تبرکات حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ
خداتعالیٰ کے فضل سے چند روز سے رمضان شریف کا مبارک مہینہ شروع ہے۔ مخلصین اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہوں گے۔ روزوں کے متعلق احادیث اور قرآن کریم کی روشنی میں ذیل کی چند باتوں کے مطالعہ سے احباب فائدہ اٹھائیں گے۔
حکیم مطلق کے تمام احکام میں بے شمار و بے انتہا حکمتیں ہیں۔ جن تک کسی انسان عاجز کا دماغ بھی نہیں جا سکتا۔ مگر اسی کے کلام اور اسی کے رسول (ﷺ)کی باتوں کی روشنی میں رمضان میں تین بڑی بڑی حکمتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اوّل قرآن کریم میں جہاں رمضان شریف کا مفصل بیان آیا ہے اسی رکوع کے ابتدا میں روزہ کی غرض بتائی کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ کہ روزے رکھنے کی وجہ سے انسان کو تقویٰ حاصل ہوتا ہے یعنی روزہ کیا ہے۔ انسان کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ استعمال سے اجتناب کرتا ہے۔ اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب جائز چیزیں ایک وقت تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چھوڑی جا سکتی ہیں تو انسان ناجائز چیزیں تو بدرجہ اول چھوڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اس رکوع کے اختتام پر فرمایا لَا تَأْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ (البقرہ:189)۔ یعنی رمضان سے سبق حاصل کر کے اپنی باقی زندگی میں اپنا یہ شعار بنا لو کہ کسی کے خلاف مال کو ناجائز استعمال نہیں کرتا کیونکہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔
(2) رمضان کی ایک حکمت یہ ہے کہ ایک مہینہ ایسا ہو کہ جس میں متمول اور امیر طبقہ کے لوگ غرباء کی حالت کا خود عملی طور پر تجربہ کر لیں اور اس بات کا احساس کریں کہ غرباء کو سال بھر کس قسم کی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ پس روزہ امراء کو احساس کراتا ہے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کی امداد کریں اور ان کی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق بخاری میں آتا ہے کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان شریف میں تو اور بھی زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔ پس آپ کے نمونہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب استطاعت اشخاص اور متمول لوگوں کو اپنے غریب ہمسائیوں کی مدد کرنی چاہئے۔ پھر صدقۃ الفطر اور فدیہ وغیرہ دینے کے احکام سے بھی غرباء کی امداد مقصود ہے۔
تیسری بڑی حکمت یہ ہے کہ رمضان شریف میں قرآن کریم پڑھنے کا خاص موقع ملتا ہے۔ جیسے قرآن میں خداتعالیٰ نے فرمایا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ (البقرہ:186)۔ پس چاہئے کہ رمضان میں کثرت کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور اس کے مطالب پر غور کریں۔ اسی کو دنیا میں پیش رو اور امام بنائیں۔ اسی کو اپنا ورد اور وظیفہ بنائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الصیام جُنۃ فلا یرفث ولا یجھل …… الصیام لی و انا اجزی بہٖ یعنی روزے ڈھال ہیں یعنی جس طرح لڑائی میں انسان تلوار اور تیر و تبر کے وار سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے سامنے ڈھال کر لیتا ہے۔ اسی طرح اسے کوشش کرنی چاہئے کہ گناہوں کی تلوار کے لئے بھی روزوں کی ڈھال تیار کرے تاکہ اس کے وار سے بچا رہے۔ الصیام لی و انا اجزی بہٖ کا صرف یہ مطلب نہیں کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ باقی تمام اعمال حسنہ کا بدلہ بھی تو خود خداتعالیٰ ہی دیتا ہے۔ پھر روزے کے متعلق اس قول کا کیا مطلب ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے انسانی جسم کو اس قسم کا بنایا ہے کہ بغیر کھانے پینے کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ فرمایا وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ O (الانبیاء:9)۔ ہم نے ان کو ایسا جسم نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں۔ مگر اس کے مقابلہ پر خداتعالیٰ کی صفت یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں سے منزہ اور پاک ہے۔ خداتعالیٰ کو ہرگز کھانے کی ضرورت نہیں۔ پس جب ایک شخص روزہ رکھتا ہے تو گویا وہ خداتعالیٰ کی صفت سے متصف ہو جاتا ہے۔ گو تھوڑے وقت کے لئے ہی سہی۔ پھر وہ خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ پس اس وجہ سے خداتعالیٰ اس کو خاص طور پر بدلہ دیتا ہے۔ چنانچہ اس کا وعدہ اس نے اپنے رسول کی زبانی اس حدیث میں دیا ہے۔
بخاری میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ایسا بھی ہو گا جس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ اس کا نام ریان ہو گا۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں اور اپنے غریب بھائیوں کی امداد کرتے ہیں۔ ان کو قیامت کے دن سیری کے دروازے میں سے داخل کیا جائے گا اس لئے کہ وہاں سیری ہی سیری ہے۔ بھوک تو صرف اس دنیا تک محدود ہے۔
بخاری میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا إِذَا دَخَل شهر رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ یعنی جب ماہ رمضان آتا ہے تو آسمان اور جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیطان جکڑے جاتے ہیں۔ ظاہری طور پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث خلاف واقعہ ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان شریف شروع ہے مگر بدیاں بدستور ہو رہی ہیں۔ لوگ قسما قسم کی بدکاریاں کرتے ہیں۔ روزانہ چوروں کو پکڑا جاتا ہے۔ ان کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ زنا اور بدنظری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ جنگ ہی میں ہزاروں جانیں تلف ہو رہی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں گناہ دو قسم کے ہیں (1) انسان گناہ کرتا ہے تاکہ اپنا اور اپنے ساتھیوں کا پیٹ بھرے۔ حرص، لالچ، ظلم اور قتل و غارت اسی کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ جنگ میں ہٹلر نے ساری دنیا کو مصیبت میں ڈالا تو پیٹ کی خاطر کسی نہ کسی طرح جرمن قوم کا پیٹ بھر سکے۔ اگر اس پیٹ کے بھرنے کی خواہش نہ ہوتی تو یہ دوزخ دنیا میں کبھی گرم نہ ہوتا۔ دوسری قسم کے ایسے گناہ ہیں جو انسان اپنی شہوت کو پورا کرنے کے لئے کرتا ہے۔ چنانچہ کئی لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اپنی عزت اور ننگ و ناموس تک مٹا دیتے ہیں۔ اپنی حیثیت اور لوگوں کے طعنوں کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ چنانچہ ایک بہت بڑی سلطنت کے مالک نے ایک عورت کی خاطر اپنی سلطنت کو ٹھکرا دیا۔
پس رمضان آکر ان تمام موحبات دوزخ کو بند کرتا ہے۔ جب اس کے اسباب کو روک دیا گیا تو دوزخ ازخود بند ہو گیا اور شیطان خودبخود جکڑے گئے اور اگر تمام لوگ اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو جنت کے دروازے کھل جائیں اور گناہوں کے دروازے بند ہو جائیں اور یہی مطلب اس حدیث کا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ علٰی اٰلِ محمد بَارَکْ وَسَلَّمْ۔
(روزنامہ الفضل قادیان 15ستمبر 1943ء صفحہ3)