• 29 اپریل, 2024

چوہدری خالد سیف اللہ خان مرحوم

ہمارے ماموں جان
چوہدری خالد سیف اللہ خان مرحوم

ہمارے ماموں جان چوہدری خالد سیف اللہ خان صاحب 16ستمبر 2018ء بروز اتوار، سڈنی، آسٹریلیا میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

بہت نیک، متقی، پرہیزگار انسان تھے۔ ان کی والدہ (آمنہ بیگم صاحبہ) اور والد صاحب (چوہدری محمد یعقوب خان صاحب) دونوں ہی قادیان کے تعلیم یافتہ تھے۔ ماموں جان کابچپن قادیان کی پاکیزہ فضا میں گزرا۔ علم دوست گھرانہ تھا۔ ماموں جان کی طبیعت میں ایک طرح کی معصومیت پائی جاتی تھی۔ لیکن علم بہت وسیع تھا– مشورہ بہت اچھا دیتے تھے۔ لیکن اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو فوراً لا علمی کااظہار کر دیتے تھے۔ غیراز جماعت افراد ان کے بارے میں کہا کرتی تھے کہ عالم تو بہت دیکھے لیکن عالم باعمل پہلی بار دیکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازاتھا۔ ذہانت غیر معمولی تھی، کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ ان کی والدہ ان کے بارے میں کہا کرتی تھیں ’’خالد بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی والدہ سے پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پڑھ لیا تھا۔ پہلے چھ ماہ میں قاعدہ یسرنا القرآن ختم کیا اور اگلے چھ ماہ میں قرآن کریم ناظرہ مکمل پڑھ لیا۔

اپنی کتاب ’’مکتوب آسٹریلیا‘‘ میں اپنے بارے میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اللہ نے فضل فرمایا کہ بچپن ہی سے میرے دل میں قرآن کریم سیکھنے کی خواہش ڈال دی اور اس کے لیے اسباب بھی بھی پیدا فرما دیئے۔‘‘

ہماری والدہ (امینہ مبارکہ صاحبہ) کہتی ہیں:
’’بھائی جان کو قرآن کریم سے بہت پیارتھا۔ ابا جی کام پر جاتے ہوئے بھائی کو ہمیں قرآن پڑھانے کاکہہ جاتے۔ انہوں نے مجھے اور چھوٹے بھائی کوقرآن کا کچھ حصہ باترجمہ پڑھایا۔ بعض الفاظ کے کئی معنی بتاتے۔ پڑھا کر امتحان لیتے تھے اور انعام بھی دیتے تھے۔ کشتی نوح کے سوال لکھواتے بعد میں امتحان لیتے اور انعام بھی دیتے تھے۔‘‘

جن دنوں فیصل آباد میں تعینات تھے تو وہاں افراد جماعت کو قرآن پڑھاتے تھے۔ جب ان کی تبدیلی لاہور ہوئی تو حضرت خلیفة المسیح الثالث نے فرمایا: خالد سیف اللہ لاہور آرہے ہیں، ان سے فائدہ اٹھائیں۔

ہماری والدہ بیان کرتی ہیں کہ ’’اباجی جو بھی نئی کتاب مرکز میں چھپتی لے کر آتے اور بھائی جان کو پڑھنے کےلیے دیتے۔ ہم جب کچھ بڑے ہوئے تو دیکھتے رہتے کہ جب بھائی جان کتاب پڑھ کر رکھیں گے تو ہم پڑھیں گے۔ پھر ہم بھی پڑھتے۔ ہمارے دادا جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی تبلیغ سے احمدی ہوئے۔ ایم ٹی اے اور الفضل ربوہ میں ’’خوش نصیب لوگ‘‘ کے عنوان سے دادا جان (چوہدری محمد خان صاحب) کی بیان فرمودہ روایت آیا کرتی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے بچے وقف کرنے کی تحریک فرمائی ہے۔ یہ روایت حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے اپنی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ میں درج فرمائی ہے۔ دادا جان موصی تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی تحریک پر بڑے بیٹے (محمد طفیل خان صاحب) کو وقف کیا اور دینی تعلیم والے اسکول میں پڑھایا اور چھوٹے بیٹے، ہمارے اباجان (چوہدری محمد یعقوب خان صاحب) کو دنیاوی تعلیم والے اسکول میں پڑھایا۔ اباجی ریٹائرمنٹ کے بعد لمبا عرصہ انسپکٹر انصاراللہ بھی رہے۔ دادا جان کے والد صاحب چوہدری ملنگ خان صاحب (نمبردار موضع گل منج) کی بیعت کی منظوری ان کی وفات کے بعد آگئی تھی۔ یہ بات ہمارے والد صاحب نے کئی مرتبہ ہم سے بیان کی۔‘‘

ماموں جان بہت ایماندار افسر تھے ہمارے والد صاحب (عبد الحمید بھٹی) بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی بڑے آدمی نے ان سے کوئی سفارش کروانی تھی وہ بہت قیمتی قالین (بطور رشوت) ان کی غیر موجودگی میں گھر دےگیا۔ جب ماموں جان گھر واپس آئے تو اسی وقت انہوں نے وہ قالین واپس بھجوایا۔

الیکٹریکل انجینئر تھے۔ واپڈا سے چیف انجینئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور آسٹریلیا امیگریشن پر چلے گئے۔ چونکہ بہت ذہین تھے آسٹریلیا جا کر قریبا پچپن 55 سال کی عمر میں وہاں کے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے دوبارہ ملازمت حاصل کی۔

انہیں خدانے تقریر کابہت ملکہ عطا کیا تھا ان کی تقاریر بہت علمی ہوتیں آسٹریلیا سے آنیوالے کہتے تھے کہ ان کی تقریر ہمارے جلسے کا اہم جزو ہوتی ہے۔

ماموں جان کے اکثر مضامین الفضل میں شائع ہوئے۔ ان مضامین کا انتخاب ’’مکتوب آسٹریلیا‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ یہ کتاب جماعت کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ بہت اچھے مختصر علمی مضامین کا مجموعہ ہے۔

مکرم نصیر احمدقمر صاحب (جن کی تحریک پر ماموں جان نے مضامین کو کتابی شکل میں شائع کروایا) اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’مکرم خالدسیف اللہ خان صاحب ان آسمانی ونورانی ذرائع ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے اور بڑی نفاست اور سلاست کے ساتھ سادہ مختصر مگر اثر انگیز الفاظ میں خیالات و محسوسات کو قارئین کے لئے پیش کرنے کاملکہ رکھتے ہیں۔ مَاشَآءَ اللّٰہُ اَللّٰھُمَّ زِدْ وَبَارِکْ‘‘

حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کی کتاب ’’انگلش ٹریس ٹو ایریبک‘‘ کا اردو میں خلاصہ تیار کیا۔ حضرت شیخ صاحب نے اس کی تعریف کرکے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

جن دنوں واپڈا میں ایگزیکٹو انجینئر تھے۔ بہت سے غریب نوجوانوں کی ملازمت کے حصول کے لیے مدد فرما ئی۔

خلافت کے شیدائی تھے۔ خلفائے سلسلہ کے ساتھ ہمیشہ اطاعت ووفا کاتعلق رہا۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے 2013ء کے آسٹریلیا کے دورے کے دوران ازراہ شفقت ماموں جان کے گھر بھی تشریف لے گئے۔ یہ سعادت بھی ان کے حصہ میں آئی۔

حس مزاح بھی بہت اچھا تھا۔ جب ان کی کتاب چھپی تو انہوں نے ہماری والدہ کو بھی بھجوائی۔ ہماری امی چونکہ چھوٹی بہن ہیں اور اکلوتی ہونے کی وجہ سے لاڈلی بھی۔ انہوں نے کتاب تو بعد میں پڑھی، پہلے کتاب کے پیچھے چھپی ہوئی ماموں جان کی تصویر پر احتجاجی فون آسٹریلیا کر دیا۔ کہنے لگیں بھائی جان یہ آپ نے کیسی تصویر لگائی ہے، آپ ایسے تھوڑی ہیں، کوئی اچھی تصویر لگانی تھی اور وہ اپنے مخصوص قہقہے کے ساتھ باربار کہتے رہے ’’میری شادی ہو گئی ہوئی ہے، میری شادی ہو گئی ہوئی ہے، اب نہیں کسی نے مجھے پسند کرنا۔‘‘

وفات سے کچھ عرصہ قبل ہماری والدہ نے فون کرکے انہیں کہا کہ لگتا ہے آپ کی طبیعت اچھی نہیں کہنے لگے تمہیں کیسے پتہ؟ امی جان نے کہا پہلے آپ پندرہ دن بھی نہیں گزرنے دیتے تھے اور ضرور فون کرتے تھے اب مہینہ ہوجاتا ہے آپ کافون نہیں آتا۔ سن کر بہت ہنسے بہت خوش ہوتے رہےکہنے لگے صرف کمزوری ہے آہستہ آہستہ دور ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ اپنے قرب میں جگہ دے۔ آمین

حضور نے ازراہ شفقت خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 21؍ستمبر 2018ء میں ان کا ذکر خیر فرمایا اور ان کے داداجان کا بیعت کا واقعہ بیان فرما دیا اور ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔ جَزَاکَ اللّٰہُ ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

وہ ہمارا تعارف تھے، ہماری پہچان، ہماری سپر تھے۔ ان کےجانےسے ایک دور ختم ہوا،ایک باب رخصت ہوا۔ خداتعالیٰ ہمیں ہمارے بزرگوں کی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(آرایس بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 8)