• 9 جولائی, 2025

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا

خلافت سے محبت ایک ایسا فطری امر ہے جو ہر احمدی مسلمان کے رگ و ریشے میں سرایت کئے رہتا ہے اب یہ کہنا کہ کس کو کتنی محبت ہے خلیفہ وقت سے اس کو بظاہر ناپنے کیلئے ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ خلیفۂ وقت سے محبت کا سلسلہ حضور اقدس سے رابطہ کے ذریعہ بڑھایا جاسکے (جب میں یہ کہتا ہوں کہ بڑھایا جاسکے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں حضور انور سے کم محبت ہے۔ ہاں! مطلب یہ ہے کہ حضور کو ہماری محبت کا کیسے علم ہو اور یہ محبت دو طرفہ کیسے بڑھے) تو اس کے لئے حضور اقدس سے رابطہ بذریعہ خطوط یا اور ذرائع جن میں ذاتی ملاقاتیں اور یا پھر خلیفۂ وقت کی بارگاہ میں شرف باز یابی بطور خادم سلسلہ۔آ خر الذکر انعام تو انہیں لوگوں کے حصّہ میں آتا ہے جو براہ راست خلیفۂ وقت کے ساتھ کام کرنے کی سعادت پاتے ہیں یا پھر جن پر اللہ انعام کردے اورخدا کا یہ نمائندہ خاص اس انعام یافتہ بندہ کو خود اپنی بارگاہ میں طلب فرما لیں اور وہ شخص مورد انعام الٰہی بن جائے اور دیدار خلیفۃ المسیح سے نہ صرف اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرے بلکہ لمس خلافت سے مہبط انوار الٰہی کا مورد ہو اور دلی سکون پائے۔ مؤخرالذکر بات خا کسار صر ف لفّاظی کے طور پر بیان نہیں کر رہا بلکہ اس کا عینی شاہد اور گواہ بھی ہے کہ افراد جماعت تو خلیفہ وقت کے دیدار اور ملاقات کیلئے بے قرار رہتے ہی ہیں لیکن غیر از جماعت احباب بھی اس نعمت سے حصہ پاتے ہیں۔ ا س سلسلہ میں ایک ایمان افرواز واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو ں۔

ہوا کچھ یوں کہ 2016 ءمیں خاکسار گنی کناکری سے ایک وفد کے ساتھ جلسہ سالانہ برطانیہ میں حضور اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مشفقانہ اجازت سے حاضر ہوا۔جلسہ میں شرکت کیلئے گنی کی نیشنل اسمبلی کے نائب صدر محترم محمد سلیم باہ صاحب، وزارت مذہبی امور کے وزیر کے نمائندہ مکرم نورالدین فادیگا اور پولیس ٹریننگ کالج کے ڈائریکٹر محترم الحسن سیسے شامل ہوئے۔ اس وفد نے جلسہ میں کیا برکات سمیٹی یہ ایک الگ مضمون ہے جو انشاء اللہ العزیز کسی اور موقع پر پیش کروں گا لیکن اس وقت خلیفۂ وقت سے محبت اوربارگا ہ خلافت سے فیض یاب ہونے کی بات ہو رہی ہو تو جلسہ سالانہ کے بعد وکالت تبشیر لندن کی طرف سے ہمیں ملاقات کا دن اور وقت مقرر کر دینے کی اطلاع موصول ہوئی۔ لہذا مقررہ دن ہم سب خوب تیار ہو کر مسجد فضل لندن پہنچ گئے اور بے چینی سے ملاقات کا انتظار کرنے لگے۔حضور انور کی بے پناہ مصروفیات اور بالخصوص ایک نماز جنازہ حاضر کے آجانے سے کافی دیر ہوگئی اور خاکسار کے ساتھ ملک کی اہم شخصیات تھیں جو کہ صبر سے انتظار کر رہی تھیں۔ اس اثناء میں دفتر تبشیر لندن میں کام کرنے والے مبلغ سلسلہ جو کہ ملاقات کے انتظامات کرتے ہیں میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے وفد کے مہمان ناراض تو نہیں ہیں کیونکہ کافی دیر ہوگئی ہے، لیکن ساتھ ہی کہنے لگے اس کا تریاق ابھی ہو جاتا ہے جب یہ حضور اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دفتر میں داخل ہونگے اور بارگاہ خلافت سے فیضیاب ہونگے (یہاں پر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ یہ حقیقت ہے کہ یہاں گنی میں بڑے عہدوں پر فائز لوگ بہت متکبر ہو جاتے ہیں ا ور ان کے لئے کسی کا انتطار کرنا مشکل ہوتا ہے ) بعینہ وہی ہوا کہ جب ہم حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیارے حضور نے ان سے گفتگو فرمائی تو سب کے چہرے کھل اٹھے گویا کسی مسیحا نے سب بیماروں کو اپنی مسیحانہ نظر سے شفا بخش دی ہو۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

جب ہم ملاقات کے بعد باہر آئے تو خاکسار نے سب سے دریافت کیا کہ حضور انور سے ملاقات کا تجربہ کیسا رہا تو سب احباب نے برملا اظہار کیا کہ ان جیسی شخصیت سے ملاقات کیلئے اگر ہمیں گھنٹوں بھی بیٹھنا پڑتا تو ہم بیٹھ لیتے۔ وزارت مذہبی امور سے تشریف لانے والے نمائندہ نے کہا کہ میں بڑی بڑی مذہبی شخصیات سے ملتا رہتا ہوں لیکن آج مجھے خاص لطف محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی خدائی نمائندہ سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ محسوس ہو رہا ہے گویا یہ شخص دنیا کے مسائل اپنی دعاؤں سے حل کرسکتا ہے لہذا یہ صرف آپکے ہی خلیفہ نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ کے خلیفہ ہیں اور پولیس کے ڈائریکٹر صاحب نے کہا کہ میں ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا رہوں گا کہ مجھے آج خدا کے نمائندہ کے پاس بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی (اللہ کے فضل سے واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد ان کو بیعت کرکے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل ہونے کی بھی سعادت نصیب ہوئی )۔

تو قارئین کرام !یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے اس کا انتظار چودہ سو سال سے ہو رہا تھا اور یہ انتظار حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق تھا اور اس کی تکمیل کیلئے اس اما م آخرالزماں حضرت مسیح و مہدی موعود ؑ کا آنا ضروری تھا اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب چشمۂ معرفت میں فرماتے ہیں :
’’چونکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ ﷺ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی یعنی شبہ گزرتا تھا کہ آپ ﷺ کا زمانہ وہیں تک ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ جو آخری کام آپ کاتھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ پر ڈال دی جو قربِ قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کیلئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کانام خاتم ا لخلفاء ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت ﷺ ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہو لے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اس نائب النبوۃ کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے:۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ

(الصف: 10)

یعنی خدا وہ خد ا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک اکمل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کردے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے… اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ82۔83)

پس آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ثم تکون الخلافۃ علی منہاج النبوۃ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد اس عظیم نعمت کو جاری فرمایا اور خلیفۂ وقت کا جماعت سے اور جماعت کا خلیفۂ وقت سے پیار و محبت کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور یہ بات طے ہے کہ جو بھی اس سائبان کے نیچے آئے گا وہی نجات پائے گا اور قرآنی پیشگوئیوں کے مطابق ان تمام رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا وارث ہو گا جو خدائے پاک نے اپنے پاک کلام میں غلامان خلافت کیلئے قیامت تک کیلئے محفوظ کردی ہیں۔

بات خلافت سے وابستہ ہونے پر نعمتوں کی چلی ہے تو اس سلسلہ میں کچھ ایمان افروز واقعات عرض کرتا چلوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے نمائندہ کے وجود باوجود میں برکت رکھ دیتاہے کہ جو انہیں چھو بھی لیتا ہے وہ بابرکت ہو جاتا ہے اسی جلسہ سالانہ یو کے 2016 ء جس کا ذکر خاکسار نے کیا ہے ہمارے نیشنل اسمبلی کے نائب صدر جناب محمد سلیم باہ صاحب شامل ہوئے اور حضوراقدس سے ملاقات کے اختتام پر انہوں نے حضور انور کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کا اظہار کیا تو جہاں گروپ کے ساتھ فوٹو لی گئی وہاں حضور اقدس نے ان کو ارشاد فرمایا کہ آپ اکیلے آجائیں تصویر کیلئے تو وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ مجھے یہ سعادت ملی۔ واپس آکر انہوں نے اس تصویر کو بڑا کروا کے فریم کروا کر نیشنل اسمبلی کے احاطہ میں واقع اپنے آفس میں آویزاں کردیا۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان سے محترم میر مبارک صاحب وکیل المال ثانی یہاں گنی دورہ پر تشریف لائے تو خاکسار انہیں ان سے ملاقات کیلئے ان کے آفس لے گیا جہاں انہوں نے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر دیکھی اور محترم سلیم باہ صاحب سے پو چھا کہ یہ سعادت آپ کو کب نصیب ہوئی جس پر انہوں نے بیان کیا کہ جلسہ سالانہ یو کے کے موقعہ پر لی گئی یہ تصویر جب سے میں نے آفس میں آویزاں کی ہے آفس میں آنے والی ہر شخصیت نے ان کے بارہ میں یہی بات کہی ہے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا خاص بندہ لگتا ہے جن سے آپ کو ملنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نائب صدر صاحب نے محترم میر صاحب کو بتایا کہ جب سے میں نے یہ تصویر یہاں آویزاں کی ہے اللہ تعالیٰ نے میرے کاموں میں غیر معمولی برکت عطا کی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔ قارئین کرام! یہ الٰہی تصرف ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے اپنی خاص رحمت کا سلوک فرماتا ہے اور ان کا وجود انوار رحمت کا باعث بن جاتا ہے اور پھر اس سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھاتا ہے جو اس کے سایہ میں آجاتا ہے۔

اسی طرح 2018ء کے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقعہ پر حضور اقدس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مشفقانہ اجازت سے گنی کناکری کے نیشنل ہاسپیٹل کے ڈائریکڑ جنرل جناب ڈاکٹر محمد اواڈا صاحب جو کہ لبنانی النسل ہیں جلسہ میں شامل ہوئے۔ حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی اور حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ خاکسار آپ کے ساتھ تصویر بنانے کی سعادت پا سکتا ہے جس پر حضور انور نے از راہ شفقت ان کے ساتھ تصویر بنوائی۔ یہ تصویر بعد ازاں انہوں نے اپنے دفتر میں فریم کروا کر آویزاں کی 2020ء میں جب ہیومینٹی فرسٹ کے چیئر مین ڈاکٹر حفیظ عزیز صاحب گنی دورہ پر تشریف لائے تو ہم ملاقات کیلئے ڈاکٹر اواڈا صاحب سے ملنے ان کے دفتر گئے تو دفتر میں پہلے سے موجود گنی کے وزیر تعلیم ملاقات ختم کرکے باہر نکل رہے تھے جس پر ڈاکٹر اواڈا صاحب نے حضور انور کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے وزیر صاحب کو بتایا کہ یہ امت مسلمہ کے مذہبی رہنما ہیں اور احمدیہ مسلم جماعت کے پانچویں خلیفہ ہیں۔مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس پر وزیر صاحب بہت متاثر ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر اواڈا صاحب نے چیئر مین صاحب کو بتایا کہ حضور انور سے ملاقات کے بعد اور جب سے میں نے یہ تصویر یہاں آویزاں کی ہے مجھ پر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل ہو رہے ہیں یہاں ہسپتال میں میری مخالفت پر ایک گروہ کمر بستہ رہتا تھا لیکن اب اللہ کے فضل سے وہ سب میرے حق میں ہو گئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور انور کی برکت سے اللہ نے یہ فضل فرمایا ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

خلیفۃ المسیح سے جماعت کی محبت اور آپ کے پاک وجود سے اور آپکی دعاؤں سے حاصل ہونے والی برکتوں کا یہ عالم ہے کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن سے ہی ہمارے گھر میں (یہ ہمارے گھر کا ہی نہیں ہر احمدی گھرانے کا حال ہے) کہ جب بھی کوئی معاملہ جس میں کوئی پریشانی ہو یا کوئی بیمار ہوگیا یا پھر ایسا مسئلہ جس کو سلجھانا مشکل ہو تو فوراً والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھو دعا کیلئے یا پھر مشورہ کیلئے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خلیفۃ المسیح کی بارگا ہ میں خط کے ذریعہ فریاد کی گئی ہو اور اس کا حل اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو۔ گزشتہ دنوں الفضل میں ایک مضمون نظر سے گزرا کہ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں خط لکھ دینا ہی کافی اور یہ انتظار کرنا کہ یہ خط بارگاہ خلافت میں پہنچے تو دعا ؤں کا اثر ہو گا غلط ہے بلکہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو خاکسار اس بات کا گواہ ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں خط لکھنے بیٹھو تو معاملات ٹھیک ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ابھی پندرہ بیس دن کی بات ہے کہ ہماری بیٹی نے شوہر کے ساتھ جرمنی سے ہمارے پاس آنا تھا۔سب معاملات ٹھیک تھے لیکن کووڈ ٹریولنگ ٹیسٹ کی رپورٹ موصول نہیں ہو رہی تھی اور جہاز اڑنے میں چند گھنٹے رہ گئے تھے۔ صبح بیٹی نے پریشانی کے عالم میں فون پر بتا یا کہ رپورٹ نہیں آ رہی جس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ خاکسار نے کہا کہ میں ابھی اللہ تعالیٰ کے نمائندہ خاص خلیفۃ المسیح کی خدمت میں دعا کی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں اللہ فضل فرمائے گا۔ آپ یقین کریں کہ خط لکھ کر میں نے فیکس کا سینڈ کا بٹن دبایا ہے کہ فون کی بیل بجی اور بیٹی نے اطلاع دی کہ رپورٹس آگئی ہیں اور ہم ائیر پورٹ کیلئے روانہ ہو رہے ہیں۔ تو کیوں ہم ایسے عظیم وجود سے محبت نہ کریں جو ہمارے لئے ایک آس ہے ایک سائبان ہے اور ایک امید ہے اور حبل اللہ ہے جسے تھام کر ہم پل صراط کو پار کرسکتے ہیں۔دل سے بے اختیا ر یہ آواز آئی کہ ؛

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا
وہ دل ہے ہمارا، آقا ہمارا

پس شرط یہ ہے کہ ہم اس کے بن جائیں اور اس کی ہر آواز پر دل وجان سے لبیک کہتے ہو ئے حاضر ہوجائیں۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم خلیفۂ وقت سے اپنی محبت کا اظہار لفظوں میں نہیں کرسکتے جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

دل میں طوفاں چھپائے بیٹھے ہیں
یہ نہ سمجھو کہ ہم کو پیار نہیں

احمدی مسلمان کمزور ہو یاصاحب ایمان ہو،خاکسار کا یہ مشاہدہ ہے کہ خلافت سے محبت ایک ایسا فطری امر ہے، جس کی مثال ہمیں اور کسی رشتے میں نظر نہیں آتی۔ ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ ہر شخص کا انداز الگ ہو محبت کرنے کا،لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ محبت کا جذبہ ہر احمدی کے دل میں موجود ہے او رخلیفۃ المسیح کے مقام اور مرتبہ کو جب تک کوئی شخص نہیں سمجھتا اس وقت تک اس کی برکات سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اس کے لئے مکمل باادب ہونا چاہئے۔

حضرت مصلح موعود ؓ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ29 جون 1917 ء میں فرماتے ہیں:
’’بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے کلام اور تحریر پر قابو نہیں رکھتے۔ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ صوفیاء کا قول ہے کہ ’’اَلطَّرِيْقَةُ كُلُّهَا أَدَبُ‘‘ تو جب تک انسان اپنے قول اور تحریر پر قابو نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ اس کی زبان اور قلم سے کیا نکل رہا ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو حیوان سے بھی بد تر ہے کیونکہ جانور بھی خطرہ کی جگہوں سے بچتا ہے لیکن انسا ن مآ ل اندیشی سے ہر گز کام نہیں لیتا جانور کو کسی خطرہ کی جگہ مثلاً غار کی طرف کھینچیں تو وہ ہرگز ادھر نہیں جائے گا۔ مولوی رومی صاحب نے اپنی مثنوی میں ایک مثال لکھی ہے کہ ایک چوہا ایک اونٹ کو جس طرف وہ اونٹ جارہا تھا ادھر ہی اس کی نکیل پکٹر کر لے چلا لیکن جب راستہ میں ندی آئی تو اونٹ نے اپنا رخ پھیر لیا تو چوہا ادھر گھسٹتا ہو چلنے لگا جدھر اونٹ جارہا تھا تو ایک چوہا بھی ایک اونٹ کو جہاں خطرہ نہ ہو، لے جاسکتا ہے مگر جہاں خطرہ ہو وہاں چوہا تو کیا ایک طاقتور آدمی بھی اونٹ کو نہیں لے جاسکتا … مگر انسانوں میں ایک ایسی جماعت ہے جو بات کہتی ہے اور نہیں سمجھتی کہ اس کا کیا مطلب ہے حالانکہ اکثر اوقات ذرا سی غلطی خطرناک نتائج پیدا کردیا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مومنو! دو معانی والےلفظ رسول کے مقابلہ میں استعما ل نہ کیا کرو ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہوجائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے وہ لوگ مومن تھے اس لئے فرمایا تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا فرمایا تم اگرچہ اسوقت مومن ہو لیکن تم نے اگر اپنی زبانوں پر قابو نہ رکھا تو یاد رکھو ہم تمہیں کافر بنا کے دکھ کے عذاب میں مبتلا کرکے ماریں گے۔ مومن سے شروع کیا لیکن اس غلطی کے باعث کفر پر انجام ہوا۔پس انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے قول کا نگران ہو ورنہ ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔

وہ خلفاء جو خدا کے مامورین کے جانشین ہوتے ہیں ان کا انکار اور ان پر ہنسی کوئی معمولی بات نہیں وہ مومن کو بھی فاسق بنا دیتی ہے پس یہ مت سمجھو کہ تمہارا اپنی زبانوں اور تحریروں کو قابو میں نہ رکھنا اچھے نتائج پیدا کرے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کو میں اپنی جماعت سے علیحدہ کردوں گا۔فاسق کے معنی ہیں کہ خدا سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

پھر حضور ؓ فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ (النساء: 66) جب تک کامل طور پر یہ تیرے فیصلوں کو نہ مان لیں یہ مومن ہوہی نہیں سکتے جب لوگوں کو عدالتوں کے فیصلوں کو ماننا پڑتا ہے تو خدا کی طرف سے مقرر شدہ خلفاء کے فیصلوں کا انکار کیوں۔ اگر دنیاوی عدالتیں سزا دے سکتی ہیں تو خدا نہیں دے سکتا خدا کی طرف سے فیصلہ کرنے والے کے ہاتھ میں تلوار ہے مگر وہ نظر نہیں آتی اس کی کاٹ ایسی ہے کہ دور تک صفایا کر دیتی ہے۔ دنیاوی حکومتوں کا تعلق صرف یہاں تک ہے مگر خدا وہ ہے جس کا آخرت میں بھی تعلق ہے خدا کی سزا گو نظر نہ آوے مگر حقیقت میں بہت سخت ہے اپنی تحریروں اور تقریروں کو قابو میں لاؤ اگر تم خدا کی قائم کی ہوئی خلافت پر اعتراض کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو خدا تمہیں بغیر سزا کے نہیں چھوڑے گا جہاں تمہاری نظر بھی نہیں جاسکتی وہاں خدا کا ہاتھ پڑتا ہے۔

اللہ تعالیٰ تمہیں فہم دے اپنے آپ کو اور اس شخص کے درجہ کوجو تمہارے لئے کھڑا کیا گیا ہے پہچانو۔ کسی شخص کی عزت اس شخص کے لحاظ سے نہیں ہو ا کرتی۔ آنحضرت ﷺ کی عظمت اس لئے نہیں کہ آپ عرب کے باشندہ تھے اور عبد اللہ کے بیٹے تھے بلکہ اس درجہ کے لحاظ سے ہے جو خدا نے آپ کو دیا تھا‘‘۔

(الفضل7 جولائی 1917ء)

پس اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت سے وہی فیضیاب ہوں گے جو اس کے مقام اور مرتبہ کو سمجھتے ہوئے مکمل طور پر اس کے سایہ میں آجائیں گے۔ اور خلافت سے وابستہ برکتوں سے وہی حصہ پائیں گے جو اپنے وجود کو تمام تر طاقتوں کے ساتھ خلیفۃ المسیح کے مشن کی تکمیل کیلئے پیش کردیں گے کیونکہ پھل دار درخت کے پھل اور سایہ سے وہی استفادہ کرتا ہے جو درخت کے نیچے آجاتا ہے۔

(جاری ہے)

(طاہر محمود عابدؔ۔ مبلغ انچارج و صدر جماعت گنی کناکری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ