• 8 جولائی, 2025

وقف جدید کے اعلیٰ مقاصد کے لئے دعاؤں کی تحریک

وقف جدید کے عظیم الشان مقاصد حاصل کرنے کیلئے جہاں خلفائے احمدیت نے دیگر مطالبات کئے وہاں دعاؤں کی بھی بہت تحریک فرمائی اور خود بھی دعائیں کیں چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ

‘‘وقف جدید کے لئے جو میں نے اب ایک نیا باب کھولا ہے وقف جدید اس کیلئے کوشش کرے اور جماعت کیلئے میں دعا کرتا ہوںاورآپ بھی دعا کریں کہ آپ کو یہ توفیق ملے کہ ہر جماعت اس قسم کے آدمی بھیجے یہ سنت نبوی ؐ بھی ہے کہ اس قسم کے وفود کو آپ ؐ تربیت دیا کرتے تھے ۔یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے ۔میں کوئی نئی چیز آپ کے سامنے نہیں رکھ رہا ۔نبی کریم ﷺ کے وقت میں ہر علاقے اور ہر قبیلے کے لوگ آکر دین سیکھتے ،قرآن کریم کا علم حاصل کرتے اور واپس جا کر دوسروں کو سکھاتے تھے ہم اسے کیوں بھول گئے؟ بڑے افسوس کی بات ہے ۔بہرحال دنیا کی ضرورت نے مجبور کیا اور یہ چیز نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آگئی ہے اور دعاؤں کے بغیر ہمیں اس کی توفیق نہیں مل سکتی۔

پس بہت دعائیں کریں کہ اس مہم کوسَر کرنے کی اور پیار اور محبت کے ساتھ دنیا کو آداب اور اخلاق سکھانے کی اور روحانی میدانوں میںآگے بڑھا کر خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی مرضات کو حاصل کرنے کی اللہ تعالیٰ جماعت کو جلد توفیق عطا کرے۔’’

(الفضل 28 فروری 1976ء)

حضورؒ نے ایک اور خطبہ کے دوران دین کو ساری دنیا پہ غالب آنے کیلئے دعا کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے حضور عرض کی کہ

’’پس اے خدا! اپنی رحمت کے چشموں سے ہماری بنجر زمین کو سیراب کر،اے خدا! ہمارے ذریعہ سے ان وعدوں کو پورا کر جو تو نے حضرت مسیحِ موعود کو دئیے تھے اے خدا ہمیں یہ توفیق عطا کر کہ ہم ان قربانیوں کو تیرے حضور پیش کریں جو تو اپنی اس جماعت سے چاہتا ہے اور اے خدا ! ہماری زندگیوں میں وہ دن لا جب ہم یہ دیکھیں کہ تیری توحید دنیا میں قائم ہو چکی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے اسلام نے تمام ادیانِ باطلہ کو شکست دے دی ہے۔ اے خدا ! تیرے نور سے یہ دنیا بھر جائے اور تیری نورانی تجلی سے ہمارے سینے منورہو جائیں۔ آمین‘‘

(الفضل 4 جنوری 1967ء)

حضورؒ نے احباب کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:

’’پس دعائیں کرو اورجو کچھ خدا نے دیا اس پربس نہ کر و اور تسلی نہ پکڑو بلکہ اپنے رب کریم سے کہو کہ اے ہمارے رب ہمیں اور دے تاکہ تیری نعمتوں کو ہم پہلے سے زیادہ حاصل کر سکیں ہمیں اور دے ہر قدم پر۔نمازوں کے درمیان ہمیں اَور دے۔ہر جمعہ کے درمیان ہمیں اَور دے۔ سال کے بعد ہمیں اور دے یہاں تک کہ ہم اس امتحان کی دنیا سے نکل کر اس دنیا میں داخل ہو جائیں جہاں تیری حمد کے جلوے توہمارے دلوں میں موجود ہوں گے لیکن وہ دارالامتحان نہیں ہو گا۔ امتحان کا تصور یہ ہے کہ پاس ہونے کا امکان ہے اور فیل ہونے کا بھی امکان ہے لیکن دوسری زندگی میں ترقیات کے امکانات توہیں مگر ناکامی کاکوئی امکان نہیں اس لئے ہم اسے دارالابتلاء یا امتحان کی دنیا نہیں کہہ سکتے وہاں بھی ترقیات ہوں گی۔

حضورؒ نے مزید فرمایا کہ

’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی ایک بنیاد بھی قائم ہو رہی ہو کہ مزید طاقتیں ملیں گی۔مزید قربانیوں کی توفیق ملے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی بڑھ کر فضل نازل ہوں گے اور رحمتیں نازل ہوں گی سب کچھ اس کی منشا او را سی کے حکم سے ہوسکتا ہے ۔ہم عاجز بندے عاجزانہ اُسی کے حضور جھکتے اور ہمارے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے۔اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ،َ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، خداتعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے۔‘‘

حضورؒ نے فرمایا کہ

’’بہرحال ایک سال گزرا خدا کے فضل سے اور اسکی رحمتوں سے نزول بارش کی طرح اس کی نعمتوں کے نزول کے ہم نے نظارے دیکھے۔ ہمارے دل اس کی حمد سے لبریز ہیں اور ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ تو نے ہمارے دل میں جو آگے ہی آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کی ہے اس کیلئے تُو نے ہمیں یہ دعا سکھائی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہم تجھ سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں۔ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اے ہمارے خدا تُو ہماری دعا کو قبول کر اور کسی منزل کو ہماری اس دنیوی زندگی میں ہماری آخری منزل نہ بنا دے ۔ہماری آخر ی منزل تو موت کا دن ہے جب اس دنیا سے ہم دوسری دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔ جب پر دہ نہیں رہے گا کیونکہ تیرے جلوے ظاہر ہو کر، منور ہو کر، روشن ہو کر اور حجابات سے مبّرا ہو کر ہمارے سامنے آئیں گے۔ اس وقت تک تُو ہماری طاقتوں میں اضافہ کر تا چلا جا اور اپنے فضلوں میں جوہم پر تیری طرف سے نازل ہوں اضافہ کرتا چلا جا۔ ہر دن جوہم پر چڑھے پہلے دن سے زیادہ مبارک ہو۔ ہر جمعہ جو ہماری زندگیوں میں آئے اس میں ہمیں پہلے جمعہ سے زیادہ رحمتوں کے سمیٹنے کی توفیق ملے اور ہر جلسہ جو پہلے جلسہ کے بعد آئے اس میں ہم تیرے فضلوں اور تیری رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے ہوں۔

حضورؒ نے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ جب وہ انسان کے لئے برکات اور رحمتوں کے سامان پیدا کرتا ہے اور انسان کی عاجز قربانیوں کو قبول کرتا ہے تو وہ لوگ جو زمین کی پستیوں کی طرف جھکنے والے اور آسمانی رفعتوں سے بے خبر ہیں وہ حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حسد کی یہ آگ ایک عقلمند مومن کے لئے یہ دلیل مہیا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کیا۔

حضورؒ نے ایک خطبہ میں نئے سال کی مبارک دیتے ہوئے احباب کو فرمایا کہ:

’’جماعت جس طرح باقی چندوں میں ہمیشہ مسلسل آگے بڑھنے والی رفتار کے ساتھ قربانیاں کرتی چلی آرہی ہے اور اس کی نیک جزائیں اس دنیا میں بھی پاتی ہے اور آخرت پر اس سے بڑھ کر توقعات رکھتی ہے اسی جذبے کے ساتھ وقفِ جدید کے اس نئے سال میں بھی ہم پہلے سے بڑھ کر قربانیوں میں حصہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ یہ نیا سال ساری دنیا کے لئے مبارک کرے۔جماعت احمدیہ کے لئے خصوصیت کے ساتھ مبارک کرے کیونکہ ساری دنیا کی برکتیں آج جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ بھی تحریک وقف جدید کی کامیابی کیلئے احباب کو دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’غرض یہ تحریک خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے دوست اس کے لئے دعا ئیں کرتے رہیں اور ایک دوسرے کو تحریک بھی کرتے رہیں ۔قرآن کریم نے مومن کا یہی کام بتایا ہے کہ وہ نیکیوں میں آگے بڑھتا ہے اور جب کوئی پیچھے رہ جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے پھر اور آگے بڑھتا ہے اور جو پیچھے رہ جائے اسے پھر اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کا بھی خیال رکھتا ہے اور ان کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ دنیا میں نیکی ہی نیکی قائم ہو جاتی ہے یہی فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَاتِ (البقرہ:149) کے معنے ہیں۔ پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح و ارشاد کے دائرہ سے باہر نہیں رہ سکتا۔ ویسٹ پاکستان کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے زائد ہے اور ایسٹ پاکستان کا 54 ہزار مربع میل ہے۔ ہماری سکیم ایسی ہے جس کے ماتحت چار چار ، پانچ پانچ مربع میل میں ایک ایک سنٹر قائم ہو جاتا ہے پھر اور ترقی ہو تو دو دو مربع میل میں بھی ایک ایک سنٹر مقرر کیا جا سکتا ہے بلکہ اور ترقی ہو تو ایک ایک میل کے حلقہ میں بھی سنٹر قائم ہو سکتا ہے اور اگر ایک ایک میل میں ہم سنٹر قائم کر دیں تو پھر ہمارے ملک میں کوئی جگہ ایسی باقی نہیں رہتی جہاں خدا اور رسول کی باتیں نہ ہوتی ہوں جہاں قرآن کی تعلیم نہ دی جاتی ہو اور جہاں(دین) کا پیغام نہ پہنچایا جاتا ہو۔

(روزنامہ الفضل 15مارچ 1958ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ایک دعا درج کرتا ہوں حضور نے دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ ہمیں اس لائق بنائے کہ خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کے شکر گزار بن سکیں ان سے پوری طرح استفادہ کر سکیں اور وہ انقلاب جو میں فضا میں ظاہر ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں، جو ہوا میں محسوس کر رہا ہوں میری توقعات سے بھی بڑھ کر تیزی کے ساتھ آئے اور خدا کے فضلوں کی نئی برساتیں لے کر آئے، نئی بہاریں لے کر آئے، نئے نئے پھول گلشن احمد میں کھلتے ہوئے ہم دیکھیں، نئے نئے رنگوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ تمام عالم میں ہم ان کو سجائیں اور ان کی خوشبو سے ساری دنیا مہک جائے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے وقف جدید کی خوبیوں اور نتائج کے متعلق فرمایا:۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں بھی وفد گئے ہیں وہاں سے خوشکن اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں مگر کہتے ہیں کہ

’’کے آمدی و کے پیر شدی‘‘

جب مَیں ربوہ سے چلا تھا تو ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ان مرکزوں کو قائم کئے ہوا تھا ،حالانکہ اصل نتائج سال ڈیڑھ سال کے بعد نکلا کرتے ہیں پس صحیح نتائج تو اگلے جلسے کے بعد ان شاء اللہ نکلنے شروع ہوں گے۔ لیکن اس کے خوشکن آثارابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں جیسے کہتے ہیں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندار ہو گا۔ اس وقت یہ تحریک ایک بچہ کی صورت میں ہے اور بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے دانت نہیں دیکھے جاتے نہ اس کی داڑھی دیکھی جاتی ہے، دو تین سال میں اس کے دانت نکلتے ہیں، پھر وہ چلنا پھرنا سیکھتا ہے اور کہیں اٹھارہ، بیس سال کے بعد اس کی داڑھی نکلتی ہے اگر پہلے دن ہی اس کی داڑھی تلاش کی جائے تو یہ بیوقوفی ہو گی۔ اسی طرح وقفِ جدید کے نتائج اور اس کی خوبیوں کا ابھی سے اندازہ نہیںلگا یا جا سکتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس وقف جدید کی غیرمعمولی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اس عرصے میں وقفِ جدید کو غیر معمولی ترقی کی توفیق عطا فرمائی۔ شروع شروع میںیہ تحریک بہت معمولی دکھائی دیتی تھی ۔آغاز بھی غریبانہ تھا اور چال چلن بھی غریبانہ۔ دیہات کے ساتھ اس کا تعلق تھا اور دیہاتی معلمین جو اس تحریک کے تابع خدمت پرمامور تھے ان کا ماہانہ گزارا بھی بہت ہی معمولی بلکہ اتنا معمولی کہ ایک عام مزدور سے بھی بہت کم تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قناعت کے ساتھ اور بڑی خوش خلقی کے ساتھ انہوں نے ہر گزارے پر گزارا کیا اور خدمتِ دین میں بہت جلد جلد آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے کے اندر وقفِ جدید کا سالانہ بیعتوں کا ریکارڈ باقی اس قسم کی دوسری تمام انجمنوں کے اداروں یا تحریکات سے آگے نکل گیا اور لمبے عرصے تک وقفِ جدید بیعتیں کروانے کے میدان میں اوّل رہی۔‘‘

حضورؒ مزید فرماتے ہیں کہ

’’چنانچہ وقف جدید بھی ان غر یبانہ تحریکوں میں سے ایک ہے جو جماعت احمدیہ میں اسلام کے احیائے نو کی خاطر جاری کی گئیں۔ حضرت مصلح موعود نے دیہاتی جماعتوں میں ایک روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی خاطر اس کی بنیاد رکھی۔ پس یہ ایک بہت ہی غریبانہ اور درویشانہ سی انجمن ہے جس کا بجٹ بہت معمولی سا ہے لیکن گزشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں دیگر انجمنوں نے ترقی کی وہاں خداتعالیٰ نے اس غریبانہ انجمن کو بھی نمایاں ترقی کی توفیق بخشی اور توقع سے بہت بڑھ کر بجٹ پورا ہوا بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے 83ء میں 82ء کی نسبت تین لاکھ روپے زائد وصولی ہوئی جو کہ نسبت کے لحاظ سے ایک بہت نمایاں ترقی ہے اور اس دفعہ بھی 84ء میں وقف جدید کا بجٹ سترہ لاکھ روپے تھا اورجو رپورٹیں آرہی ہیں وہ خدا کے فضل سے بہت خوشکن ہیں اور ان سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ یہ بجٹ بھی حسب سابق توقع سے بہت بڑھ کر پورا ہوگا۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایک طر ف تو (مخالف) جماعت کی آمد کے ذرائع پر ہاتھ ڈال رہا ہے، احمدی ملازمتوں سے سبک دوش کئے جارہے ہیں، ان کی تجارتوں میں رخنے ڈالے جا رہے ہیں، ان پر انکم ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بنائے جا رہے ہیں، الغرض کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس سے جماعت کو تنگ نہ کیا جارہا ہو اور جماعت کی اقتصادی حیثیت کو نقصان نہ پہنچایا جا رہا ہو، مگر اس کے باوجود جماعت ہر جہت سے خدا کی راہ میں مالی قر بانی میں آگے سے آگے قدم بڑھا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں وقف جدید کے عظیم الشان مقاصد کیلئے ہر قسم کی قربانیوں کی توفیق دے وہاں بہت زیادہ دعاؤں کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(محمد افضل متین)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 فروری 2020