

پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار خشیت تھا کہ جب سورہ ہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا ’’شَیَّبَتْنِیْ ہُوْد‘‘ مجھے ہود نے بوڑھاکر دیا کیوں کہ اس میں آپ کی بہت بڑی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ یعنی فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ۔ اس لئے مومنوں کو اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہئے اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوتی ہے۔

حضور انور نے اس ضمن میں سورہ لقمان کی آیت وَاِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَمَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ ٍبھی پیش فرمائی۔اور بتایا کہ حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اپنی توجہ رکھنی چاہئے خواہ اس پر کیسے ہی حالات کیوں نہ آئیں۔ یہ نہ ہو جب اللہ تعالیٰ نعمتوں سے نوازے تو ناشکری کرے۔ اور جب مصیبت میں ہوں تو دعا کرنے لگ جائے۔ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہیئے۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جاپان میں آنے والے زلزلہ اور اس کی تباہی کا بھی ذکر فرما کر جس نے اس قدر تباہی مچائی دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور ہر ممکن مدد کرنے کی بھی تلقین فرمائی۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 15 تا 21 اپریل 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’ایمان کی حقیقت‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی کتاب سیر روحانی سے ایک واقعہ لکھا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:
آیت کریمہ کہ لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ جب تم خودہدایت پر قائم رہو گے تو کسی کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ فرماتے ہیں تم اپنی ذات کے لئے یہ کوشش کرتے رہو کہ ہدایت پر قائم رہو اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے رہو پھر اگر کوئی گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی اور اس کا راہ حق سے بھٹک جانا تمہیں کوئی نقصان نہ دے گا۔ آپ نے اس کی روشنی میں ایک دلچسپ واقعہ بھی لکھا ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ

’’ سردار دیال سنگھ کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہوا ہے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہوا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا ذکر کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ میں اب اسلام قبول کرنے لگا ہوں۔ اس کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ سردار صاحب ! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اوردکھانے کے اور۔ یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کاربند نہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔

چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے۔ ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے تو آپ کی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سی بات بھی نہیں مان سکتے۔ اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا۔ صرف آج شراب پی لیں۔ اس نے سو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اٹھا کر پی لیا۔ سردار دیال سنگھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جا ملے اور انہوں نے اپنی ساری جائیداد اس کے لئے وقف کر دی۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ لَایَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اگر روٹی کا سوال ہو تو بے شک خود بھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلاؤ۔ لیکن جہاں ہدایت کا سوال آ جائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دور ہو جاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہیے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

اس کے بعد خاکسار نے ایک اور مضمون جو نیو یارک کے ایک اخبار میں مولانا یوسف لدھیانوی کا شائع ہوا ہے جس میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ اس کے جواب میں آپؐ نے 5ارکان اسلام بیان فرمائے۔ جب پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اللہ پر ایمان لاؤ، اسکے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی بُری تقدیر پر‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جامع و مانع بیان کے بعد کسی چیز کی مزید ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن آج کل کے علماء اپنی طرف سے بہت کچھ اس میں کمی اور زیادتی کر رہے ہیں۔ علماء اختلافی امور کی آڑ میں من گھڑت باتیں شامل کر دیتے ہیں جن سے مندرجہ بالا امور کا کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اس مضمون میں مولانا سے مسلمان کی تعریف کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ مولانا موصوف نے مسلمان کی تعریف میں کافر کی تعریف کو بھی شامل کر دیا ہے گویا مسلمان کی تعریف مکمل نہ ہوگی جب تک اس کے ساتھ کفر کی تعریف نہ لکھیں۔ مثلاً وہ فرماتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ماننے والا مسلمان ہے۔دین اسلام کے وہ امور جن کا دین میں داخل ہونا قطعی تواتر سے ثابت ہے اور عام و خاص کو معلوم ہے ان کو ضروریات دین کہتے ہیں ان ضروریات دین میں سے کسی ایک بات کا انکار یا تاویل کرنے والا کافر ہے‘‘

(بقیہ آئندہ بروز بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ