• 18 اپریل, 2024

اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب

قرآن شریف میں تو آیا ہے۔ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (الانفال:46) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تاکہ فلاح پاؤ۔

اب یہ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔

ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اُس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھیر رہا ہے اس عورت نے اُس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اُس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟

در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو 33 مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہو گا تو آپ نے اُسے فرما دیا کہ 33 مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے۔ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سجدت لک روحی و جنانی۔اب بتاؤکہ یہ مقام اور مرتبہ 33 مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔

جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتاہے۔ وہ ذکر الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے؎ مَن کا منکا صاف کر۔

انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہو گی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ19تا20۔ ایڈیشن1984ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2021