• 26 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍نومبر 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍نومبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صل الله علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے کسی مال نے کبھی وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو مجھے ابوبکر کے مال نے فائدہ پہنچایا ہے۔۔۔حضرت ابوبکرؓ یہ سُن کے رو پڑے اور عرض کیا: یا رسول اللهؐ! مَیں اور میرا مال تو صرف آپؐ ہی کے لئے ہیں

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد سیرت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مختلف پہلوؤں کے تذکرہ میں خدمتِ خلق اور محتاجوں کو کھانا کھلانے وغیرہ کے بارہ میں ارشاد فرمایا! قبولِ اسلام سے قبل بھی آپؓ قریش کے بہترین لوگوں میں شمار ہوتے اور لوگوں کو جو بھی مشکل پیش آتی تھی وہ اُن میں آپؓ سے مدد لیا کرتےتھے۔ آپؓ مکہ میں اکثر مہمان نوازی اور بڑی بڑی دعوتیں کیا کرتے تھے۔ غریبوں اور مسکینوں پر بے حد مہربان تھے، سردیوں میں کمبل خریدتے اور اُنہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے۔

خلیفہ بننے کے بعد بھی مسلسل چھ ماہ تک انجام دہیٔ خدمت

منصب خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓ ایک لاوارث کُنبہ کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے، جب آپؓ خلیفہ بن گئے تو اُس کُنبہ کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپؓ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے؟ یہ سُن کر آپؓ نے فرمایا: کیوں نہیں، اپنی جان کی قسم! مَیں تمہارے لئے ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ مَیں نےجس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اِس عادت سے نہ روکے گی جس پر مَیں تھا۔ چنانچہ آپؓ حسب سابق اُن کی بکریوں کا دودھ دوہتے نیز مسلسل چھ ماہ تک یہ خدمت سر انجام دیتے رہے، پھر آپؓ نے مدینہ میں رہائش اختیار کر لی۔

خدمت ِخلق میں ہی بڑائی خیال کرنا

حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰنؓ بھی خلافت کے لائق تھے اور لوگوں نے کہا بھی کہ اُن کی طبیعت حضرت عمرؓ سے نرم ہے اور لیاقت بھی اُن سے کم نہیں، اِن کو آپؓ کے بعد خلیفہ بننا چاہئے، لیکن آپؓ نے خلافت کے لئے حضرت عمرؓ کو ہی منتخب کیا باوجودیکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طبائع میں اختلاف تھا۔ پس آپؓ نے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپؓ خدمت خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے۔۔۔کون سی شے ہے جو بادشاہت سے حضرت ابوبکرؓ نے حاصل کی، کیا سرکاری مال کو اپنا قرار دیا اُنہوں نے اور حکومت کی جائدادوں کو اپنا مال قرار دیا ، ہرگز نہیں! جو اشیاء اُن کے رشتہ داروں کو ملیں وہ اُن کی ذاتی جائداد سے تھیں۔

ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمتِ خلق کرے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں: یہ دو ٹکڑے شریعت کے ہیں حق الله اور حق العباد۔ آنحضرتؐ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گزارا اَور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اِتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی، حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا۔ غور کرو! کہ یہ کس قدر التزام تھا، جب آپؓ فوت ہو گئے تو اُس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ فوت ہو گیا۔ اُس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی ؟تو اُس نے کہا نہیں! آج حلوہ لے کر نہیں آیا اِس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہو گیا یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوہ نہ پہنچے، دیکھو کس قدر خدمت تھی، ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمتِ خلق کرے۔

معیار پردہ پوشی

حضرت ابوبکرؓ فرماتے اگر مَیں چور کو پکڑتا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ خدا اُس کے جرم پر پردہ ڈال دے۔

مجسمۂ شجاعت و بہادری

آپؓ بڑے بڑے خطرہ کو اسلام کی خاطر یا نبی اکرمؐ کی محبّت اور عشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے، مکی زندگی میں جب آپؓ نے نبی اکرمؐ کی ذات کے لئے کوئی خطرہ یا تکلیف کا موقع دیکھا تو آپؐ کی حفاظت و نصرت کے لئے دیوار بن کر سامنے کھڑے ہو جاتے۔ شعب ابی طالب میں تین سال تک اثیری و محصوری کا زمانہ آیا تو ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ وہیں موجود رَہے۔ پھر ہجرت کے دوران اُنہیں حضورؐ کی صحبت و معیّت کا اعزاز ملا حالانکہ جان کا خطرہ تھا ، جتنی بھی جنگیں ہوئیں حضرت ابوبکرؓ نہ صرف یہ کہ اُن میں شامل ہوئے بلکہ حفاظتِ رسول اللهؐ کے فرائض آپؓ سر انجام دیتے، آپؓ کی اِسی جرأت اور بہادری کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے آپؓ کو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر شخص قرار دیا۔

مہمات کی کمان

حضرت سلمہؓ بن اَکْوَع بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے نبی اکرمؐ کی معیّت میں سات غزوات میں شرکت کی اور جو جنگی مہمات آپؐ نے روانہ فرمائیں اِن میں سے نو مہمات میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا اور اِن میں کبھی تو ہماری کمان حضرت ابوبکرؓ کے پاس ہوتی تھی اور کبھی حضرت اُسامہؓ بن زیدؓ کے پاس۔

اپنی مثال آپ

آنحضرتؐ کی وفات کے بعد جب گویا سارا عرب ہی مرتد ہو گیا، اِن حالات میں جس جرأت اور شجاعت کا عملی مظاہرہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

کتنا قربانی کرنے والا انسان تھا

حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں: ایک دفعہ کفار نے آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا، حضرت ابوبکرؓ کو اِس بات کا علم ہوا تو دوڑے ہوئے آئے اور آپؓ نے اُن کفار کو ہٹایا اور فرمایا! اَے لوگو تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اِس لئے مارتے پیٹتےہو کہ وہ کہتا ہے کہ الله میرا ربّ ہے، وہ تم سے کوئی جائداد تو نہیں مانگتا، پھر تم اُسے کیوں مارتے ہو؟ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے زمانہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ کو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر مَیں نے محمد رسول اللهؐ کو مار لیا تو اسلام ختم ہو جائے گا اور ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ ابوبکرؓ رسول کریمؐ کے پاس کھڑے ہوتے تھے تاکہ جو کوئی آپؐ پر حملہ کرےاِس کے سامنے اپنا سینہ کر دیں۔

کلام الله کے ہوتے ہوئے انسانی قلب میں مایوسی پیدا ہو ہی نہیں سکتی

غار ثور میں دشمن کے سر پر پہنچنے اور حضرت ابوبکرؓ کی گھبراہٹ نیز آنحضرتؐ کی جانب سے بڑے جوش میں تسلّی دیئے جانے کے تناظر میں حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں۔ بعض شیعہ لوگ اِس واقعہ کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ ابوبکر نعوذبالله! بے ایمان تھا وہ اپنی جان دینے سے ڈر گیا۔ حالانکہ تاریخوں میں صاف لکھا ہے کہ جب رسول کریمؐ نے فرمایا! لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یا رسول اللهؐ! مَیں اپنی جان کے لئے تو نہیں ڈرتا، مَیں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا، مَیں تو آپؐ کے لئے ڈرتا ہوں کیونکہ اگر آپؐ کو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مِٹ جائے گی۔

خدا کا بنایا ہوا خلیفہ کس قدر جرأت اور دلیری رکھتا ہے

حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں: زکوٰۃ تو ایسی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ رسول کریمؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا: خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَصَلِّ عَلَیۡہِمۡ (التوبہ: 103) اِس میں تو رسول کریمؐ کو حکم ہے کہ تُو لے، اب جبکہ آپؐ نہیں رہے تو اور کون لے سکتا ہے؟ نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ محمدؐ کا قائمقام ہو گا جو لے گا۔ لیکن جہالت سے اُنہوں نے کہہ دیا ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے، اِدھر تو لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور اُدھر فساد ہو گیا ۔ قریبًا سارا عرب مرتد ہو گیا اور کئی مدعی نبوت کھڑے ہو گئے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ نعوذ بالله! اسلام تباہ ہونے لگا ہے، ایسے نازک وقت میں صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ اُن لوگوں سے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے فی الحال نرمی سے کام لیں۔ حضرت عمرؓ جن کو بہت بہادر کہا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ گو مَیں کتنا ہی جرّی ہوں مگر ابوبکرؓ جتنا نہیں کہ مَیں نے بھی اُس وقت یہی کہا کہ اِن سے نرمی کی جائے، پہلے کافروں کو زیر کر لیں پھر اُس کی اصلاح کر لیں گے۔ لیکن ابوبکرؓ نے کہا! ابن قُحافہ کی کیا حیثیت ہے کہ رسول کریمؐ کےدیئے ہوئے حکم کو بدلائے، مَیں تو اُن سے اُس وقت تک لڑوں گا جب تک یہ لوگ پوری طرح زکوٰۃ نہ دیں اور اگر رسول کریمؐ کے وقت اونٹ باندھنے کی ایک رسّی جو دیتے تھے وہ بھی ادا نہ کر دیں اُس وقت صحابہ کو پتا لگا کہ خدا کا بنایا ہوا خلیفہ کس قدر جرأت اور دلیری رکھتا ہے۔ آخر حضرت ابوبکرؓ نے اُن کو زیر کیااور اُن سے زکوٰۃ لے کر چھوڑی۔

مالی قربانی

ایک مصنّف لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ جب ایمان لائے تو اُن کے پاس چالیس ہزار دِرہم کی خطیر رقم موجود تھی اور ظاہر ہے کہ مالِ تجارت، اسباب و اِملاک اِس کے علاوہ تھے بلکہ بمطابق ایک روایت تو اُن کے پاس ایک ملین یعنی دسّ لاکھ دِرہم کی رقم موجود تھی ۔ مکہ میں عام مسلمانوں کی اعانت اور غریب مسلمانوں کی کفالت پر ہزار ہا دِرہم خرچ کر دیئےتاہم جب اُنہوں نے ہجرت کی تو پانچ، چھ ہزار دِرہم نقد ساتھ تھے۔ بمطابق ایک روایت وہ یہ ساری رقم ضروریاتِ رسول کریمؐ کے لئے بچا کر رکھتے گئے اور بوقتِ ہجرت مدینہ لے کر آئے تھے۔ اِسی رقم سے اُنہوں نے ہجرت کے دوران سفر کے اخراجات کے علاوہ بعد ہجرت رسول کریمؐ کے اہل خاندان میں سے بعض کے سفر کے اخراجات دیئے اور مدینہ میں مسلمانوں کے لئے کچھ زمین بھی خریدی تھی۔

لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں

حضرت ابن عبّاسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهؐ اپنی آخری بیماری میں، جس میں آپؐ کی وفات ہوئی، باہر تشریف لائے اور آپؐ نے اپنا سر ایک کپڑے سے باندھا ہوا تھا، آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور الله کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا! لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پر ابوبکر بن ابو قُحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی