• 21 مئی, 2024

سفرِ نیوزی لینڈ حصول ِتعلیم اور تبلیغی مساعی کے آئینہ میں

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کا کام سونپا تو اس سلسلہ میں قدرتی طور پر ہونے والی شدید گھبراہٹ کے فَرو کرنے اور اس الہی کام کی تکمیل کے لئے آپ کو الہام ہوا، ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔

چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے ایسے انتظامات فرمائے کہ آج احمدیت یعنی حقیقی اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے۔

زیر نظر سطور میں قارئین خاکسار کے قیام نیوزی لینڈ کو حصول تعلیم اور تبلیغِ احمدیت کی مساعی کے آئینہ میں مشاہدہ کر یں گے۔

نیوزی لینڈ کا تعارف

نیوزی لینڈ قدرتی حسن سے مالا مال خوبصورت ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ نیوزی لینڈ کا ملک دنیا کا ایک کنارہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں سے dateline گزرتی ہے اور دن کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ یہ ملک جنوب مغربی بحر الکاہل میں دو بڑے اور چند چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ موسم کےاعتبار سے رہنے کے لئے ملکوں میں یہ سر فہرست ہے۔ یہاں نہ زیادہ سردی ہے نہ زیادہ گرمی ہے۔سردیوں میں پہاڑوں کے اوپر برف باری ہوتی ہے۔گھاس سارا سال سبز رہتا ہے۔ یہاں ایک پوداہوتا ہے جسے manuka کہتے ہیں اس پر سفید اور گلابی پھول لگتے ہیں جو بہت خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔شہد کی مکھیاں ان پھولوں سے جو شہد تیار کرتی ہیں اسے manuka honey کہتے ہیں۔ جو کہ طبی لحاظ سے بہت ہی کارآمد اور فوائد کا حامل ہے۔تفریح کے لئے سیر گاہیں بھی بہت ہیں۔

کھیلوں کے میدان میں بھی نیوزی لینڈ اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔کرکٹ،ہاکی،رگبی اور فٹ بال کے میدان میں بھی نمایاں ہے۔آبادی پانچ ملین کے لگ بھگ ہے اور سب اقوام کا امتزاج لئے ہوئے ہے۔ اکثریت بڑی پر امن اور پیار محبت سے رہنے والی ہے۔یہاں کے مقامی لوگ جنہیں Maori کہا جاتا ہے بہت اچھے اور باکردار ہیں۔مہمان نوازی کا وَصف ان میں بہت نمایاں ہے۔

چند سال قبل OIC نے ایک سروے کروایا تھا کہ دنیا میں اسلام اپنی تعلیم کے مطابق کس حد تک رائج ہے تو نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر تھا۔

حصولِ تعلیم کے حالات

خاکسار ایم ایس سی (M.Sc.) میں یونیورسٹی میں پوزیشن ہولڈر تھا اس وجہ سے حکومتی انتظام کے تحت پی۔ایچ۔ڈی کرنے کا حقدار تھا تاہم احمدی ہونے کی وجہ سے میری فائل حکومتی عدم توجہ کا باعث بنی اور ادھر ادھر گردشوں کا شکار رہی چنانچہ حکومتی سطح پر ایسا کوئی انتظام ممکن نہ ہو سکا۔ میں نےاس امر کی اطلاع جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو کی تو حضورؒنے مجھے ربوہ بلوایا اور فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، میں لندن جا رہا ہوں آپ اپنے کاغذات مجھے بھجوا دیں۔ چنانچہ اسلام آباد واپس آنے پر میں نے اپنے کاغذات حضور ؒ کی خدمت میں بھجوا ئے مگر بروقت حضور ؒ کی خدمت میں نہ پہنچنے کے باعث 1978ء میں پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ کا کوئی انتظام نہ ہوسکا۔

جب حضورؒ سفرِیورپ سے واپس آئے تو میں نے حضورؒ کی خدمت میں درخواست کی کہ یہاں مزید انتظار کرنے کی بجائے اگر حضورؒ اجازت مرحمت فرمائیں تو مجھے افریقہ بھجوا دیں۔ وہاں کچھ ٹریننگ بھی ہو جائے گی اورانگریزی زبان پر بھی کچھ عبور حاصل ہو جائے گا نیز تحقیق کے لئے بھی کوشاں رہوں گا۔چنانچہ حضورؒنے میری درخواست کو از راہ شفقت قبول فرمایا اور مجلس نصرت جہاں کے تحت مجھے بطور استاد گھانا بھجوانے کی منظوری مرحمت فرمائی۔

خاکسار یکم فروری1979ء کو گھانا پہنچ گیا۔ میری کوشش تھی کہ جنوری 1982ء کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے کہیں چلا جاؤں اس اعتبار سے آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے (چونکہ یہ ممالک southern hemisphere (جنوبی نصف کرہ) میں ہیں اور یہاں تعلیمی سال کا آغاز جنوری ،فروری میں ہوتا ہے) دعاؤں میں مشغول رہا اور ساتھ ساتھ مختلف یونیورسٹیز کو خطوط بھی ارسال کرتا رہا۔ نتیجۃً نیوزی لینڈ کی ایک یونیورسٹی (Otago University Dunedin) میں میرے داخلے اور اسکالر شپ کا انتظام ہوگیا۔

فروری1982ء میں گھانا سے واپس پاکستان آیا۔ مارچ 1982ء میں میری شادی ہوئی اور اس کے بعد حضورؒ کی خدمت میں ملاقات کے لئے گیا تو حضور انور ؒ نےدریافت فرمایا کہ کتنی رقم لے کر جا رہے ہوساتھ؟ عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ حضورؒ نے دریافت فرمایا کہ ریزرو بینک سے نہیں لئے ؟تو میں نے عرض کیا کہ میرے پاس اتنے روپے نہیں تھے کہ ریزرو بینک سے لے لیتا۔ ریزرو بینک30ء ڈالر دیتا تھا لیکن ان کے حصول کے لئے بھی 300 روپوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس وقت میرے پاس اتنی بھی رقم نہ تھی کہ300 روپے ادا کرکے 30 ڈالر لے لیتا۔ چنانچہ اس وقت حضور ؒ نے مجھے اپنی طرف سے 400 ڈالر عنایت فرمائے۔ وہ چونکہ پاسپورٹ میں درج نہیں تھے اس لئے کراچی ائیر پورٹ پر انہوں نے رکھ لئے کہ یہ تو آپ غیر قانونی طور پر لے جارہے ہیں۔ خیر کافی تگ و دو کے بعد انہوں نے مجھے ایک نوٹ سو ڈالر کا واپس کر دیا۔فی الواقعہ میں ایک نوٹ 100 ڈالر کا لے کر مارچ 1982ء کے آخر پر Otago university Dunedin نیوزی لینڈ پہنچا تھا۔

وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ میری سیٹ تو میرے نہ پہنچنےکی وجہ سے کسی اور کو دی جاچکی تھی۔ خاصی مالی تنگی کا سامنا ہوا۔ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مجھے تین ماہ کے روزے رکھنے کا موقع بھی میسر آیا۔ سحر و افطار ان ایام میں صرف بریڈ اور پانی پر مشتمل تھا۔ چند ماہ کے بعد مجھے یونیورسٹی میں ٹیوٹرنگ کا کام دے دیا گیا۔اس کے ساتھ مجھے ایک ہسپتال میں صفائی کا کام بھی مل گیا جو کہ شام 6 سے9 بجے تک کرنا ہوتا تھا۔ایسا کرنے سے میر ی مالی حالت بہتر ہوگئی۔

مقالہ کی تکمیل میں غیر معمولی نصرت الہی

وقت گزرتا گیا تعلیمی تحقیقی کام بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔کثرت سے دعائیں کرنے کا موقع میسر آتا رہا ،خدا تعالیٰ نے مجھے خوابوں میں کئی نئے علمی نکات کے بارہ میں بتایا اور جب میں نے وہ کمپیوٹر پر آزمائے تو وہ بہت کارگر ثابت ہوئے۔ اس طرح میری پی۔ ایچ۔ ڈی کا میڑیل دو سال کے اندر ہی تیار ہوگیا۔ پھر میں نے thesis لکھنا شروع کر دیا اور اڑھائی سال سے قبل ہی مکمل کر دیا مگر یونیورسٹی کا مطالبہ تھا کہ رجسٹریشن کے بعد کم از کم 30 ماہ کا عرصہ لگانا ضروری ہے۔بہرحال یونیورسٹی کی senate سے مجھے اپنا مقالہ وقت سے پہلے جمع کروانے کی اجازت مل گئی۔اس طرح میں نے تقریبا 28 ماہ کے اندر ہی اپنا پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ جمع کروا دیا۔

نامساعد حالات کے باوجود قیام کی سہولت میسر آنا

1984ء میں میرا پاسپورٹ ایکسپائر ہورہا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے احمدیوں سے متعلق آرڈیننس جاری کیا تھا۔نیوزی لینڈ میں پاکستان کی کوئی ایمبیسی نہیں تھی۔ آسٹریلیا میں جو پاکستان ایمبیسی تھی ان کی طرف سے مجھے یہ کہا گیا تھا کہ یا تو آپ وہ فارم پُر کردیں جس میں خود کو مسلمان کہلائے جانے کے لئے وہ شرائط تھیں جن کاقبول کرنا محال تھا۔مذکورہ فارم کو پُر نہ کرنے کی وجہ سے نیوزی لینڈ گورنمنٹ کو میرے ڈیپورٹ deport کئے جانے کا کہا گیا اور پاسپورٹ بھی واپس نہ کیا گیا۔

ان حالات میں خاکسار اپنے علاقہ کے MP سے ملنے گیا اور انہیں بتایا کہ میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے ویزا ایکسپائر ہو چکا ہے اور تمام حالات سے آگاہ کیا۔انہوں نے مجھے کہا کہ آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ آپ ایک notable student ہیں اور سکالر ہیں اور آپ کی reputation میں نے آپ کے supervisor سے بہت اچھی سنی ہوئی ہے۔ آپ یہاں اپنے تین سا ل پورے کریں ہم آپ کو اپنی شہریت دے دیں گے۔انہوں نے مجھے ایک خط بھی دیا کہ اگر کوئی پوچھے تو یہ دکھا دیں اور اپنی job کے لئے اپلائی کریں۔

میں نے اپنی بیگم اور بیٹی کو پاکستان بھجوا دیا اور خود دارلحکومت Wellington چلا گیا تاکہ کوئی ملازمت مل جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاتے ہی کام مل گیا۔ وکٹوریہ یونیورسٹی نے اس سلسلہ میں میری خاصی مدد کی۔ خدا تعالیٰ نے مجھے جنوری 1984ء میں بیٹی سے نوازا تھا اور آج وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بائیو انفرمیٹو (Bio-informative) میں پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹر ہے اور آج کل آسٹریلیا میں ہے۔

میری اہلیہ سانس کی تکلیف کے باعث خاصی بیمار رہتی تھیں۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک سرجری بھی ہوئی مگر وہ کامیاب نہ ہوئی۔ہم نے پروگرام بنایا کہ جونہی نیوزی لینڈ کا پاسپورٹ ملے گا تو ہم چلے جائیں گے۔ اندازاً 1985ء کے وسط میں میرے قیام کو تین سال مکمل ہوئے تو میں نے اپلائی کیا اور چند ماہ بعد مجھے یہاں کی شہریت اور پاسپورٹ بھی مل گیا۔ پھر میں نے حضور ؒسےواپس جانے کی اجازت چاہی حضور نےفرمایا کہ
’’افریقہ کے کسی مُلک میں چلے جائیں جاب کریں اور ساتھ جماعت کی خدمت بھی کرتے جائیں۔‘‘

یہاں سے میں کینیا چلا گیا اور University of Nairobi اور Jomo Kenyatta university دونوں میں پڑھاتا رہا۔

بہرحال 1985ء میں حالات کے پیشِ نظرنیوزی لینڈ سے جاناہوا لیکن اس بات کا بالکل اندازہ نہ تھا کہ یہاں واپس آئیں گے اب آجکل یہیں قیام ہے۔

تبلیغی مساعی کی سعادت:1979ء میں گھانا میں قیام کے دوران خاکسار نے ایک خواب میں دیکھا کہ ایک پہاڑی علاقہ میں جس میں ایک بڑا خوبصورت باغ بھی ہے وہاں ایک جگہ پر میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے بڑی فرحت محسوس ہوئی۔

چنانچہ جب میں نیوزی لینڈ گیا تو Dunedin (ڈونیڈن) میں Otago uiversity (اوٹاگو یونیورسٹی) کے شمال میں ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں وہ باغ بھی ہے جو اس باغ سے مشابہہ تھا جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا لیکن خواب چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہے لہذا ممکن ہے خواب میں جو میں نے نماز پڑھی یا مسجد دیکھی اس سے مراد نیوزی لینڈ میں جماعت کا قیام ہو جو الحمدللہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نیوزی لینڈ میں جماعت احمدیہ کے قیام کی صورت میں پورا ہوا۔

میں مارچ 1982ء کے آخر پر Otago university پہنچا تھا۔ باوجود مالی تنگی اور نا مساعد حالات کے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ سلسلہ کی توفیق ملتی رہی۔

تعلیمی اداروں میں تبلیغی مساعی

جب نیوزی لینڈ آیا تو خاکسار نے لندن میں امیر جماعت محترم شیخ مبارک احمد صاحب کو اپنے بارہ میں آگاہ کیا۔انہوں نے جواب دیا کہ یہاں جماعت نہیں ہے آپ اس کے لئے مساعی کریں۔ غالباً میں پہلا ایکٹو احمدی ہوں جس نے جماعتی ہدایات کے تحت چندہ جات بھی ادا کرنے شروع کر دئیے تھے۔جب میں نے پہلی مرتبہ چندہ لندن بھجوایا تھا تو جواب آیا تھا کہ آپ اسے وہیں تبلیغ کرنے میں استعمال کریں۔چنانچہ اس سلسلہ میں مَیں نے آسٹریلیا اور فجی کے مشنز سے رابطے کئے اور وہاں سے لٹریچر منگوا کر تقسیم کیا کرتا تھا۔

  • بذریعہ خطوط چرچوں اور آرگنائزیشنز کو تبلیغ کا کام بھی کرتا رہا۔
  • یونیورسٹی میں بھی لیکچر دینے کا موقع ملا۔ چنانچہSolomen island کے کچھ نوجوان تھے جو عیسائی چرچ کےذریعے آئے تھے مگر جب انہوں نے لیکچر سنا تو کافی اسلام کے قریب آگئے تھے۔گھر میں آنا شروع کر دیا پھر چرچ والوں کے منع کرنے پر مجھ سے ملنے سے کتراتے لگے۔
  • یہ بھی کوشش کی کہ سکولوں میں بھی اسلام پر لیکچر دینے کی اجازت مل جائے مگر ایسا ممکن نہ ہوا بلکہ چرچ والوں نے تو یہ بھی کہا اگر تبلیغی کوششیں جاری رکھیں تو ہم آپ کو ڈی پورٹ کروا دیں گے یا کوئی سخت سزا دلو دیں گے۔
  • عام مسلمانوں سے بحث مباحثہ ہوتا رہتا تھا۔ نتیجۃً مسلمانوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔

Wellington میں میری جاب تھی اور وقت بھی خاصا ہوتا تھا اس لئے میں بڑے زور شور سے تبلیغ کے کام میں مصروف ہوگیا۔ہاسٹل میں غیر ملکی طلبا کے پاس جاتا ،شاپنگ مالز میں ملنے والے لوگوں سے رابطہ کرتا تھا۔کچھ مسلمان انڈونیشینز میرے پاس آئے کہ ہمارے بچے یہاں آکر عیسائی ہوگئےہیں آپ ان کے لئے کچھ کریں۔میں نے ان کو کہا کہ پہلے آپ خود اپنا اسلام ٹھیک کریں وہ بھی آجائیں گے۔انہوں نے اپنے آپ کو پکا مسلمان کہا اس پر میں نے کہا کہ حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ امام مہدی آئے گا تو اسے میرا سلام پہنچانا اور آپ تو امام مہدی کے منکر ہیں۔بہرحال ان سے مکالمہ جاری رہا۔وہ سمجھانے کےلئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لایا مگر چونکہ وہ عیسائیوں کے ساتھ رہتے تھے اور عیسائی ہی ان کا خرچہ برداشت کرتے تھے اس لئے بہرحال مسلمان نہ ہوئے۔

بطور امیر تقرر: 1985ء کے وسط میں جب Wellington میں میرا قیام ڈیڑھ سال رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مجھے یہاں کا امیر مقرر کیا۔اگرچہ میں نے حضورؒ کی خدمت میں عرض بھی کیا کہ ہم یہاں چند ایک ہیں کچھ فجی سے آئے سٹوڈنٹ ہیں۔ لیکن حضور نے کام جاری کرنے کا ارشاد فرمایا اور مسجد کےلئے وسیع جگہ ڈھونڈنے کا ارشاد فرمایا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ میرے اپنے پاس تو رہنے کےلئے کرایہ کا مکان بھی نہیں تھا تو میں بڑا حیران ہوا مگر حضور نے فرمایا کہ پیسے کے لئے پریشان نہ ہوں آپ صرف جگہ کا انتظام کریں۔اس وقت میں مختلف شہروں Christchurch اور Wellington میں جگہ تلاش کرتا رہا۔مگر کوئی انتظام نہیں ہو سکا کیونکہ اکثر احمدی جو بعد میں آئے وہ Aukland میں آئے۔

میں جب نیوزی لینڈ آیا تو اکیلا تھا چند ماہ ایسے ہی رہا تو ان دنوں بھی ہوسٹل میں جو غیر ملکی طلبا ہوتے تھے ان سے رابطہ کر کے ان کو تبلیغ کی۔میری بیگم کے یہاں آنے کے بعد ہم دونوں مل کر لٹریچر تقسیم کیا کرتے تھے۔یہ لٹریچر ہم فجی جماعت سے منگواتے تھے۔مختلف آرگنائزیشنز کو خطوط لکھے تا ہماری ان سے کوئی گفتگو ہو۔

دو انڈونیشینز کا قبول احمدیت

خاکسارOtago university Dunedin میں قیام کے دوران ہاسٹلز میں باقاعدگی سے جاتا تھا اور وہاں طلباء سے خصوصا مذہبی گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ اس کے نتیجے میں انڈونیشیا کے دو طالب عالموں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔

مقامی لوگوں کو تبلیغ

اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کے مقامی لوگوں سے لمبی لمبی بحثیں ہوئیں جو مذہبا عیسائی تھے (نیوزی لینڈ کے مقامی لوگوں کو Kiwi کہا جاتا ہے۔ Kiwi یہاں کا قومی پرندہ ہے۔ بحث مباحثہ کا سلسلسہ ایک رات2 بجے تک جاری رہا تھا۔لیز برائیٹن اور اس کے ساتھی تھے۔ جو تھیالوجی میں گریجوایٹ تھے اوٹاگو یونورسٹی سے۔ موضوع قرآن بمقابلہ بائیبل تھا۔

خدا تعالیٰ کے فضل سےجنوری 2018ء میں ہمارے چھوٹے بیٹے عزیزم محمود احمد ناصر کو نیوزی لینڈمیں ایک بہت اچھی جاب کی پیشکش ہوئی۔اسی وجہ سے وہ نیوزی لینڈ منتقل ہوگیا اور ہم بھی نومبر 2018 میں نیوزی لینڈ آگئے۔اب قریب3 سال سے یہیں مقیم ہیں۔

خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ نیوزی لینڈ کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہو چکا ہے اور Auckland میں نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی مسجد بیت المقیت بھی تعمیر ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ کئی شہروں میں نماز سنٹرز بھی قائم ہو چکے ہیں۔جماعت کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی سطح پر بھی تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔اور جماعتی تقریبات اور جلسہ ہائے سالانہ میں اعلی سطح کے حکومتی افسران شمولیت اختیار کرتے ہیں۔امسال بھی۱21 اور22 جنوری2022ء نیوزی لینڈکے سالانہ جلسہ کا انعقاد ہو رہا ہے۔ انشاء اللہ،اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر لحاظ سے یہ جلسہ کامیاب ہو اور تمام شاملین جلسہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ان تمام دعاؤں کے وارث بنیں جو حضورؑ نے شاملین جلسہ کے لئے کی ہیں۔آمین اللّٰھم آمین

(ڈاکٹر محمد اسلم ناصر۔نیوزی لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ