اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا
(النساء:60)
ترجمہ: اے ایماندارو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو۔اسی طرح اپنے فرمانرواؤں کی بھی اطاعت کرو۔پھر اگر تم حکام سے کسی امر میں اختلاف کرو تو اگر تم اللہ اور پیچھے آنے والے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف لوٹا دو اور ان کے حکم کی روشنی میں معاملہ طے کرو۔یہ بات بہتر اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھی ہے۔
اس آیت قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت کی اہمیت بیان فرمائی ہے نیز تین ایسی ہستیوں کا ذکر فرمایاہے جن کی اطاعت مومنین پر واجب قرار دی گئی ہے۔ یعنی خدا،رسول اور اولی الامر۔ خدا اور رسول کی اطاعت کا بغیر کسی شرط کے حکم دیا مگر حکام کی اطاعت کے متعلق فرمایا کہ اگر کسی بات میں ان سے اختلاف ہو جائے تو اختلاف کو دور کرنے اورصحیح راہ متعین کرنے کا معیار خدا اور رسول ؐکے احکام ہیں۔ ان احکام کی روشنی میں اگر تم اپنا معاملہ طے کرو گے تو بہتر صورت پیدا ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔ نیز تم ان برکات اور فیوض کے وارث ہوگے جو اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالی ٰکسی قوم کو عطا فرماتا ہے۔
قرآن کریم کے اس حکم کی تشریح میں ہمارے آقاو مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اقوال زریں بیان فرمائے ہیں کہ اطاعت کا مفہوم اور اس کی اہمیت روزِ روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عَلى المَرْءِ المُسْلِم السَّمْعُ والطَّاعَةُ فِيما أَحَبَّ وكَرِهَ، إِلَّاأَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإذا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلا سَمْعَ وَلا طاعَةَ
(صحیح بخاری)
کہ مسلمان پر اپنے افسروں کی ہر بات سننا اور ماننا فرض ہے۔ خواہ اسے ان کا کوئی حکم اچھا لگے یا برالگےسوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم دیں جس میں خدا اور رسولؐ کے کسی حکم کی یا کسی بالا افسر کے حکم کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دیں توپھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔
اس حدیث میں آنحضور ﷺنےاطاعت کا اعلیٰ معیار پیش فرمایا ہے۔ اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ دو الفاظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمان کا کام صرف ایسی اطاعت نہیں کہ جو حکم اسےپہنچ جائے یا جو حکم اسے پسند آئے اسے بجا لائے اور جو کام ناپسند ہو اس سے بچنے کی کوشش کرے بلکہ اطاعت کے واسطے اس کے دل میں ایک شوق اور محبت ہونی چاہئے اور اسے ہر وقت خدا، رسول اور حکام بالا کے احکام پر کان لگائے رکھنے چاہئیں اور ہر پسند و ناپسند حکم پر پوری کوشش کے ساتھ اطاعت کا اعلی ٰنمونہ دکھانا چاہئے۔ اطاعت کی حقیقت اور اس کا صحیح مفہوم بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنےکا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ15کالم نمبر2)
اس مضمون کو مزید کھول کر ا یک اور جگہ یوں بیان فرماتےہیں۔
’’بعض الامر کی اطاعت بھی اطاعت نہیں کہلاتی۔ بعض الامر کی اطاعت کے معنی یہ ہیں کہ وہ احکام جو اپنی مرضی کے مطابق ہوں ان پر عمل کرلیا جائے اور باقی کوردکر دیا جائے۔ وہ شخص جو بعض الامر کی اطاعت کرتا ہے اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر نہیں بلکہ اپنی مرضی پر چلتا ہے اور اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ وہ خدا تعالی ٰکی پوری اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں صرف اپنے نفس کی اطاعت کرتا ہے…پھریہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ الطَّاعَۃُ کے معنے محض فرمانبرداری نہیں بلکہ ایسی فرمانبرداری کے ہیں جو بشاشتِ قلب کے ساتھ کی جائے اور اس میں نفس کی مرضی اور پسندیدگی بھی پائی جاتی ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 421-422)
اسلام نے ضابطہ اطاعت میں صرف ایک ہی استثنا رکھا ہے اور وہ یہ کہ امیر کسی ایسی بات کا حکم دے جو خدا اور اس کے رسول یا کسی بالا افسر کے حکم کے صریح خلاف ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ امیر کےحکم کو نہ مانا جائے بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق عمل کیا جائے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر ایک شخص کو حاکم مقرر فرمایا تاکہ لوگ اس کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ اس شخص نے ایک موقعہ پر راستہ میں آگ جلوائی اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ آگ میں کود جائیں۔ کچھ ساتھیوں نے اس کی بات نہ مانی اور کہا کہ ہم تو آگ سےبچنے کے لئے مسلمان ہوئے ہیں لیکن کچھ افراد آگ میں کودنے کے لئے تیار ہوگئے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا اگر یہ لوگ آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ ہی آگ میں رہتے۔ امیر کی اطاعت معروف اور جانے پہچانے اچھے امور میں واجب ہے۔ کھلی معصیت والے کاموں میں اطاعت واجب نہیں۔
(ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی الطاعہ)
پس اس استثناء کے علاوہ کہ حکم معصیت اور خدا اور رسولؐ کے احکام کے کھلم کھلا خلاف ہو باقی تمام امور میں امیر کے ہر حکم میں خواہ وہ کچھ ہو اور کیسے ہی حالات میں دیا جائے اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ کا اٹل قانون چلتا ہے اور ہر مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ امیر کی بات سنے اور مکمل شرح صدر سے پوری کوشش اور دلی خوشی کے ساتھ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی اعلیٰ مثال قائم کرے۔
سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام اور امراء کی اطاعت کو اپنی اور خدا تعالی ٰکی اطاعت قرار دے کر ہر قسم کے فرق کو ختم کر دیا اور بتایا کہ خدا اور رسول کے لئے جس قسم کی اطاعت کا تم سے تقاضا کیا جاتا ہے حکام اور امراء کے ہر معروف کام میں اسی قسم کی اطاعت تم پر واجب ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
مَن أطَاعَنِي فقَدْ أطَاعَ اللّٰهَ، ومَن عَصَانِي فقَدْ عَصَى اللّٰهَ، ومَن يُطِعِ الأمِيرَ فقَدْ أطَاعَنِي
(مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فی غير معصيۃ)
کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جو حاکم وقت کا نافرمان ہے وہ میرا نافرمان ہے۔
آپؐ کا یہ ارشاد مبارک دراصل آیت قرآنی مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء 81) کی تفسیر ہے اور یہ اس لئے ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے مبعوث فرمایا اور آپؐ کا ہر قول و فعل خدا تعالی ٰکی رضا اور حکم کے تابع تھا جیسا کہ خود قرآن کریم اس کی گواہی دیتا ہے۔ فرمایا:-
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلاَّوَحْيٌ يُوحَى
(النجم 5,4)
کہ یہ رسولؐ اپنے پاس سے کوئی حکم نہیں دیتا بلکہ یہ تووہی کچھ کہتا اور کرتا ہے جو اس پر خدا کی طرف سے وحی کیا جاتاہے۔ پس اس کا ہر قول و فعل، امرونہی چونکہ خدا تعالی ٰکے حکم اور مرضی کے تابع ہے اس لئے اس کی اطاعت یا نافرمانی در اصل خدا کی اطاعت یا نافرمانی ہوگی۔اس طرح جو امیر اور حاکم رسول کے احکامات کے تابع لوگوں کو حکم دے گا تو اس کی اطاعت یا نافرمانی در اصل اس رسول کی اطاعت یا نافرمانی گردانی جائے گی۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی امیر یا حاکم ایسا جابر ہو کہ اپنے حقوق توزبردستی لوگوں سے چھین لے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں سستی اور کوتاہی برتے، ایسے امیر کی اطاعت کے بارہ میں کیا حکم ہے آنحضرت صلى الله علیہ وسلم نے جس طرح ہر معاملہ میں اپنی امت کی راہنمائی فرمائی اسی طرح اس آڑے اور مشکل مرحلہ پر بھی آپؓ نے مومنین کو نہایت اعلی ٰاور پُر حکمت تعلیم سےنوازا۔ آپ ؐنے فرمایا:۔ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا فَاِنَّما عَلَيْهِمْ مَا حُمّلُوْا وَ عَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ
(صحیح مسلم)
تمہارا کام سننا اور اطاعت کرنا ہے۔ اگر امیر تم پر زیادتی کرتا ہے اور تمہارے حقوق سلب کرتا ہے تو یاد رکھو جوذمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے اس کی باز پرس اس سے ہوگی اور جو ذمہ داریاں تم پر ڈالی گئی ہیں ان کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔اسی طرح ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا:۔
تُؤَدُّونَ الحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ، وتَسْأَلُونَ اللّٰهَ الذي لَكُمْ
(صحیح بخاری)
کہ جو حقوق تم پر واجب ہیں وہ تم ادا کرو اور جو تمہارے حقوق امراء کے ذمہ ہیں اگر وہ ادا نہیں کرتے تو تم اپنا معاملہ خدا تعالی ٰپر چھوڑ دو۔
کیسی پاک اور خوبصورت تعلیم کہ اگر تمہارے حقوق ادا نہیں کئے جاتے توتم گھبراتے کیوں ہو۔ تمہارا ایک اور بھی سہارا ہے جو تمام حاکموں کا حاکم ، تمام امراء کا امیر اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ وہ تمہاری حق تلفی نہیں ہونے دے گا بلکہ اگر دنیوی امیر تمہارے حقوق ادا نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ تمہارے حقوق اپنے ہاں سے ادا کر دے گا۔
آئیے اب ذرا عرب کے اس معاشرہ میں چلتے ہیں جو سارے کا سارا جھوٹی عزت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ہر طرف غرور و تکبر کے الاؤ روشن ہیں۔
جھوٹے فخرو مباہات کی آگ نے غریب لوگوں خصوصاًغلاموں کو جلا کر رکھ دیا ہے۔خاندانی حشمت اور ذاتی وجاہت کو بڑی ہی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے مقابل پر غلاموں کو انسان تو در کنار جا نوروں سے بھی بد تر خیال کیا جارہا ہے۔ ایسے تاریک اور جہالت سے پُر معاشرہ میں آنحضرتﷺ مبعوث ہوتے ہیں اور اپنی خداداد تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں اس میں بسنے والے لوگوں کی ایسی کایا پلٹ دیتے ہیں کہ انہیں گوبر کے ڈھیر سے سونے کی ڈلی بنا دیتے ہیں۔ اطاعت امیر کے ضمن میں ایسا انقلاب آفریں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس سے ایک طرف تو اطاعت کی روح اور مغز ظاہر و باہر ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف عرب کی جھوٹی عزت، غرور، نخوت اور غلامی کی زنجیروں کو جنہوں نے صدیوں سے وہاں کے لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ہوا ہے پاش پاش کر دیتے ہیں۔آپؐ فرماتے ہیں:۔
اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ
(بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ)
اے مومنو !امیر کی بات غور سے سنو اور اس کی اطاعت اپنا شعار بناؤ خواہ ایک حبشی غلام کو ہی تمہارا افسر مقرر کر دیا جائے۔ جس کا سر انگور کے خشک دانے کی طرح چھوٹا ہو۔
آپﷺ کے اس ارشاد میں اطاعت کا ایسا درس دیا گیا ہے کہ جسے قیامت تک امت مسلمہ اپنے لئے فخرکا موجب سمجھتی رہے گی۔ کیسی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر امیر کوئی ایسا معمولی اور بدصورت غلام ہے کہ جسے تمہاری ظاہری آنکھیں قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ نہ تو اس کی کوئی ذاتی وجاہت ہے اور نہ ہی کوئی خاندانی جاہ و حشمت پھر بھی چونکہ اسے تمہاری امارت کا مرتبہ سونپا گیا ہے اور امارت کارتبہ تمام خاندانی و نسلی مراتب سے بڑھ کر ہے اس لئے اس کی اطاعت مکمل دلی خوشی اور نفس کی مرضی اور پسندیدگی کے ساتھ تم پر واجب ہے۔
اس میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اگروہ شخص جسے تمہارا امیر بنایا گیا ہے تمہارے خیال میں کم عقل اور اس کے احکام جہالت پر مبنی ہوں پھر بھی اگر اس کے احکام معصیت کے دائرے سے باہر ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے احکامات سے نہیں ٹکراتے تو ہر حال میں تم پر اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
اطاعت نہ کرنے والوں کو آپؐ نے درج ذیل الفاظ میں انذار فرمایا:۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص امام کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے وہ قیامت کے دن خداتعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس اپنے حق میں کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں اطاعت کا جوا نہیں، وہ ضلالت اور گمراہی کی موت مرا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص جماعت سے الگ ہو جاتا ہے اور اسی حالت میں اسے موت آجاتی ہے توده جہالت یعنی گمراہی اور ضلالت کی موت مرا۔
(صحیح مسلم)
اس میں آپؐ نے اطاعت نہ کرنے کے بھیانک انجام کا ذکر کر کے اطاعت کی اہمیت کو مزیدواضح فرمایا ہے۔
قرآن کریم اور آنحضور صلی الله علیہ وسلم کے اوّل مخاطبین صحابہ کرامؓ نے اطاعت کے حکم الہٰی اور حکم رسول کو کس نظر سے دیکھا اور کس طرح اس پر عمل کیا اور اطاعت کی کیسی کیسی بےنظیر مثالیں قائم کیں اب وہ پیش کی جائیں گی۔
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ۔
(البقرۃ:286)
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس رسولؐ پر اس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر وہ خود بھی ایمان رکھتا ہے اور دوسرے مومن بھی ایمان رکھتے ہیں۔یہ سب کے سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کاحکم سن لیا اور ہم اس کے دل سے فرمانبردار ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔
اس آیت قرآنی کا ایک شان نزول جو صحابہ کرامؓ کی بےمثال اطاعت کی عکاسی کرتا ہے احادیث میں یوں بیان ہوا ہے:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریمﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’جو کچھ بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو یا اسے چھپائے رکھو اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھرجسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر ایک چیز پر بڑا قادر ہے۔‘‘ تو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت بڑی سخت محسوس ہوئی۔ چنانچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہؐ ہمیں ایسے اعمال بجالانے کا مکلّف بنایا گیاہے جن کی ہم طاقت رکھتے ہیں مثلاً نماز، روزے، جہاد اور زکوٰة اور اب آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے جو ہماری طاقت سے باہر ہے۔ اس پر رسول کریمؐ نے فرمایا ’’کیاتم چاہتے ہو کہ تم بھی ویسے ہی کہو جیسے تم سے پہلے دواہلِ کتاب جماعتوں نے کہا کہ ہم نے سنا اورہم نے نافرمانی کی۔ ایسا نہ کرو بلکہ تم کہو کہ ہم نے سنا اور ہم دل سے اس کے مطیع ہو گئے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہم نے لوٹنا ہے۔‘‘ چنانچہ صحابہ ؓنے اس فقرہ کو اس کثرت سے دہرایا کہ ان کی زبانیں اس سے لبریز ہو گئیں۔
اس حدیث میں صحابہؓ کی اطاعت کے اس پہلو کی جھلک نظر آتی ہے جس کا تعلق قول سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کہو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا تو انہوں نے اس کثرت سے کہا کہ خدا تعالی ٰکو ان کی یہ ادا پسند آئی اور اس نے ان کی اس اطاعت کی برکت انہیں اس طرح عطا فرمائی کہ اس قول کو قرآن کریم میں ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا۔
عملی اعتبار سے صحابہؓ کی اطاعت کانظارہ کرنے کے لئےآئیے اب ذرا صحابہ کرامؓ کی زندگی میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔ اطاعت کا یہ پہلو بسا اوقات، انسان سے ایسی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حیلوں اور بہانوں سے اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر صحابہ رسولؐ کو خدا تعالیٰ نے نبوت کے نور کی وجہ سے ایسا روشن خیال بنا دیا تھا کہ وہ اطاعت کا صحیح مضمون جان گئے تھے اور کسی امر میں حیلوں بہانوں سے اطاعت کرنے سے بچنے کی بجائے حیلوں اور بہانوں سے اطاعت کرنے کی راہیں تلاش کرتے۔ رسول کریم ؐکے احکام کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کر نے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس کی آواز کو ہی کافی سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکے متعلق آتا ہے کہ آپؓ ایک مرتبہ مسجد کی طرف آرہےتھے کہ آپؓ کے کانوں میں آنحضورؐ کی آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف آنے لگے۔ ایک دیکھنے والے نے آپؓ سے کہا کہ آنحضورؐنے تو مسجد میں کھڑے لوگوں کو کہا تھا کہ بیٹھ جاؤ۔ آپؓ کو تو نہیں کیا تھا۔ اس پر حضرت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر وہاں پہنچتے پہنچتے میری جان نکل جائے تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ خدا کے رسولؐ کی طرف سے ایک آواز میرے کانوں میں پڑی اور میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔
یہ واقعہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کی عمدہ عملی تفسیر اپنے اندر لئےہوئے ہے۔
حرمت شراب کے وقت صحابہ کرام ؓنے جس بے نظیر اطاعت کا مظاہرہ فرمایا اس سے انسان کی عقل ورطہ حیرت میں پڑھاتی ہے کہ ایسے ملک میں جو شراب نوشی میں ساری دنیا سے بڑھا ہوا تھا اور جس میں شراب کے بھرے ہوئے مٹکوں کے در میان شراب پیتے پیتے آنے والی موت بہترین موت سمجھی جاتی تھی اور جس علاقہ کو شراب کشید کرنے کا موجد اور شراب کی بہترین منڈی گردانا جاتا تھا، ایسابھی ہو سکتا ہے کہ گلی سے ایک شخص کی آواز آنے پر کہ ‘‘شراب حرام کی گئی ہے’’ شراب کے نشہ میں مست لوگ پہلے شراب کے مٹکے توڑیں اور پھر آواز کی صداقت کی تصدیق کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حقیقت یہی ہے۔ جس کا اظہار حضرت انسؓ کی روایت سےہوتاہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحٰہؓ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی اور میں شراب پی رہا تھا۔ دَور پر دَور چل رہا تھا۔ نشہ کی وجہ سے لوگوں کے سر جھکنےلگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا پتہ تو کرو کہ یہ بات درست ہے؟ مگر دوسرے لوگوں نے کہا نہیں پہلے شراب کے بر تن توڑ دو پھر تصدیق کرنا۔ اگر بات غلط ہو ئی تو شراب اور آجائے گی لیکن اگر بات درست ہوئی تو کہیں ہم حکم رسولؐ کے نافرمان نہ قرار پائیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا اور سونٹا مار کر شراب کے مٹکے توڑ دیئے۔
حضرت کعب بن مالکؓ کو جنگ تبوک میں باوجود استطاعت ہونے کے شمولیت نہ کرنے کی بناء پر جب خدا تعالیٰ کے حکم سے مقاطعہ کی سزا دی گئی تو اس شدید ابتلاء میں آپ ؓنے اطاعت کی بے نظیر مثال قائم فرمائی۔
حضرت کعبؓ کے ابتلاء کے دوران جہاں حضرت کعبؓ کی اطاعت اور پختگی ایمان کے نظارے نظر آتے ہیں وہاں دوسرے صحابہؓ جو آپ کے قریبی رشتہ دار تھے ان کی اطاعت کا بھی بہترین نمونہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ابوقتادہؓ کا واقعہ اس کا مظہر ہے کہ جب حضرت کعبؓ نے بار بار خدا اور اس کے رسولؐ کا واسطہ دے کر ان سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی اور ایک بات دریافت کی تو اطاعت کے اس پتلے نے سوائے اس کے انہیں کوئی جواب نہ دیا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔
جنگ بدر کے موقعہ پر جب رسول خدا ؐنے لوگوں کو جنگ کے لئے بلایا تو حضرت مقداد بن اسودؓ نے صحابہ کی ترجمانی ان الفاظ میں کی۔
یا رسول الله ؐ!اگر جنگ ہوئی تو ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ بلکہ خدا کی قسم ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور یا رسول اللهؐ دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔ یا رسول اللهؐ جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپؐ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں کود جاؤہم بلا دریغ سمندر میں کود جائیں گے۔
صحابہ کرام ؓنے صرف ایسا کہا نہیں بلکہ جب جنگیں ہوئیں تو ایسا کر کے دکھایا۔چنانچہ جنگ اُحد کا میدان اس بات کا گواہ ہے۔ ایسا دعوی ٰکرنے والے لوگ آپ کے آگے ،پیچھے، دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔اپنے جسموں کے ستر ستر ٹکڑے کروا لئے مگر آنحضور ﷺتک دشمن کو نہ پہنچنے دیا۔ جنگ حنین میں آنحضورﷺ کے اس اعلان پر کہ ’’اے وہ لوگو! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو! جو سورة بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تمہیں بلاتاہے۔‘‘ صحابہؓ نے اپنی بےقابو سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور بھاگتے ہوئے حضور ؐکے قدموں میں جمع ہو گئے۔
صحابہ ؓ کی زندگی کے ہر میدان میں بے مثل اطاعت کا نظارہ کر کے شاید ذہن میں یہ خیال آ ئے کہ یہ ایک سہل امر ہے جو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے اس خیال کو ردّ فرمایا اور صحابہ کرامؓ کی اطاعت کی تعریف درج ذیل الفاظ مبارکہ میں فرمائی:۔
’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 74)
اس قدر کٹھن اور مشکل کام کے بدلہ میں خدا اور خدا کے رسولؐ نے برکت کے طور پر ان لوگوں کو جس انعام سے نوازا وہ بھی دائمی تھا۔ رسول خدا ؐنے ان لوگوں کو جنہوں نے ہر مرحلہ پر مطیع حق ہونے کا ثبوت دیا أصحابي كالنُّجُوْمِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اِهْتَدَيْتُمْ کے خطاب سے رہتی دنیا تک آنے والے لوگوں کیلئے مطاع حق بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کا عظیم الشان لقب عطا فرما کر دنیا و آخرت میں اپنی رضا سے ان کی جھولیوں کو بھر دیا۔ صحابہؓ کی یہ قربانیاں اور اطاعت کے یہ مظاہرے دراصل ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور قوت قدسیہ کی بدولت تھے۔ آپؐ نے قدم اٹھایا تو صحابہؓ کے قدم اٹھے۔ آپؐ آگے بڑھے تو صحابہ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔
یَا رَبِّ صَلّ عَلٰی نَبِیّکَ دَائِمًا
فِي هٰذه الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٖ
(ماہنامہ خالدمئی، جون 1993ء)
(ظہیر احمد خان۔لندن)