• 18 مئی, 2024

شوال کے روزے

جو انسان اللہ کی راہ میں مالی قربانی کرے گا اس کو سات سو گنا اور جس کے لئے خدا چاہے گا اس کے لئے سات سو گنا سے بھی بڑھ کر اس کو اس کا اجر دے گا۔جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (البقرہ: 262) ترجمہ: ان لوگوں کى مثال جو اپنے مال اللہ کى راہ مىں خرچ کرتے ہىں اىسے بىج کى طرح ہے جو سات بالىں اُگاتا ہو ہر بالى مىں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھى) بہت بڑھا کر دىتا ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔

جبکہ عمومی طور پر باقی نیکیوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ ہیں ان کے بارہ میں فرمایا مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا ۚ وَمَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا وَہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ (الانعام: 161) جو نىکى کرے تو اس کے لئے اس کا دس گنا اجر ہے اور جو بدى کرے تو اُسے اُس کے برابر ہى جزا دى جائے گى اور وہ ظلم نہىں کئے جائىں گے۔

آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ‘‘إِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ’’ (بخاری کتاب الایمان، بَابٌ: الدِّينُ يُسْرٌ) دین تو آسانی کا نام ہے۔ تو جس طرح بھی کوئی نیکی کرنا چاہتا ہے جس طرح بھی وہ کوئی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے جس طرح بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو پانا چاہتا ہے وہ اس کے لیے دروازے کھلے ہیں لیکن ایک سب سے خوبصورت اور پیارا انداز یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سوچھتا ہے کہ اس طریق کو اپناوٴں جو میرے آقا مولا کا طریق ہے۔ آنحضور ﷺ کا طریق تو یہی تھا کہ حضورؐ مسلسل یہ چھ روزے رکھتے تھے۔ اس میں ایک ذوقی نقطہ بھی ہے کہ جب ہر نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا اور جو انسان رمضان کے 30 روزے رکھے گا گویا اس نے 300 دن کے روزے رکھ لیے۔جب آپ مزید 6روزے رکھیں گے تو تقریباً پورا سال خدا کے حضور روزہ میں گزارے۔

شوال کے روزوں کی بابت کتب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتؐ دو شوال سے مسلسل چھ روزے رکھا کرتے تھے، اس پر خلفاء اور صحابہ کا عمل ہے۔ گو آپؐ کی سنت یہی تھی کہ آپؐ بلا ناغہ یہ روزے رکھا کرتے تھے۔ لیکن مجبوری کے باعث شوال کے دوسرے دنوں میں بھی ان کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص شوال کے چھ روزے نہ رکھ سکے تو یہ کوئی گناہ کی بات نہیں اور اگر وہ شوال کے دیگر ایام میں نفلی روزے رکھنا چاہتا ہے تو بیشک رکھ لے، نوافل کی ادائیگی میں کیا روک ہے!

چنانچہ آنحضور ﷺنے فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور ’’ثم أتبع‘‘ پھر اس کی پیروی میں شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں ‘‘عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:۔ ’’جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزے رکھے۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستۃایام من شوال)

اسی طرح آپﷺ فرماتے ہیں: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَشَهْرٌ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَصِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَ الفِطْرِ فَذَالِكَ تَمَامُ صِيَامِ السَّنَةِ جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک مہینہ کا روزہ دس مہینوں کے برابر ہوا، اور پھر عید الفطر کے بعد کے چھ روزے ملا کر سال بھر کے روزوں کے برابر ہوئے۔

(مسند أحمد، کتاب باقي مسند الأنصار، باب و من حديث ثوبان)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ خَرَجَ مِنْ ذَنُوْبِہِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہُ: جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہو گیا جیسے اپنی پیدائش کے دن تھا۔

(المعجم الاوسط، باب من اسمه مسعود، الجزء8، صفحہ275 حدیث نمبر 8622)

حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ، مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا‘‘ جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لئے۔ جو ایک نیکی کرتا ہے اسے دس گنا ثواب ملتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب صیام ستۃ ایام من شوال)

حضرت اسامہ بن زیدؓ حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے تھے تو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: صُمْ شَوَّالًا: شوال میں روزے رکھو۔

(سنن ابن ماجه، كتاب الصيام، باب صیام الشہر الحرم)

ماہ شوال میں روزے رکھنے سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودؓ نے بھی اپنےنمونہ سے یہ ثابت کیا بلکہ خود باہتمام اس پر عمل کر کے دکھلایا۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓصاحب ایم اے حضرت اماں جان ؓسے حضرت مسیح موعودؑ کے روزوں کی بابت ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ’’والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کر تے تھے خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی، جلد1 صفحہ14 روایت نمبر 18)

فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ شوال کے مسلسل چھ روزے رکھنا افضلیت رکھتا ہے البتہ اگر کوئی شخص شوال کے مہینہ میں متفرق ایام میں یہ چھ روزے رکھ لے تو اسے بھی سارے سال کے روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماہ شوال میں روزوں کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’آنحضرتﷺ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپؑ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کے بھی رکھ سکتے ہیں۔

(الفضل 8جون 1922ء صفحہ7 بحوالہ: خطبات محمود جلد1 صفحہ71)

ایک طفل نے سوال کیا کہ ’’شوال کے جو چھ روزے رکھے جاتے ہیں کیا وہ شوال کے مہینے میں کسی بھی وقت رکھے جاسکتے ہیں یا ان کے کوئی دن مقرر ہوتے ہیں؟ جواباً حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نےفرمایا:۔ ‘‘ان کے دن مقرر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ عید کے بعد وہ روزے شروع کردیتے تھے اور چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ اس لئے وہی دن ٹھیک ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے ہوئے ہیں۔‘‘

(اطفال سے ملاقات، ریکارڈ مؤرخہ 19جنوری 2000ء بحوالہ الفضل ربوہ مؤرخہ 21؍اپریل 2000ء۔صفحہ نمبر 3)

ایک بچی نے سوال کیا شوال کے روزے کن دنوں میں رکھنے چاہئیں؟ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:رمضان کے بعد مہینہ آتا ہے اس کا نام شوال ہے۔ اس مہینے میں تم رکھ سکتی ہو….. یکم شوال کو عید ہے تو دو سے روزے رکھنا ضروری نہیں ہے……. لگاتار چھ بھی رکھ سکتی ہو اور اس پورے مہینہ میں چھہ بھی رکھ سکتی ہو۔ ضروری نہیں ہے لگاتار چھ رکھنے۔ یہ ضروری ہے کہ شوال کے مہینے میں رکھنے ہیں…… فرمایا: شوال کے روزے شوال کے مہینے میں ہی رکھنے چاہئیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ لگاتار رکھو اگر تمہارے روزے رمضان میں چھوٹ جاتے ہیں، پورے نہیں رکھ سکتے تو شوال کے مہینے میں شوال کے روزے رکھ لو اور جو رمضان کے چھٹے ہوئے روزے ہیں وہ باقی سال کے کسی دوسرے حصے میں پورے کر لو۔ ضروری نہیں ہے کہ پہلے رمضان کے روزے پورے کرنے ہیں پھر وہ پورے کرنے ہیں۔ رمضان کے روزے، شوال کے بعد بھی پورے ہو سکتے ہیں۔

(گلشن وقف نولجنہ وناصرات 30مارچ 2013، سپین۔بحوالہ الفضل آن لائن ایڈیشن مؤرخہ 21مئی 2020ء۔صفحہ نمبر2)

شوّال کے چھ روزے

:۔دارالافتاء کی رپورٹ اور اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا فیصلہ:۔

کیا شوال کے روزے لگاتار رکھنے ضروری ہیں؟ یا اُن میں وقفہ بھی ڈالا جاسکتا ہے؟ نیز اگر کسی شخص کے ماہ رمضان کے چند روزے رہ گئے ہوں تو عید الفطر کے بعد کیا وہ ماہ شوال کے پہلے ہفتہ کے چھ نفلی روزے رکھ سکتا ہے۔ یا اُسے پہلے رمضان کے رہ جانے والے روزے پورے کرنے چاہئیں؟ اس قسم کے استفسارات کے جواب پر مبنی ایک مفصل رپورٹ دارالافتاء سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے حضرت أمیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کی گئی تھی۔ اُس رپورٹ کا خلاصہ اور اُس پر حضور انور ایدہ اللہ کا فیصلہ الفضل میں بھی شائع ہوا تھا۔ اُسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

’’حضرت ابو ایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔ ’’جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد (عید کا دن چھوڑ کر) شوال کے چھ روزے رکھے اس کو اتنا ثواب ملتا ہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستۃایام من شوال)

شوّال کے یہ روزے نفلی روزے ہیں۔ نفل وہ زائد عبادت ہے جو بندہ خوشی سے اپنے مولیٰ کو راضی کرنے کے لیے بجالاتا ہے۔نفلی روزوں کا بھی ثواب ہے جیسا کہ مذکوہ بالا حدیث سے ظاہر ہے۔

حساب کی زبان میں اس کا سرّ یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرماتا ہے اور رمضان کے قریباً تیس روزوں کے ساتھ شوّال کے چھ روزے شامل کئے جائیں تو 36روزوں کا ثواب 360دنوں کے برابر بنتا ہے جو قریباً ایک سال کا عرصہ ہے۔

لیکن اصل حکمت رمضان کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں کی تاکید میں نیکی کا تسلسل ہے اور اس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اور اس کی عبادات صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سارے سال پر پھیل جائیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ذیل میں پیش ہے جو آپؓ نے خطبہ عید الفطر 29مئی 1922ء کو قادیان میں ارشاد فرمایا: جس میں شوال کے روزے رکھنے پر زور دیا گیا ہے اسی طرح اس میں یہ ذکر ہے کہ جو شوال کے مہینہ میں وقفہ ڈال کر بھی چھ روزے رکھ سکتا ہے۔ آپؓ نے خطبہ عیدالفطر میں فرمایا:
’’رمضان ختم ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینہ میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب ؑ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام مراد ہیں۔ناقل) نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں وہ ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں، اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔‘‘

(خطبہ عید الفطر 29مئی 1922ء قادیان۔ خطبات محمود جلد اوّل صفحہ71۔مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن)

اس سلسلہ میں ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ: ’’ا گر کسی شخص کے ماہ رمضان کے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ شوّال کے چھ روزے رکھ لے تو کیا شوّال کے چھ روزے رمضان کے روزے شمار ہوں گے؟ اس کا جواب جو حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب (مرحوم) مفتی سلسلہ احمدیہ عالیہ احمدیہ نے 28ستمبر 1977ء کو دیا وہ درج ذیل ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’اس کا تعلق نیت سے ہے۔ اگر نیت یہ ہے کہ یہ روزہ رمضان کے روزہ کی قضاء کا ہے تو ایسا ہی محسوب ہو گا اور نفل کی نیت ہے تو نفل روزہ ہوگا۔ اس صورت میں رہے ہوئے روزے بعد میں رکھے گا۔‘‘

(رجسٹرفتاویٰ نمبر7 صفحہ267 زیر نمبر70/28.09.77)

یہ بھی واضح ہو کہ کوئی ایسی حدیث نہیں مل سکی جس میں یہ ذکر ہو کہ جس شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھٹ گئے ہوں، وہ جب تک وہ رمضان کے بعد اپنے چھٹے ہوئے فرض روزے پورے نہ کرلے اس وقت تک اسے نفلی روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے برعکس احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین رمضان کے چھٹے ہوئے روزے اگلا رمضان آنے سے پہلے ماہ شعبان میں رکھا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: ’’ماہ رمضان کے رہ جانے والے روزے میں اگلا رمضان آنے سے پہلے ماہ شعبان میں رکھا کرتی تھی۔‘‘

(بخاری کتاب الصوم باب متی یقضی قضاء الرمضان)

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت درج ہے کہ: ’’امہات المؤمنین ؓ رمضان کے چھٹ جانے والے روزے ماہ شعبان میں رکھا کرتی تھیں۔‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب قضاء رمضان فی شعبان)

چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ ’’اگر کسی شخص کے ماہ رمضان کے چند روزے رہ گئے ہوں تو عید الفطر کے بعد کیا وہ ماہ شوال کے پہلے ہفتہ کے چھ نفلی روزے رکھ سکتا ہے۔ یا اسے پہلے رمضان کے رہ جانے والے روزے پورے کرنے چاہئیں؟‘‘ مکرم مبشر احمد صاحب کاہلوں مفتی سلسلہ احمدیہ نے مذکورہ امور کی بنا پر زیر ریفرنس09.11.03 /42 حسب ذیل فتویٰ دیا:۔
’’ماہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی تعداد پوری کرنے کیلئے اگلے رمضان تک کی مہلت موجود ہے۔ اس لئے یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو ماہ شوال کے ابتدائی چھ ایام کے نفلی روزے رکھے اور پھر دوران سال جب چاہے روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اور چاہے تو ماہ شوال کے ابتدائی چھ ایام کے نفلی روزوں کی بجائے ان ایام میں اپنے فرض روزے پورے کرے۔ اس کا دارومدار انسان کی نیت پر ہے۔ شریعت میں مجھے ایسی کسی پابندی کا ثبوت نہیں مل سکا کہ پہلے فرض روزے پورے کئے جائیں اور پھر نفلی روزے رکھے جائیں۔‘‘

دارالافتاء سلسلہ احمدیہ کا یہ فتویٰ اور اس سلسلہ میں ان کے دلائل (جن میں سے بعض کا مختصر ذکر اُوپر کیا گیا ہے) پر مشتمل رپورٹ جب سیدنا حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہوئی تو حضور انورایدہ اللہ نے مکرم مفتی صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ کے نام اپنے خط محررہ 08-02-05 میں تحریر فرمایا:
’’آپ کا خط 124-L|20-12-04 ملا۔شوّال کے چھ روزوں کے متعلق آپ کا فتویٰ ٹھیک ہے۔ اور مجھے اس سے اتفاق ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد سے جو آپ نے نتیجہ اخد کیا ہے وہی ٹھیک ہے۔ آپ کا ارشاد شوال کے روزوں پر زور دینے کے لئے ہے نہ کہ فرض روزوں کے پورے کرنے کی اہمیت کے بارہ میں۔ محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب کے فتویٰ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شوال کے روزے پہلے رکھے جاسکتے ہیں اور فرض روزے بعد میں۔ اس ضمن میں احادیث بھی واضح ہیں۔ ان کی روشنی میں فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 11نومبر تا 17نومبر 2005ء۔صفحہ نمبر 2۔زیر عنوان شوّال کے چھ روزے)

پس مومنین کےلیے اللہ تعالیٰ کی رحمت نے بے انتہا ایسے ذرائع مہیا کیے ہیں جن سے اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ان میں سے فرائض کے بعد نوافل کا درجہ ہے۔ جیسا کہ رسولﷺ نے بھی فرمایا کہ

إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمُ الصَّلَاةُ قَالَ: ’’يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا؟ فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ، قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُمْ‘‘

(سنن أبو داؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ۔أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ۔بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُتِمُّهَا صَاحِبُهَا تُتَمُّ مِنْ تَطَوُّعِهِ)

قیامت والے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا، اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائےگا، جبکہ وہ سب کچھ جانتا ہے کہ میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے؟ اگر تو مکمل ہونگی تومکمل لکھی جائے گی۔ اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تواللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کے نوافل دیکھو؟ اگر تواس کے نوافل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے۔

پس ہم پر یہ خدا تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ اس نے ہمیں رسولﷺ کی اتباع میں مسیح محمدی کو ماننے کی توفیق بخشی جس نے ہماری ہر ایک امر میں انتہائی رہنمائی فرمائی۔ نہ صرف فرائض بلکہ نفلی عبادتوں کی بابت بھی از بس تلقین کی۔ اسی طرح ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی افراد جماعت کو اس کی ترغیب دلائی ہے۔پس مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں احباب کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ شوال کے نفلی روزوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دیں اور آنحضرتﷺ کی اس پاکیزہ سنّت کو جاری رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ قرب اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کی خاص طور پر سعی فرمائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔ آمین

(رحمت اللہ بندیشہ۔استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ