• 17 مئی, 2024

جمعة الوداع یا جمعة الاستقبال

ویسے تو رمضان کے مبارک و مقدس مہینے کے تمام دن بالخصوص تمام جمعے ہی مبارک ہیں مگر آخری جمعة المبارک کو بہت اہمیت دے دی گئی ہے۔ اس آخری جمعہ کو جمعة الوداع کہا جاتا ہے۔ جس میں رمضان کے رخصت ہونے کا پیغام پنہاں ہے۔ یہ جمعہ مسلمانوں میں روایتی طور پر ایک یادگار جمعہ بن گیا ہے۔ اس روز مساجد ضرورت سے زیادہ آباد ہوتی ہیں۔ نمازوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک غلط تصّور مسلمانوں میں پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ یہ دن بخشش اور مغفرت کا دن ہے جو شخص اس روز جمعہ پر حاضر ہو جائے گا خواہ اس نے سارا سال مسجد کا منہ تک نہ دیکھا ہو بخشا جائے گا۔ اسی لئے وہ مسجد میں جو عام دنوں میں نمازیوں کے مقابل پر بہت بڑی دکھائی دیتی ہیں آج چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔ بلکہ ملحقہ سڑکوں اور گلی بازاروں میں بھی نمازی نظر آتے ہیں۔ اب تو یہاں یورپ میں بھی سڑکوں پر مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھا جا سکتا ہے اور سارا سال مسجد کا منہ تک نہ دیکھنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس دن یا لیلۃالقدر کی عبادت، پہاڑ جیسے بلند گناہوں کے ڈھیر کو بھی بخشوانے کے لئے کافی ہے۔ یہ بات اسلامی عبادات کے فلسفہ کے منافی ہے پاکستان میں میری ایک غیر از جماعت گزٹیڈ افسر سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے فخریہ طور پر بتلایا کہ میں سارے سال میں صرف جمعة الوداع پر حاضر ہوتا ہوں۔ نماز عید پر بھی نہیں جاتا۔ یہ ذاتی concept اور یہ تصورغلط ہے یہ اسلامی تصّور نہیں۔

عبادت کو ایک تسلسل کا نام ہے جس میں استقامت اور مشقت ضروری ہے۔ ماں ایک مسلسل تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر بچہ جنتی ہے۔ جس پر وہ خوش ہوتی ہے جو اس کاحق بھی ہے۔ بعینہ رمضان کی مشقت میں اپنے آپ کو ڈال کر جمعۃ الوداع یا عید منانے کا حق بھی انہی کو ہے۔ جو پورے آداب اور مکمل شرائط کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھتے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں۔

ماں کو بچے سے پیار بھی اسی درد اور تکلیف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو اس نے جنتے وقت برداشت کی ہوتی ہے ورنہ بچے کی دعویدار غیر عورت تو بچے کو آدھا آدھا کروانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔ اسی لئے حقیقی ماں کی طرح رمضان سے پیار کرنے والے لوگوں کے لئے یہ الوداع کا جمعہ، الوداع کا جمعہ نہیں رہتا۔ نیکیوں کے استقبال کا جمعہ بن جاتا ہے۔ ہاں یہ الوداع کا جمعہ بھی ہوتا ہے مگر بدیوں کو الوداع کرنے کا جمعہ۔ اپنے گناہ آلودہ جسم سے بدیوں کو الگ کرنے کا جمعہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ آنحضورﷺ ایک دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا کر دے جتنا مشرق و مغرب کا ہے۔ اور میرے گناہ اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا دھل کر گندگی سے صاف ہو جاتا ہے۔

(بخاری کتاب الصلٰوة)

اس کے بالمقابل ایک مومن نیکیوں کے استقبال کے لئے منتظر رہتا ہے۔ وہ جمعہ کو مخاطب ہو کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ جی آیاں نوں۔ میری زندگی میں یہ مبارک جمعہ آیا ہے آئندہ بھی اس مبارک دن کی عبادت سے دُور نہیں رہوں گا۔ وہ نماز کو ’’جی آیاں نوں‘‘ کہہ رہا ہو تا ہے۔ وہ قرآن کریم کا ’’اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَباً‘‘ کہہ کر استقبال کر رہا ہو تا ہے وہ ہر نیکی کو ’’خوش آمدید‘‘ کہتا ہے۔

اگر کوئی ایک ماہ رمضان، انسان کی گود کو کسی ایک نیکی سے ہر ی کر گیا ہے یا کسی بدی سے نفرت پیدا کر گیا ہے تو سمجھیں اُس کا ماہ رمضان کا میاب گزرا ہے۔ اُس نے ماہ رمضان سے کما حقہٗ فائدہ اٹھایا ہے۔ میں ذاتی طور پر کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو ایک ماہ رمضان میں بدی چھوڑنے کا عہد کرتے ہیں یا کسی ایک نیکی کو اپنانے کا عہد باندھتے ہیں اور پھر سارا سال اس پر کار بند رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر آنحضورؐ کا یہ ارشاد پورا اترتا ہے۔

اِذَاسَلِمَ الرمَضَانُ سَلِمَتِ السَّنَۃُ کہ اگر ماہ مضان سلامتی سے گزر گیا تو سمجھ لو سارا سال خیریت سے گزر گیا۔ اس مضمون کو مزید سمجھنے کے لئے لفظ ’’الوداع‘‘ پر غور ضروری ہے۔لفظ الوداع اپنی ذات میں افسردگی کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔ مگر خوشی کا پیغام بھی دے رہا ہو تا ہے۔ جیسے بچیوں کو رخصت کرتے وقت ماحول افسردہ ہو جاتا ہے۔ بچیوں کا یہ الوداع اُس وقت خوشی کا پیغام بن جاتا ہے جب وہ اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرتی ہیں اور اولاد کے ذریعہ خاندانوں میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں۔

ماں باپ اپنے بچوں کو یا بیویاں اپنے خاوندوں کو کمائی کی خاطر یا اعلی تعلیم دلوانے کی خاطر اپنے سے الگ کرتے ہیں اور بیرون ملک بھجوانے کے لئے الوداع کرتے ہیں تو یہ ماحول بھی افسر دہ ماحول ہوتا ہے مگر جب وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے گھر آتے ہیں کوئی ڈاکٹر بن کر آتا ہے کوئی انجنئیر بن کر آتا ہے یا کمائی کی خاطر گئے ہوئے لوگ جب گھر کی ضروریات کے لئے رقم بھجوانا شروع کر دیتے ہیں اور گھر میں تنگی کا ہاتھ ذرا آسان ہو جاتا ہے تو پھر افسردگی دور ہوتی ہے اور یہی افسردگی خوشی میں بدل جاتی ہے۔

بعینہ رمضان کا یہ آخری جمعہ مومنوں کے لئے افسردگی کا ماحول پیدا کر دیتا ہے۔ یہ رحمتوں، فضلوں کے دن آئے تھے۔ ہم نے تو ابھی اپنے کھیسے اور کشکول بھی نہیں بھرے اور یہ ہم سے جدا ہو رہے ہیں۔ ایک فکر لاحق ہوتی ہے۔ ایک پریشانی بڑھتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے، انعامات سے نوازتا ہے تو پھر یہی افسردگی خوشی میں بدل جاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیٹی کی رخصتی یا بیٹے و خاوند کو رخصت کر کے گھر میں باقی ماندہ افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ بعینہ رمضان کی رخصتی کے بعد مومنوں کی ذمہ داری میں اضافہ ہونا چاہئے۔

اس مضمون میں ایک اور نصیحت بھی پنہاں ہے اور وہ یہ کہ الوداع ہونے والے الوداع ہوتے وقت اپنے عزیز و اقارب کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلا خاوند جب کمائی کے لئے جارہا ہوتا ہے تو اپنے بیوی بچوں کو نصیحت کرتا ہے اور وہ اس کی نصیحت کی لاج بھی رکھتے ہیں بعینہ رمضان کا الوداع ہونے والا یہ جمعہ ہم سب کو یہ نصیحت کر رہا ہوتا ہے کہ اے مومنو! تم نے اپنی بساط کے مطابق خدا کی رحمت کو جذب کیا ہے۔ آج تم اپنے گھروں کو خالی کر آئے ہو اور مسجدوں کو بھر دیا ہے۔ دیکھنا اور ہوشیار رہنا اس کے رخصت ہو جانے سے تم بھی مساجد سے رخصت نہ ہو جانا۔ نیکیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھنا۔ بلکہ رحمت کے اس سرے کو اگلے رمضان کی رحمت کے سرے سے باندھ دینا تایہ تسلسل جاری رہے۔آنحضورؐ فرماتے ہیں کہ سردیوں کے روزے ایسا مال غنیمت ہے جو بغیر جنگ اور مشقت کے حاصل ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی) بہت ہی احسن رنگ میں آقا و مولی حضرت محمدﷺ نے مضمون کو سمجھایا ہے۔ روزے خواہ گرمیوں کے ہوں یا سردیوں کے۔ انہیں مال غنیمت قرار دیا ہے۔ گرمیوں میں یہ مال غنیمت محنت و مشقت اور ایک تکلیف کے دور سے گزر کر حاصل ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں یہ بغیر جنگ کے حاصل ہو جاتا ہے۔

مال غنیمت کیا ہے۔ وہ ایک زاد راہ ہے جو مستقبل کے کام آتا ہے۔ رمضان کی برکات، اللہ تعالیٰ کے افضال، اس کی رحمتیں، اس کی بخشش، اس کے انعامات خدا تعالیٰ کی طرف سے مال غنیمت ہے۔ اگر اس رمضان میں مال غنیمت حاصل کیا ہے اور جمعۃ الوداع سے اپنی جھولی جھاڑ کر اُٹھے ہیں تو یہ پھر مال غنیمت نہیں ہے۔ مال تو وہ ہے جو مستقبل کے کام آئے۔ مال غنیمت کا دوسرا اصول جو قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اموال غنیمت میں سے اللہ، اس کے رسول، اقرباء، یتامیٰ، مساکین اور ابن سبیل یعنی مسافروں کے لئے پانچواں حصہ ہے۔ (الانفال: 42) اموال غنیمت کو پوٹلی میں بند کر کے نہیں رکھنا بلکہ استعمال کرنا ہے۔ اپنے عزیز و اقارب، مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے لئے۔ یہی وہ سبق ہے جو رمضان ہمیں دیتا ہے۔ رمضان کے روزے ہمیں کیا سکھاتے ہیں۔ الله کا حق ادا کرنا سکھلاتے ہیں اس کے رسول کا حق، اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ اللہ کاحق کیا ہے؟ اگر رمضان نے نماز پڑھنی سکھلا دی ہے۔ قرآن پڑھنا آگیا ہے۔ اطاعت رسول کے سلیقے سیکھ لیے ہیں تو اموال غنیمت ہے۔ جس میں اللہ اور اس کے رسول کے لئے خرچ کرنا ہے یعنی ان کی ادائیگی چھوڑ نہیں دینی بلکہ پانچواں حصہ خدا کے لئے ہے۔

اور جہاں تک بے کس، مجبور و مقہور مخلوق کا تعلق ہے۔ اُن کی خدمت سے آپ رمضان میں لطف اندوز ہوئے اور اس طریق سے بھی رُکنا نہیں۔ بلکہ اسے اموال غنیمت سمجھتے ہوئے اس کا پانچواں حصہ سارا سال ہی خرچ کرتے رہنا ہے۔

ابھی رمضان کے اختتام پر عید آئے گی۔ ان شاء الله – اس عید کا ایک حق یہ ہے کہ اموال غنیمت جو ہم نے حاصل کئے ہیں ان کو مزید بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے سے کم حیثیت بھائیوں کے گھروں میں جائیں۔ ان سے عید ملیں۔ تحفے تحائف دے کر ان کی خوشیوں میں شامل ہوں۔ ضروری نہیں کہ احمدی افراد کے گھروں میں ہی جائیں۔ غیر از جماعت گھروں میں بھی جایا جا سکتا ہے۔ کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس موقع پر اموال غنیمت کو استعمال نہ کر رہا ہو۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے فراخی اور کشائش سے نواز رکھا ہے وہ مستحقین کا حق ادا کر رہا ہو۔

ان تمام کام کو جاری رکھنے کے لئے ایک عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ باقی مانده دنوں میں اللہ تعالیٰ کو اپنابنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرنے کی ضرورت ہے۔ آنسو تو محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ قبولیت کی سند ہوتے ہیں جہاں کام رک جائے۔ زبان کام نہ کرے وہاں آنسو کام آتے ہیں ایک بچے کی بلبلاہٹ اور اس کے رونے سے ماں کے پستانوں میں بھی دودھ اتر آتا ہے مومنوں کو بھی خشوع و خضوع اختیار کرنے کی تلقین قرآن میں ملتی ہے۔ اس لئے راتوں کو بیدار کریں روئیں، گڑگڑائیں، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اگر بخشش ہو گئی تو ترگئے

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ عاجزی اپنا شعار بنالو اور رونے کی عادت ڈالو کیونکہ رونا اسے بہت پسند ہے۔ اگر 40دن تک رونا نہ آئے تو سمجھو دل سخت ہو گیا ہے۔ اس لئے آنحضورؐ کی زبان میں دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ تاوہی رقت، قلق خشوع خضوع پید اہو جو آنحضورؐ کے صاف و منصفی دل میں پید اہوتا تھا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔ آج رمضان کا آخری جمعہ ہے بعض لوگ اس اہمیت کی وجہ سے آئے ہوں گے کہ رمضان کا آخری جمعہ ہے اس لئے یہاں بڑی مسجد میں آکر پڑھ لو یا بعض دفعہ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں آخری جمعہ ضرور پڑھنا ہے اس لئے پڑھ لو۔ جماعت کے افراد کو جمعہ کی اہمیت کی طرف بار بار توجہ دلائی جاتی ہے اور اب شاید تھوڑے لوگ بھی ہوں گے جو اس بارے میں لاپرواہی کرتے ہیں۔ لیکن جو بھی لا پرواہی کرتے ہیں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سننے کے بعد فکر کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ رمضان کے جمعے پڑھ لو یا رمضان کا آخری جمعہ پڑھ لو تو ثواب ہو گا بلکہ ہر جمعہ کی اہمیت بتائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (الجمعہ: 10) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

پس مومن کو، ایمان لانے کا دعوی کرنے والے کو یہ حکم ہے کہ ہر جمعہ کی نماز کا خاص اہتمام کرو اور اپنی تجارتیں، اپنے کام، اپنے کاروبار چھوڑ دو۔ سب کام چھوڑ کر، سب تجار تیں چھوڑ کر، سب دنیاوی منفعتیں اور فائدے چھوڑ کر صرف ایک چیز کی فکر کرو کہ تم نے جمعہ پڑھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم علم رکھتے ہو توتمہیں پتا ہونا چاہئے کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اسی میں برکت ہے۔ اس سے تمہارے کاروباروں میں برکت پڑے گی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا ایمان صیحح ایمان نہیں رہتا۔ اگر ایمان حقیقی ہو تو بھی انسان دنیاوی فائدے کی خاطر اپنے جمعوں کو قربان نہ کرے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر جمعوں میں وقت پر آنے اور باقاعدگی سے جمعہ میں شامل ہونے والوں کے بارے میں فرمایا کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لیتے ہیں اور اس طرح وہ آنے والوں کی فہرست تیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور ذکر الہی سننے میں لگ جاتے ہیں۔

(صیحح البخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملا نكة الخ حدیث 3211)

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰۃ باب ما جاء في التھجیر الى الجمعة حدیث 1094) یعنی پہلا دوسرا تیسرا چوتھا۔ پس وہ لوگ جو بغیر مجبوری کے عادتاً جمعوں پر دیر سے آتے ہیں انہیں بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ یہاں بھی آج تو رمضان کے جمعوں میں خاص طور پر لوگ پہلے آکر بیٹھے ہوئے ہیں، نہیں تو اکثر میں نے یہی دیکھا ہے کہ جب میں آتا ہوں تو آدھی کے قریب مسجد ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ خطبہ کے اختتام تک یا اس سے چند منٹ پہلے تک مسجد بھرتی ہے۔ پس عام دنوں میں بھی اس طرف توجہ ہونی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جون 2017ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

عید الفطر تشکر کا دن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2022