• 17 مئی, 2024

رشین ممالک میں اسلام احمدیت کا نفوذ

رشین ممالک میں اسلام احمدیت کا نفوذ
اور ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوٴں گا‘‘ کا ایک منہ بولتا ثبوت

آج سے تقریبًا 133 سال قبل قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی سے جس کے بارہ میں کیا خوب کہا گیا کہ

؎کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

ہاں اُسی گمنام سی بستی سے ایک آواز اٹھی تھی جس کے بارہ میں خدائے قادروقیوم نے فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ یہ آواز کیا تھی۔ ایک چھوٹا سا بیج تھا جو خدائی اذن سے بویا گیا اور بڑھتے بڑھتے ایک عالمگیر شجرۂ طیبہ بن گیا اور ہر آن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاجارہا ہے۔ احمدیت کا یہ مقدس شجر آج دنیا کے 215 ملکوں پر سایہ فِگن ہے۔ احمدیت ایک روحانی چشمہ کا نام ہےجس کے بارہ میں بانیٔ جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر فرمایا تھا کہ

’’ہر قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ409)

دنیا کی بے شمار قوموں کو اِس آسمانی چشمے سے سیراب ہونے کی توفیق اور سعادت نصیب ہوئی اور ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ۔ مگرآج کے اس مضمون میں اِن خوش نصیب قوموں میں سے خاص طور پراُن قوموں کا ذکرکرنا مقصود ہے جو رشیا کے علاقے میں آباد ہیں۔

یہ سرزمین روس کی خوش نصیبی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سےعطا کی جانے والی بعض عظیم الشّان آسمانی پیشگوئیوں میں اُس کا بھی ذکر ہے اور یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا ہے کہ کسی روز یہ سرزمین بھی ’’اپنے رب کے نور سے چمک‘‘ اٹھے گی۔

رشیا کے متعلق پیشگوئیاں

22 جنوری 1903ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو بذریعہ رویا یہ اطلاع دی کہ مستقبل میں روسی حکومت کا نظام آپؑ کی جماعت کے ذریعہ بدلاجانا مقدر ہے۔ حضورؑ نے اس رویا کی تفصیل بایں الفاظ بیان فرمائی:۔
’’دیکھتا ہوں کہ زارروس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہے اور ایک عجیب سیاہ رنگ کاہے جیسے انگریزی کارخانوں میں روغنی چیزیں بہت عمدہ اور نفیس بناکرتی ہیں اور یہ حصّہ اس کا لوہے کا ہے اور اس سوٹے میں ایک یا دو نالی بندوق کی بھی ہیں لیکن اس ترکیب سے بنی ہوئی ہیں کہ سونٹے میں مخفی ہیں اور جب چاہو تو اس سے کام بھی لے سکتے ہیں‘‘

(اخبار البدر 6 فروری 1903ء صفحہ 23 بحوالہ ’’روس میں اِنقلابات‘‘ صفحہ39)

’’پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا اُس کی تیرکمان میرے ہاتھ میں ہے۔ بوعلی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شیر کو بھی شکار کیا‘‘

(اخبار الحکم 31جنوری 1903ء صفحہ15 کالم3 بحوالہ روس میں انقلابات صفحہ39)

کیمونسٹ نظام کے زوال کی پیشگوئی

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے 1974ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے افتتاحی خطاب میں فرمایا:۔
’’پہلے نمبر پر کیپٹل ازم (CAPITALISIM) تھا جو پیچھے رہ گیا ہے۔ دوسرے نمبر پر کیمونزم آگیا ہے۔ یہ بھی پیچھے چلاجائے گا۔ صدیوں کی بات نہیں، درجنوں سالوں کی بات ہے کہ اشتراکی نظام بھی پیچھے چلاجائے گا۔ پھر دوسری طاقتیں آجائیں گی۔ ایک وقت میں وہ بھی پیچھے چلی جائیں گی۔ پھر خدا اور اس کا نام لینے والی جماعت حضرت محمد مصطفٰیﷺ کی طرف منسوب ہونے والی جماعت اور اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے والی جماعت آگے آئے گی اورپھر اس دنیا میں اخروی جنّت سے ملتی جلتی جنّت پیدا ہوگی اور ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں گے۔‘‘

(روس میں انقلابات صفحہ60)

1945ء میں جب روسی کیمونزم (یاجوج ماجوج) دنیا پر قبضہ کرتا چلا جارہا تھا۔ لاہور میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے اپنے لیکچر میں اس کے عروج وزوال کی واضح پیشگوئی یوں فرمائی تھی:۔
’’چوبیس سال پہلے کی بات ہے (1921ء میں) مَیں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں مَیں کھڑا ہوں اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بلا جو ایک بڑے اژدھا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آرہی ہے۔ وہ اژدھا دس بیس گز لمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بڑا درخت ہو۔ وہ اژدھا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دنیا کے ایک کنارے سے چلاہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں ان سب کو کھاتا چلاآرہا ہے۔ یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اژدھا اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دوڑا۔ وہ احمدی آگے آگے ہے اور اژدھا پیچھے پیچھے۔ میں نے جب دیکھا کہ اژدھا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو میں ہاتھ میں سونٹا لے کر اس کے پیچھے بھاگا۔ لیکن خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میں اتنی تیزی سے بھاگ نہیں سکتاجتنی تیزی سے سانپ ڈورتا ہے۔ چنانچہ میں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلہ پر پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال میں دوڑتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا اور تیزی سے اُس پر چڑھ گیا ۔ اُس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو میں اژدہا کے حملہ سے بچ جاؤں گا مگر ابھی وہ درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اژدہا اُس کے پاس پہنچ گیا اور سراُٹھا کر اُس کو نگل گیا۔ اس کے بعد وہ واپس لوٹا اور اس عرصہ میں کہ میں اُس احمدی کو بچانے کے لئے کیوں وہاں اُس کے پیچھے دوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیامگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چارپائی پڑی ہے مگر وہ بنی ہوئی نہیں صرف پٹیاں وغیرہ ہیں۔ جس وقت اژدہا میرے پاس پہنچا میں کود کر اُس چارپائی کی پٹیوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور میں نے اپنا ایک پاؤں اُس کی ایک پٹی پر اور دوسرا پاؤں اُس کی دوسری پٹی پر رکھ لیا۔ جب اژدہا چارپائی کے قریب پہنچا تو کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں لایدان لِاَحد لقتالھما۔ اس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سانپ کا حملہ دراصل یاجوج ماجوج کا حملہ ہے کیونکہ یہ حدیث اُن کے بارہ میں ہے۔ میں اُس وقت یہ خیال بھی کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے۔ اتنے میں اژدہا میری چارپائی کے قریب پہنچ گیا۔ اور میں نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کردی۔

… کہ رسول کریم ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لایدان لِاَحد لقتالھما کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ اُن کا مقابلہ کرسکے۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ مقابلہ کے لئے اُس کی طرف نہیں بڑھائے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ خدا کی طرف اٹھادیئے اور خدا کی طرف ہاتھ اٹھاکر فتح پانے کے امکان کو رسول کریمﷺ نے ردّ نہیں فرمایا۔

غرض میں نے دعا کرنی شروع کردی کہ اے خدا مجھ میں تو طاقت نہیں کہ میں فتنہ کا مقابلہ کرسکوں لیکن تجھ میں بہت قدرت اور طاقت ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو اِس فتنہ کو دُور فرمادے۔ جب میں نے دعا کی تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے اُس اژدہا کی حالت میں تغیّر پیدا ہونے لگا جیسے پہاڑی کیڑے پر نمک گرانے سے ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اُس اژدہا کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ اُس کی تیزی بالکل ختم ہوگئی۔

چنانچہ پہلے تو میری چارپائی کے نیچے گھسا پھراُس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی چیز بن گیا جیسے جیلی ہوتی ہے اور بالاخر وہ اژدہا پانی ہوکر بہہ گیا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو دعا کا کیا اثر ہوا۔ بےشک میرے اندرطاقت نہیں تھی کہ میں اس کا مقابلہ کرسکتا مگر میرے خدا میں تو طاقت تھی کہ وہ اس خطرہ کو دور کردیتا۔

(اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 146-148 بحوالہ ’’روس میں اِنقلابات‘‘ صفحہ60-64)

رشیا میں جماعت کا تعارف

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی روس میں پیغام احمدیت پہنچ چکا تھا۔ آپؑ نے اپنی عربی اور فارسی کی مطبوعات عرب بلاد شام اور کابل کے علاوہ روس بخارا میں بجھوائیں۔

(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد16 صفحہ189)

ان کتب سے استفادہ کرنے والے احباب میں سب سے پہلے خوش نصیب احمدی حاجی احمد صاحب تھے جن کا اسم گرامی حضرت اقدس ؑ نے اپنے خصوصی احباب میں نمبر 75 پر یوں درج فرمایا:۔
’’میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام (مطبوعہ1892ء) میں تین سو تیرہ نام درج کرچکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجّت کےلئے تین سو تیرہ نام درج کرتا ہوں تاکہ ہر یک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی (اصحاب مہدی کے نام ایک کتاب میں ہونگے) بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق وصفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی للہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو رضاکی راہوں میں ثابت قدم رکھے اور وہ یہ ہیں۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم)

روس میں احمدیت کا یہ ابتدائی بیج پھلتا پھولتا رہا اور گاہے بگاہے اس کی خبریں ملتی رہیں۔ مثلًا

17مئی 1929ء کے الفضل میں نومبائعین 1928ء کی لسٹ میں مزید دونام روسی دوستوں کے موجود ہیں۔

نمبر شمار 974…حاجی مرزا شادمان بیگ صاحب بخارا۔

نمبر شمار 975… حاجی پیرجان صاحب خوارزم

(اخبار الفضل قادیان دارالامان مؤرخہ 17مئی 1929 صفحہ10)

رشیا کے لئے مبلغین سلسلہ کی روانگی

مولانا ظہور حسین صاحب بخارا اور مکرم محمد امین صاحب مجاہد بخارا کو 1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے روس بجھوانے کے لئے منتخب فرمایا اور آپ دونوں مجاہد 14جولائی 1924ء بروز ہفتہ قادیان سے بخارا (روس) کے لئے عازم سفر ہوئے۔ اس سفر میں حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی مکرم شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے جنہوں نے ایران جانا تھا۔ مکرم شہزادہ صاحب تو تہران رُک گئے مگر آپ آگے روس کے لئے روانہ ہوگئے۔ آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور شدید قسم کی اذیتیں دی گئیں اورجاسوسی کا شبہ ظاہر کیا گیا جس وجہ سے زیادہ عرصہ پابند سلاسل رہے۔ آخر کار آپ کو تمام الزامات سے بری کرکے رہا کردیا گیا اور آپ 1926ء میں واپس قادیان پہنچ گئے۔

جیل میں تبلیغ اورپہلا روسی احمدی

آپ نے دوران قید تاشقند کی ایک جیل میں ہی تبلیغ احمدیت کا کام جاری رکھا۔ تاشقند کے رہنے والے ایک ذی وجاہت قیدی عبداللہ خان نے احمدیت قبول کی، اُس کے ساتھ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد بھی احمدی ہوگئی۔

(نوٹ: مولانا ظہور حسین مجاہد بخارا کے تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لئے مکرم کریم ظفر ملک صاحب کی کتاب ’’مجاہد روس و بخارا‘‘ اور مولانا محمد اسماعیل منیرصاحب مرحوم کی کتاب ’’روس میں اِنقلابات‘‘ کا مطالعہ مفید ہوسکتا ہے)

رشیا میں احمدیت کے نفوذ کا دوسرا دور

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور آپؑ کے مقدس خلفائے کرام کی اوپر ذکر کی گئی بعض پیشگوئیوں میں یہ واضح اشارے مل رہے تھے کہ کیمونسٹ نظام کا روس سے خاتمہ ہونے جارہا ہے اور اس نظام کے خاتمہ کے نتیجہ میں اُس آسمانی اور روحانی نظام کا رشیا کے ممالک میں نفوذ ہوگا جو دائمی اور ابدی ہے اور وہ سیّد المرسلینﷺ کے غلام صادق اور روحانی فرزند جلیل مسیح دوراں اور اُن مقدس جماعت کے ذریعہ قائم ہوگا۔

10 نومبر 1889ء میں دیوار برلن گرائی گئی۔ 19 اگست 1991ء کو روس کی تاریخ کا پہلا فوجی انقلاب برپا ہوا۔ اسی دوران مشرقی یورپ سے کیمونسٹ نظام کے خاتمہ کی تحریکیں کامیاب ہوئیں۔ 21 دسمبر 1991ء کو روس کی سولہ ریاستوں میں سے گیارہ نے ایک دولت مشترکہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد یوایس ایس آر کا وجود ختم ہوگیا۔

بساط دنیا الٹ رہی ہے حسین اور پائیدار نقشے
جہان نو کے ابھر رہے ہیں بدل رہا ہے نظام کہنا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ کینڈا کے موقع پر 6 جولائی 1991ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’روس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی یہ پیشگوئی تھی کہ خدا نے روس کا عصا میرے ہاتھ میں تھمایا ہے اور پھر یہ پیشگوئی تھی کہ میں اپنے متبعین کو ریت کے ذروں کی طرح روس میں دیکھتا ہوں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ وقت ہے اور یہ دور ہے جس میں واقعۃً بڑی تیزی کے ساتھ ہم روس میں ان شاء اللہ تعالیٰ دین پھیلانے لگیں گے‘‘

’’جب سے روس کا Collapse ہوا۔ روس اچانک یوں بیٹھ گیا جیسے اُس میں کبھی جان ہی نہیں تھی۔ اس کے کچھ بد نتائج دنیا کے سامنے ظاہر ہورہے ہیں اور کچھ ظاہر ہونگے۔ ابھی تو سردست دنیا یہی سمجھ رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بہت بڑی فتح ہے یا Capitalism کی فتح ہے مگر یہ سب بے وقوفی کی باتیں ہیں۔ یہ نظام بھی ناکام ہوچکا ہے جس میں ہم اس وقت موجود ہیں اور وہ نظام بھی ناکام ہوچکا ہے اور ان دونوں نظاموں کے ٹوٹنے کے نتیجہ میں ایک جو ٹوٹ کر ظاہر ہوگیا اور ایک ٹوٹنے والا ہے۔ ان کے نتیجہ میں جو انتشار پیدا ہوگا اُس کو سنبھالنے کی تمام تر ذمہ داری جماعت احمدیہ کی ہے۔

ہمارے اوپر آئندہ نسلوں کی ذمہ داری بھی ہے اور خصوصیت کے ساتھ یہ نسل جو اب ہمارے سامنے بڑھ کر جوان ہونے والی ہے اس کی ہم پر بہت ہی زیادہ ذمہ داری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احمدیت اب ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کو خدانے جو خوشخبری دی کہ اب نیک طبعوں کا اس طرف رحجان ہے اور اُن پر فرشتے نازل ہورہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم ان فرشتوں کا نزول اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اس کثرت کے ساتھ جماعت میں دنیاکی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور اس تیزی سے مطالبے آرہے ہیں کہ اگر ہمارے موجودہ وسائل اسی طرح رہے تو ناممکن ہے کہ ہم دنیا کی ضرورتیں پوری کرسکیں۔ ایک سابقہ USSR کا میدان ہی اتنا وسیع ہے اور وہاں کی ضروریات اتنی زیادہ ہیں کہ اگر جماعت اپنے موجودہ تمام وسائل کو بھی سابقہ USSR کے لئے وقف کردے تب بھی وہ ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں‘‘۔

(روس میں اِنقلابات صفحہ90-92)

ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت مسیح موعودؑ کو عطا ہونے والی اس آسمانی خبر ’’میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں‘‘ (تذکرہ صفحہ691 ایڈیشن ہفتم) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو روس میں ریت کے ذروں کی مانند دیکھتا ہوں پس اگر روس کی کامل تباہی مراد ہوتی تو ریت کے ذرّوں کا ذکر نہ ہوتا۔ مراد یہ ہے کہ نظام ٹوٹے گا روسی قوم سلامت رہے گی اور اسے یہ توفیق ملے گی کہ وہ احمدیت کے نور سے منور ہو اور نئی زندگی حاصل کرے۔ پس روس کو نئی زندگی دینے والے ہم ہی ہوں گے‘‘۔

(الفضل 22؍ اگست 1990ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 15جون 1990ء روس میں دعوت الی اللہ اور وقف عارضی کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اس بات پر میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ دو تحریکات تھیں جن کو میں خاص طور پر آپ کے سامنے رکھنی چاہتا تھا۔ ایک یہ کہ روس کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو امین خاں صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔ اگرچہ اب وہ سختیاں نہیں رہیں، وہ تکلیفیں نہیں رہیں، لیکن جس حد تک بھی اُن کی قربانی کا اعادہ کیا جاسکتا ہے۔ اپنے خرچ پر جاکر محنت اور محبت اور جستجو کے ساتھ جماعتوں کا کھوج لگانا اور اُن سے رابطہ کرنا اور نظام جماعت کو ازسرنوزندہ کرنا یہ اُن کا کام ہوگا اور اس کے علاوہ تبلیغ کے نئے رستے تلاش کریں اور لٹریچر کی تقسیم کے سلسلہ میں رابطے قائم کریں اور اپنی رپورٹوں میں ہمیں مطلع کریں کہ کس طرح فلاں فلاں قوم میں کن کن لوگوں میں لٹریچر کی ترسیل ضروری ہے اور نشاندہی کریں کہ کس قسم کا لٹریچر چاہیئے اور دوسرا یہ کہ جو روسی دنیا میں پھیلے پڑے ہیں اور جو مشرقی یورپ کے باشندے باہر کی دنیا میں ملتے ہیں اُن سب سے رابطے بڑھائیں اور جماعتیں اس بات کی نگران ہوں کہ سب احمدیوں کی بروقت صحیح راہنمائی ہورہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور ان کو علم ہے کہ کس کس زبان میں ہمارے پاس کیا کیا لٹریچر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ وقت کے ان تیزی سے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو ان توقعات سے بڑھ کر پورا کریں جو ہماری جماعت سے کی جاتی ہیں۔ آمین

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15جون 1990ء، خطبات طاہر جلد9 صفحہ344-345)

اسی خطبہ جمعہ میں آپؒ نے یہ بھی فرمایا:۔
’’ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ احمدی مخلصین اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ از سرنو ان علاقوں سے رابطے کریں اور اب تو قرآن کریم کے ترجمے کا تحفہ اُن کے پاس ہوگا اور اس سے بڑا اور اس سے عظیم تر تحفہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی خدمت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15جون 1990ء، خطبات طاہر جلد9 صفحہ341)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1990ء میں روس میں تبلیغ اسلام احمدیت کے لئے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:۔
’’… اکثریت اُن میں سےنماز نہیں جانتی، قرآن نہیں جانتی۔ محبت اسلام کی اُٹھ رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اُسی محبّت سے ہم نے فائدہ اُٹھانا ہے… اسی طرح دوسرے مذہبی اور قومی اختلاف جو مسلمانوں کی باہر کی دنیا میں موجود ہیں وہ اپنا اپنا رنگ دکھائیں گے اور ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں کے روس کے اندر واقع زیادہ سے زیادہ حصّے پر اپنا اثر جمانے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایک نیا معرکہ کھل رہا ہے اور اگر جماعت احمدیہ نے جلدی نہ کی اور حقیقی اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا۔ اگر اُس عالمگیر اسلام سے ان قوموں کو متعارف نہ کروایا جس کا نسل پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا اُس قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دنیا میں قوموں کے تعلق میں پایا جاتا ہے بلکہ اسلام کا ایک ایسا عالمگیر تصور ہے جو قومی اور نسلی تصورات کی نفی پر قائم ہوتا ہے اور اُن کی موجودگی سے شدید نقصان اُٹھاتا ہے …‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26اکتوبر 1990ء، خطبات طاہر جلد9 صفحہ635-636)

روسی زبان میں جماعتی لٹریچر کی طباعت

کسی بھی قوم یا علاقے میں اشاعت اسلام کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اُس قوم یا علاقے کی زبان میں ضروری لٹریچر موجود ہو۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سےخلافت رابعہؒ کے دور میں روسی زبان میں جماعتی لٹریچر تیار ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 15جون 1990ء میں فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہم سے پہلے ہی تراجم کروارہی تھی اور جب کوئی پوچھتا تھا کہ کس طرح ان کو وہاں پہنچاؤ گے اور ہم رابطے کرتے تھے تو روس کے علاقے میں ان کتب اور رسائل کو پہنچانے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے رستے کھول دیئے ہیں اور بھی بہت سی عظیم الشان تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ جو خالصۃً اللہ کے فضل کے نتیجے میں ہیں اور کسی انسان کی چالاکی یا منصوبے یا ہوشیاری یامحنت کے نتیجے میں نہیں ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15جون 1990ء، خطبات طاہر جلد9 صفحہ341)

ان دنوں جماعت کو رشین زبان میں ترجمہ قرآن شائع کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ یاد رہے کہ روسی زبان میں ترجمہ قرآن مجید کے جملہ اخراجات چوہدری شاہ نواز صاحب مرحوم آف لاہورکو برداشت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ترجمہ قرآن کے علاوہ ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘، ’’مذہب کے نام پر خون‘‘، ’’دعوت الامیر‘‘، ’’مسیح ہندوستان‘‘، ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ وغیرہ اہم کتب روسی زبان میں تیار ہوگئیں۔ رشیا کے علاقوں میں اسلام احمدیت کی اشاعت اور اس کے نفوذ میں ان کتب نے بنیادی کردار ادا کیا اور ابتدائی بیعت کرنے والے خوش نصیب انہی کتب کے مطالعہ کی بدولت غلامان مسیح الزّمان کی صف میں آداخل ہوئے۔ روسی زبان میں ترجمہ کئے جانے والے اس ابتدائی لٹریچر کی تیاری میں تاتارستان سے تعلق رکھنے والے پانچ زبانوں کے ماہرایک رشین احمدی مسلمان شاعر، ادیب، مصنف اورترجمان مکرم راویل بخارایف صاحب (مرحوم) کا بہت بڑا اور ناقابل فراموش حصّہ ہے۔ 24 جنوری 2012ء کو یہ اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ حضرت امیرالمؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 2012ء میں ان کا بھرپور ذکر خیر فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی روسی ممالک کے لئےتحریک وقف عارضی کے نتیجہ میں کئی ایک خوش نصیب بھائیوں کو رشین ممالک میں جاکر اسلام احمدیت کی اشاعت کی توفیق ملی۔ ایک احمدی بزنس مین مکرم نعیم اللہ خان صاحب (مرحوم) کو پہلےازبکستان اور پھر قرغیزستان جاکر جماعت کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح مکرم چوہدری مقصود الرحمان صاحب حال فرانس کو قزاقستان جاکر اسلام احمدیت کی تبلیغ واشاعت میں اپنا حصّہ ڈالنے کی توفیق ملی۔ مکرم کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب (مرحوم) کو ازبکستان میں وقف عارضی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جن کا ذکر خیر حضرت امیرالمؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جنوری 2022ء میں فرمایا تھا۔

مبلغین سلسلہ کی رشین ممالک میں آمد

رشین ممالک میں اسلام احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک بڑے لمبے وقفہ کے بعدخلافت رابعہؒ میں کچھ مبلغین سلسلہ بجھوائے گئے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ان ممالک میں جماعتوں کے قیام کی سعادت و توفیق بخشی۔ یو ایس ایس آر کا شیرازہ بکھرنے کے بعدرشین ممالک میں جانے والے ابتدائی مبلغین مکرم اخلاق احمد انجم صاحب (انگلستان) اور مکرم میرزا نصیر احمد صاحب استادجامعہ احمدیہ (یوکے) تھے۔ پھر ان کے بعد مبلغین کےایک اور گروپ کو رشیا پہنچنے اور وہاں خدمت سلسلہ کی توفیق ملی۔ اس گروپ میں مکرم رانا خالد احمد صاحب انچارج مرکزی رشین ڈیسک (یوکے)، مکرم حافظ سعید الرحمان صاحب مربی سلسلہ مرکزی رشین ڈیسک (یوکے)، مکرم سیّد حسن طاہر بخاری صاحب مربی سلسلہ وانچارج رشین ڈیسک (جرمنی)، مکرم مشہود احمد ظفرصاحب مربی سلسلہ (جرمنی) شامل تھے۔

رشیا کے مختلف ممالک میں جماعتوں کے قیام کے بعد مزید مبلغین سلسلہ رشیا بجھوائےگئے اور انہوں نےوہاں کی مختلف درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی، وہاں بولی جانے والی مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کی اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق خدمت کی توفیق پارہے ہیں ۔ رشیا کے مختلف ممالک میں مبلغین کی آمد اور وہاں کی مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے اور اس کے بڑے ہی خوش کن نتائج حاصل ہورہے ہیں۔

خلافت خامسہ اور رشین ممالک میں جماعت کا نفوذ

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے خلافت خامسہ کے دور میں رشین ممالک میں اشاعت اسلام احمدیت کے کام میں بہت وسعتیں پیدا ہوچکی ہیں اور بڑی برق رفتاری سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ ہر سال کئی نیک فطرتوں اور سعادتمندوں کو مسیح محمدی کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں بنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ نظام جماعت مضبوطی سے قائم ہوچکا ہے۔ احباب جماعت نیک وتقوٰی میں ترقی کررہے ہیں۔ مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ بڑے ذوق وشوق سے جلسہ سالانہ انگلستان، جلسہ سالانہ جرمنی اور جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہورہے ہیں۔ حضرت امیرالمؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت اقدس میں دعائیہ خطوط لکھتے ہیں اور اُن خطوط میں بڑے اخلاص ووفا کے ساتھ جماعت سے، خلافت سے اور حضرت امیرالمؤمنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شدید محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

اب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مرکزی رشین ڈیسک(یوکے) کے زیرنگرانی باقاعدہ خطبہ جمعہ رشین ترجمہ کے ساتھ نشر ہوتا ہے۔ رشین ویب سائٹ کا آغاز ہوچکا ہے جو دن رات اشاعت دین کا کام کر رہی ہے۔

اسی طرح رشین زبان میں لٹریچر کی تیاری کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی ٹیم مرکزی رشین ڈیسک (یوکے) کے ماتحت خدمت سرانجام دے رہی ہے۔ رشین زبان جاننے والےاحباب جماعت کی تعلیم وتربیت کے لئے رشین زبان کے بہت سے ہفتہ وار پروگرام جاری ہیں جن میں احباب بڑے ذوق وشوق سے حصّہ لیتے ہیں۔

مرکزی رشین ڈیسک (یوکے) کے زیر نگرانی قرغیز اور ازبک زبان میں لٹریچر کی تیاری و اشاعت کا کام ہورہا ہے۔ دونوں زبانوں میں جماعت کی ویب سائٹس کا اجراء کردیا گیا ہے جو صبح وشام تبلیغ اور احباب جماعت کی تعلیم وتربیت کا کام سرانجام دے رہی ہیں۔

ان دونوں زبانوں میں دوسری جماعتی کتب کے علاوہ تراجم قرآن بھی شائع ہوچکے ہیں اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی شفقت اور دعاؤں کے ساتھ ازبک قوم میں اسلام احمدیت کی اشاعت کے لئے یوٹیوب چینل کا اجراء کیا گیا ہے جس کا نام حضور پُرنور نے ’’Hidoyat Yo’li‘‘ یعنی ’’راہ ہدیٰ‘‘ منظور فرمایا ہے۔ اس یوٹیوب چینل کا لنک اس طرح ہے:۔

HIDOYAT YO’LI – YouTube

اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشین ممالک کے احمدیوں میں تبلیغ احمدیت کا ایک جذبہ پایاجاتا ہے۔ اس وقت رشین ممالک کے چند طلباء

انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ غانا میں زیرتعلیم ہیں جبکہ ازبک احمدی مکرم غیاث بیگ صاحب اور رشین نومسلم مکرم جری اللہ صاحب جامعہ احمدیہ غانا سے ’’شاہد‘‘ کی ڈگری لے کر میدان عمل میں جاچکے ہیں۔ الحمد للّٰہ۔

اس وقت بعض رشین ممالک میں ہمارے مقامی معلمین بھی کام کررہے ہیں۔ یہ وہ سعادتمند لوگ ہیں جنہوں نے حق کی تلاش کی اور حق کو پانے کے بعد اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کردیں اور اب میدان عمل میں احمدیت کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔

رشین ممالک میں جماعت کی مخالفت

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ قدیم سے سنّت ہے کہ الٰہی جماعتوں کی مخالفت بھی ہوا کرتی ہے۔ جماعت کے رشین ممالک میں تیزی سے نفوذ کی وجہ سے بعض ممالک میں شدید مخالفت بھی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں احباب جماعت کو شدید امتحانات اور ابتلاؤں سے بھی گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ہمارے ایک ازبک بھائی مکرم یونس جان عبدو جلیلوف (Yunusjan Abdujalilov) صاحب کو 22 دسمبر 2015ء کو راہ حق میں شہید کردیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مکرم یونس جان (مرحوم) رشیا کے پہلے شہید ہیں جن کو اسلام احمدیت کی راہ میں جان فدا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 2015ء

میں اُن کی شہادت کا ذکر فرمایا اور اُن کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ فرماکر شہید مرحوم کو خراج تحسین پیش فرمایا۔

رشین ممالک میں اسلام احمدیت کے نفوذ پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر مضمون کی طوالت کا خوف مجھے یہیں پر بس کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جلد وہ دن لائے جب سارا رشیا اسلام احمدیت کی آغوش میں آجائے اور ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہوں۔ آمین

(بشارت احمد شاہد۔ مبلغ سلسلہ و نمائندہ الفضل آن لائن، لٹویا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ