دعا کا قاعدہ
اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دعائیں خطا جاتی ہیں اور ان کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے۔ کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا ان کا خطا جانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی ان کی تاثیرات سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا۔ بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے بھی باہر نہیں ہیں۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور پر میسر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لیے مستعد ہوتا ہے۔ تب وہ دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے۔
(حضرت مسیح موعودؑ ازبرکات الدّعا٫ صفحہ11)
(مرسلہ: ناصرہ احمد۔ کینیڈا)