• 3 مئی, 2024

خلیفہ وقت کی دعاؤں کا ثمر

تحدیثِ نعمت
خلیفہ وقت کی دعاؤں کا ثمر

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلٰی ذِکرِکَ وَ شُکرِکَ وَحُسنِ عِبَادَتِکَ

ترجمہ: یعنی اے میرے اللہ !مجھے توفیق بخش کہ میں تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر کروں اور احسن رنگ میں تیری عبادت کروں۔

(ابو داؤد کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)

اے اللہ !میرے پاس نہ تو وہ زبان ہے اور نہ ہی وہ الفاظ کہ اپنے پیارے خدا کا شکر ادا کر سکوں۔ تحدیث نعمت کے طور پر میں کچھ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔

میرا بیٹاعطاء الاول عباسی 4 سال کی عمر سے وقفِ نو تحریک میں شامل ہے۔ اس تحریک میں شامل ہونا بھی حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا نہایت غیر معمولی شفقت اور پیار کا سلوک ہے۔ بیٹے کی پیدائش تحریک شروع ہونے سے 4 سال پہلے کی ہے۔ پیارے آقا، حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے 1987 میں اس بابرکت تحریک کا اعلان فرمایا تو اسوقت ہماری تیسری بیٹی کی پیدائش متوقع تھی۔ میرے شوہر محی الدین عباسی نے جو خط حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت اقدس میں لکھا اس کا مضمون کچھ اس طرح تھا کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے بچوں کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو مولٰنا عبدالمالک خان صاحب مرحوم کے والد صاحب اپنے دو بیٹوں کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا، حضورؓ آپ ان میں سے ایک کا ہاتھ تھام لیں تو میں وہ آپ کے حوالے کر دوں گا۔ تب حضرت صاحبؓ نے مولٰنا عبدالمالک خان صاحب کا ہاتھ تھام لیا، حضور ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے تمام بچوں کو آپ کی خدمت میں پیش کردیں جو اس تحریک وقف نو سے پہلے پیدا ہوئے ہیں اور جو بچے خدا تعالیٰ ہمیں بعد میں دے گا۔

وہ دن اوروہ لمحہ ہماری خوشی اور شکرو حمدکا دن تھا جب ہمیں حضورؒ کادعاؤں بھرا خط موصول ہوا کہ آپکے بچوں کا وقف منظور ہے۔

تحریک وقف نو سے قبل یعنی 1983 میں بیٹا عطاء الاول اور بیٹی عطیة الباطن 1986 میں پیدا ہو چکے تھے۔ دونوں بچے بھی اس بابرکت تحریک وقف نو میں شامل ہوئے۔ وقت آنے پر اپنی زندگی وقف کرنے کے لئے خود کو پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیزکی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ الحمدللّٰہ پیارے حضورایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیزنے ازراہ شفقت ایم ٹی اے جوائن کرنے کے لئے فرمایا۔ بعدہ حضور کی طرف سے تبشیر آفس کو ہدایت ملی کہ اس کو پروڈکشن میں ماسٹرز کروایا جائے، چونکہ بیٹے نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ماسٹر کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح 2008 میں ایم ایس سی ڈیجیٹل پروڈکشن میں ماسٹرز کیا۔ 2018 میں حضرت خلیفة المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے بیٹے کی تقرری بحیثیت ایم ٹی اے انچارج جرمنی فرمائی پھراگست 2019 میں پیارے حضور اید ہ اللہ تعالی بنصرہ العزیزکی ہدایات کے مطابق ایم ٹی اے انچارج کی حیثیت سے کینیڈا تقرری ہوئی۔ یوں یہ کینیڈا اپنی بیگم اور تین بچوں کے ساتھ شفٹ ہوگئے۔

12 اپریل 2021ء کو مجھے اپنے بیٹے کا کینیڈا سے فون آیا، اس نے بتایا کہ اسے بخار ہو گیا ہے۔ آجکل بخار کا ہوجانا ایک نارمل بات نہیں سمجھی جاتی اس لئے میں نے فوراً کہا کہ اپنا کرونا ٹیسٹ کروا لیں۔ جواب ملا کہ یہاں موسم بدل رہا ہے ہو سکتا ہے کہ یہ موسمی بخار ہو لیکن میں نے اپنے آپ کواحتیاطاً سیلف آئیسولیٹ کر لیا ہے۔ ٹیسٹ بُک کروایا تو چار دن بعد کی تاریخ ملی اور پھر اس کی رپورٹ آئی تو اس نے سخت پریشان کر دیا کیونکہ بدقسمتی سے میرا بیٹا اس وبا میں مبتلا ہو چکا تھا۔ انہیں نہیں معلوم کہ کیسے یہ ہوا جبکہ وہ بہت محتاط تھا۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق دس دن کی آئسولیشن گھر پر مکمل کر لی مگر گیارھویں دن پھر بخار نے آ لیا اوراگلے روز بھی وہی کیفیت رہی، بہرحال جب ڈاکٹر سے فون پر بات ہوئی تو اس کی تجویز کے مطابق اگر بخار نہ اترے تو ہسپتال چلے جائیں۔ مگر الحمد للّٰہ اس وقت سے چند گھنٹو ں میں بخار اتر گیا اور بیٹے کو لگا کہ اب میں ٹھیک ہو رہا ہوں لیکن اسی رات کو بخار مسلسل رہا صبح ہونے تک کورونا وائرس اس کے پھیپھڑوں پر انتہائی اثر انداز ہوچکا تھا اور نہایت نازک حالت ہو چکی تھی یہاں تک کہ میری بہو کو ایمرجنسی ایمبولنس کو بلانا پڑا۔ انہیں فوری طور پرہائی ڈوز آکسیجن دی گئی اور مکینزی ہیلتھ ہسپتال رچمنڈ میں منتقل کر دیا گیا اُس وقت بیٹے کی یہ کیفیت تھی کہ اسے شروع کے کچھ دنوں تک آکسیجن کی ہائی ڈبل ڈوزز لگائی گئیں۔ یہ ناامیدی کی حالت کچھ دن لگاتار جاری رہی۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر کا فون میری بہو عیشة الراضیہ کو آیا کہ آپکے شوہر کی عمر چھوٹی ہے مگرحالت بہت زیادہ نازک ہے، کچھ سوالات پوچھے گئے یعنی بچے کتنے ہیں، بچوں کی کیا عمریں ہیں وغیرہ، ڈاکٹر نے کہا کہ آ پ کو اپنے بچوں کے لئے مضبوط ہونا پڑے گا اور یہ کہ اپنا فون اپنے پاس رکھنا کسی بھی وقت آپ کوانتہائی نگہداشت سےڈاکٹرفون کر کے بتائیں گے کہ ہم کسی بھی لمحے آپ کے شوہر کو وینٹیلیٹر پر ڈالنے والے ہیں اور یہ کہ اس کے بعدبھی زندگی کے 50 فی صد چانسز ہونگے، ہوسکتا ہے وہ صحتیاب ہو جائے، ہو سکتا ہے نہ بھی ہو۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے چند روز بعد تک بھی ڈاکٹرز کے جو فون میری بہو کو آتے رہے وہ یہی بتا تے رہےکہ حالت بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ آکسیجن لیول بہت کم ہے۔

دعاؤں کے معجزات

پھر خدا کی شان اور معجزہ دیکھیں اور ہمارے پیارے خلیفہ وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، خاندان مسیح موعود ؑ، مربیان کرام کی دعاؤں اور ایک واقف زندگی کے لئے حسنِ سلوک اور پوری دنیا کے احباب جماعت کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ کی قدرت جلوہ افروز ہوئی اور دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی آگئی کچھ دنوں میں آکسیجن 50 لیٹر سے 15 لیٹر پر آ گئی اور اسطرح پر دعاؤں اور ڈاکٹرز کی بہترین توجہ سے عطاء الاوّل صحتیابی کی طرف لَوٹنے لگا پھر ہم ہر آنے والے دن پر دعاؤں کا ایک نیا معجزہ دیکھتے چلے گئے اس عرصہ میں مسلسل کئی بار حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کی درخواست ہوتی رہی اور حضرت صاحب کی طرف سے ازراہ شفقت دعائیں اور تسلی بخش پیغامات موصول ہوتے رہے۔

اس دوران اچانک مجھے حضرت یونسؑ کی دعا کو بار بار پڑھنے کی طرف تحریک ہوئی اورمیں نے اس دعا کو سینکڑوں بار پڑھا اوراپنے بیٹے کو بھی اس دعا کی آواز ریکارڈ کر کے بھیج دی تاکہ وہ صرف ایک کلک کرے اور سن لےاور دہرا سکے۔

لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ

(الانبیاء: 88)

ترجمہ: کوئی معبود نہیں تیرے سوا۔ تُو پاک ہے۔ یقیناً میں ہی ظالموں میں سے تھا۔

پھر حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی ایک الہامی دعا کی طرف بہو کی والدہ صاحبہ نے توجہ دلائی جو کہ بیٹے نے ہسپتال قیام کے آخری دنوں میں بہت پڑھی:

بِسْمِ اللّٰہِ الکافی بِسْمِ اللّٰہِ الشّافی بِسْمِ اللّٰہِ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم بِسْمِ اللّٰہِ الْبَّرِ الْکَرِیْم یا حفیظ یا عزیزیا رفیق یا وَلِیِّ اشفنی۔

ترجمہ: میں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو شافی ہے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو احسان کرنے والااور عزت والا ہے۔ اے حفاظت کرنے والے! اے عزت و غلبہ والے! اے ساتھی! اے دوست !مجھے شفا دے۔ آمین۔

علاوہ ازیں وہ تمام دعائیں جو ذہن میں آتی گئیں ہم پڑھتے رہے اور مسلسل صدقہ و خیرات بھی کرتے رہے۔ الحمدللہ کہ پیارے اللہ نے قبول بھی کیا۔

پیارے آقا کی والہانہ محبت

اہل خانہ، دنیا بھر سے ہزاروں احمدی احباب، رشتے داراور سب سے بڑھ کر میرے پیارے آقا خلیفہ وقت حضرت امیرالمؤمنین اید ہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز، ہمارے بیٹے کےلئے دعائیں کر رہے تھے۔ یہ انہیں کی شفقت اور دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔ عطا ءالاوّل کی اس جان لیوا بیماری کے دوران پیارے آقا کی طرف سے پہلا پیغام میرے بھائی آصف محمود باسط کے ذریعہ جو ملا وہ یہ تھا کہ ’’خدا تعالیٰ فضل کرے گا‘‘ دل کو سکون ملا اور پھر دوسرا پیغام منیر عودہ صاحب کے ذریعہ میرے بیٹے کو ملا، ’’اس کو کہو گھبرانا نہیں ہے، گھبراہٹ انسان کو مار ڈالتی ہے۔ اللہ فضل کرے گا‘‘ مزید تسلی کا باعث بنا، پھر آصف باسط کے ذریعہ یہ پیغام ملا کہ جب وہ ٹھیک ہو کر گھرآ جائے تو اس سے کہنا، ’’اچھی خوراک کا استعمال کرے، ماسک پہن کے رکھے اور تیسرا یہ کہ کھلی تازہ ہوا میں سانس لے‘‘۔ میرے پیارے آقا کے کسقدر دل کو تسلی دینے والے الفاظ تھے۔ پیارے آقا دفتری اسٹاف اور امیر صاحب کینڈاکے توسّط سے بیٹے کا حال احوال دریافت فرماتے رہے۔ ماہِ رمضان تو ویسے ہی صدقہ جات کے لئے مخصوص ہوتا ہے پھر بیٹے کی بیماری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے صدقات کی زیادہ توفیق ملتی رہی۔ ہمیں پوری دنیا سے بہت زیادہ دعاؤں کے ذریعہ احباب جماعت کی سپورٹ بھی ملتی رہی۔ روزانہ ہمیں سینکڑوں فون اور پیغامات پر سوز دعاؤں کے موصول ہوتے رہے۔ اب اس بات کا احساس شدت سے ہوا کہ ہماری جماعت کے افراد دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ہم سب ایک خلافت کے سائے تلے ایک ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے صدقہ خیرات اپنے طور پر بھی کیے اور رمضان کے آخری عشرہ میں، اعتکاف بیٹھے ہوئے احباب نےبھی بہت دعائیں کیں علاوہ ازیں احمدی بھائیوں اور بہنوں کی طرف سےاکثر احمدی دوست جو میرے بیٹے کو جانتے تھےاس کی خوبیوں کا ذکر کرتے رہے بہت دعائیں دیتے رہے۔ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے اور یہ بھی کہ ہم اکیلے نہیں ہیں، ہمارے ساتھ ہمارے پیارے خلیفہ، ہمارے والدین، بہنیں، بھائی، تمام رشتہ دار اور ہماری پوری جماعت بیٹے کی کامل صحت کے لئے دعاؤں میں شامل ہیں۔

تقریبا ًبارہ دن کے اس کرونا سے جہاد کے بعد انہیں انتہائی نگہداشت کے ہسپتال سے ایک دوسرے ہسپتال واہن میں منتقل کیا گیا کیونکہ اب انہیں ایمرجنسی نگہداشت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ واہن ہسپتال ٹورانٹو میں ہماری مسجد بیت ا لسلام کے نزدیک نیا تعمیر ہوا تھا اور اس کی تعمیر میں جماعت کینڈا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اسی طرح میرےبیٹے کا گھر اوران کا ایم ٹی اے کا دفتر بھی وہاں سے بالکل قریب ہے میرے بیٹے کویہ احساس کہ مجھے ہسپتال کی کھڑکی سے ہماری مسجد نظر آتی ہے بہت تسکین کا باعث اور مسرت بخش تھا پھر اس ہسپتال منتقل ہونے کےچار دن بعد ہسپتال سے چھٹی بھی ہوگئی۔ الحمدللّٰہ

تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے
کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے

تیرا ہوں میں ہمیشہ جب تک کہ دم میں دم ہے
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

ہسپتال جانے سے پہلے اور ہسپتال سے واپس آنے کے بعد پیارے آقا کی تجویز کردہ ہومیو پیتھک دوائی کا استعمال بھی جاری رکھا اور اچھی خوراک کا استعمال بھی جاری ہے۔

جب بیٹے کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنا تھا تو اس وقت وہ تمام ڈاکٹر بیٹے کے پاس آئے جنہوں نے اس کی بیماری کی حالت شروع میں دیکھی تھی اور بیٹے کو بتانے لگے کہ آپ کی صحتیابی ہمارے لئے بھی ایک معجزہ ہے ورنہ ہم تو ناامید اور مایوس ہو گئے تھے۔

گھر کے حالات

مزید برآں ان دنوں بیٹے کے گھر کے حالات یہ کہ سب فیملی کے ٹیسٹ کا نتیجہ کرونا مثبت آیا۔ اللہ کا شکر کہ بچوں میں کوئی علامات نہیں تھیں تاہم عیشہ (اہلیہ عطأ الاول عباسی) کو کبھی کبھار کمزوری کا احساس رہا کیونکہ اس کے لئے تو یہ بھی مشکل تھا کہ ان حالات کا مقابلہ خود کرتی رہی، ڈاکٹرز اور نرسوں سے رابطہ کر نا، پھر ہمیں اور اپنے والدین کو بھی بیٹے کی صحت سے مطلع کرنا اور تمام حال احوال پوچھنے والوں کی کالز لینا اللہ کا شکر ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہمت دئیے رکھی۔ بیٹے کی بیماری کے دوران بہو نے جس حکمت سے کام لیا وہ قابل دید ہے۔ اسکے والدین کینڈا میں ہی رہتے ہیں، کھانا وغیرہ اور ضرورت کی اشیاء گھر کے باہر تک پہنچاتے رہے مگر بے بسی یہ کہ گھر کے اندر نہیں جا سکتے تھے، میرے شوہر کے دونوں احتیاطی ٹیکےلگ چکے تھے اور ان کے دل میں ایک تڑپ کہ میں کسی طرح اپنے بیٹے کے گھر پہنچ جاؤں اور گھر میں بچوں کے پاس انہیں کچھ تسلی، حوصلہ اور ہمت دے سکوں مگر حالات سے مجبور کیونکہ سرحدیں بند۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی میرا حال تھا۔ اس موقع پر انسان کتنا بے بس ہے اس کا اندازہ تو آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

الحمد للّٰہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل، تائیدو نصرت اورخلیفہ وقت کی دعاؤں سے بیٹے کوصحت عطا کی اور الحمدللہ کہ بیماری کے بعدسے اللہ تعالیٰ اسے جماعتی خدمات کے ذریعہ اپنا وقف نبھانے کی توفیق دے رہاہے۔ اس کے تینوں بچے بھی خدا کے خاص فضل سے وقف نو تحریک میں شامل ہیں۔ پیارا خدا انہیں بھی اپنا وقف نبھانے کی توفیق عطا کرے اور خلیفہ وقت کے لئے سلطان نصیر ہوں۔ ہم لندن میں رہتے ہیں دوریاں تو ہیں ہی لیکن سفر کی مجبوریاں بھی شامل حال رہیں جبکہ پچھلے سال تو ٹکٹ بھی بُک تھیں مگر کروناکی وجہ سے بارڈر بند۔ یہ دوریاں اور مجبوریاں اپنی جگہ قائم۔ ۔ ۔ اس لئے اپنے بیٹے سے ملے ہوئے ویسے ہی کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ الحمدللّٰہ کہ اسی سال پیارے خدا نے بیٹے اور بچوں سے ملنے کے مواقع فراہم کئے، جیسے ہی بارڈرز کھلے ہم کینڈا اور پھر امریکہ بیٹی منزہ خان کے پاس گئے، الحمدللّٰہ کہ داماد غالب خان بھی واقف زندگی ہے، اس کی تقرری امریکہ میں ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی آمنہ عباسی بھی وقف نو تحریک میں شامل ہے۔ اس طرح بیٹے سے مل کر، بیٹے کی اچھی صحت دیکھ کر اور اس کو لگن کے ساتھ اپنے کام کرتے دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے دلی سکون اورمسرت عطا کی۔ ثم الحمدللّٰہ۔

میرے ابوجان مولانا عبدالباسط شاہد ہمیشہ ہمیں نصیحت کرتے ہیں۔ ایک توکّل علی اللہ اور دوسرا خلافت سے وابستگی کی۔ اللہ کرے کہ ہم اور ہمارے بچے بھی ہمیشہ اللہ پر توکل کرنےاور خلافت سے خود کو اور اپنی اولاد کو جوڑے رکھنے والے ہوں۔ اللہ ہمیںخلافت سے بے پناہ عقیدت اور محبت کرنے والا بنائے۔ پیاراخدا ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل رکھے جنہیں امام ِوقت کا قرب نصیب ہوا جو خلافت کے گھنےشجر سے وابستہ ہیں۔ اس کی برکتوں کے نظارے ہم دن رات دیکھتےر ہیں۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خلافت سے ہمارا اور ہماری اولاد کا پختہ تعلق قائم فرمائے اور اسے مزید بڑھاتا چلا جائے۔ آمین ثم آمین۔

(مدثرہ عباسی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

اعلان برائے خصوصی شمارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جنوری 2022