آس رکھتے ہیں تری ہی ذات سے قادر خدا
جب بھی ہودرپیش کوئی آزمائش‘ ابتلا
گر گئے چوکھٹ پہ تیری ہو کے بے حد بے قرار
’اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اٹھا‘
صبر‘ کتنا صبر ہم تو ناتواں کمزور ہیں
دل پھٹا جاتا ہے اطمینان کا مرہم لگا
ہم سسکتے اور بلکتے ہیں فقط تیرے حضور
ہیں بہت مظلوم ہم رحمت کا جلوہ پھر دکھا
ظالموں پہ پھر ابابیلوں کے لشکر بھیج دے
جو اکھاڑے جڑ شریروں کی کوئی آندھی چلا
کیا ضمانت ہے درندوں کو کہ وہ محفوظ ہیں
کیا کوئی فرعون پہلے قہرِقدرت سے بچا؟
عشق کے ماروں کو کہنا بے وفا کیا ظلم ہے
صدمے دیکھے ہیں بہت لیکن یہ صدمہ ہے جدا
دینِ حق کی سر بلندی کے تو خود سامان کر
ساری دنیا میں چلے توحیدِ کامل کی ہوا
ایک ہی خواہش ہے مولا کس طرح خوشنود ہو
اپنی رحمت اور قربت کی مسرت کر عطا
تا دمِ آخر میسر دین کی خدمت رہے
کام وہ کرواہمیں جس سے ملے تیری رضا
اس مقدس پیڑ کی ہر شاخ کو محفوظ رکھ
ہم کو اپنے فضل سے ہر شر ‘ مصیبت سے بچا
گر جماعت ساری اس میدان میں ماری گئی
کون پھر پوجے گا تجھ کو اے مرے قادر خدا
(امۃ الباری ناصر)