• 27 جولائی, 2025

حضرت مولوی غلام احمدؓ بدوملہوی

(نوٹ:یہ مضمون ’’سیرت و سوانح اساتذہ جامعہ احمدیہ‘‘ مقالہ کے قلمی نسخہ سے مرتب کیا گیا ہے)

خاندانی حالات

حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت مولوی عبدالحقؓ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کی قوم را جپوت تھی۔ بدوملہی ضلع سیالکوٹ حال نارووال کے رہنے والے تھے۔

حضرت مولوی عبدالحق ؓکے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

غلام احمد ؓ، غلام مصطفی، عبد القدیر اور عبد الرشید صاحب اسی طرح دو بیٹیاں فاطمہ بی بی اور سکینہ بی بی صاحب تھیں۔

(بيان مكرم مبارك احمد مجيد ابن حضرت مولوی غلام احمدؓ بدوملہوى)

پیدائش

حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوی 1900ء میں پیدا ہوئے۔

(روزنامہ الفضل ربوه مورخہ 21۔ اگست 1978ء)

ابتدائی تعلیم

حضرت مولوی غلام احمدؓ بدوملہوی 1906ء میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ قادیان میں دینیات کی ابتدائی تعلیم پانے اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ کو مبلغین کی ان اوّلین کلاسوں میں شامل ہونے کا موقع ملا جن میں سلسلہ احمدیہ کے نامور علماء نے خلافت ثانیہ کے عہد کے ابتدائی ایام میں تعلیم پائی۔

(روزنامہ الفضل ربوه مورخہ 21۔ اگست1978ء)

غالباً 1923ء میں جامعۃ المبشر ین قادیان سے فارغ التحصیل ہوئے۔ کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ تقریباً ہر کھیل میں حصہ لیتے۔ آپ کے ہم جماعتوں میں مولوی ظہور حسین بھی تھے۔

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد ابن حضرت مولوی غلام احمدؓ بدوملہوی)

آپ نے 1917ء میں زندگی وقف کی۔

قبول احمدیت

حضرت مولوی عبدالحق ؓ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے 1894ء میں بیعت کی ۔ اس طرح حضرت مولوی غلام احمد ؓ پیدائشی احمدی تھے۔

(غیر مطبوعہ مقالہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ از مرزا محمد شفیق انور ص 226 تا 229)

حضرت اقدسؑ سے تعلق و زیارت

آپ زیارت حضرت اقدسؑ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:
(1) میں نے جولائی 1906ء میں مسجد مبارک (پہلی قدیم ہجرت والی) میں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ پہلو بہ پہلو کھڑے ہو کر نماز یں ادا کیں۔

(2) بعدهٗ 1906ء کے آخر اور 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حاضر ہوا ہوں حضورؑ کی آخری سیر جوریتی چھلہ کے جوہڑ تک جوجلسہ سالانہ پر تھی، میں ساتھ تھا۔

(3) 1907ء کے بعد جب لنگرخانہ حضرت میاں بشیر احمدؓ کے مکان پر تھاو ہاں ابھی مہمان موجودتھے کہ حضرت قاضی امیر حسین ناظر لنگر خانہ نے ایک دن جب کہ چاول پک رہے تھے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مہمان زیادہ ہیں اور کھانا کم ہے۔ کیا کیا جائے؟ تو حضورؑ کی طرف سے پیغام آیا کہ میں آتا ہوں پھر کھانا کی تقسیم کرنا ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت میاں بشیر احمدؓ والے مکان کی سیڑھیوں کے اوپر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تقسیم شروع کرو۔ چنانچہ حضورؑ کی برکت سے وہ کھانا سب کومل گیا جس سے لوگوں نے خوشی سے ’’معجزه معجزه‘‘ کا لفظ منہ سے نکالا ۔اور میں نے بھی ابا جی سے معجزہ کی حقیقت سمجھی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے تعلق میںتحریر فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں دو دفعہ اپنا قادیان آنا یاد کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک دفعہ کا مجھے زیادہ تفصیل سے یاد ہے۔ جو کہ غالباً دوسری دفعہ کی آمد ہے۔ ایک دفعہ میں اپنے والد صاحب مولوی عبدالحق کے ساتھ آیا ہوں ۔ دوسری دفعہ اپنے تایا مولوی غلام رسولؓ کی معیت میں آیا ہوں۔ تایا صاحب کے ساتھ جب آیا تھا تو بارش ہو رہی تھی۔ جب گھر سے چلےتو انبالہ اور امرتسر کے درمیان میں بھی بارش ہوئی تھی اور ہم لوگ بھیگتے بھیگتے قادیان پہنچے تھے۔ قادیان پہنچنے پر ہمیں گول کمرہ میں جگہ دی گئی۔ کیونکہ تایا جان کی بڑی لڑکی بھی ساتھ تھی۔ ان دنوں مکرم ڈاکٹر عبدالستار مرحوم بھی مع اپنے کنبے کے امرتسر سے تشریف فرما تھے۔ چونکہ ہمارے گاؤں بدوملہی اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کی جائے ملازمت میں صرف اڑھائی میل کا فرق تھا۔ اور دونوں بزرگ بھی حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم اور والد صاحب پرانے احمدی تھے۔ آپس میں بہت ربط اور ضبط تھا۔ مجھے یہ بھی بخوبی یاد ہے کہ ہمارے گول کمرہ میں اُترنے کے معاً بعد حضرت ام المومنینؑ فوراً ہم خدام کے پاس تشریف لائیں اور نہایت شفقت سے فرمایا کہ فوراً گیلے کپڑے اُتار دو اور دوسرے کپڑے بدل لو۔ مبادا سردی نہ لگ جائے۔ چنانچہ والدہ صاحبہ کی طرف سے آپا مریم بیگم صاحبہ نے ہی جواب دیا کہ ایساہی کیا گیا ہے۔

مجھے ان دنوں کے واقعات میں سے اس وقت صرف مندرجہ ذیل واقعات ہی یاد آتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کے اس حصہ سے جہاں آج کل حضرت ام المومنینؑ تشریف فرما ہیں۔ اسی کے صحن سے غالبا ًتین سیڑھیاں چڑھ کر ایک اورصحن آتا ہے۔ اس صحن کے مشرقی جانب غالباً جنگلہ تھا۔ جس کے ساتھ شمالاً جنو باً ایک پلنگ بچھا کرتا تھا۔ شاہ نشین کے ساتھ اس پر کبھی کبھار حضرت مسیح موعودؑ لیٹتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاؤں دبائے ہیں۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلد1 ص 269تا270)

یادگارتحریر

ان حالات کو میرے وصیت فارم میں رکھ دیا جائے تا کہ مجھے ریزرویشن نمبر 23.9.1956 E51 کا حامل مان سکے۔

غلام احمد بدوملہوی موصی1893
1963۔07۔30 (ریکارڈدفتروصیت)

جماعتی خدمات

تعلیم سے فارغ ہو کر آپ سلسلہ کے مبلغ مقرر ہوئے اور اس حیثیت سے آپ کو ملک کے طول و عرض کے دورے کرنے اور متعددمشہور مناظرے کرنے اور خدمت دین کے خاص مواقع حاصل ہوئے۔ آپ بلند پایہ مقرر تھے۔ مرکز میں اور بیرونی جماعتوں میں قرآن کریم کا درس دینے اور بہت سے احباب کو قرآن مجید پڑھانے کا آپ کو موقع ملا۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد 65 سال کی عمر میں آپ کو مئی 1964ء میں گیمبیا مغربی افریقہ میں بطور مبلغ انچارج بھیجا گیا، دوسال آٹھ ماہ گیمبیا میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ گیمبیا سے 2؍جنوری 1972ء واپس آنے کے بعد آپ کو کچھ عرصہ جزائر فجی میں جا کر تبلیغ اسلام کا موقع بھی ملا۔ غرض پوری عمرتبلیغ اسلام اور خدمت دین اور خدمت قرآن پاک میں بسر ہوئی۔

(بحوالہ روزنامہ الفضل ربوه مورخہ 21۔اگست 1978ء)

1910ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے۔ 1920ء تا 1923ء مبلغین کلاس میں پڑھتے رہے ۔ پہلی ڈیوٹی علاقہ انسدادارتداد ملکانہ میں لگی جہاں مسلمان ہندو ہورہے تھے۔ جہاں بہت سے لوگوں کو وا پس اسلام میں لایا گیا ۔ اور بہتوں کو ہندو ہونے سے روکا ۔ 1925ء تا 1926ء میں مشرقی پاکستان، برما اور سارے ہندوستان میں مختلف جگہ متعین رہے اور خدمات بجالاتے رہے ۔گیمبیا مغربی افریقہ میں بھی جماعت احمدیہ کی تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ فجی میں متعین ہونے کے دوران آپ کو اس مقام پر جانے اور وہاں دعا کا موقع بھی ملا جو زمین کا کنارہ تصور کیا جاتا ہے اس طرح سے حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ایک رنگ میں پورا ہوا۔

(بيان مكرم مبارك احمد مجيد ابن حضرت مولوی غلام احمد بدو ملہوىؓ)

حضرت مولوی غلام احمد بدو ملہی کی فجی میں خدمات

آپ ان مجاہدین میں سے تھے جنہیں فجی میں فریضۂ تبلیغ بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی اور جماعت احمدیہ کے اثر ونفوذ میں غیر معمولی اضافہ کا موجب بنے۔

آپ فجی کے لئے 10 جولائی 1970 ء کو روانہ ہوئے اور 30 مارچ 1972ء تک فریضۂ تبلیغ بجالا کر واپس تشریف لائے۔

(تاریخ احمدیت جلد20 ص668)

مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی کو فجی میں تقریبا ًدو سال تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ آپ نے زیادہ وقت جزیره واٹو الیوومیں گزارا اور جماعتی تعلیم وتربیت کے علاوہ مختلف شہروں اور قصبوں میں سوال و جواب کی محفلیں منعقد کر کے تبلیغ کی راہ ہموار کی۔ ان دنوں اس جزیرہ میں مخالفت زوروں پر تھی۔ مخالفین احمدیت نے (وٹی لیوو) سے ایک دوسرے جزیرہ کا رخ کیا مگر وہاں بھی انہیں شکست ہوئی ۔ اور مولانا صاحبؓ اس جزیرہ میں ان کا تعاقب کرنے کے لئے پہنچ گئے۔ مگر وہ مبلغ احمد یت کی علمی قابلیت اور ایمانی جرأت کی وجہ سے گفتگو کی جرأت نہ کر سکے اور بالآخر ایک شدید مخالف مولوی عبدالرحمٰن بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد20 ص672تا673)

تبلیغی سرگرمیاں: یو پی، کشمیر، بہار، اڑیسہ اور مشرقی پاکستان میں سرانجام دیتے رہے۔

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد ابن حضرت مولوی غلام احمدؓ بدوملہوی)

1923ء میں آپ نے جامعہ احمدیہ سے مبلغین کلاس پاس کی۔ 1925ء میں آپ بنگال تشریف لے گئے ۔ اور اس کے بعد آپ کو متعدد مواقع اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے ملے۔ ملکانہ شدھی کی تحریک کے موقع پر آپ نے بڑی محنت سے کام کیا ۔ اور آریہ سماجیوں سے مناظرے کر کے ان کے عقائد کی دھجیاں اڑا دیں ۔ 1926ء میں آپ کو کچھ عرصہ برما جانے کا موقع بھی ملا۔ اس سال آپ کے بیان کے مطابق مناظروں کا سال تھا۔ اس سال 250 سے زائد مناظرے آپ کو کرنے پڑے۔ 1926ء میں حضرت حافظ روشن علیؓ کی زندگی میں ہی آپ نے درس قرآن مجید رمضان میں دینا شروع کر دیا تھا آپ کی طبیعت مناظرات و مبا حثات میں منجھ گئی تھی اس لئے کوئی آدمی سوال کر کے جواب لینے میں انتظار کی کوفت برداشت نہیں کرتا تھا۔ حاضر جوابی آپ کو قدرت کا خداداد عطیہ تھا۔ اس کے ساتھ حافظہ بھی اسی پائے کا تھا۔ 65سال کی عمرمیں میں آپ کو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے گیمبیا بھیجا گیا جہاں آپ نے بڑی محنت اور خلوص سے کام کیا۔ جشن آزادی کے موقع پر آپ نے گیمبیا ریڈیو سے ایک نشری تقریر میں اسلام اور احمدیت کی تاریخ کو دنیا تک پہنچایا۔

(غیر مطبوعہ مقالہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ از مرزا محمد شفيق انور ص 226 تا 229)

مقدمہ بہاولپور اور آپ کی شمولیت

اس زمانہ میں (1930ء سے قبل و بعد) مخالفین احمد یت اور احمدیوں میں مقدمات کا سلسلہ جاری تھا ۔ مثلاً مقدمہ شاہ جہانپور (یو پی)، برہمن بڑیہ (بنگال) اور بن با جوہ (ضلع سیالکوٹ) کے امراء جماعت کے مقدمات۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ مقدمہ بہاولپور میں دائر تھا۔ جس نے بعد میں قومی مقدمہ کی حیثیت اختیارکرلی تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد6 ص36)

اس کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ الٰہی بخش نامی شخص نے عبدالرزاق سے اپنی بیٹی کا نکاح کروایا۔ عبدالرزاق احمدی ہو گئے تو الٰہی بخش نے علماء کے انگیخت سے ریاست بہاولپور میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کروادیا۔ جو کہ ڈسٹرکٹ جج نے سماعت کے بعد یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے نہ کہ اسلام سے باہر۔ اس پر فریق ثانی نے اس فیصلہ کے خلاف ریاست بہاولپور کی آخری عدالت (دربار معلی) میں اپیل دائر کی ۔ اس سلسلہ میں دربار معلیٰ کی پہلی پیشی میں وزیراعلیٰ نے حکم دیا کہ ریاست کے مفتی صاحب تنسیخ نکاح کے دلائل پیش کریں۔ اس پر مدعا علیہ نے بھی درخواست دی کہ اسے بھی کسی عالم دین کو عدالت میں پیش کرنے کا موقع دیا جائے ۔ آخر کاراجازت مل گئی۔ اس پر قادیان سے جماعت کے ایک عالم حضرت مولانا غلام احمد صاحب بد وملہی مولوی فاضل کو بھیجا گیا۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد6 ص36۔37)

آپ نے بہت سیرکن بحث کی اور اگلا فريق لا جواب رہا۔ یہ بحث دوسری سمت نکل گئی اور نکاح کے مسئلہ کو چھوڑ کر ختم نبوت پر بحث شروع ہوگئی ۔ اس میں جماعت کے دیگر علماء بھی شریک ہوئے اوریہ مقدمہ طول پکڑتا گیا۔

مقدمہ بہاولپور میں حضرت مولوی غلام احمد بدوملہویؓ کا بیان

13 مارچ 1933ء کو مولانا غلام احمد ؓصاحب بدو ملہی کا مدلل بیان شروع ہوا۔ بیان کے شروع ہوتے ہی فریق ثانی نے یہ سوال اٹھایا کہ مرزا صاحب کے ساتھ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ جج صاحب نے بھی ایک حد تک اس کی تائید کی ۔مگر جب مولوی صاحب نے کہا کہ اگر جج کوئی ہندو ہو اور رنگیلا رسول کے لکھنے والا کسی مسلمان گواہ کے متعلق اصرار کرے کہ محمدﷺ کے ساتھ مت کہوتو کیاجج قانوناً مجاز ہے کہ نہ لکھے یااس گواہ کو روک دے۔ اگر ایسا نہیں تو ہمیں کیوں روکا جاتا ہے۔ اس نکتہ پر جج نے مجبوراً اپنی رائے بدل لی۔ مولوی صاحب کا اصل بیان 240 صفحات پرمشتمل تھا ۔مگر عدالت کے سامنے صرف 49صفحات میں لکھوایا گیا۔ یہ مکمل بیان بعد کو ’’اظہارالحق‘‘ (اس کا پہلا نام بیان المجاہد تھا) کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا۔ جسے مولانا بدوملہی صاحبؓ نے نہایت محنت و کاوش سے لکھا تھا اور اس کی ترتیب میں حضرت حافظ سید مختار شاہجہانپوری نے گراں قدر تعاون فرمایا۔

(تاريخ احمدیت جلد6 ص44تا45)

مولوی صاحب ساری زندگی چیلنجز قبول کرتے رہے اور جواں مردی سے ہر محاذ پر مقابلہ کرتے تھے آپ نے دو ہزار سے زائد مناظرے کئے جس میں دیگر علماء آپ کے ساتھ معاون ہوتے یا آپ ان کے ساتھ معاون شامل ہوتے۔

تصانيف

آپ نے مندرجہ ذیل کتب تصنیف فرمائیں ۔ جو قاری کے ذہن پر آپ کی وسعت معلومات، اچھوتا استدلال اور مؤثر طریق بیان کا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔ 1927ء میں احمدیہ نوٹ بک، اس کے بعد انذاری پیشگوئی در بار ہ مرزا احمد بیگ و متعلقین، 1933ء میں بیان المجاہد شائع کی گئی۔ اور یہی کتاب بعد میں اظہارلحق کے نام سے چھپی۔ 1937ء میں آپ نے قرآن مجید کے ترجمہ کی طرف توجہ کی۔ اور اس پرحاشیہ بھی لکھا۔ یہ ترجمہ قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور کئی مرتبہ چھپ چکا ہے۔

(غیر مطبوعہ مقالہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ از مرزا محمد شفیق انور ص 226 تا 229)

خلفاء سے تعلق

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ بہت محبت کا تعلق تھا۔ آپ کو حضرت مرزا ناصر احمدصاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے استاد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔

تدریس جامعہ احمدیہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1928ء میں جب جامعہ احمدیہ کا افتتاح فرمایا تو آپ ابتدائی اساتذہ میں شامل تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد پنجم ص20)

آپ کو تدریسی لائن سے بڑی دلچسپی تھی اسی وجہ سے آپ کو جامعہ احمدیہ میں بطور پروفیسر کام کرنے کا اکثر موقع ملا ہے۔ 1966ء میں دوسال آٹھ ماہ گیمبیا میں کام کرنے کے بعد ر بوہ تشریف لے آئے ۔ اور جامعہ احمدیہ میں فقہ کے پروفیسر لگے۔

(غیر مطبوعہ مقالہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ از مرزا محمد شفیق انور ص 226 تا 229)

آپ دارالمجاہدین قادیان کے ابتدائی استاد تھے۔ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں بھی آپ پڑھاتے رہے۔

(روزنامہ الفضل ربوه مورخہ 21۔ اگست 1978ء)

خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے بہت سے افراد کو قرآن اور عربی پڑھانے کا آپ کو شرف حاصل ہوا۔ ان میں حضرت مریم صدیقہ (چھوٹی آپا) اور حضرت حافظ مرزا ناصر صاحب احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو بھی پڑھایا۔

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد صاحب ابن حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوى)

حلیہ

آپ بہت ہی رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ اچکن اور شلوار قمیص آپ کا لباس ہوتا ۔ پٹے رکھے ہوئے تھےجو کہ بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔

(بیان مکرم محمد اعظم اكسير صاحب شاگرد حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوىؓ)

شادی و اولاد

آپ نے چار شادیاں کیں ۔ پہلی شادی محترمہ زینب بی بی صاحب دختر مکرم چوہدری اللہ دتہ صاحب نمبر دار (جو ولی اللہ کے نام سے مشہور تھے) سے ہوئی ۔ ان کی شرط یہ تھی کہ جو نوجوان ان کے گھر کی چھت پر چڑھ کر اسلام اور احمدیت کی حقانیت پرلیکچر دے گا اس سے مَیں اپنی بیٹی کا عقد با ندھوں گا۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے بیٹے مکرم غلام احمد صاحب سے کہا کہ تمہارا امتحان ہے اس پر آپ تیار ہو گئے اور لیکچر دیا جس پر شدید مخالفت ہوئی بعدازاں رخصتی عمل میں آئی۔

محترمہ زینب بی بی صاحبہ سے مندرجہ ذیل اولاد پیدا ہوئی:
مکرم سعید احمد صاحب مرحوم صاحب،مکرمہ سیدہ فرحت مرحومہ صاحبہ، مکرم رشید احمد مرحوم صاحب، مکرمہ حامد ہ عفت مرحومہ صاحبہ اور مکرم لئیق افتخارصاحب۔

اسلام آباد دوسری شادی مکرمہ حشمت خاتون صاحبہ سے ہوئی ۔ جن سے کوئی اولادنہ ہے۔ تیسری شادی محترمہ زہرہ خاتون صاحبہ سے ہوئی۔ ان سے بھی کوئی اولاد نہ ہے۔ آپ کی چوتھی شادی محترمہ رابعہ بشریٰ صاحبہ سے ہوئی جن سے ہونے والی اولاد کے اسماء درج ذیل مکرمہ امینہ خان صاحبہ اہلیہ مکرم ماسٹر ہارون خان صاحب، مکرم مجید احمد مبارک صاحب راولپنڈی اور مکرم مر ید احمد حمید صاف آف کینیڈا

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد صاحب ابن مکرم حضرت مولوی غلام احمدصاحب بدوملہوی)

وفات

محترم مولوی صاحب مرحوم 18اگست 1978ء بروز جمعۃ المبارک تقریباً ڈیڑھ بجے بعد دو پہر لمبی علالت کے بعد کراچی میں بعمر78 سال وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چونکہ آپ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ اس لئے مرحوم کے فرزند مکرم سعید احمد صاحب اپنی ہمشیر گان اور دیگر عزیزوں کے ہمراہ آپ کا جنازہ بذریعہ چناب ایکسپرلیں 19اگست کی شب کور بوہ لائے۔

مؤرخہ 20اگست صبح ساڑھے پانچ بجے سلسلہ عالیہ کے متبحر اور جید عالم محترم مولانا غلام احمد فاضل بدو ملہوی کا جسد خاکی مقبرہ بہشتی ربوہ میں سپردخاک کر دیا گیا۔ تد فین سے قبل بعد نماز فجر مسجد مبارک سے ملحق غربی میدان میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی کے ارشاد پرمحترم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب سابق مبلغ اسلام مغربی افریقہ نے پڑھائی ۔ نماز جنازہ اور تدفین میں احباب کثرت کے ساتھ شامل ہوئے۔

(روزنامہ الفضل ربوه مؤرخہ 21اگست 1978ء)

سیرت کے بعض پہلو
ايك صفت حمیده

آپ یتیموں کا خاص خیال رکھتے۔ گھر میں کوئی نہ کوئی یتیم پل رہا ہوتا۔ گھٹیا لیاں کے دورہ پر گئے تو مکرم سید احمد علی شاہ صاحب کو بحیثیت یتیم کے گودلیا جو گھر میں موجود دیگر بچوں کے ساتھ رہتے، پلتے اور پڑھتے رہے۔

(بيان مكرم مبارك احمد مجيد صاحب ابن حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوى)

بحیثیت شفیق استاد

آپ بہت ہی پیار کرنے والے استاد تھے۔ آپ بہت کھلے دل کے انسان تھے۔ معلوم نہ ہوتا تھا کہ ان میں سے استاد کون ہے اور شاگرد کون۔ علمی لحاظ سے بہت قابل انسان تھے جس کا اعتراف ہرکوئی کرتا تھا۔ حافظہ بے مثل تھا۔ بات کو پوائنٹس میں سمجھایا کرتے تھے اور انگلیوں پر گنوایا کرتے تھے۔کسی لحاظ سے علمی بخل آپ کے اندر نہ تھا بلکہ علم کا ایک بہتا ہوا چشمہ تھے جس سے ہرکوئی سیراب ہوتا تھا۔ ہر ایک کی بہت تکریم کرتے احترام کرنےمیںکسی چھوٹے بڑے کا فرق نہ رکھتے ۔ آپ کا ترجمۃ القرآن بہت ہی مفید ترجمہ ہےجس میں ہر پہلو سے اس میں معارف کو بیان کیا گیا ہے۔

(بیان مکرم محمد اعظم اکسيرصاحب شاگرد حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوی)

مہمان نوازی

آپ خوش خوراک اور خوش خوران تھے ۔ لیکن اپنے ساتھ والوں کو بھی اچھا کھلاتے تھے۔ مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھا۔

(بیان مکرم محمد اعظم اكسير صاحب شاگرد حضرت مولوی غلام احمد بدوملہى)

آپ ایک ڈش بہت عمدہ تیار کرتے تھے کی جسے ’’دم پخت‘‘ کہتے ہیں۔ کالج اور جامعہ احمدیہ کے پروفیسران اور بعض دفعہ آپ کے شاگرد مطالبہ کرتے تو آپ ’’دم پخت‘‘ سے ان کی دعوت کرتے۔ یہ بکرے کے گوشت کو دم دے کر بنائی جانے والی ایک ڈش ہے۔

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد صاحب ابن حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوى)

عبادات

دینی امور پر اور روحانی امور پر خصوصی توجہ دیتے اور نمازوں اور دوسری عبادات پرسختی سے کار بند تھے اور اولاد سے بھی ان امورکی پابندی کرواتے۔

(بيان مكرم مبارك احمد مجيدصاحب ابن حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوى)

اصول پسند شخصيت

آپ کی گھریلو زندگی نہایت سادہ اور غریبانہ تھی اور وقت کی پابندی اور ڈسپلن کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اصولوں کے پابند اور مساوات کا خیال رکھتے تھے۔ میں کالج میں ان سے پڑھتا رہا ہوں۔ سخت نمبر لگاتے تھے۔

(بیان مکرم مبارك احمد مجيد صاحب ابن حضرت مولوی غلام احمد بدوملہوی)

شگفتہ طبیعت

مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب مرحوم (وکیل المال اول) نے آپ کو ایک خط میں لکھا:
’’حضرت مولانا غلام احمد بدوملہوی صاحبؓ سلسلہ کے معروف اور جید علماء میں سے تھے۔ ان کو اندرون و بیرون ملک خدمات کا لمبا عرصہ موقع ملا۔ حضرت مولانا صاحبؓ ایک شگفتہ طبیعت کے مالک تھے اور بہترین مناظر تھے۔ جس مجلس میں بیٹھتے تھے اس میں علمی نکات کے علاوہ اپنی گفتگوکی شگفتگی کا رنگ قائم رکھتے۔

میراان سے ذاتی تعلق اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے اپنی خدمات تحریک جدید شعبہ مال کے لئے پیش کیا۔ درس بہت اعلیٰ دیتے۔ رمضان میں جماعتیں آپ کو خاص طور پر اپنے سینٹر میں بلانے کی درخواستیں دیتیں۔ ایک جماعت بہت متاثر ہوئی اور مرکز کو قیمتی تحفے بجھوائے۔‘‘ (خط از طرف مكرم شبير احمد صاحب مرحوم (وكيل المال اول) موجود عند المبارك احمد مجید صاحب)

طريقۂ تدریس

مکرم ملک منصور احمد عمر صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا صاحب کا وقت یاد آ گیا۔ جب وہ جامعہ میں فقہ پڑھایا کرتے تھے۔ بہت عمدہ طریق پر سمجھاتے اور انداز بہت دل نشین ہوتا۔ سبق سننا اچھا بھی لگتا اور یاد بھی رہتا۔ نصیحت کو اس رنگ میں بیان کرتے کہ ہمیشہ یا درہتی ۔ فرماتے تھےکہ جمعہ کی ادائیگی کی نصیحت ان کے الفاظ میں کبھی نہیں بھولی۔

(خط از طرف مکرم ملك منصور احمد عمر صاحب موجود عند المبارك احمد مجيد صاحب)

خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان صحابہ کرام کی سیرت پرعمل کرنے والا بنائے اور ہم ’’اِقْتَدَيْتُمْ‘‘ کے ذریعہ ’’اِهْتَدَيْتُمْ‘‘ میں سے بننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جو قربانیاں ان صحابہ نے پیش کیں ہم ان قربانیوں کو زندہ رکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021