• 17 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 21)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
قبولیت دعا
قسط 21

یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے۔ خدا نے نبوت آنحضرتﷺ کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں

1۔ خدا نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا۔ سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں۔ یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہؤاغور سے سوچو!!!
2۔ ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہؤا۔
3۔ ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کو اعجاز کے طور پر دکھلایا غرض فصاحت بلاغت کا ایک الٰہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعویٰ کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے‘‘

(حجۃ اللہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ162-163)

قبولیتِ دعا

اس اقتباس میں حضرت اقدسؑ نے جن تین مشابہتوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے پہلی قبولیت دعا ہے۔ اور قبولیت دعا کو آپؑ نے نبوت کا ثبوت قرار دیا ہے۔ ہم اسی عنوان کے تحت پہلے آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کی قبولیت کے اعجازی نشانات کا ذکر کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے پیار کا اظہار اس طرح کرتا کہ آپ کے من کی مرادوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرنے سے بھی پہلے سن لیتا کیونکہ وہ تو آپؐ کے دل میں بستا تھا۔ اور آپؐ کا مدعا خدائے تعالیٰ کے مدعا سے الگ نہ ہوتا تھا۔اس عظیم الشان نبی اللہ ؐ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی جلوہ نمائی کا الگ رنگ لئے ہوئے ہے۔ بیشمار واقعات میں سے مختلف مواقع کی چند جھلکیاں پیش ہیں۔

ایک روایت میں آتا ہے مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ جب قریش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور نافرمانی کی تو آپ ؐنے ان کے خلاف یہ دعا کی۔

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَیْھِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوْسُفَ۔

(بخاری کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الدخان باب ربنا اکشف عنا العذاب۔۔۔ حدیث نمبر4822)

آپؐ نے مسلمانوں پر کفار مکہ
کے ظلم پر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی

اے اللہ ! میری مشرکین کے مقابلے پر اس طرح سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرما جس طرح تو نے یوسف کی سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرمائی تھی۔ اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا عذاب قحط سالی کی صورت میں نازل ہوا تھا مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا یہاں تک کہ ہر چیز تہس نہس ہو گئی لوگ بھوک سے عاجز آکر ہڈیاں اور مردار کھا نے لگے۔ ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی عرض کی کہ اے محمد ؐ! آپ کی قوم تو ہلاک ہو گئی ہے، اللہ سے دعا کریں وہ ان سے اس عذاب کو ٹال دے۔ آپؐ نے فرمایا تم اس کے بعد پھر نافرمانی اور سرکشی کرنے لگ جاؤ گے عذاب دور ہونے کے باوجود دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے۔ تاہم بنی نوع کی ہمدردی کی جو تڑپ آپؐ کے دل میں تھی اس کے تقاضا کے تحت آپؐ نے دشمنوں کے لئے دعا کی کہ عذاب دور ہو جائے۔ دشمن کو بھی آپ کی دعاؤں پر یقین تھا لیکن ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے جب عذاب دور کر دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اور نبیوں کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہو گئے، پس اللہ سے ہمارے لئے دعا کریں۔ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں آسمان پر ایک بھی بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا، لیکن خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپؐ نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بادل پہاڑوں کی مانند امڈ آئے، ابھی آپ منبر سے بھی نہیں اترے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک پر بارش کے قطرات دیکھے، پھر لگاتار اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی بدو کھڑا ہوا اور راوی کہتے ہیں کہ وہ بدو یا کوئی اور شخص، بہرحال جو بھی شخص کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول! اب تو مکانات گرنے لگے ہیں او رمال بہنا شروع ہو گیا ہے، پس آپؐ ہمارے لئے دعا کریں۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا اے اللہ ان بادلوں کو ہمارے ارد گر د لے جا اور ہم پر نہ برسا۔ آپؐ جس بادل کی ٹکڑی کی طرف بھی اشارہ کرتے تو وہ پھٹ جاتی اور اس بارش سے مدینہ ایک حوض کی مانند ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وادی کنات ایک مہینے تک بہتی رہی، جو شخص بھی کسی علاقے سے آتا تو اس بارش کا ذکر کرتا تھا۔

(بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء فی الخطبۃیوم الجمعۃ حدیث نمبر933)

قوم پر قحط نازل کرنا

اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے اپنا خاص سلوک دکھانے کے لئے ایسے حالات پیدا فرماتا ہے کہ فہمیدہ لوگوں کو خدائے قادر کا وجود نظر آئے حتّیٰ کہ کم فہم لوگ بھی اعجازی نشانوں کے گواہ ہوں اور ہدایت حاصل کریں

اللہ تعالیٰ قادر ہےچاہے تو قحط ہی نہ پڑے۔

قحط پڑجائے تو صرف نبی اکرم ﷺ کی دعا سے بارش ہو

بارش ہو تو صرف اتنی جس قدر ضرورت ہو

اس وقت تک ہوتی ر ہے جب تک دوبارہ دعا ہو

اور پھر قحط زدہ علاقے میں نہ ہو ارد گرد ہوتی رہے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے نبی کی دعاؤں کی قبولیت کے اعجاز دکھا کر مومنوں کے ایمان مضبوط کرتا ہے۔۔ ابتلا اور امتحان بھی اسی لئے آتے ہیں وہ سمیع اور مجیب خدا بندے کی پکار پر انہیں ٹال کر اپنے جلوے دکھاتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اپنے خادم انس کے لئے دعا کریں۔ آپؐ نے دعا کی اے اللہ! اس کے اموال اور اس کی اولاد میں برکت ڈال دے اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈال۔

(بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبیﷺ لخادمہ بطول العمر و بکثرۃ المال حدیث نمبر6344)

چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ
حضرت انس کا ایک باغ تھا، اس دعا کے بعد سال میں دو دفعہ پھل دیتا تھا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے لئے کثرت مال اور اولاد کی جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجہ میں حضرت انس کی زندگی میں 80 کے قریب آپ کے بیٹے اور پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں اور آپ نے 103 یا بعض روایتوں میں آتا ہے کہ 110سال تک عمر پائی۔

(اسد الغابۃجلد اوّل زیر اسم انس بن مالک بن النضر صفحہ178، مطبع دارالفکر بیروت 1993ء)

ایک اور روایت میں آپؐ کی دشمن کے لئے بددعا اور اس کی قبولیت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا۔ مکہ کے ایک کنارے پر اونٹ ذبح کئے گئے تھے، انہوں نے بھیجا اور وہ اونٹ کی اوجڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لا کر رکھ دیا۔ حضرت فاطمہ آئیں اور اسے آپؐ کے اوپر سے اٹھایا۔ اس پر آپ نے فریاد کی اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بددعا ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابو مُعیط وغیرہ کے متعلق تھی۔ عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے میدان میں مقتولین میں دیکھا۔

(بخاری کتاب الجہاد و السیر باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ والزلزلۃ حدیث نمبر 2934)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اپنی قبولیت دعا کے لئے بطور نمونہ پنڈت لیکھرام والی پیش گوئی کا ذکر فرمایا ہے۔ اس مضمون میں آپ ؑ کے ہزارہا نشانات میں سے اسی نشان کا ذکر شامل ہے

پنڈت لیکھرام صوابی ضلع پشاور میں ایک ہندو آریہ پولیس کے محکمہ میں ملازم تھا۔ یہ شخص اسلام کا سخت دشمن تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا۔ اس کی زبان بہت گندی تھی۔اسلام کا دشمن تھا ہروقت اعتراض کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کو مکّار کہا کرتا تھا۔

1885ء میں قادیان آیا۔ لیکن حضرت اقدس ؑ سے ملا نہیں بس فضول خط وکتابت کے ذریعہ ہی باتیں بناتا رہا۔ چند روز قادیان ٹھہر کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے حضرت اقدسؑ کو ایک خط لکھا جس کے آخر پر لکھا: ’’اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں۔ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تو مانگیں‘‘۔ اس فقرہ سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ شخص کس قدر بےباک شوخ اور گستاخ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا۔ آپ یقینا ًسمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار اور نہ نشان دکھانے سے۔ مگر آپ سیدھی نیّت سے طلب حق نہیں کرتے۔ بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں۔ یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں …نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے‘‘

اور اس کے بعد 20فروری 1886ء تک آسمانی نشان دکھلانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن لیکھرام یہ لکھ کر قادیان سے چلا گیا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں اور میرے حق میں جو چاہو شائع کرو۔ میری طرف سے اجازت ہے میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں۔

حضرت اقدس ؑ نے ایک کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ لکھی۔ اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فارسی میں ایک نظم لکھی۔ جس میں بڑے جلال سے اس شخص کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند اشعار کہے

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ
رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم
بجو در آل و اعوانِ محمدؐ
الا اے منکر از شانِ محمدؐ
ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بِنگرزِ غلمانِ محمدؐ

ترجمہ:

  1. خبردار اے احمق اور گمراہ دشمن! توڈر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیز تلوار سے
  2. مولیٰ کی راہوں سے مخلوق خدابھٹک چکی ہے اوراب تو اگر چاہے کہ تجھے سیدھا راستہ نصیب ہو تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی آل اولاد اور اس کے مددگاروں کے پاس پہنچ۔
  3. اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان سے انکاری۔ خبردار ہوجا۔ تو اگر نورِ محمدؐ دیکھنا چاہے تو آ ہم تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نور دکھاتے ہیں۔
  4. معجزات کا یوں تو آج نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ مگر توا گر کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہے تو محمدؐ کے غلاموں اور خدمتگاروں کے پاس آکر دیکھ لے۔

اس کی شوخی اور شرارت حد سے زیادہ ہو گئی، تو 20فروری 1893ء کو حضرت اقدس ؐ نے اس کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا۔ حضرت اقدس ؐ نے تحریر فرمایا:
اس شخص کے بارہ میں مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ بے جان بچھڑا ہے اس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی وجہ سے اسے سزا ملے گی۔ اور اسے عذاب دیا جائے گا۔ اگر چھ برس کے اندر اندر اس پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو عام تکلیفوں جیسا ہی ہوا اور اس نشان کے اندر خدائی رعب اور ہیبت نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور مَیں اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں گا چاہے مجھے سولی پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے۔ اس شریر کی بدزبانیاں اور بے ادبیاں ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر (مومن) کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ خاص اسی مطلب کے لیے دُعا کی گئی تو خدا نے مجھے اس کا یہ جواب دیا ہے۔

اس کے ڈیڑھ ماہ بعد2 اپریل 1893ء کو آپ نے ایک اور اشتہار دیا جس میں آپ نے لکھا

رؤیا میں دیکھا کہ ایک بڑا طاقتور اور خوفناک شکل والا شخص ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاوہ انسان نہیں بلکہ بڑا سخت فرشتہ ہے۔ اُس نے پوچھا لیکھرام کہاں ہے تو پھر اس وقت حضور نے یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جسے لیکھرام کی سزا کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

اس اشتہار کی پیشگوئی سے معلوم ہوا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضور نے ایک اور پیشگوئی فرمائی کہ جس دن لیکھرام کی موت ہوگی وہ عید کے ساتھ والادن ہوگا۔

یہ تین پیشگوئیاں ہوگئیں۔

اوّل یہ کہ یہ شخص چھری سے قتل ہوگا۔

دوسری یہ کہ وہ دن عید کے ساتھ والادن ہوگا۔

اور تیسری یہ کہ چھ سال کے اندر مارا جائے گا۔

اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ حضرت اقدسؑ کے ایک الہام کے الفاظ ہیں:۔ ’’یُقْضٰی اَمْرُ ہٗ فِیْ سِتٍّ‘‘۔ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا۔

اس الہام میں چھ کا ہندسہ اس واقعہ سے کیسا عجیب تعلق رکھتا ہے۔ سو بالکل اسی طرح ہوا یعنی یہ شخص چھ سال کے اندراندر مارا گیا۔ اس کے قتل کادن چھ مارچ 1897ء تھا یہ چھٹے گھنٹے میں قتل ہوا۔ یہ دن مسلمانوں کی عید کا اگلا دن تھا۔ اور آریوں کے لیے بھی یہ دن عید کاہی دن تھا کیونکہ اس دن ایک مسلمان نے ہندو مذہب قبول کرنا تھا۔

لیکھرام کے پاس ایک شخص آیا۔ اور کہا جناب میں مسلمان ہوں اب ہندو بننا چاہتا ہوں یہ سن کر لیکھرام بے حد خوش ہؤا۔ اسے اپنی جیت اور متح کا نشان سمجھا سب کو بتاتا کہ یہ ہمارا پہلا شکار ہے اسے ہندو بنانے کے لئے سات مارچ 1897ء کا دن مقرر ہوا۔ بڑی دھوم دھام سے اس کا انتظام کیا جارہا تھا۔ اور ہندؤوں کے لیے تو گویا یہ عید کا دن تھا۔

6 مارچ کو ہفتہ کا دن تھا کہ لیکھرام نے قمیض اتاری ہوئی تھی اور اپنے کمرہ میں بیٹھا تھا۔ پاس ہی وہ شخص کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ کہ لیکھرام نے انگڑائی لی۔ اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس شخص نے پورا خنجر لیکھرام کے پیٹ میں اتار دیا اور یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں اور منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے کہ بیل نکالتا ہے جسے سن کر اس کی بیوی اور ماں بھاگی ہوئی کمرہ میں آگئیں۔ اب وہاں کیا رکھاتھا۔ وہ شخص بھاگ چکا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دروازہ تک دوڑی گئیں۔ سنا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ انہوں نے قاتل کو سیڑھیوں پر سے اترتے دیکھا ہے۔ لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کیونکہ وہ گلی ایک طرف سے بالکل بند تھی اور اس طرف سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور دوسری طرف جو کھلی تھی اس طرف کسی کی شادی تھی۔ اور وہاں خوب کھانے وغیرہ پک رہے تھے اور لوگ بیٹھے تھے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں تو اب بتاؤ وہ شخص گیا تو کہاں گیا؟ ہندؤوں کا محلہ۔ بھاگنے کو راستہ نہیں۔ کسی ہندو کے مکان میں چھپنے کی جگہ نہیں تو پھر آخر وہ مسلمان جا کہاں سکتا تھا۔ ہندؤوں نے بڑا شور مچایا اور لاہور میں مسلمان اداروں کی تلاشیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ قادیان میں حضرت صاحب کے مکان تک کی تلاشی ہوئی۔ انگریز سپرنٹنڈنٹ پولیس نے خود تلاشی لی۔ حضرت صاحب نے اسے سب کاغذات دکھائے۔ معاہدہ کا وہ کاغذ بھی دکھایا کہ جس میں دونوں فریقوں نے رضا مندی سے سچی پیشگوئی کو سچائی کا معیار ٹھہرایا تھا۔ وہاں سے جانے کے بعد کپتان پولیس نے گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوائی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں اور کوئی سازش نہیں ہوئی اور سارا پراپیگنڈا بالکل غلط ہے

لیکھرام کو فورًامیوہسپتال پہنچایا گیا۔ شام کا وقت ہو چکا تھا ایک انگریز ڈاکٹر نے اس کا آپریشن کرکے ٹانکے لگائے۔ چو نکہ اس کی حالت بہت نازک ہوچکی تھی اس لیے ڈاکٹرنے پولیس کو بیان لینے سے بھی روک دیا۔ صبح ہوتے ہی پنڈت لیکھرام وفات پاگیا

اس دن جبکہ ہندؤوں کے لیے عیدکا دن تھا۔ ایک مسلمان نے ہندو بننا تھا وہی ان کے لیے ماتم کا دن بن گیا۔ اسی دن لیکھرام کی لاش ڈاکٹروں نے چیری بھی اور پھاڑی بھی۔ اسی دن پھر اس کا جنازہ اُٹھایا گیا اور اسی دن اُسے جلایا بھی گیا اور بے شمارہندو مرگھٹ تک سا تھ گئے۔ جہاں لیکھرام کا فوٹو لیا گیااوراس کے بعد اُسے لکٹریوں کی ایک بہت بڑی چتا پر رکھ کر جلا دیا گیا اور پھر اس کی راکھ دریائے راوی میں بہادی گئی اور خدا کا الہام پُورا ہؤا اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ پُورا ہوا۔

جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دِل دُکھانا
گُستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ48)

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ