جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلا ہے
غم دے کے کسے فکرمریضِ شبِ غم ہے
یہ کون ہے جو درد میں رس گھول رہا ہے
یہ کس نے مرے درد کو جینے کی طلب دی
دل کس کے لئے عمرِ خضر مانگ رہا ہے
کیا تم کو خبر ہے رہِ مولا کے اسیرو!
تم سے مجھے اک رشتہء جاں سب سے سوا ہے
تم نے مری جلوت میں نئے رنگ بھرے ہیں
تم نے مری تنہائیوں میں ساتھ دیا ہے
تم چاندنی راتوں میں مرے پاس رہے ہو
تم سے ہی مری نقرئی صبحوں میں ضیاء ہے
کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج
کیا روزِ قیامت ہے! کہ اک حشر بپا ہے
یادوں کے مسافر ہو تمناؤں کے پیکر
بھر دیتے ہو دل، پھر بھی وہی ایک خلا ہے
سینے سے لگا لینے کی حسرت نہیں مٹتی
پہلو میں بٹھانے کی تڑپ حد سے سوا ہے
یا ربّ! یہ گدا تیرے ہی در کا ہے سوالی
جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے
گم گشتہ اسیرانِ رہِ مولا کی خاطر
مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے
جس رہ میں وہ کھوئے گئے اُس رہ پہ گدا ایک
کشکول لئے چلتا ہے لب پہ یہ صدا ہے
خیرات کر اَب اِن کی رہائی مرے آقا!
کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے
میں تیرا ہوں، تو میرا خدا، میرا خدا ہے
(کلام طاہر)