• 26 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جب استعمال کریں تو اس کا شکر کریں۔ ایک تو اس کی تسبیح کریں تو ساتھ ہی دین کی حالت کے درد کو بھی محسوس کریں۔ اس کے لئے کوشش کریں کہ کس طرح ہم نے اشاعت دین اور تبلیغ دین میں حصہ ڈالنا ہے۔ پھر کھانے کے اس انداز سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا تسبیح کے مضمون کی مزید وضاحت فرمائی اور قرآن کریم کے اس حصہ آیت سے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (التغابن: 2) زمین و آسمان کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نکتہ نکالا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کھانا کھایا کرتے تھے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آیا ہے کہ بمشکل ایک پھلکا آپ کھاتے تھے اور جب اٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چورا آپ کے سامنے سے نکلتا۔ آپ کی عادت تھی جس طرح پہلے بتایا کہ روٹی کے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے۔ فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسا کیوں کرتے تھے مگر کئی دوست کہا کرتے تھے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس قسم کی بات سننی مجھے اس وقت یادنہیں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ یہی کہا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کہ زمین و آسمان میں سے تسبیحوں کی آواز اٹھ رہی ہے۔ اب کیوں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے جبکہ ہم اس تسبیح کی آواز کو سن ہی نہیں سکتے۔ اور جس چیز کو ہم سن نہیں سکتے اس کے بتانے کی ہمیں ضرورت کوئی نہیں تھی کہ کر رہی ہے۔ جس کو ہم سن نہیں سکتے تو ہمیں کیا پتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بتانے کا مقصد کیا تھا۔ کیا قرآن کریم میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جنت میں فلاں شخص مثلاً عبدالرشید نامی دس ہزار سال سے بیٹھا ہوا ہے۔ چونکہ ہمارے لئے اس کے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی باتیں نہیں بتائیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اے لوگو تم اس تسبیح کو سنو۔ جب ہم کہتے ہیں کہ چاندنکل آیا تو اس کا مطلب یہ ہؤا کرتا ہے کہ لوگ آئیں اور دیکھیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص گا رہا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ چلو اور اس کا راگ سنو۔ اسی طرح جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس تسبیح کو سنو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ تسبیح ایسی ہے جسے ہم سن بھی سکتے ہیں۔ ایک سننا تو ادنیٰ درجے کا ہے اور ایک اعلیٰ درجے کا۔ مگر اعلیٰ درجے کا سننا انہی لوگوں کو میسر آ سکتا ہے جن کے ویسے ہی کان اور آنکھیں ہوں۔ اسی لئے مومن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ کھانا شروع کرے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہے۔ کھانا ختم کرے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے۔ کپڑا پہنے یا کوئی اور نظارہ دیکھے تو اسی کے مطابق تسبیح کرے۔ گویا مومن کا تسبیح کرنا کیا ہے؟ وہ ان چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرنا ہے۔ وہ کپڑے کی تسبیح اور کھانے کی تسبیح اور دوسری چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرتا ہے۔ جب انسان کھانا کھاتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہ پڑھتا ہے۔ کھانا ختم کر کے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ پڑھتا ہے۔ کپڑا پہنتے ہوئے دعا کرتا ہے اور اللہ کو یاد رکھتا ہے تو یہ چیزیں جو انسان خود کر رہا ہوتا ہے یہی اصل میں تسبیح ہے جو ان چیزوں کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے۔ ان کو دیکھ کے جب انسان شکرگزاری کرتا ہے تو یہی تسبیح ان چیزوں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں اَور کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہ رات دن کھاتے اور پیتے ہیں۔ پہاڑوں پر سے گزرتے ہیں، دریاؤں کو دیکھتے ہیں، سبزہ زاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں، درختوں اور کھیتوں کو لہلہاتے ہوئے دیکھتے ہیں، پرندوں کو چہچہاتے ہوئے سنتے ہیں، مگر ان کے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ کیا ان کے دلوں میں بھی ان چیزوں کے مقابلے میں تسبیح پیدا ہوتی ہے۔ اگر نہیں پیدا ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سنا۔ مگر تم کہو گے کہ ہمارے کانوں میں تسبیح کی آواز نہیں آتی۔ میں اس کے لئے تمہیں بتاتا ہوں کہ کئی آوازیں کان سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہیں۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد16صفحہ150-149)

پس ہر شکرگزاری جو ہے جب وہ انسان کسی چیز کی کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھتا ہے تو سبحان اللہ پڑھتا ہے تو انسان کی جو تسبیح ہے وہ اصل میں ان چیزوں کی جو تسبیح ہے اس کا اظہار انسان کے منہ سے ہو رہا ہوتا ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پس تسبیح کے اس انداز کو بھی ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ تقویٰ تو یہی ہے کہ اس قسم کی تسبیح ہمارا معمول بن جائے۔

(خطبہ جمعہ 4؍ ستمبر 2015ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2021