یار سے ملنا تو بس دل سے نظارے کرنا
نیچی نظروں سے محبت سے پُکارے کرنا
چاہتیں کھینچ کے لے آتے ہیں محبوب کی جو
سوچ کر ایسے ہی انمول اشارے کرنا
دورِ ظلمت میں اندھیروں کے مقابل آ کر
اپنے اشکوں کو ہر اِک راہ کے تارے کرنا
دشتِ صحرا کی مسافت میں مسافر میرے
آسماں چھتری تو آنکھوں کو فوارے کرنا
کسی بھی حال میں دنیا نہیں جینے دیتی
اِس میں رہنا ہے تو پھر اِس سے کنارے کرنا
سارا جنگل ہے یہ سانپوں سی بلا کا مسکن
شیر دل رہ کے دعاؤں کو سہارے کرنا
اپنے دلبر کی محبت کے سمندر میں عباد!
ڈوب کر اُس کی اداؤں کے نظارے کرنا
(عبدالجلیل عباد۔ جرمنی)