• 2 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 23)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 23

سوائے دعا کے کوئی حربہ کام نہ آیا

جب ایک مرض ہوتی ہے کہ اس میں جب تک مکیاں مارتے رہیں تو آرام رہتا ہے۔ اسی طرح فراغت میرے واسطے مرض ہے ایک دن بھی فارغ ر ہوں توبے چین ہوجاتا ہوں۔اس لئے ایک کتاب شروع کردی ہے جس کا نام حقیقت دعا رکھا ہے ایک رسالہ کی طرز پر لکھا ہے۔ دعا ایسی شئے ہے کہ جب آدمؑ کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا۔ آخر شیطان پر آدمؑ نے فتح بذریعہ دعا پائی رَبَّنَاظَلَمنَآ اَنۡفُسَنَاوَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَاوَتَرۡحَمۡنَالَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخَاسِرِیۡنَ۔ (الاعراف: 24)

اور آخر میں بھی دجال کے مارنے کے واسطے دعا ہی رکھی ہے۔گویا اول بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے۔ حالت موجودہ بھی یہی چاہتی ہے۔ تمام اسلامی طاقتیں کمزور ہیں۔ اور ان موجودہ اسلحہ سے وہ کیا کام کرسکتی ہیں۔ اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں۔ آسمانی حربہ کی ضرورت ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ227-228)

آخری زمانہ میں دعا کے ذریعہ غلبہ اور تسلط عطا ہوگا

ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کےذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے۔ ہر ایک امر کے لئے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس سے پہلے تمہیدیں ہوتی ہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکر ان کو سلطنت دلانی تھی تو چاہیئے تھا کہ ظاہری طاقت ان میں جمع ہونے لگتی۔ ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے۔ فتوحات کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا۔ مگریہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے۔ ہتھیار ان کے ایجاد نہیں۔ ملک و دولت ہے تو اوروں کے ہاتھ ہے ہمت و مردانگی ہے تو اوروں میں۔ یہ ہتھیاروں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج۔ دن بدن ذلت اور ادبار ان کے گرد ہے۔ جہاں دیکھو۔ جس میدان میں سنو انہیں کو شکست ہے۔ بھلا کیا یہی آثار ہوا کرتے ہیں اقبال کے؟ہرگز نہیں۔ یہ بھولے ہوئےہیں۔ زمینی تلوار اور ہتھیاروں سے ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بیدینی اور لامذہبی کا رنگ ایسا آیا ہے کہ قابل عذاب اور موردِ قہر ہیں۔ پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے نہ قوت بازو سے۔ یہ اس لئے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو۔ آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا… (الاعراف: 24) اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہوگی۔

(الحکم جلد7 نمبر12 صفحہ7-8 مورخہ 31مارچ 1903ء)

دعا کا میدان خدا نےبڑا وسیع رکھا ہے

دعا کا میدان خدا نے بڑا وسیع رکھا ہے اور اس کی قبولیت کا بھی اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مِنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ (الانبیاء: 97) اس امر کے اظہار کے واسطے کافی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیر پا کریں گے ورنہ اس کے سوا اور کیا معنے ہیں؟ کیا یہ قومیں دیواروں اور ٹیلوں کو کودتی اور پھاندتی پھریں گی ؟نہیں بلکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریاستوں اور سلطنتوں کو زیر پا کرلیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کرسکےگی۔

دعا کے ذریعہ فتح ہوگی۔ واقعات جس امر کی تفسیر کریں وہی تفسیر ٹھیک ہوا کرتی ہے۔ اس آیت کے معنے خداتعالیٰ نے واقعات سے بتادیئے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اگر کسی قسم کی سیفی قوت کی ضرورت ہوتی تو اب جیسے کہ بظاہر اسلامی دنیا کی امیدوں کے آخری دن ہیں۔ چاہیئے تھا کہ اہل اسلام کی سیفی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی اور اسلامی سلطنتیں تمام دنیا پرغلبہ پاتیں اور کوئی ان کے مقابل پر ٹھہر نہ سکتا۔ مگر اب تو معاملہ اس کے برخلاف نظر آتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تمہید یا عنوان کے یہ زمانہ ہے کہ ان کی فتح اور ان کا غلبہ دنیوی ہتھیاروں سے نہیں ہوسکے گا۔بلکہ ان کے واسطے آسمانی طاقت کام کرے گی جس کا ذریعہ دعا ہے۔ غرضیکہ ہم نے اس لئے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ ساٹھ یا پینسٹھ سال عمر سے گزر چکے ہیں۔ موت کا وقت مقرر نہیں۔ خدا جانے کس وقت آجاوے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے۔ ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے۔ رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے۔ لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا۔

ہم نے دیکھا کہ اب ان مسلمانوں کی حالت تو خود مورد عذاب اور شامت اعمال سے قہر الٰہی کے نزول کی محرک بنی ہوئی ہے اور خدا کی نصرت اور اس کے فضل و کرم کی جاذب مطلق نہیں رہی۔ جب تک یہ خود نہ سنوریں تب تک خوشحالی کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔اعلائے کلمۃ اللہ کا ان کو فکر نہیں ہے۔خدا کے دین کے واسطے ذرا بھی سرگرمی نہیں۔ اس لئے خدا کے آگے دست دعاپھیلانے کا قصد کرلیا ہے کہ وہ اس قوم کی اصلاح کرے اور شیطان کو ہلاک کرے تاکہ خدا کا سچا نور دنیا پر دوبارہ چمک جاوے اور راستی کی عظمت پھیلے۔

بنی اسرائیل کی کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ قوم فسق و فجور میں تباہ ہوجاتی اور اس کی توحید و جلال کو بالکل بھول جاتی تھی تو ان کے انبیاء اسی طرح جنگلوں اور الگ مکانوں میں دست بدعا ہوتے تھے اور خدا کی رحمت کے تخت کو جنبش دیا کرتے تھے۔

دنیا کو علم نہیں ہے کہ آجکل عیسائی کیا کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی کس قدر ذریت کو انہوں نے برباد کیا ہے۔ کس قدر خاندان ان کے ہاتھوں نالاں ہیں گویا دنیا کا تختہ بالکل پلٹ گیا ہے۔ اب خدا کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس کی توحید اور جلال کی ہتک ہو اور اس کے رسول کی زیادہ بیعزتی کی جاوے۔ اس کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اپنے نور کو اب روشن کرے اور سچائی اور حق کا غلبہ ہو سو اس نے مجھے بھیجا اور اب میرے دل میں تحریک پیدا کی کہ میں ایک حجرہ بیت الدعا صرف دعا کے واسطے مقرر کروں اور بذریعہ دعا کے اس فساد پر غالب آؤں تاکہ اول آخر سے مطابق ہوجاوے اور جس طرح سے پہلے آدم کو دعا ہی کے ذریعہ سے شیطان پر فتح نصیب ہوئی تھی اب آخری آدم کے مقابل پر آخری شیطان پر بھی بذریعہ دعا کے فتح ہو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ256-259 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

عید الفطر تشکر کا دن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2022