• 1 مئی, 2024

سلامتی کے تحفے

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم سندھ سے قافلوں کی شکل میں جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کی غرض سے ٹرین کا سفر اختیار کرتے تھے ۔خاکسار کی عمر آٹھ یا نو برس کی ہوگی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا آخری جلسہ اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ربوہ میں دو جلسوں کی یاد ابھی تک دل میں تازہ اور ذہن میں نقش ہے ۔روہڑی اسٹیشن سے پہلے ہی پوری پوری بوگیاں چناب ایکسپریس، سپر ایکسپریس یا شاہین ایکسپریس میں جلسہ سالانہ کے قافلوں کے لئے ریزرو ہوجاتیں۔سکھر،شکارپور اور جیکب آباد اضلاع کے احمدی احباب مرد و زن روہڑی اسٹیشن سے ہی شامل سفر ہو تے ۔امیر صاحب ضلع سکھر محترم قریشی عبدالرحمٰن صاحب شہیدامیر قافلہ ہوتے ۔جب اسٹیشن پر اپنے احمدی احباب ٹرین میں سوار ہو تے تو ہر طرف السلام علیکم کی آواز وں سے ،اور سلامتی کی دعاؤں سےٹرین کی فضا معطّر ہو جاتی ۔بچپن کی اس آزادانہ اور بے فکری کی عمر میں تو ان سلامتی کے تحائف کی قدر و قیمت کا اندازہ تو نہ تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور عمر بڑھتی گئی تو ان سلامتی کی دعاؤں کی اہمیت کا ادراک بھی بڑھتا چلا گیا ۔قرآن کریم اہل جنّت کا نقشہ کچھ یوں کھینچتا ہے ۔

‘‘وہ اس میں کوئی بیہودہ یا گناہ کی بات نہیں سنتے ۔مگر سلام سلام کا قول’’

(الواقعہ آیات66۔67)

ہاں اسی دنیا میں وہ جنّت کے نظارے دیکھنے کو ملے جہاں سوائے سلام سلام کے قول کے علاوہ کوئی بیہودہ یا گناہ کی بات نہیں ہوتی تھی اور ربوہ تک کا سفر مسلسل سلامتی کے سائے تلے ہی کٹ جاتا ۔ربوہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوتا کہ واقعی ہم کسی جنّت میں پہنچ چکے ہیں ۔ایک مکمل امن اور سلامتی وتحفّظ کا احساس ۔احساس کیوں نہ ہوتا جہاں پر ایک مرد خدا ،خلیفۃ المسیح کے قدم یہ زمین روز چومتی اور اس کے سلامتی کے تحفوں سے روز فیض یاب ہوتی ۔صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تربیت یافتہ بزرگ،درویش صفت،غریب پرور،عاجزی و انکساری کا پیکر فرشتہ صفت بابرکت وجود چلتے پھرتے ہرطرف السلام علیکم کی صدا بلند کرتے ہی نظر آتے ۔جہاں سائیکل سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کوسلامتی کا تحفہ پیش کرتے ہوئے نظر آ یا ۔

اس جنّت نظیر معاشرے میں سلام سلام کے قول سننے کی سعادت ہمیں بھی نصیب ہوتی ۔پھر یوں ہوا کہ گردش ایّام ہمیں کینیڈا کی سرزمین پر لے آئے ۔یوں محسوس ہوا کہ ہم ان سلامتی کی فضاؤں سے دور ہو گئے ہیں جنہوں نے ہمیں اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا ۔

آہ! وہ کیا دن تھے اور وہ کیا بابرکت وجود تھے جن کی صحبت میں گزارے ہوئے لمحات ہمارے لئے سرمایۂ حیات ہیں اور اب آنکھیں دیکھنے کو ترستی ہیں ۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ

ہاں دکھا دے اے تصّور پھر وہ صبح وشام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایّام تو ‘‘

ایک معمولی سی بات

ہاں تو بات ہو رہی تھی سلامتی کے تحفوں کی ۔کینیڈا آکر جب خدا کے فضل و کرم سے جماعتی خدمات کی توفیق ملی تو ایک بات نے اب تک الجھائے رکھا اورطبعاً اُس کو ناپسند کرتا رہا ۔مگر آج اس تحریر کے ذریعے اس کا اظہار کرنا مقصود ہے ۔اکثر و بیشتر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جماعتی خط وکتابت جو اکثر ای میل،ٹیکسٹ میسجز،واٹس ایپ میسجز پر مشتمل ہوتی ہے کئی احباب السلام علیکم کو شارٹ فارم میں AA ,AOA وغیرہ لکھتے ہیں یا کچھ احباب اس کی بھی زحمت گوارہ کرنا محسوس نہیں کرتے۔ السلام علیکم تو ایک دعااور سلامتی کا تحفہ ہے جو ہم اپنے مخاطب تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔اس دعا کا حق السلام علیکم لکھے بغیر ادا نہیں ہو سکتا ہے ۔ہماری زندگی اتنی بھی مصروف نہیں ہونی چاہئے کہ ہم اپنے بھائیوں کو سلامتی کی دعا دینے میں بھی شارٹ کٹ ڈھونڈنے لگ جائیں ۔

سیرت المہدی کی ایک روایت

چند روز ہوئے سیرت المہدی میں درج ایک روایت پڑھی سوچا کہ افادہ عام کے لئے الفضل آن لائن کے قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے ۔

؎ شائد کے اتر جائے ترے دل میں مری بات

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓلکھتے ہیں کہ
’’بیان کیا مجھ سے شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی حوالے وغیرہ کا کوئی کام میاں معراج دین صاحب عمر لاہوری اور دوسرے لوگوں کے سپرد کیا ۔ چنانچہ اس ضمن میں میاں معراج دین صاحب چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر لکھ کر بار بارحضرت صاحب سے کچھ دریافت کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے کہ یہ تلاش کرو یا فلاں کتاب بھیجووغیرہ۔اسی دوران میں میاں معراج دین صاحب نے ایک پرچی حضرت صاحب کو بھیجی اور حضرت صاحب کو مخاطب کر کے بغیر السلام علیکم لکھے اپنی بات لکھ دی۔اور چونکہ بار بار ایسی پرچیاں آتی جاتی تھیں ۔اس لئے جلدی میں ان کی توجہ اس طرف نہ گئی کہ السلام علیکم بھی لکھنا چاہیے حضرت صاحب نے جب اندر سے اس کا جواب بھیجا تو اس کے شروع میں لکھا کہ آپ کو السلام علیکم لکھنا چاہیے تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو اپنی جماعت کی تعلیم و تادیب کا کتنا خیال تھا۔اور نظر غور سے دیکھیں تو یہ بات معمولی بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مسلّم. سچائی ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ادب و احترام اور آداب کا خیال نہ رکھا جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بڑی باتوں تک اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پر ایک زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے علاوہ ازیں ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا اور خط لکھتے وقت السلام علیکم لکھنا شریعت کا حکم بھی ہے۔‘‘

’’نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بسم اللہ اور السلام علیکم لکھتے تھے اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے ۔میں نے کوئی خط آپ کا بغیر بسم اللہ اور سلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا ۔اور آپ کو سلام لکھنے کی اتنی عادت تھی کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ ایک دفعہ کسی ہندو مخالف کو خط لکھنے لگے تو خود بخود السلام علیکم لکھا گیا ۔جسے آپ نے کاٹ دیالیکن پھر لکھنے لگے تو پھر سلام لکھا گیا چنانچہ آپ نے دوسری دفعہ اسے پھر کا ٹالیکن جب آپ تیسری دفعہ لکھنے لگے تو پھر ہاتھ اسی طرح چل گیا۔آخر آپ نے ایک اور کاغذ لے کرٹھر ٹھہر کرخط لکھا۔‘‘

(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ۔ روایت نمبر270-269 صفحہ 299 سیرت المہدی جلد اوّل مرتبہ)

(مرسلہ: خالد محمود شرما ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اکتوبر 2020