• 8 مئی, 2024

جامعہ مسجد قرطبہ اور مسجد بشارت پیدروآباد

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت اور معرفت حاصل کرنے کے لئے پیدا کیا اور ساری زمین کو انسان کے لئے ہموار اور ساری زمین کو مسجد بنا دیا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے راستے بنا دئیے اور برّی، بحری اور ہوائی سواری کی سہولت فراہم کر دی تاکہ اس کی زمین میں چل پھر کر انسان عجائب قدرت سے لطف اندوز ہو اور اللہ کے رزق میں سے کھائے، جذبات تشکر پیدا کرے اور خطہ ارض پر جہاں جہاں وہ جاسکتا ہے عبادت کر ے۔ علم و معرفت اورتقویٰ میں ترقی کرے بنی نوع کو فیضیاب کرے اور اس زندگی کا سفر ختم کر کے خدا کے حضور حاضر ہو کر حساب کتاب دے اور جزا یا سزا پائے۔

اندلس (مسلم سپین)

اندلس (مسلم سپین) یورپ میں موجود ایک مسلم ریاست تھی جو ہسپانیہ، پرتگال اور جدید فرانس پر مشتمل تھی۔اندلس کی فتح کا سہرا بر بر قوم کے ایک بہادر جرنیل طارق بن زیاد کے سر پر ہے جس نے شمالی افریقہ اور جنوب مغربی یورپ کے درمیان ایک آبنائے کو کشتیوں کے ذریعے عبور کیا سپین کے ساحل پر اتر کر ساری کشتیاں جلا دیں تاکہ واپس جانے کا خیال ہی سپاہیوں کےدلوں میں نہ آئے اور 2 سال کے قلیل عرصے میں اس کے ہاتھوں اندلس یا آئیبیرین آئی لینڈ فتح ہوگیا جس پہاڑ پر وہ اپنی فوج کو لے کر اترا تھا اس کا نام جبل الطارق ہے جس کو یورپ Gibraltar کہتا اورلکھتا ہے

اندلس یا مسلم سپین کی تاریخ بڑی دلچسپ اور عظیم ہے۔جلد ہی اس کا دارالحکومت قرطبہ دنیا کا سب سےبڑا اور خوبصورت شہر اورعلوم و فنون کا ایک عظیم مرکز بن گیا۔ جہاں سے یورپ نے علم کی شمع روشن کی۔پنڈت جواہر لال نہرو ’’تاریخ عالم پر ایک نظر‘‘ میں لکھتا ہے:

اس میں شک نہیں کہ بغداد ان تمام علمی تحریکوں کا بہت بڑا مرکز تھا دوسرا مرکز قرطبہ تھا جو مغرب میں عربی سپین کا دارالسلطنت تھا۔
پہلے احمدی مسلم نوبیل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالسلام نے بھی اپنے لیکچرز اور مضامین میں مسلم سپین کے نامور سائنسدانو‌ں اور علوم کا ذکر کیا ہے اور کس طرح یورپ جو اس وقت تاریک براعظم تھا سپین کے سائنسدانوں اور اسلامی درس گاہوں سے علوم سیکھ کر فیضیاب ہوا اور ترقی کی منازل طے کیں

مسلمانوں نے تقریباً 800 سال ان علاقوں پر حکومت کی اور بڑی شاندار عمارتیں اور محلات اور مساجد اور لائبریریاں اور ہسپتال تعمیر کئے اور باغات اور پھل دار درخت لگائے اور ہر ایک قسم کے علوم وفنون کے ماہر پیدا کئے جس کی نظیر نہیں ملتی۔اس کے بعد مسلم سپین مسلمانوں کی اپنی ہی غلطیوں کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں سے نکل گیااوراس پر عیسائی قابض ہوگئے انہوں نے مسجدوں کو چرچ میں تبدیل کر دیا۔ مسلم اور عرب کلچر کو نیست و نابود کردیا۔

اب ان یادگار عمارتوں کو یونیسکو نے علمی ورثہ کے طور پر رجسٹر کر لیا ہے۔2016ء میں سویڈن کے لئے میں نے اہلیہ سمیت Shangen Visa حاصل کیا سویڈن میں میرا چھوٹا بیٹا رہتا ہے۔

عید الفطر سٹاک ہوم میں گزارنے کے بعد ہم میاں بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ سپین کے سفر پر روانہ ہوئےاور ملاگا ائر پورٹ پر اترے اور وہاں سے موٹر کار ہائر کر کے دعائیں کرتے ہوئے نصف شب پیدروآباد مسجد بشارت پہنچے جہاں گیسٹ ہاؤس کی ہم نے اجازت لی ہوئی تھی۔ہم صرف تین مقامات دیکھ سکے کیونکہ آنے جانے کے سفر سمیت ہمارے پاس صرف تین دن تھے ان کا مختصر ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

مسجد بشارت پیدروآباد (قرطبہ)

چودھویں صدی ہجری کے آخر پر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قرطبہ کے قریب پیدروآباد میں ناممکن حالات میں اپنے خاص فضل سے مسجد بنانے کی توفیق دی جہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا تھا وہاں مسجد تو دور کی بات قرطبہ کی جامعہ مسجد (Grand Mosque) میں جس کو کیتھیڈرل میں تبدیل کر دیا گیا ہے کسی سیاح کو دو نفل پڑھنے کی بھی اجازت نہ تھی اور سختی سے نگرانی کی جاتی تھی اور اب بھی اجازت نہیں ہے۔
اس ملک میں مذہبی آزادی کا اعلان اور جماعت احمدیہ کا قرطبہ سے صرف 35 کلومیٹر دور مسجد کے لئے جگہ لے لینا اور مسجد تعمیر کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

اس کے پس پردہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعائیں ہیں جن کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم معجزہ دکھایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1970ء میں سپین کا دورہ کیا تھا اور دورے کے دوران ساری رات مسلمانوں کے شاندار ماضی اور زوال کا تصور کرکے دعا میں گزاری کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ذریعے اس کا ازالہ فرمائے اور مسجد بنانے کے سامان پیدا فرمائے ۔چنانچہ اسی رات اللہ تعالیٰ نے جوکہ مجیب الدعوات ہے آپ کو سورۃ، 4 ،3 الہام کر کے بشارت دی کہ دعا قبول ہو گئی ہے آسمانوں پر فیصلہ ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی اس منصوبے کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا۔

چنانچہ 10 سال بعد ملک کا قانون بدلا اور مذہبی آزادی ملی۔ جماعت احمدیہ نے وقت ضائع کئے بغیر فوراً قرطبہ کے قریب پیدروآباد میں مسجد کےلئے جگہ لے لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ مسجد کا 9، اکتوبر 1980ء کو سنگ بنیاد رکھ دیا اور اس سر زمین پر باجماعت نماز پڑھائی۔ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ عمر کے مقامی لوگوں مردو زن سے بھی بنیاد میں اینٹیں رکھوائیں گئیں۔
یہ دن خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور ساری جماعت کے لئے بہت بڑی خوشی کا دن تھا آپ کا ماٹو ’’Love for all, Hatred for None‘‘ وہیں کی یاد گار ہے۔

طارق بن زیاد کی آپ بیتی

اس موقع پر میں نے مرکز کی اجازت سے بچوں کے لئے طارق بن زیاد فاتح سپین پر کتاب لکھی جو خلافت رابعہ کے شروع میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے شائع کی جس کا اعلان حضورؒ نے جلسہ سالانہ 1983ء پر فرمایا تھا۔

مسجد بشارت کا افتتاح

10 ستمبر 1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس مسجد کا افتتاح کرنا تھا آپ اپنے اور قافلے کے ویزے لگوانے ربوہ سے مئی 1982ء میں اسلام آباد تشریف لے گئے۔ 25 مئی عشاء کی نماز پڑھاتے ہوئے آپ کو Heart Attack ہوا اور 9 جون 1982ء کو اسلام آباد گیسٹ ہاؤس (بیت الفضل، ہاؤس نمبر 1، سٹریٹ 69، سیکٹر F8/3 اسلام آباد) میں فجر سے پہلے آپ کی وفات ہوگئی۔

10 جون 1982ء کو ربوہ مسجد مبارک میں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا انتخاب ہوا اور اسی پروگرام کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 10 ستمبر 1982ء کو بڑے جذباتی رنگ میں مسجد بشارت سپین کا افتتاح فرما دیا۔

آپ نے خطبہ جمعہ میں یہ فرمایا کہ اس موقع پر مجھے ایک شخص کی یاد ستا رہی ہے جو اس مسجد کا افتتاح کرنے کا زیادہ حقدار تھا۔ جن کی دعاؤں سے یہ مسجد بنی یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تو آپ کے رقت بھرے الفاظ سن کر ساری جماعت تڑپ اٹھی کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو غم سے نڈھال ہو کر اشکبار نہ ہوئی ہو یہ عجیب جذباتی لمحات تھے۔

مسجد بشارت کے افتتاح کی خبریں تصاویر سمیت عرب دنیا کے ٹی وی چینلز پر بھی نشر ہوئیں۔ اس پس منظر میں میرے دل میں دیرینہ تڑپ تھی کہ مسجد بشارت سپین جا کر دیکھوں اور میں بھی وہاں خدا کے حضور سربسجود ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کروں۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے 2016ء میں اس خواہش کو پورا فرما دیا۔ الحمدللہ وہاں پہنچتے ہی اس مسجد میں نوافل پڑھنے اور چند نمازیں باجماعت پڑھنے کی توفیق بھی ملی جس سے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو گیا۔

مسجد بشارت کا آرکیٹیکچر مغل سٹائل کا ہے اور اب تو extend ہوکر وہاں بڑا کمپلیکس بن گیا ہے جب ہم وہاں گئے تو گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی توسیع ہو رہی تھی حضرت خلیفۃ المسیح کی رہائش بن چکی تھی۔ سارے احاطہ میں پھل دار درخت لگائے جا رہے تھے مراکش کے ایک دو نئے احمدی مسلمان آئے ہوئے تھے جنہوں نے ایم ٹی اے دیکھ کر احمدیت قبول کی تھی۔

جامعہ مسجد قرطبہ

اگلے دن ہم ناشتہ کرکے قرطبہ کی مسجد دیکھنے چلے گئے۔ مسجد اب کیتھیڈرل میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن اس کے مسجد والے سارے نقوش موجود ہیں۔ یہ عالم اسلام کی دوسری بڑی مسجد تھی ہم نے کوشش کی کہ وہاں دونفل ہی پڑھ لیں۔ انتظامیہ سے پوچھا انہوں نے بتایا اس کی سختی سے ممانعت ہے۔ اس کی اجازت نہیں بلکہ اندر ہال میں بنچ پر بیٹھ کر جب اشارے سے ہی نماز پڑھنے کی کوشش کی تو وہاں بھی روک دئیے گئے۔

بہر حال سورۃ کہف کے پہلے اور آخری رکوع میں سے جنتا کچھ یاد تھا دل میں پڑھتے رہے اور درود شریف کا بہت ورد کیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس کرب کا اپنے اشعار میں اس طرح ذکر کیاہے۔ ؎

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کےدیکھے
جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہوا خاک میں جیسے کندن دمکتا

اس مسجد کی روح فرسانی کہانی بلڈنگ سے ہاہر ایک plaque پر کچھ اس طرح ہے۔

مزار مولانا کرم الہٰی ظفر

مولانا کرم الہٰی ظفر مبلغ انچاج سپین کی وہاں بہت لمبی، دیرینہ اور مخلصانہ خدمات ہیں۔مسجد بشارت کے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تقریب میں آپ شامل تھے آپ کی بے لوث اور قابل رشک خدمات کا ذکر آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ آپ کی وفات سپین میں ہی ہوئی تھی جہاں جماعت کا علیحدہ کوئی قبرستان نہیں اس لئے سرکاری قبرستان میں وہاں کے طریق کے مطابق اوپر نیچے boxes کی شکل میں ایک باکس آپ کی آخری آرام گاہ لکھا ہوا ہے۔

تابوتوں کے boxes ایک دیوار کی شکل میں اوپر نیچے ہیں ہماری درخواست پر امیر صاحب (عبدالرزاق صاحب) نے مربی سلسلہ کو کہا کہ وہ ہمیں آپ کا مزار دکھائیں چنانچہ ان کے ساتھ جا کر ان کے مزار پر دعا کی توفیق پائی۔

اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

اشبیلیہ ( Seville)

پہلے یہ صوبہ قرطبہ کا صدر مقام تھا جب مسلمانوں نے اسے فتح کیا تو اندلس کا اسے دارالحکومت قرار دیا تاہم جب عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام نے اندلس میں خود مختار حکومت قائم کی تو دارالحکومت قربطہ شفٹ کرلیا۔ مسلم سپین میں بنو امیہ کے حکمرانوں کے بعد بعض اور خاندانوں نے بھی حکومت کی۔موحدوں نے جب حکومت سنبھالی توانہوں نے اشبیلیہ میں ایک شاندار مسجدتعمیر کی اور اذان کے لئے 320 فٹ اونچا مینار تعمیر کیا اور اس پر چڑھنے کے لئے چار ڈھلوانیں بنوائیں مؤذن گھوڑا دوڑا کر ڈھلوان کے ذریعے مینار پر چڑھتا اور اذان دیتا میں نے یہ پڑھا ہوا تھا چنانچہ اس مسجد تک تو ہم پہنچ گئے جو اب چرچ بنا دیا گیا ہے اور دور سے ہی مینار کی ڈھلوان کو دیکھ سکے۔

یہاں یہ ذکر بھی معلومات میں اضافے کا باعث ہو گا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے مسلم سپین کے زمانے کی جو شاندار آرکیٹکچرل بلڈنگز دیکھیں جیسے قرطبہ کی شاندار مسجد، الحمراء محل وغیرہ اسی بناء پر آپ نے خواہش فرمائی کہ احمدی انجینئر اور آرکیٹیکٹ بھی اس قسم کی skill پیدا کریں اور امانت و دیانت کا اعلی اقدار پیدا کریں چنانچہ آپ نے اکتوبر 1980ء میں پاکستان واپسی پر اسی ماہ احمدی انجینئرز کی ایسوسی ایشن کا قیام فرمایا حضرت مرزا طاہر احمدؒ کو نگران patron مقرر کیا اور مجلس عاملہ تجویز کرکے منظوری عطا فرمائی اور constitution لائحہ عمل بنوا کر اسے منظور فرمایا۔


(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 فروری 2020