• 16 مئی, 2024

برِّاعظم آسٹریلیا کی پہلی احمدیہ مسجد

برِّاعظم آسٹریلیا کی پہلی احمدیہ مسجد
مسجد بیت الہدیٰ (سڈنی)

مساجدکی تعمیر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہٴ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ93 جدید ایڈیشن)

جماعت آسٹریلیا کی تاریخ اور ترقی میں مسجد بیت الہدیٰ، سڈنی کی یہی کلیدی حیثیت ہے کیونکہ مسجد کی بنیاد رکھتے ہی جماعت کی تمام تر توجہ اس کی تعمیر اور اس کو آباد کرنے کی طرف مرکوز ہو گئی۔ احمدیت کی دوسری صدی کے آغاز پر دنیا کے ایک دور دراز برِّ اعظم میں بننے والی یہ مسجد، جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا ایک نشان ہے۔

مسجد بیت الہدیٰ کی پر شکوہ عمارت گزشتہ چار دہائیوں سے عوام و خواص کی کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کی قانون ساز اسمبلی کےممبر The Hon. David Clarke نے ایک دفعہ خطاب کرتے ہوئے مسجد بیت الہدیٰ کو ’’Landmark of Western Sydney‘‘ کا خطاب دیا۔ ہزاروں لوگ ہر روز اس مسجد کے پاس سے گزرتے اور مسجد کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمہ طیبہ ’’لا اله الا اللّٰہ مُحَمَّد رسول اللّٰہ‘‘ اور خلافت ہال پر لکھے جماعت کے لوگو ’’Love for All, Hatred for None‘‘ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو صرف عمارت دیکھ کر مسجد آتے ہیں اور اس طرح یہ مسجد نہ صرف تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہے بلکہ قرب و جوار میں محبت، امن اور سلامتی کی علامت کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔

آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کا باقاعدہ آغاز

آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کا نیا دور خلافت ثالثہ کے آغاز سے ہی شروع ہوتا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح اثالثؒ نے 1965ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جن سات ممالک میں خصوصیت کے ساتھ نئی جماعتیں قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اس میں آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔

(ماخوذ سلسلہ احمدیہ جلد نمبر3 صفحہ30)

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے خلیفة کی اس خواہش کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرما دیے اور 1960ء کی دہائی کے آواخر میں اور 1970ء میں کئی احمدی فجی، پاکستان اور کینیا وغیرہ سے ہجرت کر کے آسٹریلیا آباد ہوئے اور با لآخر 1979ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ آسٹریلیا میں جماعت کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔

نظام جماعت کے قیام کے بعد جماعتی اجلاسات باقاعدگی سے ہونے لگے اسی طرح جماعتی تربیتی اور تبلیغی پروگرامز بھی منعقد کیے جانے لگے اس وقت اجلاسات عموماً احباب جماعت کے گھروں میں منعقد ہوتے تھے اور افراد جماعت سے رابطے کا ایک ذریعہ وہ سرکلر یا نیوز لیٹر تھا جو جماعت آسٹریلیا کے پہلے صدر مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب مرحوم، احباب جماعت کو ہر ماہ باقاعدگی سے بھجواتے تھے اس میں گزشتہ میٹنگ کی مختصر رپورٹ، آئندہ میٹنگ کا وقت اور جگہ اور اسی طرح اگر کسی نئے احمدی سے رابطہ ہوتا تو اس کا بھی ذکر ہوتا تھا۔چنانچہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے تحت ایک نیشنل ہیڈ کوارٹرجو مسجد، لائبریری، دفاتر اور مبلغ کی رہائش پرمشتمل ہو، کا منصوبہ زیر غور آیا۔

احمدیت مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اپنے مضمون مطبوعہ الفضل 29 ستمبر 1983ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اس بابرکت دور کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی طرف سے سڈنی میں احمدیہ مسجد کی تعمیرکی حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں درخواست پہنچی جسے حضورؒ نے ازراہ شفقت شرف قبولیت بخشا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب صدر جماعت احمدیہ آسٹریلیا نے مخلص جماعت سے مشورہ کے بعد 5 جنوری 1981ء کو سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت اقدس میں تحریری درخواست ارسال کی کہ سڈنی جنوب مشرقی دنیا میں بہت اہم شہر اور سیاسی اور تمدنی اور اقتصادی مرکز ہے اور آسٹریلیا کی قریباً ایک چوتھائی آبادی یہاں آباد ہے اور یہ شہر بہت پھیل رہا ہے شہر کے مرکز میں باموقع پلاٹ موزو ں قیمتوں میں فروخت ہورہے ہیں ہمیں اجازت دی جائے کہ آسٹریلیا کے مخلص احمدیوں سے زمین کی خرید کے لیے چندہ جمع کیا جا سکے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد 15 اگست 1981ء کو مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ نے یہ درخواست سفارش کے ساتھ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے حضور پیش کی جس پر حضورؒ نے اپنے دست مبارک سے ’’منظور ہے‘‘ کے الفاظ رقم فرمائے۔ اس منظوری کے بعد جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی طرف سے زمین کے خریدنے اور تعمیرکے لیے قرض کی درخواست کی گئی۔ اسی دوران میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا وصال مبارک ہو گیا اور 10 جون 1982ءکو خلافت رابعہ کا تاریخ ساز عہد شروع ہوا اوربرّاعظم آسٹریلیا کی اسلامی و روحانی تاریخ کے ایک نئے باب کا ورق اُلٹنے کا وقت قریب آگیا۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ مسجد قرطبہ کے شاندار افتتاح کے بعد مرکز احمدیت تشریف لائے تو حضورکی خدمت میں 14نومبر 1982ء کو جناب ڈاکٹر اعجازالحق صاحب صدر جماعت احمدیہ آسٹریلیا نے جماعت آسٹریلیا کے کوائف ارسال کیے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم یہاں 28 مرد 13مستورات اور 24 بچے یعنی کل 75 احمدی سڈنی، میلبورن اور ایڈیلیڈ میں رہائش رکھتے ہیں اور یہ تینوں شہر قریباً ایک ایک ہزار کلو میڑکے فاصلہ پر ہیں سب سے زیادہ احمدی سڈنی میں ہیں۔ ان میں سے پندرہ سولہ افراد فجی سے ہیں۔ جماعت نے ایک پریس بھی خریدا ہوا ہے جس پر ہر مہینہ ایک سرکلر چھاپا جاتا ہے ہماری جماعت تین سال سے قائم ہے اس عرصہ میں وصیت، چندہ عام، تحریک جدید، جوبلی فنڈوغیرہ جتنی رقوم ہوتی ہیں اُن کو جمع کررہے ہیں قریباً بیس ہزار ڈالر جمع ہو چکے ہیں اس تفصیل کے بعد عرض کی کہ ہم نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ اگر ہمیں مرکز کچھ رقم بطور قرض دے دے تو ہم زمین کی رقم نقد ادا کر دیں گے اور پھر مرکز کو قسط وار ادا کر دیں گے۔‘‘

مولانا دوست محمد شاہد صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے تحریک جدید کو ارشاد فرمایا کہ آسٹریلیا کی طرف توجہ دیں۔ وہاں مبلغ کے لیے بھی فوراً کوشش ہونی چاہیے اسے نظر انداز کیے کافی دیر ہو چکی ہے ایسی متفرق جماعتیں جہاں مقامی مشن نہیں بن سکتے، اُن کے ذمہ آسٹریلیا مشن کا کام ڈالا جا سکتا ہے۔ حضور کی اس تحریک خاص پر مخلصین جماعت نے ایسے والہانہ انداز میں لبیک کہا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے حضور نے مزید ہدایت یہ جاری فرمائی کہ ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب آسٹریلیا کے متعلق ابتدائی جائزہ لیں اور جلد از جلد وہاں کے مشن کے قیام کا منصوبہ مکمل ہونا چاہیے۔ زمین بیس پچیس ایکڑ سے کم نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیفة برحق کی اس خواہش کو چند مہینوں کے اندراندر پورا کرنے کے لیے سامان کردیے اور سڈنی سے تقریباً پچاس میل کے فاصلے پر مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے ستائیس ایکٹر سے کچھ زائد رقبہ قریباً ڈیڑھ لاکھ ڈالر پر خرید لیا گیا۔‘‘

(الفضل 29ستمبر 1983ء)

حضورؒ کی خواہش کے مطابق مطلوبہ زمین دیکھنے کے لیے آسٹریلیا میں مکرم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب، مکرم عبدالغفار خان صاحب اور مکرم بشیر احمد صاحب نے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا بالآخر مکرم عبدالغفار خان صاحب نے موجودہ جگہ تلاش کی جو کہ 27 ایکڑ سے کچھ زیادہ رقبہ پر مشتمل ہے اس میں 25 ایکڑ کا ایک سکوئر بلاک شامل ہے جبکہ باقی تین ایکڑ کے قریب رقبہ اُس سڑک پر مشتمل ہے جو اس بلاک کو باقاعدہ روڈ Hollinsworth Road سے ملاتی ہے۔ یہ علاقہ Marsden Park کہلاتا ہے جو کہ Blacktown کو نسل میں ہے اور قریب ترین ریلوے سٹیشن Riverstone ہے جبکہ جگہ کا مکمل ایڈریس مندرجہ ذیل ہے:

45 Hollinsworth Road
MARSDEN PARK NSW 2765

اس ابتدائی مرحلہ کی تکمیل ہو چکی تو دعاؤں کے بعد حضورؒ نے براعظم آسٹریلیا کی اس پہلی تاریخی احمدیہ مسلم مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے 30 ستمبر 1983ء کی تاریخ تجویز فرمائی اور براعظم آسٹریلیا کو یہ اعزاز عطا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ حضورؒ بنفس نفیس مشرق بعید کا سفر اختیار فرمائیں گے اور اس تاریخی مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھیں گے۔ اس دورے پر روانگی سے چندروز قبل 2 ستمبر 1983ء کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مسجد احمدیہ ناصر آباد سندھ میں ایک یاد گار خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دنیا بھر کے احمدیوں کو اس تقریب کی کامیابی کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی، آپ نے فرمایا:
’’ابھی چند دن تک اِنْ شَاءَ اﷲ تعالیٰ ہم مشرق کے دورہ پر پاکستان سے روانہ ہونگے اور اس دورہ میں براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھنے کا سب سے اہم فرض ادا کرنا ہے یہ مسجد کی بنیاد بھی ہو گی اور مشن ہاؤ س کی بنیاد بھی ہو گی یعنی اس مسجد کے ساتھ ایک بہت ہی عمدہ مشن ہاؤس کی عمارت بھی تعمیر ہو گی جہاں مبلغ اپنے ہر قسم کے فرائض پورے کر سکے گا اس لحاظ سے یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم مسجد ہے کہ ایک نئے براعظم میں ہمیں اس کی بنیاد رکھنے کی توفیق مل رہی ہے اس سے قبل براعظم آسٹریلیا خالی پڑا تھا اور جماعت یہ تو کہہ سکتی تھی کہ دنیا کے ہر براعظم میں ہم نے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا پیغام پہنچایا ہے لیکن براعظم آسڑیلیا میں اگر پیغام پہنچا تو اتفاقاً انفرادی کوشش سے پہنچا جماعت کی طرف سے کوئی باقاعدہ مشن نہیں بنایا گیااور کوئی مسجد نہیں بنائی گئی تھی مسجد کے لیے جو زمین لی گئی وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت باموقع اور کافی بڑا رقبہ ہے 27 ایکڑ میں تو ماشاء اﷲ ہمارا جلسہ سالانہ ہو سکتا ہے اس لیے ہم بڑ ی امید لے کر اتنا بڑا رقبہ لے رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ جلد اس کو بھر بھی دے اور چھوٹا بھی کر دے اور یوں ہماری توقعات ناکام ہو جائیں اور اﷲ تعالیٰ کے فضل اس سے بہت آگے نکل جائیں۔ ان دعاؤں کے ساتھ اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ اِنْ شَاءَ اﷲ‘‘

(الفضل 8ستمبر 1983ء صفحہ1-2 بحوالہ الفضل 29ستمبر 1983ء صفحہ6-7)

مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ہمارے محبوب امام ربوہ سے 22 اگست 1983ء کو روانہ ہوئے اور چند روز کراچی و سندھ میں رونق افروز رہنے کے بعد 8 ستمبر کو سنگاپور تشریف لے گئے اور پھر فجی کو اپنے مبارک قدموں سے برکت دینے اور علمی اور دینی اور تربیتی برکات سے مالا مال کرنے کے بعد 30 ستمبر کو آسٹریلیاکی اس پہلی احمدیہ مسلم مسجد اور مشن ہاؤس کی بنیادی اینٹ اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھ رہے ہیں یہ مہتم بالشان تقریب پورے عالم اسلام کے لیے جشن عید سے کم نہیں، کیونکہ سڈنی ہی وہ شہر ہے جہاں سے لنڈن اور دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے پادری اور مناد آسٹریلیا کے دوسرے علاقوں میں پھیلائے گئے تھے اور اب خدا نے ایسا انقلاب رونما کرنے کا سامان پیدا کر دیا ہے کہ عنقریب اسی شہر کی مسجد کے مینار سے اشہدان لا الہ الا اللّٰہ اور اشھدان محمد عبدہٗ ورسوله کی پر شوکت آواز بلند ہو گی اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب براعظم آسٹریلیا کے تمام بسنے والوں کے قلوب و اذہان قرآن، دعا اور اخلاق کے روحانی ہتھیاروں سے فتح کر لیے جائیں گے اور اس کے گوشے گوشے پر خدا اور محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ و سلم کی آسمانی حکومت قائم ہو جائیگی۔ وما ذالک علی اللّٰہ بعزیز‘‘

(الفضل 29ستمبر 1983ء صفحہ6)

مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کا سنگِ بنیاد

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 25 ستمبر 1983ء کو سڈنی تشریف لائے۔ 29 ستمبر کو حضورؒ نے مسجد کی جگہ کا معائنہ کیا۔ جمعة المبارک 30 ستمبر 1983ء کو حضورؒ نے پر سوز دعاؤں کے ساتھ مسجد بیت الہدیٰ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس روز اپنے خطبہ جمعہ کے آغاز میں حضورؒ نے فرمایا:
’’آج کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور آسٹریلیا کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا دن ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے آج ان شاء اللّٰہ تعالیٰ یہاں پہلی احمدیہ مسجد اور احمدیہ مشن ہاؤس کی بنیاد رکھیں گے۔‘‘

اپنے خطاب میں حضورؒ نے خصوصیت کے ساتھ آسٹریلیا کے احمدیوں کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور اس معاشرہ کی دہریت اور مادہ پرستی سے بچنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ خطبہ کے اختتام پر احباب جماعت کو دعاؤں اور مسجد کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا:
’’تم خدا کے ہو کر رہو، اللہ سے پیار کرو اور اس بات کی حفاظت کرو کہ خدا تمہیں کبھی کسی اور کی غلامی میں نہ جانے دے۔ تم سب دعائیں کرو کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں دعاؤں سے ملتی ہیں۔ اب تمہیں بہت کثرت سے دعائیں کرنی پڑیں گی۔ آج میں نے بھی بہت دعا کی ہے خاص طور پر آپ سب کے لیے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو جس کا آج سنگِ بنیاد رکھا جانے والا ہے ایسے لوگوں سے آباد کرے جو مسجد کی آبادی کا حق رکھتے ہیں، جن کو مسجدیں آباد کرنا آتا ہے، جن پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے اور دن بدن یہ آبادی بڑھتی رہے اور جلد وہ وقت آئے جب یہ مسجد آپ کو چھوٹی نظر آنے لگے۔ پھر یہ فکر پیدا ہو کہ اس مسجد کو کس طرح بڑھانا ہے۔ اس لیے اب اس مسجد کے سنگِ بنیاد رکھنے کے وقت سے آپ سب کی ذمہ داری غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔ اب آپ ہی یہاں خدا کے نمائندہ ہیں۔ آپ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور عبادت کو قائم رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘

(روزنامہ الفضل 22،نومبر 1983ء بحوالہ خطباتِ طاہر جلد دوم)

جس جگہ حضورؒ نے سنگِ بنیاد رکھا وہاں اب مسجد کا محراب ہے۔ صحابی حضرت مسیح موعودؑ ، حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ (سبز پگڑی والے) بھی مسجد بیت الہدیٰ کے سنگِ بنیاد کی اس تقریب میں شمولیت کے لیے پاکستان سے تشریف لائے۔ اُسی روز حضورؒ نے حاضرین سے ایک نہایت پر معارف خطاب فرمایا جو The Spiritual Discovery of Australia کے نام سے چھپ چکا ہے۔

پریس اور میڈیا میں مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کے سنگِ بنیاد کی خبر

دنیا کے کئی ممالک کے ذرائع ابلاغ (اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن) نے مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کے سنگِ بنیاد کی خبر کو شائع کیا جن میں آسٹریلیا کے علاوہ غانا، ابو ظہبی، گیمبیا، کینیڈا، انڈونیشیا، فجی، سپین، ہالینڈ، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور انڈیا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان میں نوائے وقت، جنگ اور حیدر نے بھی مختصر خبر شائع کی۔

(ماخوذ روزنامہ الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1983ء صفحہ19)

آسٹریلیا میں Blacktown Advocate Sydney Morning Herald, The Australian, The Western District, اور Guardian نے حضورؒ کے دورہ اور مسجد کے سنگِ بنیاد کی خبریں شائع کیں۔

مسجد بیت الہدیٰ کی تعمیر (1985ء – 1989ء)

جماعت آسٹریلیا کے پہلے امیر و مشینری انچارج مکرم شکیل احمد منیر صاحب 1985ء کے وسط میں آسٹریلیا تشریف لائے۔ آپ کی زیرِ نگرانی مسجد کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مسجد کی تعمیر کے مختلف مراحل پر زرّیں ہدایات سے نوازا۔

جماعت کے پاس اس وقت محدود وسائل تھے چنانچہ تعمیر کا ایک بڑا کام وقارِ عمل کے ذریعہ کیا گیا۔ تمام احبابِ جماعت کو، جن میں لجنہ اور بچے بھی شامل ہوتے تھے، اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی توفیق ملی۔ لجنہ اماء اللہ کو خصوصیت کے ساتھ مسجد کا گنبد بنانے کے کام میں خدمت کی توفیق ملی۔ احبابِ جماعت کو جب موقع ملتا وہ اپنے آپ کو مسجد کے وقارِ عمل کے لیے پیش کر دیتے۔ لجنہ گھر سے کھانا بنا کر لاتیں اور سارا دن مسجد میں وقارِ عمل کیا جاتا اور کلوا جمیعاً بھی ہوتا۔ ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مسجد کا افتتاح کرنے کے لیے تشریف لائے تو ایک روز انہوں نے مسجد میں ایک بچے کو پاس بلایا اور اس کے ہاتھوں پر چھالے دیکھ کر پوچھا کہ اسے کیا بیماری ہے تو محترم شکیل احمد منیر صاحب نے بتایا کہ یہ بچہ اپنے بھائیوں کے ساتھ وقارِ عمل کرتا ہےچونکہ اینٹ بھاری ہے لہذا اسے کہا گیا کہ تم چھوٹے پتھر اور آدھی اینٹ اکٹھی کرو جس کے نتیجہ میں اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ یہ سننے پر حضورؒ نے اس بچے کو گود میں اٹھایا اور پیار کرتے ہوئے مسجد کے دروازہ تک لے کر آئے۔

مسجد کی تعمیر میں ایک غیر از جماعت آرکیٹیکٹ مسٹر ونسنٹ بریڈ نے غیر معمولی کام کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آسٹریلیا میں مساجد جیسی عمارات بہت کم تھیں اور ان کے پاس اس کام کا تجربہ بھی نہیں تھا چنانچہ انہوں نے مختلف شہروں کا دورہ صرف اس نیت سے کیا کہ مسجد کا گنبد اور مینار کیسے تعمیر کیا جائے۔ بالآخر تعمیر اور کونسل سے منظوری کے بعد 1989ء میں جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی پہلی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

مسجد بیت الہدیٰ کے ساتھ مینارۃ المسیح کی طرز پر مینار کی تعمیر

مسجد بیت الہدیٰ کی خوبصورت عمارت کے ساتھ مینارۃ المسیح کی طرز پر مینار تعمیر کیا گیا ہے جس کے اخراجات مکرم شمس الدین صاحب مرحوم اور ان کی فیملی نے ادا کیے جس کا تخمینہ اُس وقت تقریباً ایک لاکھ ڈالرز لگا یا گیا تھا۔ اس مینارہ کی بلند ی سو (100) فٹ رکھی گئی تھی جس میں ہر ایک فٹ، احمدیت کی پہلی صدی کے ہر ایک سال کی نمائندگی کرتا ہے۔

حال ہی میں مینارہ کے مختلف حصوں میں از سرِ نو لائٹنگ کا انتظام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی دور تک نظر آتی ہے اور بہت خوش نما دکھائی دیتی ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا دوسرا دورۂ آسٹریلیا اور مسجد بیت الہدیٰ کا افتتاح

مسجد بیت الہدیٰ آسٹریلیا کی تعمیر اور افتتاح جماعت احمدیہ عالمگیر کی صد سالہ جوبلی کی تقریبات کا حصہ تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 14 جولائی 1989ء کو مسجد بیت الہدیٰ کے افتتاح کے لیے آسٹریلیا تشریف لائے۔ اس روز جمعۃ المبارک تھا اور عید الاضحی بھی تھی۔ حضورؒ نے اپنے خطبہ عید الا ضحی میں حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کا تذکرہ کیا اور جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دلائی۔ خطبہ کے آخر میں حضورؒ نے جماعت پر اللہ تعالیٰ کے لا تعداد فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے مسجد بیت الہدیٰ کے بارہ میں فرمایا ’’اور یہ مسجد جس میں آج آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہ بھی خدا کے فضلوں کا نشان ہے۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیٰ، بیان فرموددہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 14 جولائی 1989ء خطبات عیدین صفحہ471)

بعد ازاں حضورؒ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں آپؒ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کا یہ میرے حق میں احسان ہے کہ یہ مسجد جس کی بنیاد تقریباً چھ سال پہلے میں نے رکھی تھی اب اللہ کے فضل اور احسان کے ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور اگرچہ کچھ معمولی کام باہر صحن میں بھی اور کچھ شاید عمارت میں بھی ہونے والے باقی ہیں لیکن بالعموم یہ بہت ہی خوبصورت عمارت اور بہت ہی وسیع عمارت مکمل ہو چکی ہے جب اس مسجد کے حجم سے متعلق انجینئر کے مشورے ہو رہے تھے تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آسٹریلیا میں تو جماعت کی تعداد بہت تھوڑی ہے اس لیے بہت ہی چھوٹی سی جگہ بھی ایک لمبے عرصہ کے لیے کافی ہوگی اور کوئی ضرورت نہیں کہ بے وجہ اس عمارت پر روپیہ صرف کیا جائے لیکن شروع ہی سے میرا رجحان یہ رہا ہے کہ جب بھی ہم خدا کا گھر بنائیں حتی المقدور زیادہ سے زیادہ وسیع گھر بنائیں۔۔۔جس کے پیشِ نظر میں نے اصرار کیا کہ آسٹریلیا میں جگہ بھی بڑی لی جائے اور مسجد بھی بڑی بنائی جائے۔ تو اللہ کے فضل سے یہ جگہ جس کا رقبہ اٹھائیس ایکڑ ہے یہ جماعت کی جو نظر آنے والی ضروریات ہیں میرے نزدیک تو اس کے مطابق ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں خدا وہ وقت جلد لائے گا کہ جماعت ہم لوگوں کے دیکھتے دیکھتے اتنی ترقی کرے گی کہ یہ مسجد اور یہ علاقہ ان شاء اللّٰہ جماعت کی ضروریات کے مطابق ثابت ہو گا لیکن اگر آپ سمجھیں کہ یہ مبالغہ ہے یا بہت خوابوں کی دنیا میں بسنے والی بات ہے تو آج نہیں، کل نہیں تو دس بیس سال کے اندر اندر یہ علاقہ جماعت کے لحاظ سے بارونق ہو جائیگا۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرموددہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 14 جولائی 1989ء خطبات طاہر جلد8 صفحہ477)

اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ، آج ہم حضورؒ کے ان الفاظ کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ حضورؒ نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا ’’دس بیس سال کے اندر اندر یہ علاقہ جماعت کے لحاظ سے بارونق ہو جائیگا۔‘‘ اگر ہم حضورؒ کے ان الفاظ کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے دس اور بیس کو جمع کریں تو تیس سال (2019ء) بنتے ہیں۔ اس دوران مسجد بیت الہدیٰ کے قرب و جوار کے علاقے نہ صرف احبابِ جماعت کی وجہ سے بلکہ دنیاوی طور پر بھی بہت بارونق ہو گئے ہیں۔ مسجد اور اس سے ملحق علاقہ جہاں کبھی پینے کا پانی میسر نہیں ہوتا تھا اور استعمال کے لیے بارش کا پانی جمع کرنا پڑتا تھا اب وہاں سڈنی کا سب سے بڑا بزنس پارک بن گیا ہے۔ بیسیوں احمدی خاندان مسجد سے چند کلومیٹر کے دائرے میں آباد ہیں۔ سارا سال مسجد میں پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی، نمازِ جمعہ، مختلف جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے پروگرامز کی وجہ سے رونق رہتی ہے۔ اَلْحَمْدُ للّٰہ

مسجد بیت الہدیٰ کی عمارت

مسجد کی دومنزلہ عمارت دو بڑے ہالز پر مشتمل ہے جن میں تقریباً 700 کے قریب نمازیوں کی گنجائش ہے۔ زیریں ہال سے ملحق مکرم امیر صاحب، نائب امراءاور جنرل سیکرٹری کے دفاتر ہیں جبکہ ہال کے بائیں جانب ایک چھوٹا کچن اور لائبریری ہے۔ مسجد کی بالائی منزل پر مین ہال کے علاوہ ایم۔ٹی۔اے سٹوڈیوہے جبکہ ایک دوسر ے کمرہ میں جماعت احمدیہ کے تعارف، حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دنیا میں امن کی کوششوں، جماعت آسٹریلیا کی تاریخ اور مختلف مساعی پر مشتمل ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ حصہ میٹنگ روم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔

مشن ہاؤس

مسجد بیت الہدیٰ سے ملحق مشن ہاؤس ہے جو چار کمروں کی ایک منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ یہ مشن ہاؤس اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورۂ آسٹریلیا کے دوران اس مشن ہاؤس میں قیام کیا۔اس مشن ہاؤس میں مکرم شکیل احمد منیر صاحب مرحوم (امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا 1985-1991ء) اور مکرم محمود احمد شاہد صاحب مرحوم (امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا 1991-2014ء) رہائش پذیر رہے اور اب مکرم انعام الحق کوثر صاحب (امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا 2014ء تا حال) رہائش پذیر ہیں۔

مقبرہ موصیان

مسجد بیت الہدیٰ سے ملحق مقبرہ موصیان ہے جس میں سب سے پہلے مدفون مکرم شمس الدین صاحب مرحوم ہیں جو جماعت آسٹریلیا کے پہلے نائب صدر تھے۔ آپ ان چند خوش نصیب بزرگوں میں شامل ہیں جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آسٹریلیا میں جماعت کے قیام کے لیے کوشش کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ اس مقبرہ موصیان میں چالیس کے قریب مرحومین مدفون ہیں جن میں جماعت آسٹریلیا کے پہلے صدر مکرم اعجاز الحق صاحب مرحوم، مکرم محمود احمد شاہد صاحب مرحوم (صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا)، مکرم عبد الرشید رازی صاحب مرحوم مبلغِ سلسلہ، مکرم راجہ خورشید احمد منیر صاحب مرحوم مبلغِ سلسلہ اور مکرم خالد سیف اللہ خان صاحب مرحوم (نائب امیر جماعت آسٹریلیا) وغیرہ شامل ہیں۔

حسن موسیٰ خان لائبریری

مسجد بیت الہدیٰ میں چار ہزار سے زائد کتب پر مشتمل ایک لائبریری ہے جس میں جماعتی لٹریچر کے علاوہ تفسیرِ قرآن، احادیث، فقہ اور دیگر کئی موضوعات پر کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ 2006ء میں، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیِ بنصرہ العزیز نے، اپنے دورۂ اآسٹریلیا کے دوران ازراہِ شفقت لائبریری کا دورہ کیا اور اس کا نام برِاعظم آسٹریلیا کے پہلے احمدی حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحبؓ کے نام پر ’’حسن موسیٰ خان لائبریری‘‘ رکھا۔ اس کے علاوہ جماعت کا اپنا بُک سٹور بھی ہے۔ لائبریری کے ایک حصہ میں قرآنِ کریم کی نمائش کا بھی انتظام کی گیا ہے جس میں چالیس سے زائد قرآنِ کریم کے تراجم رکھے گئے ہیں۔

صد سالہ خلافت جوبلی ہال

1990ء اور 2000ء کی دہائی میں جماعت کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا جس کے نتیجہ میں جماعتی ضروریات کے پیشِ نظر ایک الگ ہال تعمیر کرنے کا منصوبہ زیرِغور آیا۔ اس ہال کا نام 2008ء میں خلافت احمدیہ کے سو سال پورا ہونے کے حوالہ سے ’’صد سالہ خلافت جوبلی ہال‘‘ رکھا گیا۔ 2006ء میں، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیِ بنصرہ العزیز نے، اپنے دورۂ آسٹریلیا کے دوران خلافت ہال کا سنگِ بنیاد رکھا اور اپنے دوسرے دورہ ٔ آسٹریلیا 2013ء کے موقع پر اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔

’’صد سالہ خلافت جوبلی ہال‘‘ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں 700 سے زائد افراد کی نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پروفیشنل کچن بنایا گیا ہے، مہمانوں کے لیے چند گیسٹ رومز، دفاتر مجلس انصار اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا اور بعض جماعتی دفاتر بھی خلافت ہال میں موجود ہیں۔

مسرور گیسٹ ہاؤس

مسجد بیت الہدیٰ کے احاطہ میں مشن ہاؤس کے قریب ’’مسرور گیسٹ ہاؤس‘‘ کی تعمیر آئندہ کچھ عرصہ میں شروع ہو جائیگی۔ ان شاء اللّٰہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیِ بنصرہ العزیز نے 2013ء میں، اپنے دورۂ آسٹریلیا کے دوران اس گیسٹ ہاؤس کا سنگِ بنیاد رکھا لیکن منظوری کے لیے کونسل کی طرف سےبعض شرائط کی وجہ سے یہ منصوبہ زیرِ التوا رہا۔ الحمد للّٰہ! اب اس منصوبہ کے ایک حصہ کی منظوری مل گئی ہے جس میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیِ بنصرہ العزیز کی رہائش گاہ کی تعمیر بھی شامل ہے اور امید ہے، ان شاء اللّٰہ جلد اس کی تعمیر شروع ہو جائیگی۔ اس منصوبہ میں آٹھ یونٹس کی تعمیر شامل ہے جس سے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے گا۔

مسرور پرنٹنگ پریس

جلسہ سالانہ 2016ء کے موقع پر مکرم انعام الحق کوثر صاحب امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جماعت آسٹریلیا کا اپنا پرنٹنگ پریس ہو جس پر احبابِ جماعت نے لبّیک کہا اور اس مدّ میں عطیات پیش کیے۔ جس کے نتیجہ میں، الحمد للّٰہ، جماعت آسٹریلیا کو اپنا پرنٹنگ پریس بنانے کی توفیق ملی۔ یہ پریس اُس ابتدئی شیڈ کی مرمت اور تزئین کر کے بنایا گیا ہے جو مسجد کی تعمیر سے قبل مختلف جماعتی پروگرامز کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ شڈ گیسٹ رومز کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ مسرور پرنٹنگ پریس میں تین بڑی مشینیں ہیں ایک inkjet (زیادہ تعداد میں بروشرز اور پمفلٹس پرنٹ کرنے کے لیے) دوسری Laser پرنٹ مشین اور تیسری Large Format Printing کیلئے ہے جس پر بینرز اور پوسٹرز پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ جماعت آسٹریلیا کی خواہش پر حضورِ انور نے اس پریس کا نام ’’مسرور پرنٹنگ پریس‘‘ رکھنے کی منظوری عطا فرمائی۔

مسجد بیت الہدیٰ کی تزئین و گلشنِ مسرور

مکرم انعام الحق کوثر صاحب امیر و مشینری انچارج جماعت آسٹریلیا کی زیرِ نگرانی گزشتہ چند برسوں میں مسجد بیت الہدیٰ کی تزئین کا غیر معمولی کام ہوا ہے۔ مسجد کے ارد گرد مختلف انواع و اقسام کے پھول اور پودے لگائے گئے ہیں اور ایک حصہ میں خصوصیت کے ساتھ مختلف پھلدار درخت اور پھول لگائے گئے ہیں جسے ’’گلشن مسرور‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مسجد کے ارد گرد فٹ پاتھ کو چوڑا کیا گیا ہے۔ مسجد کے ایک طرف فٹ بال گراؤنڈ اور دوسری طرف کرکٹ گراؤنڈ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح خلافت ہال میں بیڈ منٹن کورٹ اور ٹیبل ٹینس وغیرہ کی سہولت بھی میسر کی گئی ہے جبکہ باسکٹ بال کورٹ کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ سٹوریج کے شیڈ کو وسعت دی گئی ہے۔ لائبریری کو از سرِ نو منظم کیا گیا ہے۔ مسجد کے بالائی حصہ میں میٹنگ و نمائش کے کمرہ کے علاوہ دفاتر اور کچن تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ خلافت ہال کے بالائی حصہ کی تعمیرِ نو کے نتیجہ میں مجلس انصار اللہ کے آفس کو وسعت دی گئی ہے اور دیگر جماعتی دفاتر اور کچن بھی بنایا گیا ہے۔ مقبرہ موصیان کی خوش نمائی کے لیے اس کے گرد باڑ لگائی گئی ہے، فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں اور پودے اور پھول لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے داخلی گیٹ کے ساتھ ایک باغیچہ لگایا گیا ہے اور راستہ بھر میں سَرو کے درخت لگائے گئے ہیں۔

مسجد بیت الہدیٰ میں منعقد ہونے والے چند پروگرامز کا تذکرہ

جماعتی تعلیمی و تربیتی پروگرامز، میٹنگز، جلسہ سالانہ، اجتماعات مجالس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کے علاوہ مسجد بیت الہدیٰ میں باقاعدگی کے ساتھ آسٹریلیا ڈے، کلین۔اپ آسٹریلیا، ریڈ کراس، شجرکاری، بلڈ دونیشن، پیس سمپوزیم، انٹر فیتھ و دیگر پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن میں مختلف طبقہ ہائے فکر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کرتے ہیں اور خدمتِ انسانیت اور معاشرے میں امن کے قیام کے لیے جماعت کی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے وفود مسجد میں آتے اور اسلام کے بارہ میں سیکھتے ہیں۔ گزشتہ برس کوِڈ کے دوران مسجد بیت الہدیٰ کے گراؤنڈ پر ویکسینیشن سنٹر قائم کیا گیا جو ایک سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا۔ کرونا کے دوران مسجد میں کھانا پکا کر ہیومینٹی فرسٹ کے تحت لوکل پولیس اور کونسل کے تعاون سے ضرورت مندوں تک پہنچایا گیا۔ اسی طرح سڈنی میں سیلاب کے دوران مسجد بیت الہدیٰ کے ہال کو بطور Evacuation Centre استعمال کرنے کی بھی پیشکش کی گئی۔ لوکل کمیونٹی، کونسل اور گورنمنٹ کے مختلف ادارے جماعت احمدیہ کے ان اقدام کوبے حد سراہتے اور ذکر کرتے ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے وفود سپورٹس اور دیگر پروگرامز کے لیے بھی مسجد میں تشریف لاتے رہتے ہیں۔

جماعت احمدیہ آسٹر یلیا اور مسجد بیت الہدیٰ امن، بھائی چارے اور سلامتی کی علمبردار
(غیر ازجماعت مہمانوں کے تاثرات)

2019ء میں مسجد بیت الہدیٰ کی تعمیر کے تیس سال مکمل ہونے پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ممبرز آف پارلیمنٹ، کمیونٹی لیڈرز اور ایک بڑی تعداد میں غیر از جماعت مہمانوں نے شرکت کی اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے بلیک ٹاؤن کے مئیر Mr. Tony Bleasdale نے کہا ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی نے بلیک ٹاؤن سٹی کی سماجی ترقی اور مذہبی ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کے لوگ ہر سال شجرکاری، خون کے عطیات، ریڈ کراس چندہ مہم اور کلین اپ آسٹریلیا جیسے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو قابلِ ستائش اور قابلِ تحسین عمل ہے۔‘‘

آسٹریلیا کے سب سے لمبا عرصہ وفاقی پارلیمنٹ میں خدمت کرنےوالے سابق امیگریشن منسٹر و اٹارنی جنرل (Hon. Phillip Ruddock (MP) نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’آپ کی جماعت اپنوں سے زیادہ غیروں کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے آسٹریلیا کے لوگوں کی مشکلات مثلاً سیلاب، بُش فائرز اور دیگر آفات میں مالی قربانی میں پیش پیش ہوتی ہے۔ مجھے آپ کے آسٹریلین ہونے پر انتہائی فخر ہے۔ جماعت احمدیہ آسٹریلیا کی رنگا رنگ ثقافت میں ضم ہونے کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔‘‘

ایک اوروفاقی ممبر آف پارلیمنٹ Hon. Michelle Rowland نے اپنے خطاب میں کہا ’’گزشتہ تین دہائیوں سے جماعت احمدیہ آسٹریلیا کے بارہ میں ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ وہ اپنی مسجد کی تعمیر کے مقاصد، یعنی ہر ایک کی مہمانوازی، مذہبی ہم آہنگی اور وطن کے ساتھ محبت،میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے مسلسل آ گے بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کی چند مثالیں کلین اپ آسٹریلیا، ریڈ کراس، عطیاتِ خون اور فلاحی کاموں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا وغیرہ ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آسٹریلیا زندہ باد تو ہم ساتھ یہ نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ احمدیت زندہ باد۔‘‘

ایک ممبر پارلیمنٹ Hon. Mr Kevin Conolly MP نے نیو ساؤتھ ویلز کی پارلیمنٹ میں 22 جون 2016ء کو مسجد بیت الہدیٰ میں منعقد ہونے والے پیس سمپوزیم کے حوالہ سے تقریر کرتے ہوئے کہا:

‘‘One of the mottoes of the Australian Ahmadiyya Muslim Association is ‘‘Love for all; hatred for none’’. They reinforce that at every opportunity. A significant motto of theirs is ‘‘Love of one’s country is part of faith’’. The Ahmadiyya teach that, wherever they find themselves around the world, they should be good, loyal citizens of the country that has given them a home. They have been active participants in our community in a number of ways. They win prizes year after year for their involvement in Clean Up Australia Day. They have raised funds for bushfire victims in the Blue Mountains and people affected by floods in Brisbane. They also support people overseas who have been affected by calamity. The Ahmadiyya certainly contribute for the good of their local communities and the community more broadly.’’

(https://www.parliament.nsw.gov.au/Hansard/Pages/HansardResult.aspx#/docid/HANSARD-1323879322-90715)

اسی طرح میڈیا میں بھی مسجد بیت الہدیٰ میں ہونے والے پروگرامز کے بارہ میں باقاعدگی کے ساتھ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں جماعت کی امن، بھائی چارے اور خدمتِ انسانیت کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے۔

مسجد بیت الہدیٰ، جماعت آسٹریلیا کی مرکزی مسجد ہے جو نیشنل ہیڈ کوارٹر کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ مسجد، جماعت آسٹریلیا پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی پہلی چھینٹ ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، فضل اور برکات اس تواتر سے نازل ہوئے، جن کا شمار ممکن نہیں۔ اس مسجد کے قیام کے بعد، اب آسٹریلیا کے دیگرشہروں میلبورن، برسبن، ایڈیلیڈ اور پرتھ میں بھی جماعتی مساجد بن چکی ہیں جبکہ آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں مسجد بنانے کی منظوری مل چکی ہے اور جلد ہی ان شاء اللّٰہ اس پر بھی کام شروع ہو جائیگا۔

خاکسار، اپنے مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیِ بنصرہ العزیز کے مندرجہ ذیل الفاظ پر ختم کرتا ہے جو حضورِ انور نے 2013ء میں، اپنے دورۂ آسٹریلیا کے دوران مسجد بیت المسرور (برسبن) کے افتتاح کے موقع پر دورانِ خطبہ جمعہ ارشاد فرمائے، آپ نے فرمایا:
’’اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس مسجد کے بننے سے یہاں رہنے والے احمدیوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ انہوں نے اس مسجد کو آباد بھی کرنا ہے اور اس مسجد میں اس زینت کو لے کر آنا ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں زینت ہے۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی اور ایک دوسرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی اور علاقے میں حقیقی اسلام کا پیغام بھی پہنچانا ہے۔ یہ بھی ذمہ داری ہے آپ کی۔ اگر یہ حق ادا کرتے رہیں گے تو امید ہے آپ کی مسجد کی تعمیر کے لئے کی گئی مالی قربانیاں اور وقت کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں یقینا مقبول ہوں گی اور اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر کے نظارے آپ دیکھنے والے ہوں گے۔ پس اس سوچ کے ساتھ اس مسجد میں آئیں اور اُسے آباد رکھیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ عبادت کے جذبے سے صبح شام مسجد میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں مہمان نوازی ہوتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الی المسجد و من راح حدیث662)

اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کا جو درمیانی فاصلہ ہے ایک مومن کے لئے اگر وہ خالص توجہ اللہ تعالیٰ کے لئے رکھتا ہے تو اسی طرح ہے جس طرح سرحد کی حفاظت کے انتظامات کررہا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ حدیث587)

شیطان سے حفاظت میں رہتا ہے اور جب اگلی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوتا ہے تو پھر لباسِ تقویٰ کے ساتھ جاتا ہے جو بہترین زینت ہے۔ پس اس مادی دنیا میں یہ معیار قائم کرنا ایک احمدی کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب یہ حقیقت ہم سمجھ لیں گے، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے، اس زینت کے ساتھ مسجدوں میں جائیں گے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر ان شاء اللّٰہ تعالیٰ حاصل کرتے چلے جائیں گے۔‘‘

اللہ کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں اور مساجد کے حقوق ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ آمین

(ملک عمران احمد۔نیشنل جنرل سیکرٹری جماعت آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

باپ کی دعا بیٹے کے واسطے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2022