• 2 مئی, 2024

پیاری پھو پھو جان مکرمہ صادقہ شمس صاحبہ کا تذکرہ خیر

اشکوں میں ڈھل گئی ہے متاع دل قمر۔اک ایک کر کے آنکھ کے تارے چلے گئے

گزشتہ جمعہ مؤرخہ24 اور 25دسمبر 2020ء کی درمیانی رات خاکسار کی پیاری پھوپھو جان مکرمہ صادقہ شمس صاحبہ ربوہ میں اچانک وفات پاگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ انکے تعلق میں چند بکھری یادوں کا گلدستہ سجانے کے لئے کچھ باتیں قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔

مرحومہ مکرم الحاج پیر محمد صاحب آف اونچے مانگٹ کی سب سے چھوٹی بیٹی اور خاکسار کے والدمکرم الحاج مولوی محمدشریف صاحب سابق اکائونٹنٹ جامعہ احمدیہ ربوہ کی سب سے چھوٹی ہمشیرہ تھیں۔ آپ نے پاکستان کے ایک چھوٹے سے گائوں اونچے مانگٹ میں آنکھ کھولی اور بہت تنگی اور سخت حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کر کے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور جامعہ نصرت کالج ربوہ میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر رہیں اور پھر اپنی اعلیٰ قابلیت کی بناء پر ترقی کرتے ہوئے جامعہ نصرت کالج برائے خواتین کی پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ آپ ایک روشن خیال شاعرہ بھی تھیں۔ آپکی مجلس اور صحبت میں ہر کوئی یہ محسوس کرتا کہ آپ ایک زندہ دل اور حاضر دماغ شخصیت کی مالکہ تھیں۔ آپ میں مزاح کی حِس اور پیار بھری چھیڑ چھاڑ کی عادت بھی نمایاں تھی۔ جب بھی انکے ساتھ ملاقات ہوتی تو یوں کہ

؎جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں ان سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں

کئی بار یوں لگتا جیسے اپنی پھوپھو جان سے نہیں بلکہ ایک قریبی دوست سے بات ہو رہی ہے۔ آپ بہت بارونق اور شگفتہ مزاج تھیں۔ چھوٹے بچوں کیساتھ بھی یکساں پیار اور محبت آ پکا نمایاں وصف تھا۔ آپ نے اپنے بچوں کو بھی بہت تنگی کے حالات میں بڑی محنت سے پالا اور انکی اچھی تربیت کی ۔ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا بہت احترام کرتیں اور پیار کیساتھ ذکر کرتیں ۔ اپنے شوہر مکرم نعمت اللہ شمس صاحب کی ساتھ 51 سالہ پیار اور محبت کی مثالی رفاقت رہی جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکی وفات پر جب خاکسار نے پھوپھا جان سے فون پر بات کی تو انہوں نے بلا تردد اس پیار بھری رفاقت کی گواہی دی اور کہا کہ میں ان سے پوری طرح راضی ہوں اور سنا ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ جس عورت سے اسکا خاوند خوش اور راضی ہو تو خدا تعالیٰ بھی اس عورت سے خوش ہوتا ہے۔ آپ نےمزیدکہاکہ انکی وفات کے معاً بعد جو تہجد کا وقت تھا، میں اپنے خدا کے آگےسربسجود ہو کر یہ التجا کرتا رہا کہ اے اللہ! میں اپنی اہلیہ سے پوری طرح راضی ہوں تو بھی ان سے راضی رہنا۔ پھوپھا جان کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ضرور میری ان مناجات کوسنے گا جو بےاختیار دل سے اٹھیں۔

خاکسار کی والدہ مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ کی ساتھ بھی آپکا بھابھی کے رشتہ سے بہت بڑھ کر ہمیشہ ’’ماں‘‘ جیسا احترام اور پیار کا سلوک تھا جسکا اکثر ذکر کرتیں اور ہمیں دکھائی بھی دیتا۔ اپنے دکھ سکھ میں امی جان سے مشورہ لیتیں اور اسے قدر کی نظر سے دیکھتیں باوجود اسکے کہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ میرے چھوٹے بھائی برادرم کریم احمد شریف صاحب نے بتایا کہ گاہے بگاہے امی جان سےنیویارک امریکہ فون پر بات کرتی رہتیں اورانکی باتوں سے والدہ صاحبہ کے لئے جو محبت کے جذبات تھے، انکی عکاسی ہوتی ۔ امی جان بڑھاپے کی عمر میں کمزوری اور بیماری کی وجہ سے کافی عرصہ سے پاکستان نہیں جا سکیں چنانچہ پھوپھو جان کو ان سے ملاقات نہ ہو پانے کا بھی افسوس رہتا تھا اور اس بات کا اظہار کرتیں کہ کسی طرح ملاقات ہوجائے اور اکثر انکو دعا کے لئے کہتی رہتیں ۔

خاکسار بھی ان خوش قسمت افراد میں سے ہے جن کیساتھ پھوپھو جان کا خاص تعلق رہا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان میں تو اکثر آناجانا رہتا۔ یہاں برازیل میں بھی کچھ عرصہ بات نہ ہوتی تو خود کہہ کر فون کرواتیں۔ ہر ایک کا حال چال پوچھتیں اور پھر اکثرمزاح کا رنگ لئے ہوئے ادبی گفتگو اور پیار بھری نوک جھونک کا سلسلہ جاری ہو جاتا ۔ ابھی چند روز قبل خاکسار کسی سفر پر تھا کہ یکدم فون کی گھنٹی بجی ۔پھوپھا جان کا فون تھا ۔کہنے لگے کہ آپکی پھوپھو جان یاد کر رہی تھیں کہ ظفری سے بات کرنی ہے ۔

انکے مجموعۂ کلا م ’’سچے موتی‘‘ کی پہلی نظم ہی خلافت کے بارہ میں ہے جس کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں:

؎خلافت کی پھیلی مہک کُل جہاں میں
خلیفہ کی ڈش پہ ندا چل رہی ہے
بہت فیض پایا خلافت سے ہم نے
روح کو نئی اک غذا مل رہی ہے
تو شافی ہے مولا، سبکو شفا دے
خلافت سے سبکو دوا مل رہی ہے
خلافت کے سائے میں محفوظ ہیں ہم
سروں کو ہمارے رداء مل رہی ہے
خلافت کا دامن نہ چھوڑیں گے ہرگز
خلافت سے ہم کو بقاء مل رہی ہے
الہٰی تو مسرور کو سدا مسرور رکھنا
یہ ہونٹوں پہ میرے دعا چل رہی ہے

اسلامی تعلیم کی گہرائی اور اسکا پاس آپکے اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ

؎جو ڈھلکے سروں سے جو ڈھانپے بدن کو
میں پردہ کی ایسی ردا چاہتا ہوں

آپکا نام والدین نے صادقہ کیساتھ قمر رکھا تھا مگر شادی کے بعد اپنے شوہر کے نام کی نسبت سےشمس رکھ لیا۔ اپنے ایک شعر میں ان دونوں ناموں کو یکجا کرکےاس طرح بیان کیا کہ

؎جو بینا کرے غیر کی آنکھ کو بھی
میں وہ شمس و قمر کی ضیاء چاہتا ہوں

پھر اپنے نام کا استعما ل ایک شعر میں کس خوبی سے کرتی ہیں کہ
؎اندھیروں سے کس لئے ہو اداس صادقہ

قمر کے ساتھ ساتھ ستارے چلے گئے

آپکی شاعری کے یہ چند نمونے آپکے مجموعہ کلام ’’سچے موتی‘‘ سے لئے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں میں جگہ دے۔ پھوپھا جان اور سب بچوں کو صبر جمیل عطاء کرے ۔ چار بیٹوں مکرم نجم الثاقب صاحب۔ مکرم عاصم شہزاد صاحب ۔ مکرم اسامہ لقمان صاحب (جرمنی) مکرم قمر شیراز صاحب (گوئٹے مالا) اور ایک بیٹی محترنہ فرح نادیہ صاحبہ (بیلجئیم) میں سے صرف ایک ہی بیٹا مکرم اسامہ لقمان صاحب آپکی وفات پر پاکستان جا سکا ۔ اللہ تعالیٰ سبکو حوصلہ عطاء فرمائے ۔ آمین

آپ ہی کے ایک شعر پر مضمون ختم کرتا ہوں

؎الٰہی نہ مجھ کو رسوا کرنا خطاء معاف کرنا
میں روز قیامت جزاء چاہتا ہوں

(وسیم احمد ظفر مبلغ انچارج جماعت احمدیہ برازیل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2021