• 25 اپریل, 2024

نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اگر ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے تو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہماری خود ساختہ تعریفیں ہمیں نیکیوں پر قدم مارنے والا اور بدیوں سے روکنے والا نہیں بنائیں گی۔ اگر خود ہی تعریفیں کرنے لگ جائیں اور کچھ بدیاں چھوڑیں اور کچھ نہ چھوڑیں اور کچھ نیکیاں اختیار کریں اور کچھ نہ اختیار کریں تو بسا اوقات انسان اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ چھوٹی نظر آنے والی نیکیاں عدمِ توجہ کی وجہ سے نیکیوں سے بھی محروم کر دیتی ہیں اور اکثر معمولی نظر آنے والی بدیاں روحانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے طہارت اور پاکیزگی کے انعام سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔ پھر بعض بدیوں کو چھوٹا سمجھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بدی کا بیج قائم رہتا ہے جو مناسب موقع اور وقت کی تلاش میں رہتا ہے اور موقع پاتے ہی باہر آ جاتا ہے۔

پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی ایک بدی یا بدیوں کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب سب مل کر بھر پور کوشش کریں۔ ایک معاشرہ ہے، جماعت ہے پھر جماعت کا ہر فرد جو ہے وہ اس کے لئے کوشش کرے۔ اگر ہر کوئی اپنی تعریف کے مطابق نیکی اور بدی کرے گا تو پھر ایک شخص ایک بات کو بدی سمجھ رہا ہو گا یا بڑی بدی سمجھ رہا ہو گا تو دوسرا اُس کو چھوٹی بدی سمجھ رہا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ تیسرا ان دونوں سے مختلف سوچ رکھتا ہو، تو پھر معاشرے سے بدیاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ بدیاں تبھی ختم ہوں گی جب سب کی سوچ کا دھارا ایک طرف ہو۔ مثلاً مسلمانوں کی اکثریت جو ہے وہ تمام گناہوں سے بدتر بلکہ شرک سے بھی بڑا (گناہ) سؤر کا گوشت کھانے کو سمجھتی ہے۔ ہر بدمعاش، چور، زانی، لٹیرا یہ سب کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو مسلمان کہے گا، لیکن اگر کہو کہ سؤر کھا لو تو کہے گا میں مسلمان ہوں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے، مَیں کس طرح سؤر کھا سکتا ہوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ سؤر کھانا گناہ ہے اور حرام ہے۔ اس معاشرے میں رہنے اور پیدا ہونے اور پلنے اور بڑھنے کے باوجود یہاں کے جو مسلمان ہیں، اُن میں ننانوے اعشاریہ نو فیصد مسلمان جو ہیں سؤر کے گوشت سے کراہت کرتے ہیں۔ پس یہ اُس احساس کی وجہ سے ہے جو اجتماعی طور پر مسلمانوں میں پیدا کیا گیا ہے۔

پس برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو قائم کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کے احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ معمولی نیکی بھی بڑی نیکی ہے اور معمولی بدی بھی بڑا گناہ ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا اور اُس کے لئے کوشش نہیں ہوگی معاشرے میں بدیاں قائم رہیں گی اور عملی اصلاح میں روک بنتی رہیں گی۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 342تا 346 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

پھر اعمال کی اصلاح میں جو دوسری وجہ ہے، وہ ماحول ہے یا نقل کا مادّہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادّہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے۔ اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا مادّہ ہے۔ اور یہ مادّہ جو ہے یقینا ہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے۔ ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیرِ اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔ لیکن اگر جھوٹ، لڑائی جھگڑا، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں، جماعتی وقار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے۔ باہر جاتا ہے تو ماحول میں، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے بار بار مَیں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں۔ پھر یہ بات بھی بہت توجہ طلب ہے کہ بچوں کی تربیت کی عمر انتہائی بچپن سے ہی ہے۔ یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہو گا تو پھر تربیت شروع ہو گی۔

(خطبہ جمعہ 13؍ دسمبر 2013ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2021