• 25 اپریل, 2024

پس یہ لعنت ہے جو اُن لوگوں پر پڑے گی جو یہ راستہ اختیار کریں گے کہ رسول کی توہین کے مرتکب ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اللہ تعالیٰ کا سزادینے کاطریق اس طرح ہے۔ آج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس عظیم بندے کی پیروی کرتے ہوئے جو لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور جو ان کو نمازیں پڑھنے سے روکتے ہیں، وہ کون ہیں؟ پس یہ اُن لوگوں کے لئے بھی بڑا خوف کا مقام ہے جو کسی کو عبادت کرنے سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی خاطر جب زمین و آسمان پیدا کئے ہیں توپھر اس سے استہزاء کرنے والوں اور کفر میں بڑھنے والوں کو اور تکلیف پہنچانے والوں پر لعنت ڈالتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مَُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّا م بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ وَلٰکِنْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء: 47) یہ سورۃ نساء کی سینتالیسویں آیت ہے۔ فرمایا کہ یہود میں سے ایسے بھی ہیں جو کلمات کو انکی اصل جگہوں سے بدل دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ اور بات سُن اس حال میں کہ تجھے کچھ چیز سنائی نہ دے۔ اور وہ اپنی زبانوں کو بَل دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَا کہتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہوتا کہ وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور سُن اور ہم پر نظر کر تو یہ ان کے لئے بہتر اور سب سے زیادہ مضبوط قول ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی ہے۔ پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑا۔

پس یہ لعنت ہے جو اُن لوگوں پر پڑے گی جو یہ راستہ اختیار کریں گے کہ رسول کی توہین کے مرتکب ہوں۔ پھر یہودیوں کے یہ کہنے پر کہ ہم اتنا کچھ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کر رہے ہیں۔ یعنی کہ جو بھی تکلیفیں پہنچا سکتے ہیں اور جو باتیں بنا سکتے ہیں اور جو منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ اگر یہ رسول سچا ہے تو خدا تعالیٰ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَیَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ۔ وَاِذَا جَآئُ وْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ وَیَقُوْلُوْنَ فِی اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ۔ حَسْبُھُمْ جَھَنَّمُ۔ یَصْلَوْنَھَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (المجادلہ: 9) کیا تُو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہیں خفیہ مشوروں سے منع کیا گیا؟ مگر وہ پھر بھی وہی کچھ کرنے لگے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ اور وہ گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے متعلق باہم مشورے کرتے ہیں اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو اس طریق پر تجھ سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا۔ اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں۔ اُن سے نپٹنے کو جہنم کافی ہے۔ وہ اس میں داخل ہوں گے۔ پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

بعض حدیثوں سے بھی ثابت ہے کہ یہ یہودی بعض دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں آتے تھے یا ویسے ملتے تھے تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کی بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہہ کر نعوذ باللہ آپ کی موت کی خواہش کیا کرتے تھے، جیسا کہ پہلے بھی مَیں گزشتہ خطبوں میں حدیث بیان کر چکا ہوں۔ اس پر بعض اوقات صحابہ کہتے کہ ہم اسے قتل کر دیں تو آپؐ فرماتے: نہیں۔ (بخاری کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین … باب اذا عرض الذمی وغیرہ …حدیث نمبر 6926) اس لئے کہ ان کی بیہودہ گوئیوں کا معاملہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ جہنم میں ڈال کر جو سزا خدا تعالیٰ نے دینی ہے وہ اس دنیاوی سزا کی طرح نہیں ہو سکتی۔ پس جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں بیشک آپؐ خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ تا قیامت آپ کا سلسلہ نبوت جاری ہے۔ تمام انبیاء سے آپؐ افضل ہیں لیکن اس کے باوجود تمام رسولوں کی طرح آپ کو دشمنانِ دین کی مخالفتوں اور ہر قسم کے نقصان پہنچانے کی تدبیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہر موقع پر یہی کہا کہ اولوالعزم انبیاء کی طرح صبر اور دعا سے کام لے۔ یہی آپ کے ماننے والوں کو کہا گیا۔ اور خود بھی بیان فرمایا کہ ان دشمنانِ دین کے استہزاء، بیہودہ گوئیوں اور خباثتوں کا میں کس کس رنگ میں بدلہ لوں گا۔ بعض کا اس دنیا میں اور بعض کا مرنے کے بعد جہنم کی آگ میں ڈال کر۔ ہاں اگر دشمن جنگ کرے اور قوم کا امن و سکون برباد کرے تو پھر اس سے مقابلے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اس مقابلہ کی اجازت نہ دی گئی تو مذاہب کے مخالفین ہر مذہب کے ماننے والے کا چین اور سکون برباد کر دیں گے۔

اس دنیا میں کس طرح خدا تعالیٰ آپ کی توہین کے بدلے لیتا رہا، اس کے بھی بہت سے واقعات ہیں۔ ایک بدلے کا اعلان قرآنِ کریم میں یہ کہہ کر فرمایا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَّب (اللھب: 2) کہ ابو لہب کے دونوں ہاتھ شَل ہو گئے۔ جب آپ نے پہلے دعویٰ کیا اور اس وقت جب اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کے لئے اکٹھا کیا تو اس شخص نے جو آپ کا چچا تھا بڑے نازیبا الفاظ آپ کے بارہ میں استعمال کئے تھے۔ (بخاری کتاب التفسیر باب سورۃ تبت یدا ابی لہب… حدیث نمبر 4971) تو قادر و تواناخدا جو بڑے سچے وعدوں والا ہے اُس نے اس کو کس طرح پکڑا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک سفر کے دوران اس پر بھیڑیوں نے حملہ کر دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو تاقیامت خدا کے پیارے اور افضل ہیں۔ آپ سے کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدے بھی ہمیشہ پورے ہوتے رہیں گے۔ ہر زمانے میں دشمنانِ اسلام اپنے انجام کو پہنچتے رہے ہیں اور پہنچتے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے نظارے اور خدا تعالیٰ کا آپؐ سے پیار کا سلوک دکھاتا چلا جائے۔ اور ہم حقیقی رنگ میں قرآنی تعلیم کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں اور ایسے مومن بننے کی کوشش کریں جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے توقع کی ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مارچ 2021