• 11 مئی, 2025

پھر دیکھیں آپؐ کی سچائی کے رعب کی ایک اور مثال

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جنگ اُحد میں رسول اللہﷺ زخمی ہونے کے بعد جب صحابہ ؓ کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ابی بن خلف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر للکارتے ہوئے پکارا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آج تم بچ گئے تو مَیں کامیاب نہ ہوا۔ صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی اس کی طرف بڑھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزہ لیا اور آگے بڑھے اور اس کی گردن پر ایک ہی وار کیا۔ جس سے وہ اپنے گھوڑے سے زمین پر لوٹنیاں کھاتے ہوئے گرا۔ ابن اسحاق جن کی روایت سیرت ابن ہشام میں درج ہے بیان کرتے ہیں کہ مجھے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے بتایا کہ ابی بن خلف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں ملتا تو کہتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک گھوڑا ہے جس کو میں خاص مقدار میں دانہ کھلا کر موٹا تازہ کر رہا ہوں۔ اس پر سوار ہو کر مَیں آپ کو قتل کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے کہ جس طرح تم کہتے ہو ویسا نہیں ہو گا بلکہ ان شاء اللہ میں ہی تمہیں قتل کروں گا۔ پس جب زخمی ہو کر قریش کے پاس واپس پلٹا تو اس کی گردن پہ ایک معمولی زخم تھا جو اتنا بڑا نہیں تھا جس سے خون بہہ نکلا۔ تھوڑا سا خون بہا تھا۔ وہ کہتا جا رہا تھا کہ بخدا محمدؐ نے مجھے مار ڈالا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم خوامخواہ دل چھوٹا کر رہے ہو، مایوس ہو رہے ہو۔ معمولی سا زخم ہے۔ اس نے کہا تم نہیں جانتے۔ اس نے(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے) مکہ میں مجھے کہا تھا کہ مَیں تجھے قتل کروں گا۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتا تو میں مارا جاتا۔ چنانچہ یہ قافلہ ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ اسی زخم سے سرف مقام پر وہ ہلاک ہو گیا۔

(سیرت ابن ھشام۔ غزوۃ احد۔ مقتل ابی بن خلف)

پھر ایک یہودی عالم کی آپؐ کی سچائی پر گواہی ہے، جو قیافہ شناس بھی تھا، چہرہ شناس بھی تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپؐ کا استقبال کرنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئے۔ اور یہ صدائیں بلند ہونے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ رسول اللہﷺ تشریف لے آئے ہیں۔ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ مَیں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کو دیکھنے کے لئے آیا۔ یہی وہ یہودی عالم تھے۔ جب مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو بغور دیکھا تو مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپؐ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔

(ترمذی کتاب صفۃالقیامۃ والرقائق والورع باب نمبر 42)

ان تمام گواہیوں کو سامنے رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ آپؐ سچ بولنے والے اور خدا کے سچے نبی نہیں تھے۔ سوائے اس کے کہ جن کے دل، جن کے کان، جن کی آنکھوں پر مہر لگ چکی ہو، پردے پڑ چکے ہوں، اور کوئی نہیں جو یہ باتیں کر سکے۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی سچ کو اور حق کو ظاہر کیا اور پھیلایا ہی نہیں بلکہ اپنے ماننے والوں کے دلوں میں بھی پیدا کیا۔ ان کے اندر بھی اس سچائی کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔ اور اسی حق بات کہنے اور حق کہنے کی وجہ سے اور حق ماننے کی وجہ سے بہتوں کو شروع زمانے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ بھی دھونے پڑے۔ لیکن یہی ہے کہ ہمیشہ سچ کو سچ کہا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کسی اعلیٰ تعلیم اور اس کے لانے والے کے اعلیٰ کردار کو جانچنے کے لئے اس شخص کی زندگی میں سچائی کے معیار بھی دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ معیار ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سب سے بڑھ کر نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی سچائی کا معیار بچپن اور جوانی میں بھی انتہائی بلند تھا۔ جس کی ہم نے مختلف واقعات میں گواہی دیکھی ہے۔ دشمن بھی باوجود آپؐ کی تعلیم اور خدا پر یقین نہ ہونے کے آپؐ کی طرف سے کوئی انذار کی بات سن کر، کوئی ڈرانے والی بات سن کر، خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے۔

(خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021