• 25 اپریل, 2024

جو تم خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھرپور طور پر واپس لوٹاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھرپور کا لفظ استعمال ہو تو وہ ایسا بھرپور ہے جس کا انسانی سوچ احاطہ بھی نہیں کر سکتی۔ ایک انسان اپنا کاروبار کرتا ہے تو کاغذ پنسل لے کر ضربیں تقسیمیں دے کر، آج کل کمپیوٹر کا زمانہ ہے تو کمپیوٹر پر بیٹھ کر بڑی پلاننگ کرکے، بڑی فیزیبیلٹیاں (Feasibilities) بناتا ہے۔ پانچ فیصد، دس فیصد تک منافع نکالنے کی کوشش کرتا ہے، یا کوئی بہت ہی منافع کمانے والا ہے تو اس سے بھی بڑھ جائے گااور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض حالات میں جب کسی چیز کی طلب بڑھ جاتی ہے تو کوئی بلیک مارکیٹ کرنے والا ہو تو وہ بہت ہی زیادہ سوفیصد منافع رکھ لیتا ہے۔ یہ اس کی حد ہوتی ہے اور پھرجب اس نے یہ کچھ کر لیا تو اس نے دنیاوی فائدہ تو اٹھالیا لیکن غلط منافع اور ذخیرہ اندوزی سے گناہگار بھی ہوا اور اس ذریعہ سے کمایا ہوا پیسہ پھر پاک پیسہ کہلانے والا نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس وجہ سے کہ اللہ کی محبت اور اس کے احکامات کی تکمیل مال کی محبت پر حاوی ہے جو تم خرچ کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھرپور طور پر واپس لوٹاتا ہے۔ ایسا خرچ بھرپور طور پر واپس لوٹایا جاتا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی سنور جاتا ہے۔ مال بھی پاک ہوتا ہے اور ایسا پاک مال کمانے والے پھر لوگوں کی مجبوری سے فائدے اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ غلط طریق پر مال کمانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں امیر لوگ بھی ہیں، اوسط درجہ کے بھی ہیں، غریب بھی ہیں اور کیونکہ یہ مومنین کی جماعت ہے اس لئے ہر طبقہ اس فکر میں ہوتا ہے کہ مَیں جو بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کروں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کا وارث بنوں۔ ایسے لوگ بھی جماعت میں گزرے ہیں، نہ صرف گزرے ہیں بلکہ اب بھی ہیں جو اپنی روزمرہ ضروریات کے لئے وظیفہ پر گزارہ کرتے ہیں لیکن جب خلیفہ وقت کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک ہو تو اس وظیفہ کی رقم میں سے بھی پس انداز کرکے ایک شوق اور جذبے کے ساتھ چندہ دینے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اپنے پر نظارے دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کئی ممالک میں ہزاروں احمدی ہیں جو اس اصل کو سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کاروبار کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرکے بھرپور طورپر لوٹائے جانے کے نظارے دیکھتے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا کہ مَیں نے اپنا تحریک جدید کا وعدہ کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ مَیں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں، توفیق سے بڑھ کر انہوں نے وعدہ کیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی وعدہ انہوں نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا فرمادئیے۔ اس سال پھر انہوں نے جو وہ وعدہ کیا تھا اس سے دو گنا وعدہ کر دیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کہ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہ ہو گا، ایسا انتظام کیا کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہو گئیں اور وعدہ بھی پورا ہوگیا۔ اور لکھتے ہیں کہ اس پر اپنے اس سچے وعدوں والے خدا کی حمد سے دل بھر گیا۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے دل جتنے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جائیں ہم کبھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے دلوں کو حمد سے بھرا رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہا ہے کہ جتنا تم شکرکرو گے اتنا بڑھاؤں گا اور اللہ جب بڑھاتا ہے تو کئی گنا کرکے بڑھاتا ہے۔ تو ہمارا شکر تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں تک اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیتا اور بڑہاوا کرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد کرنے والوں اور اس پر توکل کرنے والوں کے ایمان کو اور بڑھاتا ہے۔ یہی صاحب لکھتے ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدید نے جب کہا کہ اتنا وعدہ کر دیا ہے کہ کس طرح ادا کرو گے تو مَیں نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں فکر ہے تو اس خدا کو میری فکر نہیں ہو گی جس کی رضا چاہنے کے لئے اور جس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے وعدہ کیا اور یہ خرچ کر رہا ہوں۔ تو یہ حوصلے اور یہ توکّل احمدیوں میں اس لئے ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے اور بیعت میں آ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان میں بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے۔ ان کو اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے۔ ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر کی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ اُن کا اس بات پر قوی ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالصتاً اپنی خاطر کئے گئے ہر عمل کی بھرپور جزا دیتا ہے، اُن کو اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہر خوف کو امن میں اور ہر غم کو خوشی میں بدل دیتاہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِسِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن (البقرہ:275) کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی تو ان کے لئے ان کا اجراُ ن کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔ پس جو خالصتاً اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی رضاحاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا ہر خوف، ہر غم اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے۔ وہ اللہ کے ہو جاتے ہیں اور اللہ اُن کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی اور اللہ پاک چیز کو ہی قبول فرماتا ہے تو اللہ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اُسے اُس کے مالک کے لئے بڑھاتا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی جیسے تم میں کوئی اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے۔

(صحیح بخاری باب الصدقۃ من کسب طیب حدیث1410)

(خطبہ جمعہ 9؍ نومبر 2007ء)

پچھلا پڑھیں

ماں کی محبت اور خدمت کا دعویٰ

اگلا پڑھیں

آج کی دعا