• 8 جولائی, 2025

وقفِ زندگی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾٪

ترجمہ: سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہوتو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

(البقرۃ:113)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں۔
ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔
نیز فرمایا: سچااسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔

اسی طرح آپ دین کی خدمت اور خدا کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی ضرورت واہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے۔ میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لیے وقف کر دی اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو سونپ دی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیوں (مومن دین) کی خدمت کے لیے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسلام کی حالت اِس وقت پکارتی ہے کہ اس کے لیے ساری زندگی وقف کی جائے اور بہت سے لوگ ہوں جو زندگی وقف کریں یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت تھوڑی خدمت بعد میں بڑی بڑی خدمتوں سے بہت افضل ہو گی۔ اسلام مٹ رہا ہے، پس جو لوگ اِس وقت خدمت کریں گے ان کی خدمت زیادہ قابلِ قدر ہو گی۔‘‘

(الفضل یکم اکتوبر 1918ء)

ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا: یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کی ضرورت ہو تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا وہ گنہگار ہے۔ اس لیے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ واری کو نباہ سکتے ہوں وہ پیش کریں۔

(مطبوعہ الفضل 19 اکتوبر1943ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا۔
’’ویسے تو ہر احمدی کسی نہ کسی رنگ میں واقف بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہر احمدی کو کہا ہے کہ وہ ایک واقف کی زندگی گزارے اور آپ نے یہ بڑے زور سے کہا ہے اور بڑے پیار سے کہاہے اور بڑے درد کے ساتھ کہا ہے۔ آپ نے کہا، جب میں نے اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کی ہوئی ہے تو جو لوگ میرے ساتھ پیار رکھنے والے ہیںان کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں وقف کریں… پس ہر احمدی مرد اور عورت، لڑکے اور لڑکی کا فرض ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے دن خدا کی رضا کے حصول کی کوشش میں گزارے، لیکن ان واقفین کی جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو… جامعہ میں تعلیم حاصل کرتا، اپنے علم کو بڑھاتا اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد معمولی سے گزاروں پر ساری عمر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے اور نبی اکرم ﷺکی محبت انسان کے دل میں پیدا کرنے کی کوشش میں گزار دیتا ہے۔‘‘

دنیا پیاسی ہے اور اس کی پیاس سوائے احمدیت کے اور کوئی نہیں بجھا سکتا۔ جب تک ہمارے پاس کافی تعداد میں واقفین موجود نہ ہوں اُس وقت تک ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں پھر پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں حضرت حاجرہ علیہا السلام کی بہنیں جو اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کریں اور کہاں ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے وہ بھائی جو دنیا کو چھوڑ کر اور دنیا کی لذت، آرام اور عیش سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کی طرف آئیںاور اُس کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔

(روزنامہ الفضل 4 جولائی 1966ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 فروری 2020