• 29 اپریل, 2024

وہ تصویر کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر تنزانیہ کے ایک شخص محمد علی صاحب ہیں، انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک سفید رنگ کے بزرگ نے انہیں نماز پڑھائی اور اُن کے پیچھے نماز پڑھ کر روحانی تسکین ملی۔ اُن کے چند دن بعد وہ موروگورو ہماری مسجد میں آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مجھے خواب میں نماز پڑھائی تھی۔ چنانچہ اُسی وقت بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد اُن کو بڑی سختیاں جھیلنی پڑیں۔ اور اُن کے والدنے اُن کو جائداد سے محروم کر دیاچھوٹا سا زمیندارہ تھا اُس سے نکال دیا۔ یہ سختیاں صرف پاکستان میں یا اور بعض جگہوں پر نہیں ہیں، بعض دفعہ افریقہ میں بھی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ بہرحال یہ دوسرے علاقے میں آ گئے۔ باپ نے جو زمین چھینی تھی یا اُس سے جو مل سکتی تھی وہ تو ایک ایکڑ زمین تھی اللہ تعالیٰ نے اُس کے بدلے میں اُن کو چھ ایکڑ زمین عطا فرمائی اور اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کرنے والے ہو گئے اور تبلیغ میں بڑے آگے بڑھنے والے ہیں۔ اب تک ان کی تبلیغ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اُس ماحول میں چھ جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ یہ ایک واقعہ 2003ء کا برکینا فاسو کا ہے، ایک گاؤں تولتامہ کے نوجوان کابورے موسیٰ صاحب نے اپنی قبولِ احمدیت کے وقت (ہمارے اُس وقت کے مبلغ کو) یہ خواب سنائی کہ اُن کے والد صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں اُنہیں بُلا کر تاکید کی کہ اگر تم امام مہدی کی خبر سنو تو ٹال مٹول سے کام نہ لینا، سنجیدگی سے تحقیق کر کے قبول کر لینا۔ اس نصیحت کے بعد جلد ہی والد صاحب وفات پا گئے۔ میں نے بہت سوچ بچار شروع کر دی اور کثرت سے نوافل ادا کر کے دعا کی کہ خدا مجھے سچائی دکھا دے۔ ایک روز میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں شہر کی طرف گیا ہوں تو دیکھا کہ سب لوگ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، خون بہَ رہے ہیں۔ میں نے ایک آدمی سے پوچھا کیوں لڑ رہے ہو؟ وہ میری طرف مُڑا اور دوسروں کو آواز دے کر کہنے لگا کہ دیکھو اس کو کسی نے نہیں مارا، اِسے بھی مارو۔ مجمع میری طرف بڑھا۔ قریب تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر مارتے کہ ایک بزرگ شخص نے مجھے بچے کی طرح اُٹھا لیا اور مجمع سے اُٹھاکر خطرہ سے دور لے گئے اور ایسی کھلی کشادہ سڑک پر مجھے رکھ دیا جو دور تک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں سڑک پر چلنے لگا۔ کچھ دور ایک مسجدنظر آئی اور میں اس میں داخل ہو گیا۔ اندر دیگر نمازیوں کے علاوہ عربی تبلیغ کر رہے تھے۔ اس رؤیا کے بعد جب وہ وہاں بوبوجلاسو کے ہمارے مشن ہاؤس آئے، وہاں سفید مسجد بھی دیکھی اور نمازیوں کو بھی دیکھا۔ دو پاکستانی بھی دیکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جب تصویر اُنہیں دکھائی گئی تو نہایت جوش سے کہنے لگے کہ خدا کی قسم یہی وہ بزرگ ہیں جو مجھے خطرہ کے وقت مجمع سے بچا کر لے گئے تھے۔ چونکہ یہ وہاں کے امام تھے اِن کے بیعت کرنے کی وجہ سے گاؤں میں کافی تعداد میں افرادنے احمدیت قبول کی۔

پھر سینیگال کے علاقہ کاسا مانس میں ایک پیر صاحب نے بیعت کی ہے۔ اُن کے ماننے والے 132 مقامات پر ہیں۔ اِن پیر صاحب کی قبولیتِ احمدیت ایک خواب کی بنا پر ہے۔ اُنہوں نے جامعہ مسجد میں قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی اور بتایا کہ میں نے مندرجہ ذیل خواب دیکھا ہے اور اس خواب کو دیکھے کافی سال ہو گئے ہیں لیکن میں اس خواب کے مصداق حضرت امام مہدی علیہ السلام کا متلاشی تھا جو اب مجھے خدا کے فضل سے مل گئے۔ وہ خواب اس طرح سے ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ زمین پر گرا پڑا ہے۔ سارے اولیاء اور بزرگ مل کر اُس کلمہ کو اوپر بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر نہیں کر سکے۔ اتنے میں ایک بزرگ تشریف لائے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ اِن کا نام محمد المہدی ہے۔ انہوں نے آ کر اکیلے ہی اس کلمے کو بلند کر دیا۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جب وہ اُن کے علاقہ میں دورے پر گئے تو اُن کے گھر بھی گئے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک بینر لگایا ہوا ہے جس پر لکھا تھا: اَیُّھَا سُّکَّانُ البلد اِسْمَعُوْا جَآءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح اِسْمَعُوْا حَضْرَۃَ الْمیْرزا غلام احمد القادیانی علیہ السلام ھُوَ الْمَسِیْح اَلْمَہْدِی۔ تو اللہ تعالیٰ دور دراز علاقوں میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت لوگوں پر ظاہر کر رہا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جن کے ذریعے سے اس وقت کلمہ کی حقیقت دنیا پر واضح ہو رہی ہے۔ نہیں تو آج کل کے علماء جو ہیں اُنہوں نے تو اسلام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔

پھر الجزائر کے ایک دوست عبداللہ فاتح صاحب مشن ہاؤس آئے اور سوال جواب کی مجلس میں شامل ہوئے۔ مجلس کے اختتام پر انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ’’خطبہ الہامیہ‘‘ اور ’’الہدیٰ‘‘ مطالعہ کے لئے دی گئیں۔ مطالعہ کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ یہ تحریر کسی جھوٹے کی نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ ایک کپڑے کو سر پر پگڑی کی طرح لپیٹا اور کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو خواب میں دیکھا جس کا چہرہ انتہائی پُرنور تھا اور اُس نے اپنے سر پر اس طرح سے کپڑا باندھا ہوا تھا۔ تب اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی مگر یہ نہ بتایا گیا کہ یہ کون ہیں۔ وہ تصویر کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا ہے اور پھر بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔

پھر فِن لینڈ کے ایک عرب تھے۔ کہتے ہیں تین سال قبل میرے والد بزرگوار فوت ہوئے۔ اُن کی وفات سے چند ماہ بعد میں نے درج ذیل خواب دیکھا کہ میرے والد قبر میں سوئے پڑے ہیں۔ یہ قبر اُٹھتی ہے اور اُس کے اندر سے ایک اور بزرگ نہایت باوقار، پُر نور جبہ پہنے ہوئے نکلتے ہیں۔ اُن کی ریشِ مبارک سیاہ ہے۔ چہرہ نہایت منور اور خیرو برکت کا عکاس ہے۔ اُن کے سینے پر نام بھی لکھا تھا جو میں صحیح طرح یادنہ رکھ سکا۔ یہ بزرگ قبر سے نکلتے ہیں اور میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر مجھے قبر کی دوسری جانب لے جا رہے ہیں۔ مَیں اُن کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہوں اور والد کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں خواب کے چھ ماہ بعد میں ڈِش کا چینل ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک ایم۔ ٹی۔ اے۔ آ گیا اور اُس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حلمی صاحب تھے۔ کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک بزرگ کی تصویر نکال کر اپنے پروگرام میں دکھائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ تو کہتے ہیں جب تصویر میں نے دیکھی تو میں پہچان گیا کہ جس بزرگ کو میں نے خواب میں دیکھا تھا یہ وہی تھے۔

سینیگال کے ایک احمدی ہیں، انہوں نے خواب میں آسمان پر دو بزرگوں کی تصویر دیکھی لیکن یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کونسی ہے؟ اُن کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ایک تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور ایک حضرت امام مہدی علیہ السلام کی۔ پھر ایک تصویر غائب ہو جاتی ہے اور دوسری بالکل قریب آ جاتی ہے۔ یہ قریب آنے والی شکل کہتی ہے کہ امام مہدی مَیں ہوں۔ اس خواب کو دیکھنے کے بعد عمرباہ صاحب (یہ سینیگال کے تھے)، اِن کو یقین ہو گیا کہ امام مہدی آ گئے ہیں۔ چنانچہ مبلغ لکھتے ہیں وہاں جب ہمارا وفد تبلیغ کے دوران اِن کے پاس پہنچا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اُنہیں دکھائی تو انہوں نے کہا کہ بالکل یہی تصویر تھی جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی۔ اُس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔

شام کے ایک دوست ہیں، جب اِن کا احمدیت سے تعارف ہوا تو تحقیق شروع کی۔ ابتدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی تمام عربی کتب پڑھ لیں اور بہت فائدہ اُٹھایا۔ آپؑ کے کلام نے مجھ پر جادو کا سا اثر کیا۔ اس کے بعد میں نے استخارہ کیا تو ایک دفعہ یہ آیت سنائی دی۔ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِنَا اٰتَیْنَاہُ رَحْمَۃً مِنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔ جبکہ دوسری طرف مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی ہوئی۔ یہ آیت جو ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی ہے اور اپنی جناب سے خاص علم عطا کیا ہے۔‘‘ اس کے بعد کہتے ہیں دوسری دفعہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میرے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں۔ کہتے ہیں پھر میں نے اپنی بیوی سے استخارہ کرنے کو کہا تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اُسے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد اس زمانے کے مجدد ہیں۔ لیکن اس واضح خواب کے باوجود اُنہیں اطمینان نہیں ہوا اور بیعت نہیں کی۔ تو کہتے ہیں مَیں دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہو گیا تھا لیکن اعلان اس لئے نہیں کیا تا کہ اپنے حلقہ احباب کو خود سوچنے کا موقع دوں۔ تا وہ میرے پیچھے بلا سوچے سمجھے نہ چل پڑیں۔ دوسرے یہ کہ میں چاہتا تھا کہ جماعت کے مخالفین کی کچھ کتب پڑھ لوں۔ بالآخر جولائی 2009ء میں انہوں نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ بیعت کر لی۔

(خطبہ جمعہ 3؍ جون 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2021