• 18 مئی, 2024

اسلامی سال کا چوتھا قمری مہینہ

اسلامی سال کا چوتھا قمری مہینہ
ربیع الثانی

اسلامی سال کا چوتھا قمری مہینہ ’’ربیع الثانی‘‘ ہے۔ اسے ربیع الآخر بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم عربوں میں دومہینوں میں تفریق کےلیے وہ ایک مہینہ کے ساتھ ’’قدمن‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی ’’الاقدم‘‘ یا ’’الاول‘‘ کے ہیں اور اس جیسے دوسرے مہینے کے ساتھ ’’اخرن‘‘ یعنی ’’الآخر‘‘ یا ’’الثانی‘‘ یا ’’التالی‘‘ لگا دیتے تھے۔ چنانچہ سامی قبائل دو مہینوں کا ایک نام ہی استعمال کرتے تھے اور ان دونوں میں تمییز کرنے کےلیے دوسرے مہینے کے ساتھ ’’اخرن‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی ’’المتاخر‘‘ (بعد میں آنیوالا) اور ’’التالی‘‘ (آگے آنیوالا) یا ’’الثانی‘‘ (دوسرا) کے ہوتے ہیں۔

ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ اور دیگر نام

کہا جاتا ہے کہ ربیع الاول اور ربیع الثانی کا نام 412عیسوی میں کلاب بن مرة کے دور میں رکھا گیا۔ ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ ربیع الاول والی ہی ہے۔ عرب میں یہ دوسرا ایسا مہینہ ہوتا تھا جس میں لوگ اپنے گھروں میں قیام کیے رکھتے تھے اور اپنے مویشیوں کو کھلاتے پلاتے تھے جس کی وجہ سے وہ پھلتے پھولتے تھے اور ماہ صفر میں ہونیوالی لڑائیوں کے نتیجہ میں ہونیوالے نقصانات کو پورا کرتے تھے۔

ربیع الاول اور ربیع الثانی کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں پھول کھلتے ہیں اور خوشبودار جڑی بوٹیاں اگتی ہیں اور مسلسل بارشیں برستی ہیں جس کے نتیجہ میں ندیاں پانی سے بھرجاتی ہیں۔

(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام جزء16 صفحہ95)

زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ کو ’’بصان‘‘ کہا جاتا تھا۔ جس کی جمع ’’بصانات‘‘ اور معنی چمک دمک کے ہیں۔ بعض کے نزدیک مال کی فراوانی اور کثرت نباتات کی وجہ سے بھی اس کا نام بصان رکھا گیا۔

بعض قبائل عرب اس مہینہ کو ’’صوان‘‘ کے نام سے پکارتے تھے حضرت صالح ؑ کی قوم ثمود ربیع الاول کو ’’مورد‘‘ اور ربیع الثانی کو ’’ملزم‘‘ کے نام سے پکارتی تھی۔

عرب میں سال کی تقسیم

اہل عرب میں سال کی تقسیم مختلف زمانوں میں بیان ہوئی ہے۔ بعض کے نزدیک سال چارزمانوں میں منقسم ہے جبکہ دوسرا گروہ چھ حصوں میں سال کی تقسیم مانتا ہے۔ علامہ ابوالحسن علی مسعودی (متوفی:346ھ) لکھتے ہیں کہ
’’عربوں میں سال کے چار زمانوں کے ناموں میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ سال کا پہلا موسم بارانی یعنی بارشوں والازمانہ ہوتا ہے جو خزاں کہلاتا ہے پھر سردی کا اور پھر گرمی کا اور اس کے بعد شدید گرمی کا۔ ان میں سے بعض سال کے موسموں میں سے پہلا موسم فصل الربیع کو شمار کرتے ہیں جو کہ زیادہ مشہور اور عام ہے۔ عرب کہا کرتے تھے کہ ہم نے فلاں شہر میں خزاں گزاری، فلاں شہر میں سردی کا موسم گزارا، فلاں شہر میں موسم بہار بسر کیا اور فلاں شہر میں موسم گرما پایا۔‘‘

(مروج الذھب للمسعودی جزء2 صفحہ192)

لیکن اسلامی مہینے سال کے موسموں پر مرتب نہیں ہوئے اور نہ ہی شمسی تقویم پر ان کی بنیاد رکھی گئی جو ہر دفعہ ایک ہی موسم میں ہوتے ہیں۔ بلکہ ہراسلامی مہینہ کبھی بہار میں آتاہے تو کبھی خزاں میں کبھی گرمی میں آتا ہے تو کبھی سردی کے موسم میں۔

عرب میں موسموں کی تقسیم

عرب ممالک کے موسموں کے بارہ میں بات کی جائے تو موسم الصیف یعنی گرمی کا موسم اپنی شدت حرارت کی وجہ سے سال کا لمبا موسم ہوتا ہے اور دوسرا موسم الشتاء یعنی سردی کا موسم ہے۔ عبرانی میں بھی انہی دو موسموں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ عبرانی میں صیف یعنی گرمی کو ’’قیز یا قیض‘‘ کےنام سے پکارا جاتا ہے اور شتاء یعنی سردی کو ’’خرف‘‘ کہاجاتا ہے۔

اہل عرب میں سے بعض سال کے موسموں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: 1۔ صیف (گرمی) 2۔ شتاء (سردی)

پھر وہ شتاء (سردی) کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلا حصہ شتاء (سردی) ہی کہلاتا ہے اور دوسرے حصے کو الربیع کہتے ہیں۔ اسی طرح صیف (گرمی) کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ صیف (گرمی) اور دوسرا حصہ القیظ (شدید گرمی) کہلاتا ہے۔

ایک گروہِ علماء کے نزدیک سال میں چھ موسم ہوتے ہیں۔ الوسمی (بارش کا موسم)، الشتاء (سردی)، الربیع (بہار)، الصیف (گرمی)، الحمیم (شدید گرمی) اور الخریف (خزاں) اور ان کے نزدیک ہر موسم دو مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

بعض علماء کہتے ہیں کہ دو مہینے الربیع الاول کے ہوتے ہیں۔ دو گرمی کے، دو شدید گرمی کے اور دو الربیع الثانی کے، دو خریف (خزاں) کے اور دو سردی کے مہینے ہوتے ہیں۔

اہل عرب میں موسموں کی ترتیب

مورخین اور علماء لغت کے نزدیک عرب میں سال کا پہلا موسم ’’خریف‘‘ ہے جسے وہ اول الربیع کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ موسم ربیع کے شروع میں بارشیں ہوتی ہیں۔ عربی میں خریف بارش کو ہی کہاجاتا ہے۔ اس موسم کے بعد سردی کا موسم ’’الشتاء‘‘ ہے اور سردی کے بعد موسم گرما ’’الصیف‘‘ ہوتا ہے جسے لوگ الربیع کہتے ہیں اور بعض اس موسم کو ’’الربیع الثانی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس کے بعد شدید گرمی کا موسم ہوتا ہے جسے ’’القیظ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی بارہ میں علامہ مسعودی کا حوالہ اوپر گزرچکا ہے۔

ربیعان سے مراد

اہل عرب کے نزدیک دو طرح کے ربیع ہیں۔ ایک قسم ربیع الشہور ہے یعنی ماہ صفر کے بعد آنیوالے دو مہینے ربیع الاول کا مہینہ اور ربیع الثانی کا مہینہ۔ اس لیےاہل عرب اسے واضح کرنے کے لیے ’’شھر‘‘ کا لفظ ساتھ ضرور استعمال کرتے ہیں۔

دوسری قسم ربیع الازمنة ہے۔ یعنی موسمِ ربیع۔ یہ بھی دو ہیں۔ پہلا موسم ربیع الاول جس میں گھاس پوس جڑی بوٹیاں چارہ پھول پودے وغیرہ اگتے ہیں اور دوسرا موسم ربیع الثانی ہے جس میں پھل وغیرہ لگ جاتا ہے۔

گیارہویں کی رسم

برصغیر پاک و ہند میں چھٹی صدی کے مجدد حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؒ کی روح کو ایصال ثواب کےلیے بعض لوگ کھانے اور کھیر وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔ یہ عموماً ہر سال ربیع الثانی کی گیارہ تاریخ کو کیا جاتا ہے اور اس تاریخ کی تخصیص کے بارہ میں اس رسم کے قائلین ایسی قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں گیارہ یا دس کے اعداد کا ذکر ہو۔ جیسے سورة یوسف میں اَحَدَ عَشَرَ کَوۡکَبًا (يوسف: 5) وغیرہ۔ جبکہ ان آیات سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بالخصوص اس تاریخ کو اس طرح کا کوئی کام کیا جانا لازم ہے۔

اسی طرح حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہ ہے اور نہ ہی سنت نبویؐ اور تعامل صحابہ و تابعین و تبع تابعین اس پر موجودہے کہ گیارہویں تاریخ کو ہی ایسے کام کیے جائیں۔ جب سنت نبویؐ و سنت خلفائے راشدین اور تعامل امت میں ایسی رسومات کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں تو ایک تاریخ کو مخصوص کرکے اس روز ایسی رسومات بجالانا بدعت میں شمار ہوتا ہے۔ ہاں فقراء ومساکین کو کھانا کھلانا اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا تو موجب ثواب ہے لیکن ان میں رسومات کو شامل کرلینا یہ درست اور جائز طریق نہیں۔

چنانچہ زمانہ کے حکم عدل حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سو آج ہم کھول کر بآواز بلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے، یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جلّشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسولؐ نے ہدایت کی ہے اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں‘‘

(الحکم 10 جولائی 1902ء صفحہ6)

ایک دفعہ یہ سوال ہوا کہ ’’فاتحہ، تیجہ، گیارہویں، عرس کرنا کیسا ہے؟‘‘

حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ نے جواب فرمایا کہ ’’مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ۔ ۔ ۔ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ وَاتَّباع مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھوالدین۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ سے سوال ہوا کہ ’’سنّی لوگ محرم کے دنوں میں خاص قسم کے کھانے وغیرہ پکاتے اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے متعلق کیا ارشاد ہے؟‘‘

آپؓ نے فرمایا:’’یہ بھی بد عت ہیں اور ان کا کھانا بھی درست نہیں اور اگر ان کا کھانا نہ چھوڑا جائے تو وہ پکانا کیوں چھوڑنے لگے۔ بارہ وفات کا کھانا بھی درست نہیں اور گیارھویں تو پورا شرک ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے: وَمَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ (البقرہ: 174)۔ یہ بھی ان میں داخل ہے کیونکہ ایسے لوگ پیر صاحب کے نام پر جانور پالتے ہیں۔‘‘

(الفضل23 اکتوبر1922ء جلد 10 نمبر82)

ماہ ربیع الثانی کے دیگراہم تاریخی واقعات

عہد نبویؐ اور عہد خلفائے راشدین میں ماہ ربیع الثانی میں کئی اہم تاریخی واقعات ہوئے۔ جن میں سے بعض یہ ہیں۔ مدینہ منورہ میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے 12 روز بعدربیع الثانی 1ھ میں فرض نمازوں میں اضافہ ہوا۔ (البدایة والنھایة جزء3 صفحہ283) ہجرت کے چودہ ماہ بعد ربیع الثانی کے مہینہ میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی ولادت ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق زوجۂ رسولؐ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کی وفات ربیع الثانی میں ہوئی۔ ابن اسحاق کے قول کے مطابق غزوہ ذات الرقاع ربیع الثانی میں ہوئی۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم جزء3 صفحہ69) بعض روایات کے مطابق مواخات مدینہ اسی بابرکت مہینہ میں ہوا۔

غزوہ بحران ربیع الثانی 3 ھ میں ہوا۔ سریہ ابوعبیدؓ بجانب ذی القصہ اور سریہ محمد بن مسلمؓ  بجانب بنی ثعلبہ ربیع الثانی 6ھ کو ہوئے۔ سریہ زید بن حارثہؓ بجانب جموم ربیع الثانی 6ھ میں ہوا۔ سریہ علقمہ بن مجزز مدلجی بجانب حبشہ ربیع الثانی 9 ھ کو ہوا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو قبیلہ طے کی طرف ربیع الثانی 9ھ کو بھجوایا۔ رسول اللہﷺنے ربیع الثانی 10 ھ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو بنی حارث بن کعب کی طرف بھیجا۔ ربیع الثانی 11 ھ میں لشکر اسامہ نے شام کا سفر جاری رکھا۔ (ان تمام واقعات کی تاریخ کا ماخذ البدایة والنھایة اور المنتظم فی تاریخ الملوک والامم وغیرہ ہیں۔)

(ابوفاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 8)