• 4 مئی, 2024

جزائر فجی میں پہلی مساجد کا قیام

دنیا کے کنارے
جزائر فجی میں پہلی مساجد کا قیام

جزائر فجی دنیا کے کنارے پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق 1925ء میں ایک تاجر چوہدری عبد الحکیم صاحب کے ذریعہ پہنچا جس کے بعد اس روشنی کو حاصل کرنے کے لئے یہاں سے حاجی رمضان خان صاحب کی ایک فیملی نے 22 اگست 1959ء کو سیدنا حضرت مُصلح موعودؓ کے ہاتھ پر ربوہ میں بیعت کرنےکی توفیق پائی اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے حضورؑ پُر نور نے 12 اکتوبر 1960ء میں از راہ شفقت مکرم و مولانا شیخ عبد الواحد فاضل صاحب کو بطور پہلے مبلغ فجی بھجوایا جنہوں نے آتے ہی 1961ء میں جماعت کو رجسٹر کروایا اور جماعت کی تربیت اور ترقی کے لئے پورے زور شور سے قیام مسجد کی طرف توجہ دی۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہ جزائر فجی کے 4 بڑے جزیروں میں اسلام احمدیت کی 11جماعتیں قائم ہیں جن میں سے بفضل تعالیٰ10 جماعتوں میں مساجد اور مشن ہاؤسز تعمیر ہو چُکے ہیں اور ہر ایک کی ایک تاریخ ہے۔لیکن سردست قارئین کی خدمت میں ہر جزیرے پرجماعت کے قیام اور پھر اس میں پہلی مسجد کی تعمیر کی تاریخ پیش کرنا مقصود ہے۔

جزائر فجی میں پہلے نماز سینٹر اور مرکز کا قیام

فجی کا سب سے بڑا جزیرہ (ویتی لیوو) جس کو ویسٹرن ریجن کے نام سے بھی لکھا اور بولا جاتا ہے اور اس کا شہر صووا جو اس کا دارالحکومت بھی oہے اسی جزیرہ میں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 1961ء میں ایک ہی دن یہاں 12 بیعتیں عطاء فرمائیں اور ایک پُر جوش اور مُخلص جماعت نے اسی شہر کے علاقہ (سامابولا) کی 82 راتو مارا مین شاہراہ پر ایک مکان کرائے پر لیکر باقاعدہ ایک نماز سینٹر بطور مرکز قائم کر دیا، الحمدُللّٰہ کہ اسی مرکز میں دسمبر 1962ء میں فجی کے احمدیوں نے اپنا پہلا جلسہ سالانہ بھی منعقد کیا جس میں 125 احباب نے شمولیت اختیار کی۔ اگلے ہی سال عید الفطر کے موقع پر محترم شیخ صاحب نے جماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے الہام (وَسِّعْ مَکَانَکَ) کا حوالہ دیتے ہوئے احباب جماعت کو تحریک کی کہ ہمیں جلد اسی شہر صووا میں جماعتی مرکز کے لئے کوئی وسیع جگہ دیکھ کر اس کے خریدنے کا انتظام کرنا چاہیے،چنانچہ دوران تلاش معلوم ہوا کہ ساتھ والا پلاٹ مع مکان برائے فروخت ہے اور وہ قطعہ زمین جماعت کے مرکز اور مسجد کے لئے نہایت موزوں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ زمین عطاء بھی فرمائی اور پھر اس پر کچھ عرصہ بعد جماعت احمدیہ فجی کی مرکزی اور عالی شان مسجد بھی تعمیر ہوئی۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے فجی کے دوسرے جزیرہ ونوالیوو میں پیغام حق پہنچانے کی توفیق عطاء فرمائی اور فجی میں پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر کے بھی سامان پیدا فرمائے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

دوسرے بڑے جزیرہ ونوالیوومیں مسجد مبارک کا قیام

جیسا کہ جزائر فجی نام سے ہی ظاہر ہے اس ملک کی آبادی سمندر میں زمین کے کئی پہاڑی ٹکڑوں (جزیروں) پرمشتمل ہے، اسی طرح فجی کے دوسرے بڑے جزیرہ (ونوالیوو) جس کو شمالی ریجن کہتے ہیں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فجی جماعت کی رجسٹریشن کے بعد جلد ہی 1962ء میں ایک مُخلص دوست مکرم شہرت علی صاحب تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا، چونکہ اس جزیرے میں کسان اور مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد کافی ہے تو بات علاقے میں جلد ہی پھیلنے لگی اور یوں ان کی قبولیت احمدیت کے بعد مولانا شیخ عبد الواحد صاحب کے اس جزیرہ پر دورہ کے دوران ایک اور مُخلص دوست مولوی محمد صاحب عرف لال ٹوپی کو بھی بیعت کرنے کی توفیق ملی یہ صاحب پیشہ سے تو ٹیکسی ڈرائیور تھے لیکن بڑے قد آور باوقار اور مذہبی جوش رکھنے والے مولوی تھے ان کے اس جنون اور جذبہ نے بڑی تیزی سے اپنے حلقہ احباب میں اس پیغام حق کو پھیلانے میں مدد کی۔مخالفت بھی ہوئی اور کامیابیاں بھی ملیں اور یوں 1963ء میں ایک اور جوشیلے تاجر دوست حاجی رحیم بخش صاحب کو بھی مع فیملی کافی مذاکرات کے بعد احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ اس جزیرے پر جماعت کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ مسجد بنانے کا پروگرام تو بنایا گیا لیکن جماعت کے مالی وسائل کمی کے پیش نظر فی الحال مسجد کے لئے زمین خریدنا مشکل تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام اس طرح فرمایا کہ ان دنوں حاجی صاحب کی اہلیہ اکثر بیمار رہتی تھیں۔ مولانا عبدالواحد فاضل صاحب نے ان کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شفاء عطاء فرمائی جس ی خوشی اور شکرانے کے طور پر حاجی رحیم بخش صاحب نے 1965ء کے آغاز میں اپنے گھر کے قریب ہی ایک ایکڑ زمین فری ہولڈ مسجد کے لئے جماعت کو تحفۃً پیش کر دی۔چونکہ مولانا صاحب ہمیشہ اس جزیرہ پر اپنے دورہ کے دوران احباب کو مسجد کے لئے زمین کی تلاش کا کہا کرتے تھے اس لیے جونہی حاجی صاحب نے وعدہ کیا تو فوری طور پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت اقدس میں منظوری کے لئے لکھا گیا اور حضو ر نے بھی از راہ شفقت منظوری کے ساتھ ہی جزائر فجی میں جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد تعمیر ہونے والے پہلے خُدا کے گھر کا نام بھی مسجد مبارک تجویز فرمایا۔ جس کے مطابق نومبر 1965ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور فوری طور پر امام مہدیؑ کے ماننے والوں کی جماعت نے اولین کی سنت کو زندہ رکھتے ہوئے مدینہ کی مسجد نبوی کی یاد کو تازہ کر دیا۔ بڑے اخلاص، وفا اور اپنے مالی وسائل کے ساتھ وقار عمل کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے لکڑی کے سٹرکچر پر جلد ہی ایک مسجد دسمبر 1965ء میں بنا دی۔ اس مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کے حوالہ سے جن بزرگوں نے حصہ لیا انہوں نے ذاتی طور پر خاکسار سے اس قربانی اور ہمت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ ا ِس علاقہ میں ابھی تک زمینی پانی کو حاصل کر کے یعنی (بو ہول) کے ذریعہ استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ ابھی تک کئی جگہوں پر ندی کا پانی بیلوں کے ذریعہ ڈرموں میں ٹائروں کے ساتھ گھسیٹے ہوئے لایا جاتا ہے۔ تو اُس وقت مسجد کی تعمیر کے لئے ہم نوجوان خدام نے 1 کلومیٹر دور ندی سے اپنے کندھوں پر بانس رکھ کر پانی کے2 ٹین لٹکائے ہوتے اور اس پہاڑی ٹیلے پر اس کی بنیادوں اور فرش کے سیمنٹ کے لئے پانی پہنچایا۔ جس میں 100 سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے اور اس کی تعمیر میں بھی بھاری رقم حاجی رحیم بخش صاحب نے اپنے خاندان کی طرف سے دی۔ چنانچہ 17 دسمبر 1965ء کو جمعۃ المبارک کے ساتھ باقاعدہ اس مسجدکا افتتاح فجی کے پہلے امیر ومشینری انچارج مولانا شیخ عبدلواحد فاضل صاحب نے کیا۔اس موقع پر فجی بھر سے احباب جماعت کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ یوں یہ مسجد مبارک اس جزیرے پر برکت کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی جواس جزیرے کے وسط میں بمقام ولودا کی مین شاہراہ پر خوبصورت پہاڑ پرتعمیر ہے یہ علاقہ خوبصورت اور صاف ستھرے ماحول میں ایک وادی کا منظر پیش کرتا ہے۔

جہاں خُدا کے فضل سے مسجد کے بالکل سامنے سٹرک کی دوسری طرف اب جماعت احمدیہ کا ایک پُختہ عمارت پر مشتمل سیکنڈری سکول بھی ہے جو اس ملک کے روشن مستقبل کے لئے بنی نوع انسان کی تعلیم اور خدمت میں مصروف ہے۔ اس سکول کی 35 ایکڑ زمین کو خریدتے ہوئے بھی 5 ایکڑ فری ہولڈ زمین بھی حاجی صاحب کے خاندان نے تحفۃً دی تھی۔

جس کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2006ء میں اپنے دورہ ٴفجی کے دوران وزٹ بھی کیا اور یہاں ایک استقبالیہ پروگرام کو رونق بھی بخشی اور اس علاقے کو بہت پسند فرمایا۔اسی مسجد مبارک میں نماز ظہر و عصر ادا کی حاجی صاحب کے گھر پر ہی ظہرانہ تناول فرمایا اور احباب جماعت کو فیملی ملاقات کا شرف بھی بخشا۔یہ جماعت احمدیہ فجی کی پہلی مسجد ہے۔ اس مسجد سے منسلک احاطے میں حاجی صاحب اور ان کی فیملی کا ایک قبرستان بھی ہے جہاں ان کی فیملی کے علاوہ اس جزیرے کےکچھ احمدی احباب بھی مدفون ہیں اور اسی میں ہمارے ایک پاکستانی مبلغ مولانا افضل ظفر صاحب کی فیملی کے 5 ممبران بھی مدفون ہیں جن کی وفات 1999ءمیں ایک کشتی کے الٹنے کے حادثے سے ہوئی تھی انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو اپنے ایک خطبہ جمعہ میں شہید قرار دیا ہے۔ 2006ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی یہا ں اس قبرستان کا وزٹ کیا اور ان کے لئے دعائے مغفرت بھی فرمائی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذٰالِکَ

سب سے بڑے جزیرہ ویتی لیووی میں مسجد محمود کا قیام

یہ مسجد ویسٹرن ریجن کے علاقہ سینگا ٹوکا کے ایک گاؤں مارو میں واقع ہے جو فجی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ ناندی سے صووا کیپیٹل کی طرف 40 کلو میٹر کے فاصلے پر فجی کی مشہور بیچ (نتندولہ) کی طرف جانے والی مین شاہراہ پر تعمیر ہے۔جو دنیا بھر سے فجی میں آنے والے تمام سیاحوں کو اپنے سفید گنبدوں کے ساتھ اسلام کا پیغام دیتی ہے۔

یہاں پر خُدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا پیغام بھی ابتدائی دور میں پہنچا اور یہ ساری کی ساری جماعت 1960ء میں لاہوری احمدیوں سے تائب ہو کر خلافت احمدیہ کے سایہ میں آگئی تھی اور یہاں کے صدر جماعت مکرم محمد ایوب خان صاحب کے گھر پر ہی پہلے لاہوری جماعت کا نماز سینٹر تھا اس لیے جونہی انہوں نے بیعت کی تو فوری طور پر احباب جماعت سے مل کر مسجد کے لئے زمین کی تلاش شروع کر دی اور بالآخر جلد ہی اللہ کے فضل سے 1رقبہ زمین مسجد کے لئے مل گیا۔یہ مسجد فجی میں تعمیر ہونے والی دوسری اور اس جزیرے پر پہلی احمدیہ مسجد ہے جسکا سنگ بنیاد چوہدری محمد ظفرللہ خان صاحب نے اپنے دورہ ٴفجی کے دوران 7نومبر 1965ء بعد نماز عصر رکھا یہ دورہ خان صاحب کا فجی میں نجی دورہ تھا اور اسی دوران یہاں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کی افسوسناک خبر بھی ملی۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون، جس نے احباب کو اچانک بہت افسردہ کر دیا۔چونکہ اس وقت یہاں بھی ابتدائی طور پر جماعت کی مالی حالت کافی کمزور تھی اس لیے صدر صاحب نے اپنی اور مزید چند احمدی دوستوں کی زمین گروی رکھ کر مسجد کے لئے تعمیری سامان قرض پر لیا اورمُخلصین نے دن رات وقار عمل کرکے سب سے پہلے ندی سے ریت نکال نکال کر اس کی پختہ عمارت کے لئے خریدنے کی بجائے خود سیمنٹ کے بلاکس بنائے۔جس طرح خاکسار اوپر مسجد مبارک کی تعمیر میں گاؤں کے حوالے سے پانی کی مشکلات کا ذکر کر چُکا ہے اسی طرح یہاں بھی یہی مسائل ہیں۔چنانچہ اس گاؤں اور علاقےکے حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت کے بزرگوں نے مشورہ کیا کہ چونکہ مسجد کی پختہ تعمیر میں بھی پانی کی بہت ضرورت ہے اور آئندہ بھی رہے گی اس لیے کیوں نہ مسجد کے نیچے پانی کا ٹینک تیار کر لیا جائے جو بارشوں کے دنوں میں بھر تا رہے گا اور ہمیشہ کے لئے مسجد میں پانی کی مشکلات ختم ہو جائیں گیں۔ یوں ممبران جماعت نے وقارعمل کرتے ہوئے اُنہیں بلاکس کے ذریعہ پہلے مسجد کے نصف حصہ کے نیچے کافی بڑا انڈر گراوٴنڈ ٹینک بنایا اور پھر اس میں دن رات کام کرکے اسکو آہستہ آہستہ مکمل کیا اور اوپر مسجد کی تعمیر بھی جنوری 1968ء تک تیار ہو کر بن گئی جسکا باقاعدہ افتتاح عید الفطر کے موقع پر دردمندانہ دعاؤ ں کے ساتھ ہوا،اس موقع پر ایک بڑا جلسہ بھی کیا گیا جس میں احمدیوں کی کثیر تعداد شامل ہوئی جسکا ذکر رسالہ تحریک جدید ربوہ اپریل 1968ء کے شمارے میں بھی ملتا ہے اور اسی طرح اس مسجد کا ذکر تاریخ احمدیت کی جلد19 کے صفحہ263 میں بھی موجود ہے۔

مسجد محمود خُدا کے فضل سے اپنے اندر 150سے زائد نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ہی منسلک ایک کمرے پر مشتمل مشن ہاؤس اور دوسرے میں ایک لائبریری بھی تعمیر ہے اور اس کے احاطے میں 2005ء میں ایک دینی وتربیتی پروگراموں کے لئے لجنہ ہال بھی پختہ عمارت پر مشتمل ایک لجنہ ہال بھی تعمیر کیا گیا جسکا افتتاح ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ فجی کے دوران فرمایا اور پھر اسی طرح مزید زمین خرید کر مقبرہ موصیان بھی بنادیا گیا ہے۔

دنیا کے کنارے جزیرہ تاوئیونی میں مسجد بیت الجامع کا قیام

یوں تو یہ جماعت احمدیہ فجی میں قائم ہونے والی آٹھویں مسجد ہے لیکن چونکہ تاوئیونی فجی کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے جس ی آبادی ابھی 18 ہزار سے کچھ زائد ہے۔ جہاں جماعت کا قیام 1962ء میں ہوا اور تاریخی لحاظ سے بھی یہ وہ جزیرہ ہے جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے جس ی وجہ سے یہ دنیا کنارہ کہلاتا ہے اور یہ نشان بھی ہماری احمدیہ مسجد سے صرف سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یوں دنیا کو نظر آنے والا سورج سب سے پہلے اسی جزیرہ میں دیکھا جاتا ہے اسی لئے یہ جزیرہ ہمیشہ دنیا کے سیاحوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔یہاں 1962ء میں جب سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے الہام (میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا) کے تحت احمدیت کا پیغام پہنچا تو یہاں سب سے پہلے مومنین نے اپنی عبادت کے لئے ابتدائی احمدی مکرم شیر محمد صاحب کے گھر کے ساتھ ایک ٹین لکڑی کے کمرے کو ہی بطورنماز سینٹر بنائے رکھا اور اپنی نمازوں، جمعہ، عیدین کے علاوہ جماعتی نمائندگان کے ساتھ دیگر جماعتی پروگراموں کو بھی یہیں بجا لاتے رہے اور اس کے ساتھ مسجد کے لئے جگہ کی تلاش بھی جاری رکھی۔اس جزیرے کے مرکز میں جہاں اس کا شہر ہے ایک گھر اور اس کا مناسب رقبہ مسجد کے لئے ڈھونڈکر اس کا سودا طے ہوا ہی تھا کہ ان کے فیملی اختلاف کی وجہ سے جماعت کو اس کا بیعانہ واپس لینا پڑا۔ لیکن الحمدُللہ کچھ ہی عرصہ بعد اسی جگہ چند قدم کے فاصلے پر سڑک کی دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے 1990ء میں ایک پُختہ عمارت کے ساتھ ایک چوتھائی ایکڑ رقبہ فری ہولڈزمین شہر کی مین شاہراہ پر جماعت کو عطاء فرمائی اور یہ عمارت مولانا عبد العزیز شاہد صاحب امیر ومشینری انچارج صاحب کے وقت میں خریدی گئی۔ جسی اطلاع فوری طور پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کو دی گئی جس کا جواب پیارے آقا نے ان الفاظ کے ساتھ عنایت فرمایا۔
’’تاوئیونی مقام پر مسجد کے لئے پلاٹ خریدنے کی بہت خوشی ہوئی۔احباب جماعت نے اس پروجیکٹ کے لئے بڑھ چڑھ کرقربانی کی۔اللہ تعالیٰ ان کے نفوس واموال میں برکت دے اوردین ودنیا کی حسنات سے نوازے اور احسن جزا عطاء کرے۔ ان تمام دوستوں کو جنہوں نے اس جہاد میں مالی قربانی کرکے شمولیت اختیار کی ہےفرداً فرد اًالسَّلام علیکم کہیں۔‘‘

(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مورخہ 16 جولائی 1990ء)

اس احاطے میں وہ گھر مشن ہاؤس کے طور پر زیر استعمال ہے، 1997ء میں خاکسار کی یہاں پہلی تقرری ہوئی جس کے بعد خاکسار کی درخواست پر مسجد کے لئے 1998ء میں مکرم مولانا مبارک قمر صاحب امیر ومشینری انچارج فجی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت اقدس میں لکھ کر منظوری حاصل کی ہی تھی کہ انہیں دنوں محکمہ موسمیات نے بتایا کہ جزائر فجی میں آتش فشاں پھٹنے والا ہے اور تاوئیونی آئ لینڈ اس کا مرکزی نقطہ ہے، جس کے باعث حضور کی منظوری سے اس میں کچھ تاخیر کی گئی۔ کیونکہ پہلے بھی جزیرہ تاوئیونی کاوجود آتش فشاں کے پھٹنے سے وجود میں آیا ہے اس کے نشانات اور وہ کالے پتھروں کے پہاڑ ابھی بھی دیکھنے میں ملتے ہیں وہ گرم پٹی ابھی بھی اسی جزیرے کے نیچے سے گزرتی ہے۔چنانچہ 9جنوری 2002ء کو مولانا نعیم احمد محمود چیمہ امیر ومشینری انچارج فجی نے حضور پُرنور کی اجازت سے بہت دعاؤں کے ساتھ اس دنیا کے کنارے پر تاریخی اور پُختہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس میں خاکسار کو بھی حصہ لینے کی توفیق ملی۔ مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری صووا کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر محمد صادق حسین صاحب کو دی گئی جنہوں نے گھر سے دور رہ کر اپنے جزبہ خدمت اور تعمیری مہارت اور بڑی محنت کے ساتھ اس فرض کو بخوبی نبھایا اور اپریل 2002ء میں ایک خوب صور ت سفید مناروں والی مسجد دنیا کے کنارے جزیرہ تاوئیونی کے مرکز میں تعمیر کر دی گئی جس میں 100 سے زائد نمازیوں کے لئے گنجائش ہے، یہاں اس جزیرے پر جماعت چندکسان گھروں پر مشتمل ہے لیکن ان کے جذبہ اور جوش نے اس وقت جو قربانی پیش کی وہ قابل تعریف ہے کہ ہر فیملی نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانی کی، ایک فیملی ممبران نے اپنےاپنے انفرادی وعدہ کو پورا کرنے کے لئے کسی دکان پر کچھ اشیاء رکھ کر بیچی اور اس نیک کام میں حصہ لیا۔ اس کی تعمیر کے لئے ونوالیوو ریجن کی جماعتوں سے احباب جماعت نے بھی آکر کئی کئی دن قیام کیا اور بنیادوں کی کھدائی میں پتھر توڑ نے کے لئے وقار عمل کی روایت کو جاری رکھا۔کیونکہ اس جزیرے پر آبادی بہت کم تھی اس لیے مشینری اور تعمیری سامان بڑی مشکل سے مہیا ہوتا اور کچھ سامان دوسرے جزیرہ ونوالیوو اور ویتی لیوو سے بحری جہاز کے ذریعہ بھی بھیجا جاتا تھا۔چنانچہ مکرم ومحترم نواب منصور خان صاحب وکیل التبشیر ربوہ پاکستان اور مکرم مولانا محمود احمد شاہد صاحب امیر ومشینری انچارج آسٹریلیا نے اپنے دورہ فجی کے دوران 22 اپریل 2002ء کو اس تاریخی مسجد کا افتتاح فرمایا۔ اس موقع پر فجی بھر سے 200 سے زائد ہوائی اور بحری سفر کرکے جماعت کے مخلص مرد اور خواتین نے معصوم بچوں کے ساتھ اس عظیم اور بابرکت تقریب میں شمولیت اختیار کی۔جس میں علاقے کے تمام مذاہب کے لیڈروں اور معزز شخصیات کو بھی دعوت دی گئی تھی۔چنانچہ اس موقع پر اس جزیرے کے سب سے بڑے چیف کی طرف سے اس کے بھائی نے شمولیت اختیار کی اور اس کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جس میں اس جزیرے میں جماعت کی خدمات اور جماعت کے ماٹو (محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں) کو سراہا اور اس جزیرے میں مسجد کی تعمیر پر مبارک باد بھی دی۔اس موقع پر اخباری نمائندگان بھی آئے جس کے بعد محترم نواب صاحب نے نماز ظہر وعصر باجماعت ادا کی۔

تمام قارئین سے درخواست دعا ہے کہ مولیٰ کریم اس مسجد کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے تجویز کردہ نام کے مطابق حقیقتاً نیک اور حق کی تلاش والوں کے لئے بیت الجامع بنا دے۔ آمین

جزیرہ رامبی میں بیت المہدی کا قیام

یہ جزیرہ رامبی فجی کا چوتھا بڑا جزیرہ ہے اور تاوئیونی جزیرے کے سامنے ہی ہے، جس ی کل آبادی اس وقت 7000 سے زائد ہے جو فجی کے قریب جنوبی بحرالکاہل کے جزیرہ ملک کریباس سے آنے والی تمام تر عیسائی قوم بنابن کی ہے جو اپنے کلچر اور زبان کے اعتبار سے فیجئن قوم سے بالکل مُختلف ہیں۔بلکہ گزشتہ2-3 سال تک اس جزیرہ پر ان کی اپنی عدالت اور کونسل کا نظام رائج رہا ہے اس لیے ان کی اجازت اور اطلاع کے بغیر وہاں تبلیغ تو درکنار رامبی جزیرے پر جا کر رہنا بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ لوگ اپنے مذہب کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ان حالات میں بھی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ جزیرہ رامبی میں احمدیت کا نفوذ 1994ء میں یوں ہوا کہ جب وہاں کے ایک دوست مسٹر سموتیو ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے دوسرے جزیرہ ونوالیوو کے شہر لمباسہ کے ہسپتال میں علاج کے لئے آئے جہاں ہمارے ایک احمدی ماسٹر رحمٰن شاہ صاحب کے ہندو دوست بھی داخل تھےاسی دوران ان کے ساتھ تعارف ہوا اورپھر ان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے پر رحمٰن شاہ صاحب ان کو کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر مکمل آرام کے لئے بھی لے آئے۔ ماسٹر صاحب کے حسن خُلق اور خدمت انسانیت سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنے جزیرے پر آنے کی دعوت دی جس کے بعد وہاں انہوں نے احمدیت قبول کی اور پھر وہاں آہستہ آہستہ وقتا ًفوقتا ًجماعت کے وفود نے دورے کئے اور یہاں جماعت قائم ہوگئی، اس لحاظ سے یہ ایک منفرد جزیرہ ہے کہ عیسائیت کے علاوہ یہاں صرف اسلام احمدیت کے ماننے والوں کی تعداد ہے اور وہ بھی خُدا کے فضل سے سارے مقامی ہیں اور ان کو ہی یہاں اب تک اپنی عبادت گاہ بنانے کی توفیق ملی ہے اس جزیرہ پر بسے والے عیسائیوں کی اکثریت کیتھولک اور میتھوڈسٹ ہے۔ خاکسار کو بھی اس جزیرہ پر اپریل 1997ء سے جانے کا موقع مل رہا ہے اس وقت تک چونکہ وہاں جماعت کا کوئی باقاعدہ سینٹر یا مسجد نہیں تھی اس لیے دورہ کے دوران مسٹر سموتیو اوردوسرے ممبران کے گھروں میں ہی قیام کے دوران چند دن تعلیم و تربیت و تبلیغ کا کام جاری رکھا جاتا تھا، چنانچہ 2000ء میں وہاں یورپ سے آنے والے ایک عیسائی فرقہ مومن چرچ والوں کے وفد نے ایک مکان کرایہ پر لیا اور بھر پور طاقت کے ساتھ پیسے اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء مہیاکرکے وہاں کی غریب آبادی کو لالچ دیکر کئی دوسرے چرچ کے لوگوں کو بھی ان کے عقیدہ سے ہٹانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے اسی دوران بعض ہمارے کمزور ممبران بھی ان کی زد میں آگئے۔ چنانچہ 2002ء میں خاکسار نے اُسوقت محترم نعیم احمد محمود چیمہ صاحب امیر و مشینری انچارج فجی سے مشورہ کر کے وہاں مسجد یا ایک نماز سینٹر بنانے کے لئے کونسل میں ایک درخواست دی۔ لیکن کونسل کی طرف سے کوئی واضع جواب نہیں ملتا تھا کبھی ممبران کی طرف سے ان کی رضا مندی اور مطالبے کی درخواست مانگی گئی تو کبھی مناسب جگہ نہ ہونے کا بہانہ بناکر ہر ممکن ہماری درخواست کو ٹالنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ کیونکہ وہ اپنے جزیرے پر سوائے عیسائیت کے کسی اور مذہب کو نہیں چاہتے۔ بلکہ آج بھی یہاں فجی کی کسی دوسری قوم کو یہاں زمین خریدنے یا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ وہ یہاں کی کسی لڑکی سے شادی نہ کرے اور وہ زمین بھی اسی لڑکی کے نام ہی رہے گی۔ لیکن اسلام احمدیت کو قبول کرنے والے ممبران بھی چونکہ ان کی اپنی ہی قوم سے تھے تو اس لیے وہ ان کے آگے صاف ان کار بھی نہیں کرسکتے تھے، یوں یہ سلسلہ 2سال تک چلتا رہا۔

چنانچہ ایک دن ہمارے ایک مُخلص دوست احمد رواتارا صاحب جو ہمیشہ میرے ساتھ بطور داعی الی اللہ ساتھ دیتے اور اس جزیرہ میں دورہ بھی کرواتےتھے اور وہ اپنی فیملی میں اکیلے ہی احمدی تھے انہوں نے اس ساری صورتحال کا ذکر خاکسار کی موجودگی میں اپنی اہلیہ کے سامنے یوں کیا کہ ہماری تمام تر کوششوں کے بعدبھی کونسل کا جواب ان کار میں ہے۔اس پر ان کی اہلیہ جو اس وقت تک احمدی تو نہیں تھیں لیکن زیر تبلیغ تھیں اور بہت مُخلص تھیں وہ اپنی ہمشیرہ کے گھر پہ بیٹھیں تھیں انہوں نے اپنا فیملی گھر اور اس کی زمین مسجد کے لئے پیش کرنے کا اظہار کیا جو اسی سال طوفان کے دوران اُڑ گیا تھا۔جس پر خاکسار نے ان کو یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ آپکی محبت اور تعان کا شکریہ لیکن یہ مکان چونکہ آپکی والدہ کی طرف سے فیملی ہاؤس ہے ہم کس طرح لے سکتے ہیں اوراسکو خریدنے کے لئے بھی ان سب کی رضامندی چاہئے اور اسی دوران خاکسار نے ان کو فجی کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی جہاں وہ الحمدُللہ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئیں اور واپس آکر انہوں نے اپنے بہن بھائیوں سے اس گھر سے برطرفی کے کاغذات پر دستخط کروائے اور جماعت کے نام منتقلی کی درخواست کے ساتھ خود ہی کونسل میں جا کر مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دیا کہ اب تو آپ کو اس کی منظوری دینی چاہئے۔یہ گھر اس جزیرہ کے مرکزی علاقے میں جہاں ان کی کونسل اور دیگر دفاتر ہیں ہسپتال کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری طرف سمندر کے کنارے بنایا ہوا تھا۔ جس پر کونسل کی طرف سے اب یہ اعتراض اور بہانہ پیش کیا گیا کہ آپ لوگ مسجد میں سپیکر کا استعمال کریں گے جس سے سامنے ہسپتال کے مریضوں کو تکلیف ہو گی، کیونکہ یہ فیصلہ ان کی کونسل کے لئے نہایت مشکل اور انوکھا تھا کہ ان کے جزیرے پر کوئی اور مذہب اس قدر مضبوط ہو۔بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت کاامن پسند پیغام اور وہاں خدمت خلق کے کاموں کے ساتھ ساتھ حضور پُرنور کی دعائیں رنگ لائیں اور یوں ان کو منظوری دینی پڑی۔ جسکے فوراً بعد خاکسار نے محترم امیر صاحب اور ماسٹر محمد صادق صاحب کو ساتھ لیجا کر دورہ کیا اور اس بابرکت کام میں پیش رفت ہوئی اور 2005ء میں اس مسجد کی بنیاد لکڑی کے سٹرکچر کے ساتھ رکھی گئی، کیونکہ اس جزیرے پر آمدورفت کے لئے چھوٹی آؤٹ بوٹ کا استعمال ہوتا ہے اس لیے تعمیری سامان لے جانا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس موقع پر تا وئیونی سے مکرم مولانا نعیم احمد اقبال صاحب اور معلم عبد الوہاب اینڈرسن صاحب کے ساتھ مزید مخلصین بھی شامل ہوئے۔ اس نیک کام کی تکمیل کے لئے لوکل ممبران کے علاوہ تاوئیونی اور ونوالیوو کی جماعتوں سے بھی خُدام کی ٹیموں نے جا کر وقارعمل کئے اور بھاری رقم کی بچت کے ساتھ جلد از جلد اس ایک خدا کی عبادت کرنے والے 80 نمازیوں کی گنجائش والی مسجد کے ہال اور ساتھ دو کمروں پرمشتمل مشن ہاؤس کو تعمیر کیا گیا۔اس دوران ایک افسوسناک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک رات مسجد کی تعمیر کے دوران اسی احاطے میں صدر جماعت اور اس خدا کے گھر کے لئے زمین ڈونیٹ کرنے والے مخلص احمدی احمد رواتا صاحب کی اچانک حرکت قلب بند ہونے سے وفات ہو گئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ لیکن ان سارے حالات کے باوجود ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں اور خاندان نے بڑے صبر کے ساتھ بھر پور تعاون کا سلوک رکھا جو آج بھی جاری ہے۔ اسی طرح ان کی اہلیہ جو اصل اس زمین اور گھر کی مالکہ تھیں محترمہ (تابوکی) طوبیٰ بی بی صاحبہ جو بہت مخلص بہادر اور ہمیشہ قربانی کرنے والی خاتون تھیں ان کا بھی گزشتہ سال دسمبر میں انتقال ہو گیا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ ان کی اسلامی طریق پر تدفین میں ان کے تمام خاندان والوں نے بڑھے احسن رنگ میں تعاون بھی کیا اور بھر پور مدد بھی کی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنے وعدے کے مطابق جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین ثم آمین اور ان کے بچوں کو بھی اسی طرح ایمان و اخلاص میں بڑھائے،ثابت قدم رکھے اور اجر عظیم سے نوازے۔

چنانچہ اس مسجد کی تکمیل پر محترم امیر صاحب کی قیادت میں فجی بھر سے ایک کثیر تعداد احمدی مردوں اور خواتین کی بسوں اور چھوٹی چھوٹی بوٹ پر سفر کر کے اس کی افتتاحی تقریب میں شامل ہوئی اور اس جزیرے پر بننے والے خدا کے گھر میں سجدہ شکر بجالانے کوپہنچے، اس میں کونسل کے ممبران اور عیسائی مذہب کے مختلف چرچ کے رہنمابھی خوش دلی سے شامل ہوئے اور اس کو قبول بھی کیا، جس کے بعد جماعت میں ایک بیداری آئی اور پھر غانا سے آئے ہوئے ایک معلم مکرم عبد الوہاب صاحب کو یہاں مستقل طور پر مقرر کر دیا گیا۔جس سے تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اسلام احمدیت کی پہچان بھی تیزی سے بڑھنے لگی کہ 18 مئی 2008ء بوقت نماز ظہر اچانک مشن ہاؤس کے ایک حصہ میں آگ لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی لمحات میں ساری مسجد جل کر شہید ہو گئی۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ الحمدُللّٰہ کہ جانی نقصان کوئی نہیں ہوا جس کی اطلاع فوری طور پر امیر ومشینری انچارج فجی مکرم مولانا فضل اللہ طارق صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھی کی۔ جس پر حضور پُرنور نے ان الفاظ میں تسلی اور دعا کے ساتھ رہنمائی فرمائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام

پیارے احباب جماعت ونوالیوو فجی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہُ۔ آپکی جماعت میں ایک افسوسناک واقع کی خبر ملی تھی کہ جماعت کی مسجد اور مشن ہاؤس آگ لگنے کی وجہ سے جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون، اللہ تعالیٰ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے۔اللہ آپ سب کی مدد و نصرت فرمائے دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس۔

(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس 22 جولائی 2010ء)

مسجد بیت المہدی کی تعمیر نو

یہ حضور انور کی دعاؤں کی ہی برکت تھی کہ تمام تر قانونی کاروائی مکمل ہونے کے بعد محترم امیر صاحب نے احباب فجی کی محبت اور تعاون سے حضور انور کی خدمت میں دوبارہ پُختہ مسجد بنانے کی اجازت کے لئے درخواست کی اور پھر پیارے آقا کی اجازت سے اسی جگہ بخیر و خوبی بغیر کسی رکاوٹ اور کونسل کی دخل اندازی کے 19 مارچ 2011ء کو محترم امیر صاحب نے ایک بار پھر پُختہ مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھا۔ اس مرتبہ اس کی تعمیر کے لئے مکرم مولانا سیف اللہ مجید صاحب نے تاوئیونی سے اورمکرم نعیم احمد اقبال صاحب نے ریجنل مشینری ونوالیوو نے احباب جماعت کے ساتھ مل کر بخوبی اس فریضے کو نبھایا اور تمام احباب جماعت کے اخلاص اور قربانیوں کے ذریعہ موٴرخہ 9 ستمبر 2011ء کو ایک بار پھر پہلے سے خوبصورت کشادہ اور پختہ عمارت کے ساتھ افتتاح کے لئے تیار ہو گئی۔ جس نے اس جزیرے کے احمدیوں کو اخلاص اور ایمان میں مزید مضبوط کردیا۔مسجد کی تکمیل اور اس کے افتتاح کی تیاری کی خبر جب محترم امیر صاحب نے اپنے پیارے امام کو دی تو حضور پُر نور نے ان الفاظ میں دعائیں دیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام

پیارے عزیزم فضل اللہ طارق صاحب امیر ومشینری انچارج فجی السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہُ۔

آپ کی فیکس موٴرخہ 7 ستمبر 2011ء ملی ہے کہ جزیرہ رامبی میں جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ پختہ مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی توفیق عطاء فرمائی ہے۔ الحمدُ للہ، مبارک کرے اور اس کو عبادت گزاروں سے بھر دے، اللہ تعالیٰ احباب جماعت رامبی کو دینی اور روحانی ترقیات سے نوازے۔آپ نے بتایا ہے کہ اس کا افتتاح 9 ستمبر کو ہو رہا ہے۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ بابرکت فرمائے اور جو جماعتیں اس تقریب میں شمولیت کے لئے جا رہی ہیں ان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین۔ والسلام

خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس۔

(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس 12 ستمبر 2011ء)

چنانچہ ان دعاؤں کے ساتھ دوبارہ اس تعمیرنو مسجد بیت المہدی کا افتتاح 9 ستمبر 2011ء کو بروز جمعۃ المبارک ہوا۔ مسجد کو خوبصورت جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اس جزیرے پر بڑا خوشی کا سماں تھا اور تمام طبقہ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا تھا اسی طرح فجی کے چاروں جزیروں سے احباب جماعت 2 دن کی برّی اور بحری مسافت کر کے پہنچے،چنانچہ کونسل کے چیئرمین نے باہر والے مسجد کے گیٹ پر ربن کاٹا اور پھر محترم امیر ومشینری انچارج مولانا فضل اللہ طارق صاحب نے مسجد کا دروازہ کھول کر دعا کروائی اور مختصر تقریب کے بعد پروگرام کے تحت آنے والے تمام مہمانوں کو ظہرانہ پیش کیا گیا اور پھر نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی باجماعت ادا کی گئی۔ معزز قارئین کرام سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ ان تمام مخلصین احمدیت کو ثبات قدم کے ساتھ مزید ایمان و اخلاص میں بڑھائے اور ان کی نسلوں کو بھی اسلام احمدیت اور نظام خلافت کا مطیع اور فرمانبردار بنائے رکھے اور اللہ تعالیٰ حضور انور کی دعاؤں کو قبول فرمائے اور اس مسجد کو ہمیشہ عبادت گزاروں سے آباد رکھے آمین ثم آمین۔

طوالو آئی لینڈ میں احمدیت کا نفوذ اور مسجد کا قیام

طوالو آئی لینڈز کا مختصر تعارف:اس ملک کا شمار بحر الکاہل کے جنوبی جزائر میں ہوتا ہے جو ہوائی اور آسٹریلیا کے درمیان میں واقع ہے یہاں کرنسی بھی آسٹریلین ڈالر ہی استعمال ہوتی ہے۔یہ کل 8 جزائر پر مشتمل ملک ہے اوراس ملک کا نام بھی طوالو ہی اس لئے ہے کیونکہ ان کی زبان میں طوالو کا مطلب ہے 8 اکٹھے کھڑے ہونا۔ اس کا دار الخلافہ (فانوفوتی) ہے اس کی کل آبادی 11 ہزار کے قریب ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا اور رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا چھوٹاملک ہے جو صرف 26 مربع کلو میٹر ہے۔اس کے ہمسایہ ممالک میں کریباس، ناؤرو، سامووا اور فجی ہیں اور یہ ملک طوالو بھی ڈیٹ لائن کی دوسری طرف ہونے کی وجہ سےدنیا کا کنارہ کہلاتا ہے۔ یہ جزیرہ پہلی مرتبہ 1568ء میں دریافت ہوا تھا اور طوالو کے لوگ 3000 سال قبل ساؤتھ امریکہ سے آئے تھے۔یہ ایک عیسائی ملک ہے جہاں 1861ء میں عیسائی مذہب پہنچا اس سے قبل یہ اپنے آباؤ اجداد کی روحوں اور ان کے مجسموں کو پوجتے تھے۔دراصل 1861ء میں کُوکا آئی لینڈ سے چرچ کی ایک چھوٹی کشتی طوفان میں گھری لہروں کے باعث 8 ہفتوں بعد طوالو کے ایک چھوٹے سے جزیرے( ناکوکیلے) میں آ کر لگی جس میں ایک عیسائی پادری ایلیکاتا بھی سوار تھا جو سامووا برٹش کالج سے پڑھا ہوا تھا اس نے یہاں عیسائیت کا بیج بویا اور پھر یہاں پہلا عیسائی مشینری یورپ سے 1865ء میں آیا اور یہ مذہب پھر مضبوط ہوتا چلا گیا۔آج بھی یہاں عیسائیت 97 فیصد ہے، 1 فیصد بہائی 1.4 فیصد ملے جلے اور 0.4 فیصد صرف احمدیت ہے اور اس سے پہلے عام لوگ اسلام کے بارے میں بالکل بھی نہیں جانتے تھے۔

سیاسی اعتبار سے یہ ملک 1892ء تا 1916ء برٹش کے انڈر تھا۔1916ء سے 1974ء تک اس میں دوسرے لوگ آکر آباد ہوتے رہے،پھر 1974ء میں گلبٹ آئی لینڈز کا ریفرینڈم ہوا اوریکم جنوری 1976ء میں کیریباس طوالو سے الگ ہو گیا اور طوالو مکمل طور پریکم اکتوبر 1978ء میں آزاد ہو گیا اور پھر طوالو بھی 17 ستمبر 2000ء میں یہ یونائیٹڈ نیشن کا حصہ بن گیا۔

طوالو میں جماعت احمدیہ کا پہلی مرتبہ نفوذ اور اس کی اصل حقیقت

1983ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فجی کا دورہ فرمایا تویہ دورہ جہاں اللہ تعالیٰ کی بہت ساری رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کو لایا۔ وہاں حضور انور کی رہنمائی سے فجی میں تعلیم وتربیت اور تبلیغ کے ساتھ اس کے ارد گرد جنوبی بحر الکاہل کے جزائر میں بھی اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ حضور کی اس دلی تمنا کو پورا کرنے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات پیدا فرمائے۔ کہ ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب یوکے اللہ کے فضل سے ان جزائر میں تبلیغ اسلام کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے اور پھر حضور کی دعاؤں سے اور ان کی محنت سے اسلام احمدیت کا پیغا م نہ صرف طوالو میں پھیلنے لگا بلکہ اس کی کرنیں ارد گرد کے دوسرے جزیروں کریباس اور ویسٹرن ساموا ٓ میں بھی پھوٹنے لگیں۔

1984ء میں ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب محکمہ تعلیم کے تحت یہاں نوکری کرنے کےلئے آئے تھے لیکن حضورؒ کے ارشاد کے مطابق انہوں نے آتے ہی بطور مبلغ بھر پور محنت اور حکمت کے ساتھ اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوششیں شروع کر دیں،انہوں نے سب سے پہلے یہاں ایک لوکل خاتون محترمہ (سونیا روسیا) صاحبہ جو ایک سوشل ادارہ (ریڈ کراس) میں کارکن تھیں اور اس جزیرے میں ہر آنے جانے والے کے لئے بطور ٹرانسلیٹر کی ذمہ داری بھی ادا کرتیں تھی کی خدمات کو حاصل کرتے ہوئے چند جماعتی لٹریچر کا لوکل زبان میں ترجمہ کروایا،جس پر آپ نے جب اس کی اُجرت لینے کو کہا تو اُنہوں نے اپنے والد سے مشورہ کر کے ان کار کر دیا کہ ہم مذہبی کام کی اُجرت نہیں لے سکتے۔ جس کے ایک ماہ بعد وہ بھی اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوتے ہوئے احمدیت میں شامل ہو گئیں اور یوں پڑھے لکھے لوگوں کا اسلام احمدیت کو قبول کرنے کا یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور آغاز میں ایک پولیس آفسر اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی مکرم ڈاکٹر صاحب کی رہائش پر جمعہ بھی ادا کرنے لگا۔ بہت جلد 52 احباب پر مشتمل ایک مضبوط جماعت قائم ہو گئی جس کے نتیجہ میں وہاں مخالفت بھی شروع ہو ئی اور رجسٹریشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جانے لگی۔ لیکن حضور انور کی دعاؤں اور ھدایات پر جلد ہی 9 فروری 1987 کو طوالو جزیرے میں ان کے قواعد کے مطابق کہ کسی کمیونٹی کو رجسٹر ہونے کے لئے کم از کم 50 ممبران کی تعداد لازمی ہے کو پورا کرتے ہوئے یہا ں جماعت احمدیہ بھی رجسٹرڈ ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔

اور اسی سال 1987ء میں طوالو جماعت سے 2 ممبران مکرم ولید احمد اور مکرم طاہر احمد تونی صاحب جلسہ سالانہ یوکے میں بطور نمائندہ شامل بھی ہوئے جن کو حضرت خلیفۃ المسیح نے بہت محبت اور پیار دیا اور بار بار ان کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ پیشگوئی (میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا) کے نشان ہیں۔

چونکہ اب وہاں جماعت رجسٹرڈ ہو چکی تھی اس لیے وہاں مخالفت بھی زور پکڑ رہی تھی حضور نے فجی سے اگست 1987ء میں مکرم حافظ جبرائیل سعید صاحب مربی سلسلہ کو ٹرانسفر کرکے طوالو بھجوا دیا،جنہوں نے وہاں پہنچ کر بڑی حکمت کے ساتھ کام کیا کیونکہ وہاں آپ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج نو مبائعین کی تعلیم وتربیت کا تھا آپ نے وہاں کے وزیر اعظم اور دیگر حکومتی نمائندگان سے ملاقات کی اور ان تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ جب پارلیمنٹ میں جماعت کی رجسٹریشن کے خلاف شور اُٹھا تو وہاں کے وزیر اعظم نے بڑی مضبوطی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیا اور تائید کی کہ میرا اپنا مذہب بھی عیسائی ہے اور جیسے عیسائی عیسائیت کی پیروی کرتے ہیں ہم بحیثیت حکومت طوالو کے قانون کی پیروی کریں گے اور اس میں عیسائیت کو دخل نہیں دینے دیں گے،اس لیے جماعت ٹھیک رجسٹر ہوئی ہے اور وہ قائم رہے گی۔اس مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیر رہا تھا اور اس مخالفت کے دوران وہاں کے گورنر جنرل نے بیعت بھی کر لی۔اس خوشخبری کی اطلاع ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب نے فور ی طور پر حضور انور کو دی۔جس پر حضور انور نے جواب تحریر فرمایا۔

’’جو بڑی شخصیات سیاسی دباؤ کے ڈر سے کھلم کھلا احمدی کہلانے کے لئے تیار نہیں ہیں ان کے لئے بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ اپنے اسلام کو سردست مخفی رکھیں اور اپنا سیاسی رسوخ حکمت سے اس طرح استعمال کریں کہ کثرت سے لوگ احمدی ہوں تا کہ سیاست سے احمدیت کا تضاد دور ہو جائے‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17 تا 23 اکتوبر 2003ء صفحہ10)

چنانچہ حافظ صاحب نے حضور انور کی ہدایت پر کام کرتے ہوئے سب سے پہلے جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور نماز سینٹر ایک مکان کرایہ پر لیا اور دوسرا بطور مشن ہاؤس کے لئے اور ساتھ ہی مسجد کے لئے زمین کی تلاش بھی شروع کر دی اورچونکہ یہاں انفرادی بیعتوں کا سلسلہ شرع تھا اس لیے ساتھ ہی ان کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لجنہ اور انصار کی تنظیموں کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ جلد ہی مسجد کے لئے بھی ایک مناسب زمین جو شہر کے وسط میں ہے 99 سال کے لیز پر 19،800 آسٹریلین ڈالرز میں مل گئی، اس معاہدے پر جماعت کی طرف سے اس وقت کے صدر مکرم ولید صاحب نے دستخط کئے تھے۔ جس پرفروری 1991ء میں ایک خوبصورت احمدیہ مسجد بھی تعمیر کر دی گئی۔ اس موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ  نے پیغام بھی بھجوایا کہ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہترین رنگ میں اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق بخشے اور یہ مرکز ان سب جزائر میں اسلام کا نور پھیلانے کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہو اور بہتوں کی ہدایت کا موجب ہو۔آمین۔

(الفضل انٹرنیشنل 17۔ 23 اکتوبر 2003ء صفحہ10)

حافظ جبرائیل سعید صاحب مرحوم نے بھی وہاں بہت محنت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے ذریعہ ارد گرد کے قریبی جزائر کریباس اور ویسٹرن ساموآ،مارشل آئی لینڈ،سولمن آئی لینڈ اور مائیکرونیشیا اور ناؤرو جزیروں تک تبلیغی دورے کئے اس سلسلے میں ان کی فیملی نے بھی وہاں ہفتوں اکیلے رہ کر بہت قربانی دی۔1990ء میں وہاں طوالو کی لوکل زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی مکمل ہوا، جو وہاں کے ایجوکیشن بورڈ کے چیز مین کی مدد سے کیا گیا اور پھر اسکو ابتدائی ایک احمدی دوست ولید صاحب نے چیک بھی کیا۔جس کے بعد حافظ صاحب 1991ء میں طوالو سے بطور پہلے مبلغ قریبی ملک کریباس جزیرہ پر چلے گئے اور 1994ء تک وہاں خدمت کی توفیق پائی۔یہاں ان کی تبلیغ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے جو انہوں نے خود خاکسار کو سُنا یا ہے کہ ایک مرتبہ میں طوالو سے جب پہلی دفعہ کریباس دورہ پر گیا تو ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا اور لوگوں سے کوئی خاص رابطہ اور تعلق نہیں ہو رہا تھا تو اگلی صبح میں نے ایک مصروف سڑک کے کنارے درخت کے نیچے 2 رکعات نوافل ادا کرنے شروع کرد ئیے، لوگ اپنے دفاتر اور سکولز کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک انہوں نے مجھے دیکھا کہ گرمی کا موسم ہے اور سورج نکلا ہوا ہے یہ بندہ کبھی اُٹھتا ہے کبھی گرتا ہے اسکو کیا ہو گیا ہے ؟ اس تماشے کو دیکھنے کے لئے ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا جب میں نے نماز ختم کی تو لوگ پوچھنے لگے کہ بھائی آپ کو کیا ہو گیا تھا یہ آپ کیسی حرکتیں کر رہے تھے میں نے بتایا کہ کچھ نہیں میں تو اپنے خالق کی عبادت کر رہا تھا جس پر وہ بہت حیران ہوئے اور سوالات کرنے لگے میں نے ان میں سے چند سمجھدار لوگوں کو بتایا کہ میں یہاں اس ہوٹل میں ٹھہرا ہوں شام کو آ جائیں آرام سے بیٹھ کر بات کریں گےچنانچہ یوں وہاں تعارف کے ساتھ ماشاء اللہ سلسلہ تبلیغ بھی شروع ہوگیا۔ پھر ان کے ذریعہ ان قریبی 3 جزائر مارشل آئی لینڈ،سولمن آئی لینڈ اور مائیکرونیشیا میں بھی احمدیت کا نفاذ ہو ا اور جماعتیں قائم ہوئیں۔

طوالو جماعت پر ابتلا کا دور

کمرم ولید صاحب کی وفات اور وہاں کوئی باقاعدہ مبلغ نہ ہونے کی وجہ سےچونکہ جماعت کا نظام بہت اچھا نہیں چل رہا تھا جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 2004ء میں مسجد والی زمین کے مالک کے بچوں نے اپنی زمین واپس لینے کا مطالبہ کر دیا اور معاملہ عدالت تک چلا گیا جب کہ معاہدے کے مطابق جب زمین 1987ء میں جماعت نے خرید ی تھی اس کا لیز 99 سال تک جماعت کے نام منتقل ہو چُکا تھا۔ بد قسمتی سے جماعت کے ایک ممبر طاہر تونی صاحب کا جھکاؤ بھی رشتہ داری کی وجہ سے اُس فیملی کی طرف ہو گیا تھا اور آخریہ کیس سپریم کورٹ تک گیا لیکن الحمدُللہ حق کی فتح ہوئی اور جج نے نہ صرف فیصلہ جماعت کے حق میں دیا بلکہ فریق ثانی کو جماعت احمدیہ کے خلاف غلط اپیل کرنے اور عدالت کا وقت ضائع کرنے پر 10,000 آسٹریلین ڈٰلرز کا جرمانہ بھی کیا کہ اب یہ رقم آپ لوگ جماعت احمدیہ کو ادا کریں۔لیکن حضور پُر نور نے عدالت کے اِس حق اور انصاف پر مبنی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے فریق ثانی کو معاف کر دیا اور جماعت نے اُن سے کسی قسم کی رقم وصول نہ کی اور آج بفضل تعالیٰ یہ مسجد احباب جماعت کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ فکر کے رہنماؤں کو اسلام احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف دعوت دینے کا مرکز بنی ہوئی ہے اور یہ صرف ایک ہی مسجد ہے جو اس ملک میں احمدیت کو بنانے کی توفیق ملی۔

قارئین الفضل سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اس الٰہی سلسلہ کو دنیا کے کناروں پر اپنی خاص تائید ونصرت سے نوازتا چلا جائے کہ آئندہ بھی اس کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

(طارق رشید۔ نمائندہ الفضل آن لائن فجی)

پچھلا پڑھیں

باپ کی دعا بیٹے کے واسطے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2022