• 25 اپریل, 2024

حضرت برکت بی بی ؓ اہلیہ حضرت میاں فضل محمدؓ

حضرت برکت بی بیؓ کا تعلق دیال گڑھ کے ایک متدیّن گھرانے سے تھا۔ حضرت میاں فضل محمدؓسے شادی کے بعد ہرسیاں آگئیں۔ 1895ء میں میاں صاحب کے قبول احمدیت کے ساتھ ہی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت میاں فضل محمدؓ تحریر کرتے ہیں۔

’’جب میں بیعت کر کے اپنے گھر پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور آپ خالی ہاتھ آ رہے ہیں۔ اس پر مجھے خیال گزرا کہ حقیقت حال ظاہر کرنے سے یہ ناراض نہ ہو جائیں مگر میں نے اُن کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جا کر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر آیا ہوں۔ اس پر اُنہوں نے کچھ نہ کہا اور کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں خواب میں حج کو جا رہی ہوں اور بہت سے لوگ حج کو جا رہے ہیں اور وہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی طرف ہے جدھر لوگ حج کو جا رہے ہیں۔ جب میں حج کی جگہ پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں۔ وہاں سیڑھیاں چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ہوں۔ وہاں دیکھتی ہوں کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ وہاں بیٹھا ہے اور اس کے اردگرد بہت سی مٹھائی پڑی ہے۔ مجھے اس بچہ کو دیکھ کر اپنا وہ بچہ یاد آ گیا جو کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکا ہے۔ اس پر اس بچہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ فکر نہ کرو اللہ تعالیٰ تمہیں بچہ دے گا وہ اِحیا ہوگا، نیک ہو گا۔ میرے خیال میں وہ (جگہ) قادیان شریف ہے مجھے قادیان لے چلو۔ چنانچہ میں اُن کو قادیان لے آیا اور بیعت میں داخل کروا دیا الحمدللّٰہ۔ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے کوئی چیز نہیں مانگتی صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھے قادیان جانے سے نہ روکیں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر41)

عجیب ایمان افروز نظارہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے گھر میں مہدیٔ معہودکی آمد کا تذکرہ رہتا تھا۔ نیک دل شوہر کے زیرِ اثر خاتون پر بھی سعادت کا رنگ آ گیا تھا۔اپنے شوہر سے ایسی ہم آہنگی تھی کہ بیعت کی خبر سے مخالفت کا طوفان اُٹھایا نہ صداقت کے دلائل مانگے۔ ایک منادی کی پکار کو سُنا اور سر تسلیم خَم کر دیا۔ قدرت نے حق کی طرف رہنمائی کے لئے خوابوں کے ذریعہ سامان کیا تھا اور اپنے پیارے مسیح کی طرف آنے کے راستے خود سمجھائے تھے۔پہلی دفعہ جب آپ قادیان پہنچیں تو میاں صاحب سے کہا کہ اب آپ مجھے راستہ نہ بتائیں بلکہ میرے ساتھ ساتھ آئیں اب میں اُس راستے سے جاؤں گی جو خوابوں میں دیکھا کرتی ہوں۔چنانچہ آپ خود چلتے چلتے دارالمسیح تک پہنچ گئیں۔ جب پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رُخ ِ انور پر نگاہ پڑی تو پہچان گئیں کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو خوابوں میں دیکھا کرتی تھی اور فوراً بیعت کر لی اور اُن مؤیدین میں شامل ہو گئیں جن کے بارے میں الہاماً فرمایا گیا تھا۔

یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمآءِ

بیعت کے ساتھ ہی قادیان اور اہل ِقادیان کی محبت دل میں گھرکر گئی اپنے شوہر سے فرمائش کی کہ میں آپ سے کچھ نہیں مانگتی صرف یہ وعدہ کریں کہ مجھے قادیان جانے سے نہیں روکیں گے۔ ہرسیاں سے قادیان کے چکر لگنے لگے ،عموماً نماز جمعہ کے لئے قادیان جاتیں۔آپ کی ایک سہیلی مکرمہ برکت بی بی جس کا تعلق تلونڈی جُھنگلاں سے تھا، بھی آپ کے ساتھ اکثر قادیان آتیں۔ہرسیاں سے قادیان جمعہ پڑھنے کے لئےجانے کا ذکر حضرت منشی سر بلند خان ؓکے بیعت کے واقعہ میں بھی ملتا ہے آپ لکھتے ہیں۔

’’میں نے اپنی رہائش موضع شیر پور میں اختیار کر لی۔ہرسیاں گاؤں ساتھ تھا وہاں مولوی عبد الغفور فاضل مرحوم کے والد میاں فضل محمد رہتے تھے۔اُن کی صحبت حاصل ہو گئی اور میں نے ان کے ساتھ ہر جمعہ کو قادیان جانا شروع کیا۔‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 341)

دارالمسیح میں قیام

حضرت برکت بی بیؓ قادیان آتیں تو حضرت اماں جان ؓ کے پاس ہی قیام ہوتا ۔آپ آتے ہی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتیں۔ کھانا پکانے میں کافی مہارت تھی۔ ایک دن آپ کے کھانا پکانے کی داد حضرت مسیح موعودؑ نے بھی دی کھانا پسند فرمایا اور پوچھا۔’’نصرت آج کھانا کس نے پکایا ہے؟‘‘
آپؓ نے بتایا کہ آپ کی ’’نئی مریدنی نے‘‘۔ حضرت اقدس ؑنے از راہِ شفقت ارشاد فرمایاکہ: ’’اب یہ جب بھی آئیں کھانا یہی پکایا کریں۔‘‘ حضرت اماں جان ؓ نے بھی خوب اطاعت کی۔ آپ کے قادیان آنے پر فرماتیں برکت بی بی اب باورچی خانہ سنبھالو۔ اس طرح ان کو ایک نہایت بابرکت خدمت کی توفیق ملی۔

آپ قادیان آتیں تو کئی کئی دن ٹھہر جاتیں۔ یہ گھر ہی ایسا بابرکت تھا کہ واپس جانے کو دل نہ چاہتا۔ اُدھر حضرت اماں جان ؓ اس قدر محبت کرنے والی شفیق خاتون تھیں کہ آپ کا دل بھی نہ چاہتا کہ وہ واپس چلی جائیں کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جب میاں صاحب آپ کو لینے کے لئے آتے تو حضرت اماں جان ؓفرماتیں: فضل محمد برکت بی بی کو چند دن اور رہنے دو پھر آ کر لے جانااوروہ ان دونوں کا پیار دیکھ کر تنہا واپس لوٹ جاتے۔

ایک دلچسپ واقعہ

آپ جب حضرت اقدس ؑ کے یہاں تشریف لاتیں تو بڑی بچی رحیم بی بی کو بھی ساتھ لے آتیں۔ ان کے بارے میں مکرمہ اہلیہ مولوی غلام نبی مصری نے ایک دلچسپ واقعہ ان کے بھولپن کی فرمائش کا سنایا۔ جو حضرت اقدسؑ کی بچوں کی دلداری کی خوبصورت مثال بھی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ کسی تصنیف میں مصروف تھے۔ بچی حضرت صاحب کو پنکھا کر رہی تھی خداجانے اس بچی کے دل میں کیا آیا کہ وہ ایک کھڑکی میں چڑھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی: حضرت جی آپ یہاں آجائیں تو میں آپ کو پنکھا کروں۔ حضرت اقدس ؑ بچی کی دلجوئی کی خاطر اپنا کام چھوڑ کر اُٹھے اور کھڑکی کے پاس تشریف لے آئے۔

Ian Adamson نے اپنی کتاب Mirza Ghulam Ahmad of Qadian کے صفحہ 144 پر اس دلچسپ واقعہ کا یوں ذکر کیا ہے۔

One of his wife’s friend often stayed with them for a month. Her little daughter occasionally amused herself by coming into hi room and fanning him as he worked.One day she found it more interesting to sit by the window. She told him ‘Come and sit over here. It is easier for me

’’.Ahmad duly got up and sat where she had directed

حضرت برکت بی بیؓ تعلیم یافتہ تھیں

رجسٹر روایات میں درج روایات کے مطابق آپ اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں کے مرحوم قاضی کے بچوں کو قرآن شریف اور کتابیں پڑھاتی تھیں۔

جلسہ کے مہمانوں کی خدمت

کتنا دلکش و دلفریب وہ زمانہ تھا جب شمع احمدیت کے پروانے جلسہ سالانہ کے لئے قافلوں کی صورت میں دیوانہ وار پیدل چل کر قادیان کو جاتے تھے۔ کبھی ان قافلوں کا پڑاؤ سیکھواں میں حضرت مولانا جلال الدین شمسؓ کے ہاں ہوتا کبھی ہرسیاں میں ٹھہرتے۔ یہ قافلے دن اور رات میں کسی وقت بھی آ جاتے۔ آپ بڑی مستعدی سے مبارک قافلے کے قیام و کھانے کا انتظام کرتیں بلکہ اظہارِ تشکر فرماتیں کہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم اور مسیح پاک کی برکت ہے کہ اُس کے عاشقوں کی خدمت کا موقع ملا۔

قادیان ہجرت کا باعث حضرت برکت بی بیؓ بنیں

آپ نے قادیان کے قریب آنے کی خواہش میں قادیان کے جنوب میں آدھ میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ننگل باغباناں میں ایک مکان لیا اور بچوں کے ساتھ اُس میں منتقل ہو گئیں۔ قادیان قریب تَر ہو گیا مگر اتنی دُوری بھی گوارا نہ ہوئی اور بالآخر17ء 1916-ء میں ہجرت کرکے قادیان آ گئے۔ قادیان آکر جس علاقے میں مکان بنوایا وہ بعد میں دارالفضل کہلایا۔ برکت بی بی ؓ کا قادیان ہجرت کرنے کا فیصلہ بہت با بر کت تھا جس نے آئندہ آنے والی نسلوں کی قسمتوں کے رُخ موڑ دیئے۔ آپ کس قدر مضبوط ایمانی قوت کی مالکہ ہوں گی اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر گھر بار چھوڑ کر اپنے محبوب کی بستی میں دھونی رمائی۔

آپ نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ میں قادیان گئی ہوں چھوٹا سا بچہ میری گود میں ہے۔ لنگر خانہ گئی ہوں اور لنگر خانے والوں سے کہا ہے کہ مجھے کچھ کھانا دیں۔ انہوں نے پوچھا آپ کہاں سے آئی ہیں۔ میں نے کہادیال گڑھ سے۔ انہوں نے کہا دیال گڑھ والوں کے لئے یہاں کھانا نہیں ہے۔ میں نے کہا کھانا دیں یا نہ دیں میں تو یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ میں نے لنگر خانہ میں ایک طرف چارپائی بچھائی اور بچے کو ساتھ لے کر وہاں لیٹ گئی۔
یہ خواب عجیب رنگ میں پورا ہوا۔ جب ہرسیاں کو چھوڑ کر یہ خاندان قادیان کی مقدس بستی میں منتقل ہو گیا تو آپ 1917ء میں ایک بچے کی پیدائش کے بعد بیمار ہو گئیں۔ اسی بیماری میں آپ کا وصال ہوا بچہ پہلے ہی فوت ہو گیا تھا۔ کھانے سے مراد زندگی ہوتی ہے۔ قادیان رہائش کے ساتھ دُنیا سے دانہ پانی اُٹھ گیامگر دائمی لنگر خانے میں دوسری زندگی کا آغاز ہوا۔ ماں بچہ دونوں ہی قادیان کی مٹی میں قبر میں لیٹ گئے۔آپ کی بڑی بیٹی رحیم بی بی روایت کرتی ہیں کہ جب حضرت اماں جان ؓ کو آپ کی وفات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا۔

’’فضل محمد چراغ لے کر ڈھونڈ یں اب برکت بی بی اُن کو نہیں مل سکے گی۔‘‘

حضرت مسیح موعود ؑ کی دُعاؤں سے نیک اولاد کی نعمت

حضرت میاں فضل محمد ؓنے ایک خواب دیکھا تھا جس سے اُنہیں فکر ہوا کہ عمر کم ہو گی جب وہ خواب حضرت اقدس ؑ کو سنایا تو آپؑ نے تعبیر فرمائی کہ اللہ قادر ہے دُگنی کردیا کرتا ہے۔الٰہی فرستادہ کے مبارک منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی برکت سے ہر نعمت دُگنی ہوتی گئی۔ زندگی کے ہر رُخ پر حضرت اقدسؑ کی دُعائیں برکات کے دروازے کھولے کھڑی تھیں۔ برکت بی بی ؓ نے بیعت کے وقت جو خواب دیکھا تھا اُس میں معصوم بچے کی زبان سے نیک اور با عمر لڑکے کی بشارت بھی تھی۔ آپ کے ہاں2 بیٹیوں کےبعدایک بیٹا پیدا ہوا مگر کم عمری میں فوت ہوگیا جس کی وجہ سے بہت صدمہ محسوس کیا۔ خادمِ دین بیٹے کی بہت خواہش تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور بیٹا عطا فرمایا جس کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے عبد الغفور رکھا اور بچے کو ایک روپیہ عنایت فرمایا۔ یہ بابرکت بیٹا حضرت ابوالبشارت عبدالغفور سلسلہ احمدیہ کا عظیم مجاہد بنا۔ پھر تیسرا بیٹا 1903ء میں پیدا ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑسے نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی۔ آپ نے عبد الغفور کی مناسبت سے عبدالرحیم نام رکھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ بیٹا بھی خادم دین اور درویش قادیان بنا۔ چوتھے بیٹے کی پیدائش سے پہلے برکت بی بی ؓ نے جو خواب دیکھا اس میں بیٹے کا نام صالح بتایا گیا تھا۔ اس خواب کے بعد 1906ء میں بیٹا پیدا ہوا تو حضرت میاں فضل محمدؓ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: حضور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لڑکا عطا فرمایا ہے ازراہِ کرم اس کا نام عطا فرمادیں آپ نے فرمایا غلام محمد رکھ لیں۔ عرض کیا سیّدی! اس کے تایا جان کا نام غلام محمد ہے۔ ارشاد ہوا ’’صالح محمد‘‘ رکھ لیں۔ بچے کا نام رکھانے سے اس چھوٹے سے واقعہ میں کئی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خواب میں بیٹے کا وعدہ فرمایا جو پورا ہوا۔ پھر خواب کی بناپر خود ہی نام صالح محمد نہیں رکھ لیا بلکہ دربار مسیحؑ میں گئے وہاں خواب کا ذکر نہیں کیا از خود حضرت مسیح موعود ؑ نے وہ نام رکھ دیا جو خواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا۔ سبحان اللّٰہ۔

حضرت اماں جان ؓ کا برکت بی بیؓ کے بچوں سے پیار اور شفقت

برکت بی بی ؓحضرت سیّدؓہ کی خدمت میں رہتی تھیں۔ماں کے ساتھ بچے لگے رہتے تھے اس طرح آپ کے سایۂ عاطفت میں پلے۔ چند واقعات سے باہمی محبت اور قرب کا اندازہ ہوتا ہے۔حضرت اماں جانؓ کی وسیع القلبی اور مرحومہ سے تعلقاتِ محبت نباہنے کا عجیب روح پرور انداز تھا۔ سوچا جائے تو کوئی نسبت ہی نہ تھی کہاں ایک غریب دیہاتی عورت اور کہاں مسیح و مہدیٔ دوراں کی رفیقہ ٔحیات مگر میل و محبت نے سب فاصلے مٹا دیئے۔حضرت سیّدہؓ نے ایک مرتبہ آپ کی بیٹی صالحہ بی بی کو بلایا ،تیل کی شیشی لائیں اور فرمایا صالحہ آؤ میں تمہارے سر میں تیل لگا دوں میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ تمہارے سر میں تیل لگا رہی ہوں سوچا اس خواب کو عملی طور پر پورا کر لیں سبحان اللہ کیا نصیبے ہیں۔ یہی بیٹی صالحہ بی بی جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ یہ خبر حضرت اماں جان ؓ کو ملی۔ آپؓ بے چین ہو گئیں۔ اُس وقت آپؓ کی طبیعت علیل تھی پھر بھی فوراً اظہار افسوس کے لئے جانے کا ارادہ فرمایا کسی نے عرض کی کہ آپؓ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بعد میں تشریف لے جائیے مگر آپؓ نے فرمایا:

’’برکت جو میری عاشق تھی اُس کی بچی بیوہ ہو گئی ہے اس لئے میں ضرور جاؤں گی۔‘‘

دوسری بیٹی احمد بی بی ایک دفعہ بیمار ہو گئیں ۔دل میں حضرت اماں جانؓ کی محبت اس قدر راسخ تھی کہ بیماری میں ایک ہی اصرار تھا کہ اماں جان ؓ کو ایک نظر دیکھنا چاہتی ہوں۔ اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ آپؓ قریب ہی کسی کی تعزیت کے لئے تشریف لائیں۔ اُن کی خدمت میں احمد بی بی کی شدید خواہش کا ذکر کیا گیا۔ آپؓ ازراہِ شفقت گھر تشریف لے آئیں۔ برکت بی بیؓ مرحومہ کی بیٹی کی خواہش پوری کر دی یہ ان کی آخری خواہش ثابت ہوئی کیونکہ اس واقعہ کے بعد وہ وفات پا گئیں۔

حضرت برکت بی بی ؓ خاکسار کی دادی جان تھیں۔ میں نے اپنے اباجان سے کچھ ان کا ذکر خیر سنانے کی درخواست کی تو آپ نے اپنی پیار ی ماں کے حوالے سے 2 باتیں سنائیں۔ پہلی دلچسپ بات اباجان کا رشتہ طے کرنے کا سادہ طریق ہے جو دو خاندانوں کی احمدیت سے محبت اور توکل علیٰ اللہ کی ایمان افروز مثال ہے۔ حضرت حکیم اللہ بخش ؓ کے ہاں ببّے ہالی میں بچی پیدا ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ بچی کا رشتہ قادیان میں ہونا چاہئے۔ اپنے دوست میاں فضل محمد کا خیال آیا کہ قادیان میں رہتے ہیں اوراُن کےہاں بیٹے ہیں۔ مکرم منشی جھنڈے خان کو پیغام دے کر بھیجا کہ فضل محمد سے کہہ دیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹی دی ہے۔آپ کا بیٹا عبد الرحیم ہمارا ہوا۔ انہوں نے جواب دیا جزاک اللہ ۔اس طرح یہ رشتہ طے ہو گیا۔ اس مختصر سی بات کو سات آٹھ سال ہو گئے۔ ایک دن آپ کی والد ہ محترمہ کو خیال آیا کہ لڑکی دیکھ تو آئیں اور بات پکی کر آئیں چنانچہ ببّے ہالی تشریف لے گئیں اور آکر بچے کو بتایا بچے! میں تیری شادی کے لئے جس لڑکی کو دیکھ کر آئی ہوں وہ جنت کی حور ہےاور واقعی آپ کا فیصلہ سو فیصد درست نکلا۔ خاکسار کی امیّ جان مکرمہ آمنہ بیگم واقعی ’’جنت کی حور‘‘ ثابت ہوئیں۔

دوسری بات اباجان نے قادیان ہجرت کرنے کے بعد کی بتائی۔ قادیان آکر حضرت فضل محمد ؓنےجس محلے میں مکان بنایا اُس کا نام حضورؑ نے دارالفضل اور مکان کا نام فضل منزل رکھا۔ حضرت اماں جان ؓ گھر پہ تشریف لائیں تو فرمایا: برکت بی بی آپ کو مبارک ہو۔ آپ کو زمین بھی مل گئی اور نام بھی آپ کےمیاں کے نام پر ’’دارالفضل‘‘ رکھا گیا۔ الحمدللّٰہ۔ ابا جان یہ واقعہ مزے لے کر سناتے۔

(حضرت دادا جان کی دوسری شادی مکرمہ صوباں بیگم سے ہوئی تھی جن سے ایک بیٹا مکرم عبدالحمید ،شاہین سویٹس نیو یارک اور ایک بیٹی مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ عطا ہوئے)

خاکسار کی پھوپھی جان مکرمہ صادقہ بیگم اہلیہ مولوی محمد شریف اپنی والدہ کی یاد میں تحریر کرتی ہیں۔
ایک دفعہ والدہ برکت بی بی ؓ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے گھر میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور بغل میں سبز رنگ کے کپڑے کا تھان ہے۔ اتنے میں حضرت مولانا نور الدینؓ تشریف لے آئے تو حضرت اقدسؑ نے وہ کتاب اور سبز رنگ کے کپڑے کا تھان مولانا نور الدینؓ کو دے دیا اور تشریف لے گئے۔ پھر وہیں مولانا نور الدینؓ ٹہلنے لگ گئے کہ اتنے میں میاں محمودؓ تشریف لے آئے تو مولانا نور الدینؓ نے وہ کتاب اور سبزرنگ کے کپڑے کا تھان میاں محمودؓ کو دے دیا اور چلے گئے۔ اب مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ یہ خواب والدہ نے حضرت مسیح موعودؑ کو سنائی یا نہیں۔ ہاں یہ یاد ہے کہ والدہ برکت بی بی مرحومہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو یہ خواب سنائی تھی تو حضورؓ نے فرمایا تھا کہ یہ خواب چھپوادیں۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے یہ خواب چھپوائی یا نہیں۔

(الفضل 25۔ اگست 2001ء)

فضل و برکت کی اولاد

1۔مکرمہ رحیم بی بی اہلیہ مکرم ماسٹر عطا محمد پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ۔ ان کے ایک بیٹے مکرم نور محمد نسیم سیفی واقفِ زندگی مبلغ افریقہ۔ شاعر، ادیب، ایڈیٹر تحریک جدید اور الفضل ربوہ رہے۔ راہ مولی کے اسیر بھی رہے۔

2۔مکرم مولانا عبد الغفور فاضل ابوالبشارت بحیثیت مبلغ سلسلہ 23 سال خدمت کی توفیق پائی۔ بہت اچھے مقرر تھے۔

3۔مکرم میاں عبدالرحیم دیانت قادیان میں درویشی کی سعادت پائی۔ان کے ایک بیٹے مکرم عبدالباسط شاہد واقف زندگی مبلغ سلسلہ ہیں۔

4۔مکرم مولوی صالح محمد مبلغ سلسلہ۔ افریقہ میں بطور تاجر مبلغ خدمات ادا کیں۔

5۔مکرمہ صالحہ فاطمہ اہلیہ مکرم غلام محمد

6۔مکرم محمد عبداللہ قادیان اور ربوہ میں دکاندار تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 9 نومبر 1956 کے خطبہ میں فرمایا : ‘‘چوتھا لڑکا (ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا زندہ لڑکوں میں سے چوتھا۔ ناقل) مبلغ تو نہیں لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمتِ دین ہی کرتا ہے۔

7۔ مکرمہ حلیمہ بیگم اہلیہ مکرم شیخ محمد حسن نے ربوہ اور لندن میں جماعت کی طویل خدمات کی توفیق پائی۔ ان کے بیٹے مکرم محمد اسلم خالد واقف زندگی ہیں۔ (کچھ بچے صغر سنی میں وفات پاگئے)

شکر نعمت کے طور پر یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اس بابرکت جوڑے کو حضرت اقدس ؑ کی دُعاؤں کے طفیل خوب پھل لگے۔ عددی پھیلاؤ بھی حاصل ہوا اور آگے نسلوں میں ٹھوس خدمت دین کی سعادت پانے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم اپنے بزرگوں کے احسان مند ہیں جن کی قربانیوں سے ہمیں حقیقی اسلام احمدیت سے وابستگی کی قیمتی دولت ملی۔ بزرگوں کے تذکرہ کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلتی ہے کہ مولا کریم جس طرح اس جہان میں ان کو اپنے مسیحا کا قرب عطا فرمایا۔ اسی طرح وہاں بھی اپنا اور اپنے پیاروں کا قرب نصیب فرمانا اور تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی جماعت سے وابستگی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین اللّٰھم آمین

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

طلوع و غروب آفتاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2020