• 27 اپریل, 2024

ایسی بات سنے جس سے آپ کی شان میں ہلکی سی بھی گستاخی ہوتی ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر ایک آیت میں کافروں کی بیہودہ گوئی کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَجِبُوْا اَنْ جَآءَ ھُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْھُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ (سورۃ صٓ: 5) اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے کوئی ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ سخت جھوٹا جادوگر ہے۔

پس کبھی جھوٹا، کبھی جادوگر، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور کبھی کسی نام سے یہ کافر آپؐ کوپکارتے رہے اور آپؐ کے بارہ میں باتیں کہتے رہے اور مختلف رنگ میں استہزاء کرتے رہے۔ لیکن آپؐ کو صبر اور حمد اور دعا کی ہی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی۔ اور یہی تلقین اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (آل عمران: 187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا ایک بڑا ہمت کا کام ہے۔

اب ایک مومن کے لئے، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، اُس کے لئے اس سے زیادہ دل آزاری کی اور تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے آقا کے بارے میں ایسی بات سنے جس سے آپ کی شان میں ہلکی سی بھی گستاخی ہوتی ہو۔ کوئی کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ایسی باتیں تم سنو تو صبر کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مَیں نے گزشتہ خطبہ میں مثال دی تھی کہ کس طرح آپ نے ردّعمل دکھایا۔ تو حقیقی ردّعمل یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا لیکن اس کے لئے بھی تقویٰ شرط ہے۔ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل اور دعاؤں سے جو اس کا جواب دو گے تو وہی اس محبت کا صحیح اظہار ہے۔ اور جب ہم دشمنوں کی باتیں سن کے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی دعاؤں سے خدائے ذوالانتقام کے آگے جھکیں گے تو ان دشمنانِ اسلام کے بد انجام کو بھی ہم دیکھیں گے۔ لیکن ہمارا اپنا تقویٰ شرط ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے آپﷺ اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں قرآنِ کریم میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ خود ہی اللہ تعالیٰ بدلے لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ دشمنوں کو جو جواب دیا وہ یہ ہے کہ سورۃ الحاقۃ میں فرمایا اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ وَّمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۔ وَلَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الحاقۃ: 41تا44) یقیناً یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے۔ بہت کم ہیں جو تم ایمان لاتے ہو۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔ ایک تنزیل ہے تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے۔

تو اللہ تعالیٰ نے ان سب استہزاء کرنے والوں اور آپؐ کے مختلف نام رکھنے والوں اور نعوذ باللہ جھوٹا اور کذّاب کہنے والوں کو یہ جواب دیا۔ پس یہ ہے جواب آپؐ پر الزام لگانے والوں اور استہزاء کرنے والوں کے لئے لیکن اس بات کے باوجود کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو صبر اور دعا کی تلقین فرمائی ہے، خدا تعالیٰ نے خود دشمن کو چھوڑا نہیں ہے۔ صرف یہ جواب نہیں دے دیا کہ نہ وہ کاہن ہے، نہ وہ جھوٹا ہے اور نہ جو تم الزامات لگا رہے ہو وہ تمہارے صحیح الزامات ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ (الحجر: 96) تو اس نے پھر دشمنانِ اسلام سے اس دنیا میں یا مرنے کے بعد بدلے بھی لئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰھُمُ النَّارُ۔ کُلَّمَآ اَرَادُوْآ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَقِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ۔ وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَ دْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْا َکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا۔ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدہ: 21 تا 23) اور جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ آگ ہے۔ جب کبھی وہ ارادہ کریں گے کہ وہ اس سے نکل جائیں تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اور ہم یقینا انہیں بڑے عذاب سے ورے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے۔ (بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب میں سے کچھ چکھائیں گے) تا کہ ہو سکے تو وہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں۔ اور کون اس سے زیادہ ظالم ہو سکتا ہے جو اپنے ربّ کی آیات کے ذریعے اچھی طرح نصیحت کیا جائے، پھر بھی ان سے منہ موڑ لے۔ یقینا ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جو اپنے پیارے پر ہر وقت نظر رکھنے والا ہے، اگر دشمن دشمنی سے باز نہ آئے تواسے بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تنبیہوں سے نہ ڈریں، اگر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی اصلاح کے لئے جو اپنے بعض جلوے دکھاتا ہے اُن سے نصیحت حاصل نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا۔ پھر ضرور سزا دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اختیار میرے پاس ہی ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020