• 24 اپریل, 2024

حادثاتی ایجادات جنہوں نے زندگی سہل بنادی

بعض اوقات ہماری محنت کے مطلوبہ نتائج ہمیں حاصل نہیں ہوتے ۔ ہم جو کچھ کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ہمارے ارد گرد موجود بیسیوں اشیاء ایسے ہی غیر متوقع نتائج کے باعث معرض وجود میں آئیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

ماچس

اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ایک برطانوی فارمسسٹ ’’جون واکر‘‘ معمول کے مطابق اپنے کام میں مگن تھے۔ وہ ادویات کی تیاری میں مصروف تھے اور مختلف کیمیکل ملانے کے لیے لکڑی کی چپٹی تیلیوں کا استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا انہی لکڑیوں میں سے ایک کے ساتھ کچھ چمٹا ہوا ہے۔جب انہوں نے اسے ہٹانے کے لیے رگڑا تو اس سرے سے شعلے نکلے اور لکڑی کو آگ لگ گئی۔اسی وقت ان کے دماغ میں ایسی مزید لکڑی کی تیلیاں بنانے کا خیال آیا۔ انہوں نے تیلیاں بنانے اور بیچنے کا کام شروع کر دیا۔ اس دور میں جب بجلی نہیں تھی آگ جلانے والی ان تیلیوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی بدولت آگ جلانا بہت آسان ہوگیا۔ بعد میں ان تیلیوں کی لمبائی تین انچ تک کر دی گئی اور اس کے ساتھ ایک ریگ مال بھی دیا جانے لگا جس سے رگڑ کر تیلی جلائی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنی اس ایجاد کا پیٹنٹ حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح انسانیت کو اس ایجاد سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔اپنی افادیت کی بدولت ماچس دنیا بھر میں بہت تیزی سے مقبول ہوئی اور اب یہ ہر گھر کا لازمی حصہ ہے۔گو کہ اس کی جگہ گیس اور الیکٹرک لائٹر نے لے لی ہے لیکن ابھی بھی یہ بہت زیادہ استعمال ہونے والی چیز ہے۔

ٹیفلان

امریکن سائنٹسٹ رائے جے پلنکٹ ایک کمپنی ڈوپان کے لیے محفوظ ریفریجریٹر بنانے پر تحقیق میں مصروف تھے۔ مختلف تجربات کے دوران جب ان کا ایک تجربہ ناکام ہوا تو انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گیس کا وہ مکسچر جو انہوں نے بنایا تھا ایک رات میں وہ سارا غائب ہوچکا ہے جو ایک کنٹینر میں ر کھا گیا تھا۔انہوں نے اس میں کئی خوبیوں کا مشاہد کیا،مثلا یہ چمٹتا نہیں تھا اور اس پر منفی ایک سو پچاس اور 500 ڈگری فارن ہائیٹ تک درجہ حرارت کا بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ 1941 میں ڈوپان نے اس ایجاد کو پیٹنٹ کر وا لیا جسے ہم آج ٹیفلان کے نام سے جانتے ہیں۔

آلو کے چپس

نیویارک کے ایک شیف جارج کرم گریٹ کو اس کے گاہکوں کی جانب سے مسلسل اس بات کی شکایات مل رہی تھیں کہ اس کے چپس نرم اور پلپلے ہیں جو کھانے میں بالکل بھی مزا نہیں دے رہے۔ ان شکایات کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں اس نے آلو کے قتلے بناتے وقت انہیں بہت پتلے سے کاٹ کر ابلتے ہوئے تیل میں اچھی طرح تلا اور ان پر ہلکا سا نمک لگا کر گاہکوں کو پیش کر دیا۔ اس دوران وہ کافی مایوس تھا لیکن ان چپس کو کھا نے کے بعد لوگوں کی طرف سے بہت زبردست اور مثبت ردعمل آیا۔ 1853 سے اب تک آلو کے چپس بنانے کی تراکیب میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔اب تک یہ دو سو سے زائد مختلف قسم کے ذائقوں میں بنائے جاتے ہیں اور پوری دنیا میں بہت مقبول ہیں۔اب جب آپ آلو کے چپس کھائیں تو جارج کو ضرور یاد کریں جس کی حادثاتی ایجاد کی بدولت یہ منفرد ذائقہ وجود میں آیا۔

آئسکریم کون

آئسکریم بذات خود کوئی نئی چیز نہیں ہے۔دوسو قبل مسیح میں چینی اس سے ملتی جلتی چیز کھایا کرتے تھے۔آئس کریم کون بہت بعد میں 1904 میں سینٹ لوئس میں منعقد ہونے والے عالمی میلے میں حادثاتی طور پر ایجاد ہوئی۔آئسکریم کی دکانوں پر بہت زیادہ بھیڑ کے باعث آئس کریم کے لیے گاہکوں کو دیے جانے والے برتن کم پڑچکے تھے۔وہیں ایسی ہی ایک دکان کے باہر ’’ارنیسٹ ہینرک‘‘ پرشین وافل بیچ رہا تھا۔اس نے آئسکریم کی دکان کے باہر یہ صورتحال دیکھی تو ازراہ ہمدردی اپنے وافل ایک کون کی شکل میں لپیٹے اور دکاندار کو پیش کر دیئے کہ ان میں آئسکریم ڈال کر اپنے گاہکوں کو دے۔

گاہکوں کو وافل میں لپٹی آئسکریم بہت پسند آئی اور اس طرح آئسکریم کون اس دلچسپ حادثے کی بدولت وجود میں آئی۔

کوکا کولا

جان پیمبرٹن کوئی کاروباری شخصیت نہیں تھے۔وہ صرف ایک فارمسسٹ تھے جو سردرد سے نجات کی دوائی بنایا کرتے تھے۔ان کا فارمولا بہت سادہ سا تھا جس میں کوکو کے پتے اور کولا کے بیج شامل تھے جن سے شربت بنایا جاتا تھا۔ یہ 1886 کی بات ہے جب یہ اجزاء پانی میں ملاکر بطور سردرد کی دوائی کے گاہکوں کو دیے جاتے تھے۔ لیکن ایک دن ایک دکان دار نے ان اجزاء کو پانی میں حل کرنے کی بجائے غلطی سے سوڈا میں ملا دیا۔اس طرح کوکاکولا کا منفرد ذائقہ کا حامل مشروب وجود میں آیا۔

پوسٹ اٹ نوٹ

ڈاکٹر اسپینسر سلور 1968 میں ایک کیمیادان کے طور پر تھری ایم کمپنی میں کام کرتے تھے۔وہ ایک بہت زیادہ مضبوطی سے چپکنے والا مادہ بنانے میں مصروف تھے۔لیکن جو بنا وہ اس کے بالکل الٹ تھا۔ ایک ایسی چیز بنی جو زیادہ مضبوطی سے تو نہیں چپک سکتی تھی اور نہ اس سے بڑی چیزیں چپکائی جا سکتی تھیں البتہ اسے بار بار کسی سطح پر چپکانے کے باوجود اس میں چپکنے کی صلاحیت برقرار رہتی تھی۔1974 میں جاکر اس ایجاد کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہوا جس کے بعد سے یہ پوری دنیامیں دفاتر، تعلیمی اداروں اور گھروں میں عام استعمال ہونے لگے۔

حفاظتی شیشہ

فرانسیسی کیمادان ایڈورڈ بینڈکٹ سے کام کے دوران شیشے کا بیکر فرش پر گر گیا۔انہیں حیرت اس وقت ہوئی جب بیکر میں ٹوٹنے کی بجائے صرف دراڑیں پڑیں۔غور کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ یہ اس پگھلی ہوئی پتلی پلاسٹک کی تہ کی بدولت ہے جو وہ پچھلی رات ایک تجربہ کرنے کے دوران اس بیکر میں رہ گئی تھی۔یوں حادثاتی طور پر ایک ایسی مفید چیز وجود میں آئی جس کا استعمال وسیع پیمانے پر پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔

ووکلنائز ربر

ایک نوجوان سائنسدان چارلس گوڈئیر ربر کا معیار بہتر بنانے میں مصروف تھے جو انیسویں صدی میں کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی۔انہوں نے ربر کو ہر طرح کی اشیاء میں ملا کر تجربات کیے جیساکہ سالٹ پیپر، شوگر، ریت، کسٹرائل اور سوپ تک میں لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ایک دن انہوں نے سوچا کیوں نہ ربر کو میگنیشیا، لائم اور نائٹرک ایسڈ میں ملا کر دیکھوں۔ لیکن اس سے بھی انہیں کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔لیکن جب انہوں نے ربر کو سلفر کے ساتھ مکس کیا تو غلطی سے وہ ان کے ہاتھ سے گرم سطح پر گر گیا۔اس طرح وجود میں آیا وولکنائز ربر۔ ہم جو آج اپنے ارد گرد گاڑیوں کے ٹائر سے لے کر باسکٹ بال تک ربر سے بنی ان گنت اشیاء دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں یہ چارلس گوڈیئر کے حادثاتی طور پر وولکنائز ربر ایجاد کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔

پلاسٹک

بیسویں صدی کی ابتداء میں پلاسٹک کی ابتدائی شکل جو انسانی استعمال میں تھی اسے شیلاک کہا جاتا تھا۔

اسی سے استعمال کی تمام اشیاء بنائی جاتی تھیں جن میں لکڑی کی پالش کرنے سے لے کر آڈیو ریکارڈ کرنے والی ڈسک تک سبھی اشیاء شامل تھیں۔لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اسے بنانے کے لیے خام مال جنوب مشرقی ایشیا سے درآمد کرنا کافی مہنگا پڑتا تھا۔چنانچہ ایک کیمیادان ‘‘لیو ہینڈرک’’ شیلاک کو بہتر کرنے اور اسے ایسا بنانے کے تجربات میں مصروف تھے جس سے یہ کم قیمت میں تیار ہو سکے۔ اپنے تجربات کے دوران انہوں نے ایک ایسا مکسچر بنایا جسے آسانی سے کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا تھا اور یہ بہت زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتا تھا اور شیلاک کی نسبت بہت زیادہ بھروسہ مند اور شیلاک نسبت سستا بھی تھا جسے آج ہم پلاسٹک کے نام سے جانتے اور اس کی افادیت سے خوب آگاہ ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ

نفسیاتی تناؤ کے لیے استعمال ہونے والی گولیاں 1957 میں بنائی گئیں جو دراصل ٹیوبر کولائسس کا علاج تھا۔اس پر تجربات کرنے والوں نے مشاہدہ کیا کہ جس مقصد کے لیے یہ گولیاں بنائی گئی ہیں اس میں توکوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی لیکن اسے استعمال کرنے والے مریضوں کا مزاج حیرت انگیز طور پر خوشگوار ہو جاتا ہے۔چناچہ تب سے اب تک اتفاقاً ایجاد ہونے والی یہ دوا اعصابی تناؤ کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

پیس میکر

ولسن گریٹ بیچ دل کی دھڑکن کا حساب رکھنے اور ریکارڈ کرنے والا آلہ بنانے میں مصروف تھے کہ انہوں نے غلطی سے اس آلہ سے غیر متعلق ایک الیکٹرانک کمپوننٹ اس آلہ میں لگا دیا جس نے دل کی دھڑکن کو ریکارڈ کرنے کی بجائے دل کی دھڑکن کو متوازن کرنا شروع کر دیا۔یہ پیس میکر کامیابی سے 1960 میں لگایا گیا۔یوں حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والا پیس میکر تب سے اب تک قیمتی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔

اینی بائیوٹک

اسکاٹش سائنسدان الیگزینڈرفلیمنگز کی تجربہ گاہ ایک کباڑ خانہ معلوم ہوتی تھی جس کے فرش اور میزوں پر اشیاء ہر طرف بکھری ہوئی ہوں۔ ان میں قسم ہا قسم کے بیکٹیریا موجود رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ایک پیٹری ڈش (بیکٹیریا وغیرہ کے مشاہدہ کے لیے شیشے کی کٹوری نما چھوٹا برتن) میں اسٹیفلو کاکائی بیکٹیریا کا مشاہدہ کیا جس نے اپنے ارد گرد ایک حفاظتی تہ بنا رکھی تھی اور ڈش میں موجود باقی بیکٹیریا کو ختم کر رہا تھا۔ انہوں نے اس فنگس کے مزید خواص پر تجربات کیے جو آگے چل کر پینسلین پر منتج ہوئے۔اس دریافت پر انہیں 1945 میں طب کا نوبل انعام بھی ملا۔

ایکسرے

ویل ہیلم روجنٹ نے کام کے دوران غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ الیکٹران بیم کے سامنے کر دیا۔یہ 1895 کی بات ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھ کی شبیہ فوٹوگرافک پلیٹ پر چھپی ہوئی دیکھی۔انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ریڈی ایشن انسانی جسم میں سے جسمانی اعضاء کا سایہ بناتے ہوئے آر پار ہو سکتی ہیں۔جو عضو جتنا زیادہ موٹا ہوگا اس کا سایہ اتنا ہی بڑا ہوگا۔یہ دریافت ایکسرے پر منتج ہوئی۔

سپر گلو

1942 میں کوڈک کے ایک تحقیق دان ہیری کوور شفاف پلاسٹک بنانے پر کام کر رہے تھے۔ غیر ارادی طور پر انہوں نے ایسا مادہ تیار کیا جو ہر چیز کے ساتھ انتہائی مضبوطی سے چپک جاتا تھا۔ایک اور موقع پر انہوں نےایک اور اسی قسم کا مادہ بنا لیا جو ہر چیز کے ساتھ چپک جاتا تھا۔ 1958 میں کوڈک نے سپر گلو کی ان دونوں اقسام کا پیٹنٹ حاصل کر لیا جو اتفاقاً معرض وجود میں آگئی تھیں۔ یوں شفاف پلاسٹک بناتے بناتے سپر گلو کا جنم ہوا۔

مائیکرو ویو اوون

اب جب آپ مائیکرو ویو پر کھانا گرم کر رہے ہوں تو ‘‘پرسی اسپینسر’’کو ضرور یاد کیجیے گا۔پرسی کے دور میں مائیکرو ویو باورچی خانوں کی زینت نہیں تھا۔ مائیکرو ویو کی یہ لہریں ریڈار میں استعمال ہوتی تھیں۔ایک دن جب پرسی ریڈار کے میگنیٹران حصہ کے سامنے کھڑے تھے انہوں نے دیکھا کہ ان کی جیب میں پڑی چاکلیٹ کی ٹکیا پگھل گئی ہے لیکن جسم کا اور کوئی حصہ گرم نہیں ہوا۔چنانچہ یہاں سے آغاز ہوا مائیکروویو اوون کا۔

(ترجمہ و تخلیص: مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2021