• 6 مئی, 2024

امۃ الرافع مرحومہ

میری اہلیہ محترمہ
امۃ الرافع مرحومہ

میری اہلیہ مکرمہ امۃ الرافع مرحومہ مکرم چودھری غلام باری باجوہ کے ہاں 10؍نومبر 1957ء کو چونڈہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والدِ محترم محکمہ مال میں ملازم رہے اور دورانِ ملازمت آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے دفتر میں سرکاری ملازم کے طور پر کام کرنے کا اعزازحاصل رہا۔
محترمہ امۃ الرافع صاحبہ کےخاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا کے بھائی چوہدری فتح علی باجوہ صاحب کے ذریعہ1903ء میں ہوا۔ جنہوں نے حضرت بابوقاسم دینؓ امیرضلع سیالکوٹ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی مگر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زیارت کا موقع نہ ملا۔ آپ کے نانا حضرت چودھری محمد دیوان کاہلوںؓ، حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کے صحابی تھے۔ آپ کا ددھیالی خاندان 1971ء میں سیالکوٹ سے ربوہ شفٹ ہو گیا تھا۔ لہٰذا مرحومہ کی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ اور بعدازاں آپ نے ربوہ میں ایم اے عربی کیا۔

میری اہلیہ بیان کیا کرتی تھیں کہ ہمارے رشتے کی تجویز جب ان کے گھر گئی تو دو اور رشتے بھی زیر غور تھے جو ہماری نسبت متمول اور دنیاوی لحاظ سے بڑی حیثیت کے حامل تھے، تو مرحومہ نے اپنی والدہ سے کہا کہ دنیاوی حیثیت والے رشتے کی بجائے دین کو ترجیح دیں، اس لیے انہوں نے واقف زندگی کا انتخاب کیا اور اپنے آپ کو عملاً وقف کر دیا اور ایک واقف زندگی کے ساتھ وقف کی روح اور وقف کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزاری۔ ہماری شادی 13؍فروری 1991ء کو ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چار بیٹے عطا فرمائے جن میں سے بڑے دو بیٹے عزیزم توقیر احمد اور عزیزم توصیف احمد وقف نو کی بابرکت تحریک میں پیش کیے جبکہ چھوٹا بیٹا عزیزم تصویر احمد واقف زندگی ہے اور چھٹے سال میں زیرِ تعلیم ہے۔

خداتعالیٰ کے فضل سےمرحومہ بے انتہاخوبیوں کی مالک اور اوصافِ حمیدہ سے متصف تھیں۔ آپ متوکل علی اللہ اورخداتعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان رکھتی تھیں۔ پنجوقتہ نمازوں میں اس قدر پختہ تھیں کہ آخری بیماری کے دوران جب تک ہوش رہی بیڈ یا سٹریچر پر بھی نماز ترک نہ کی۔

تمام عمرروزے باقاعدگی سے رکھاکرتی تھیں۔ آخری چند سالوں میں دل کے عارضہ اور ذیابیطس وغیرہ کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکیں تو ان روزوں کا فدیہ ادا کرتی رہیں، روزانہ تلاوت قرآن کریم کی عادی تھیں۔ مرحومہ رمضان میں تین سے چار مرتبہ قرآنِ کریم کا دَور مکمل کیاکرتی تھیں۔ امسال 17رمضان کو جب آپ ہسپتال داخل ہوئیں تو قرآنِ کریم کے تین دَور مکمل کر چکی تھیں۔

آپ کا خلافت اور نظامِ جماعت سے بے حد محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔خطبہ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ حددرجہ انہماک، شوق اور باقاعدگی سے سنتیں۔آپ عام طور پر تین مرتبہ خطبہ سنا کرتی تھیں۔

آپ مالی قربانی میں پیش پیش رہا کرتی تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح جب بھی تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے سال کے آغاز کا اعلان فرماتے تو آپ اسی روز اپنی کُل ادائیگی گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ ادا کر دیا کرتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ سب سے پہلے میری رسید کٹے۔

خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض مواقع پر انہیں سچی خوابیں بھی دکھائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات سے ایک دن قبل آپ نے خواب میں دیکھا کہ چاند ڈوب گیا ہے اور اگلے روز حضورؒ کی وفات ہو گئی۔ اسی طرح جب آپ کالج میں پڑھتی تھیں تو آپ نے بی اے کے رزلٹ سے ایک دن قبل دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ امۃ الرافع پاس ہو گئی ہے۔ چنانچہ اگلے روز جب نتیجہ نکلنا تھا اور آپ کالج گئیں تو بعینہٖ انہی الفاظ میں کسی نے آپ کو مخاطب کر کے بتایاکہ امۃ الرافع پاس ہو گئی ہے۔ ان کی تعلیم ایم اے بی ایڈ تھی۔ انہوں نے 1988ء سے 2017ء تک بطور ٹیچر مختلف گورنمنٹ اسکولز میں خدمت کی توفیق پائی۔ آخر ی پندرہ سال گورنمنٹ فضل عمر ہائی اسکول ربوہ میں خدمت کی اور فضل عمر اسکول سے ہی ریٹائر ہوئیں۔ وفات کے موقع پر فضل عمر اسکول کی ٹیچرز اور اسٹاف نے آپ کی بہت سی خوبیاں بیان کیں اور آپ کی خدمات کو سراہا۔ اسکول کی طالبات کی آپ پسندیدہ ٹیچر تھیں۔

مرحومہ ایک غریب پروراور صلہ رحمی کا وصف رکھنے والی خاتون تھیں۔ اپنے سسرال کے احمدی و غیراحمدی رشتہ داروں سے بہت عزت و احترام کا تعلق تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اورآبائی خاندان کے متمول ہونے کے باوجود کسی قسم کا تفاخر نہ تھا۔طبعیت میں سادگی و عاجزی تھی۔جب کبھی سسرالی گاؤ ں جانا ہوتا تو ہر بچے کے لیے علیحدہ علیحدہ چیزیں بطور تحفہ لے کر جاتیں اورایک ایک بچہ کا نام لے کر اُسے بلا کے تحفہ دیتیں۔ تمام رشتہ داروں میں اُن کا قدر و احترام تھا۔آپ ہر رشتہ میں مثالی خاتون تھیں، بہت اچھی بیوی، بہترین ماں، بہت پیاری بہو، بہت پیار اور احترام کرنے والی بھابھی اور بہت خیال رکھنے والی نند تھیں۔

ایک واقفِ زندگی کی بیوی کو جس طرح ہونا چاہیے،اس حوالہ سے بھی آپ ایک مثالی بیوی تھیں اور اپنے آپ کو عملاً وقف کر دیا تھا۔اگر کوئی آپ سے بیرونِ ملک منتقل ہونے کا ذکر کرتا تواسے کہتیں کہ میرے خاوند واقفِ زندگی ہیں۔ جہاں وہ رہیں گے میں وہیں رہوں گی۔ میرے کاموں کی انہیں بہت فکر ہوا کرتی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ دعائیں کرتیں اور پوچھتی رہتی تھیں۔ اُن کی نیک عادات، بے لوث خدمت، اخلاص اور گھریلو زندگی کو احسن طریق پر چلانے کے نتیجہ میں انہوں نے اپنے گھر کو جنت بنا یا۔ مجھے اور میرے خاندان کو انہوں نے بہت عزت دی۔میری بہنیں اور بعض دیگر خواتین کہا کرتیں کہ آپ کے گھر میں جو سکون ملتا اور پر سکون نیند آتی ہے اور کہیں نہیں آتی۔

آپ نے اپنے بچوں کی نہایت عمدہ تربیت کی۔ چاروں بچے بفضل للہ تعالیٰ پنجگانہ نماز کے عادی، خلافت سے محبت اور نظامِ جماعت کی اطاعت کرنے والے اور خدمتِ دین کو سعادت سمجھنے والے ہیں۔ بیٹا توصیف احمد بیان کرتا ہے کہ امی جب بھی فون پر بات کرتیں تو نماز اور تلاوت کا ضرور پوچھا کرتیں اور باآوازِ بلند تلاوت کی تلقین کیاکرتیں۔ آپ نے اپنے چاروں بچوں کو قرآنِ کریم خود پڑھایا۔

ان کی چھوٹی بہن مکرمہ امۃ الہادی بیان کرتی ہیں کہ گورنمنٹ سروس ہونے کی وجہ سے انہیں لجنہ اماء اللہ میں خدمت کا زیادہ موقع تو نہ ملا مگر گورنمنٹ سروس سے پہلے کچھ عرصہ مرکز میں ناصرات کے شعبہ میں خدمت کرنے کی توفیق ملی۔نیزلجنہ کے اجلاسات اور پروگراموں میں آپ بڑی باقاعدگی سے شامل ہوا کرتی تھیں۔ مرکز کی ہدایت کے مطابق آپ گھر میں فیملی کلاس کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جانب سے کتب حضرت مسیحِ موعودؑ میں سے جو کتاب مقرر ہوتی نہ صرف اُس کا باقاعدگی سے مطالعہ کیا کرتیں بلکہ مشکل الفاظ اور عبارات کو خاکسار سے حل بھی کرواتیں۔

آپ کی طبعیت میں ہمسایوں سے حسنِ سلوک نمایاں تھا۔اکثر و بیشتر جب بھی گھر میں کوئی اچھی چیز تیار ہوتی تو ہمسایوں کو ضرور بھجواتی تھیں۔مہمان نوازی کا خلق بھی نمایاں تھا۔مرکز میں گھر ہونے کی وجہ سےاکثر خاندان کے احباب ہمارے گھر آتے توخندہ پیشانی سے مہمان نوازی کرتیں۔مختلف مواقع پر آپ نے بیس سے تیس افراد کا کھاناخود اپنے ہاتھ سے تیار کر کے مہمانوں کی ضیافت کی۔

آپ پردے کا نہایت پابندی سے اہتمام کیاکرتی تھیں۔آپ ایک سلیقہ شعار، نفیس،شائستہ اور گھر کے جملہ امور کو بطریقِ احسن ادا کرنے والی، ہر قسم کی ریاکاری سے پاک، رکھ رکھاؤ اور خاندانی روایات کا بہت خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔سادہ اس قدر تھیں کہ توفیق ہونے کے باوجود کبھی موبائل فون نہیں رکھا۔

آپ کو حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ نے بطور تبرک جائے نماز دیا تھا جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو اپنا مستعمل کپڑ ابطور تبرک تحفتاً بھجوایا۔ 2010ء میں جب آپ کا بائی پاس آپریشن ہوا تو حضور انور نے مکرم محمد اسلم منگلا مرحوم پرائیویٹ سیکرٹری کو بھجوا کر تیمارداری کی۔ بیٹا تاثیر احمد بیان کرتا ہے کہ امی کو قادیان جانے کا متعدد بار موقع ملا۔ مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، بیت الدعا و دیگر مقامات مقدسہ پر بڑے ذوق و شوق سے جاتیں اور عبادات اور دعاؤں کا بہت موقع ملا۔ آپ ایک دعا گو خاتون تھیں جس نے بھی کبھی دعا کیلئے کہا اکثر ان کے نام لے کر ان کے لیے دعا کیا کرتی تھیں۔

آپ نے قریباً 6ماہ کا عرصہ بیماری کی حالت میں گزارا اور اپنی تکلیف دہ بیماری کو بڑے صبر و حوصلہ سے برداشت کیا۔ آپ 22؍ستمبر 2022ء کو دوپہر پونے بارہ بجے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں اپنے خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ خداتعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ (نصیرآباد) میں ہوئی۔ آپ کے پسماندگان میں خاوند، چار بیٹے، چار بھائی اور ایک بہن شامل ہیں۔

آپ کی نماز جنازہ غائب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی نے مؤرخہ 17؍نومبر 2022ء کو مسجد مبارک ٹلفورڈ، اسلام آباد یو کے میں پڑھائی۔

آپ کی وفات پر تعزیت کرنے والے احباب اورعزیز و اقارب آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کی دعائیں اور خوبیاں آپ کے بچوں کو نصیب ہوتی رہیں۔ آمین

(شبیر احمد ثاقب)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی