• 3 مئی, 2024

فقہی کارنر

رہن رکھی ہوئی چیزسے فائدہ اُ ٹھانا جائز ہے

رہن کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے خدمت میں سوال ہوا۔ آپؑ نے فرمایا:
موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گزشتہ زمانہ میں قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکام زمیندار وں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جاتا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکام وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طرح یہ رہن بھی جائز رہا کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو دونوں صورتوں میں مر تہن نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے۔ پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے۔ آج کل گورنمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہو تا ہے تو ایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے۔

جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مرتہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا۔

پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا:۔
زیور ہو کچھ ہو جب انتفاع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں۔ اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس کی زکوٰة بھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوٰة بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰة ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے۔ پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوٰة دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔

(الحکم 24 اپریل 1903ء صفحہ11)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

باپ کی دعا بیٹے کے واسطے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2022