• 2 اگست, 2025

حاصل مطالعہ (قسط 5)

حاصل مطالعہ
قسط – 5

ارشادنبویﷺ

حضرت فضالہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا۔ نہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور نہ آنحضرتﷺپر درود بھیجا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے اور صحیح طریق سے دعا نہیں کی۔ آپؐ نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز میں دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے ربّ کی حمدوثناکرے۔پھر نبیؐ پر درود بھیجے اس کے بعد حسبِ منشادعا کرے۔

(ابو داؤدکتاب الصلوٰۃ باب الدعا)

خوش کُن آیت کریمہ

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے سارا قرآن شروع سے آخر تک پڑھا ہے۔ اور میں نے کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَتِہٖ سے زیادہ اُمید دلانے والی اور خوشکن آیت نہیں دیکھی۔ بندے کا وطیرہ ہمیشہ غلطی کرناہےاور رب کاہمیشہ مغفرت کرنا۔

(تفسیر القرطبی زیر آیت بنی اسرائیل85)

قبولیت دعا کا اعجاز اور فلسفہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبدالرحمٰن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جوایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اس لئے ان کی بیماری کی وجہ سے بڑافکر اور بڑاتر دّد ہوا قریباًنو بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھاہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جھک گیا اور معاً خدائےعزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِزندگی۔ بعداس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن پھر ایک اور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اِس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہو نا قریباً محال ہے اِس لئے دوبارہ غم اور فکر نے استیلا کیا اور غم انتہا تک پہنچ گیا اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبدالرحمٰن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگرخانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھےجس میں بجز خوشنودئ خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضاسے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور اُن کاحق تھاکہ اُن کے لئے بہت دعا کی جائے آخر دل نے اُن کے لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیا رات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعامیں لگا رہا تب خداتعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب کو نجات بخشی گویا اُن کونئے سرے سے زندہ کیا چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے آپ کی دُعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی اُمید نہ تھی اپریشن کے بعد زخم کا مندمل ہونا شروع ہوگیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اور تہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کاربنکل نہیں آخر چند ماہ کے بعد بکلی شفاہوگئی۔ میں یقیناً جانتاہوں کہ یہی مردہ کا زندہ ہوناہے۔کاربنکل اورپھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی اِس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے ہمارا خدا بڑاکریم ورحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک احیاء کی صفت بھی ہے سال گذشتہ میں یعنی 11 اکتوبر 1905ء کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اِسی بیماری کاربنکل یعنی سرطان سے فوت ہوگئے تھے اُن کے لئے بھی میں نےبہت دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لئے تسلی بخش نہ تھا بلکہ بار بار یہ الہام ہوتے رہے کہ
کفن میں لپیٹا گیا۔ 47 برس کی عمر۔ اِنَّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ ان المنایا لاتطیش سھا مھا یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔

جب اس پر بھی دعا کی گئی تب الہام ہوا۔ یا ایھا الناس اعبدواربکم الذی خلقکم ۔تؤثرون الحیٰوۃ الدُّ نیا۔ یعنی اے لوگو! تم اُس خداکی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو اور اس پر توکل رکھو۔کیا تم دنیا کی زندگی کو اختیا ر کرتے ہو۔ اِس میں یہ اشارہ تھا کہ کسی کے وجود کو ایسا ضروری سمجھنا کہ اس کے مرنے سے نہایت درجہ حرج ہوگا ایک شرک ہے اور اس کی زندگی پر نہایت درجہ زور لگا دینا ایک قسم کی پرستش ہے اس کے بعد میں خاموش ہوگیا اور سمجھ لیا کہ اس کی موت قطعی ہے چنانچہ وہ 11 اکتوبر 1905ء کو بروز چار شنبہ بوقت عصر اس فانی دنیا سے گذر گئے۔ وہ درد جواُن کے لئے دعا کرنے میں میرے دل پر وارد ہوا تھا خدا نے اس کو فراموش نہ کیا اور چاہا کہ اس ناکامی کا ایک اور کامیابی کے ساتھ تدارک کرے اس لئےاس نشان کے لئے سیٹھ عبدالرحمٰن کو منتخب کرلیا اگرچہ خدا نے عبدالکریم کو ہم سے لے لیا تو عبدالرحمٰن کو دوبارہ ہمیں دے دیا۔ وہی مرض اُن کے دامنگیر ہوگئی آخروہ اسی بندہ کی دعا ؤں سے شفایاب ہوگئے فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ میرا صدہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم ورحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اُس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍاَوْنُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍمِّنْھَاۤاَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ۔

(البقرۃ:107)

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 338 تا 340)

’’ہماری جماعت ہر نمازکی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے‘‘

رَبَّنَاۤاٰتِنَافِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًوَّ فِی الْاٰخَرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ

(البقرۃ:202)

ترجمہ: اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ سے بچا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی راویت ہے کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا بکثرت پڑھا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الدعوات)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس دعا کی بابت فرماتے ہیں:
’’اللہ تعا لیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًوَّ فِی الْاٰخَرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:202)

اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ حسنۃالدنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہوجاوے۔ اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور ساتھ ہی حسنۃ الدنیا کے لفظ میں اُن تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول ِدنیا کے لئے اختیار کرنے چاہئیں۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیا ر کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔‘‘

(ملفوظات، جلداول، صفحہ494تا495، ایڈیشن2016ء)

’’۔۔۔ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے

رَبَّنَاۤاٰتِنَافِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًوَّ فِی الْاٰخَرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘

(ملفوظات، جلداول، صفحہ8، ایڈیشن2016ء)

یہ بھی ایک شرک ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’یہ بھی ایک شرک ہے کہ آدمی ڈپلومے یا سندپر بھروسہ کرے۔ اک مرتبہ ایک شخص نےجو افسر مدارس تھا اور میں بھی پنڈدادنخاں میں مدرس تھا۔ مجھ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومےکا گھمنڈ ہے۔میں نے اپنے آدمی سے کہا ۔ ڈپلومہ لاؤ جس کویہ خدا سمجھےہوئے ہے وہ ہمارے پاس بھی ایک ہے۔ منگوا کراسی وقت اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ آدمی بڑا حیران ہوا۔ مجھ سے کہا آپ کو کوئی جوش ہے؟ میں نے کہا نہیں۔کہا کوئی رنج ہے؟میں نے کہا نہیں۔ آپ نے اس کوباعث غروروتکبر ، موجب روزی سمجھاہے۔ میں نے اس کو پارہ پارہ کرکے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بحمداللہ بھروسہ نہیں۔‘‘

(مِرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ213)

حد سے زیادہ تکذیب کا انجام

ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام:
’’جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک قوم کی تکذیب سے دنیا پر عذاب آگیا بلکہ پرند چرید وغیرہ بھی اس عذاب سے باہر نہ رہے۔ غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہ بیان کرتی ہیں اور قرآن شریف بھی یہی فرماتا ہے ۔۔۔‘‘

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22 صفحہ164تا167)

بکریاں چَرانا

آنحضرتﷺ ابوطالب کے ساتھ رہتے تھے۔ اس زمانےمیں عام طور پر بچوں کو بکریاں چرانے کے کام پر لگا دیا جاتا اس لیے آپؐ نے بھی کبھی کبھی یہ کام کیا اور بکریاں چرائیں۔ زمانہ نبوت میں آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ بکریاں چَرانا انبیاء کی سنت ہے۔ اور میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں ۔چنانچہ ایک موقع پر آپؐ کے اصحاب جنگل میں پیلو جمع کرکے کھانے لگے تو آپؐ نے فرمایا:
’’کالے کالے پیلو تلاش کرکے کھاؤ کیونکہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا اس وقت کا میرا تجربہ ہے کہ کالے رنگ کے پیلو زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔‘‘

(بخاری کتاب بدءالخلق)

حضرت اقدس علیہ السلام اپنے عہدِ طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپؑ بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؑ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی۔ اس وقت آپؑ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا۔ آپؑ نے اس شخص سے کہا مجھے یہ چیز لادو۔ اس نے کہا میاں میری بکریاں کون دیکھے گا؟

آپؑ نے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا۔ چنانچہ آپؑ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت آپؑ سے پوری کرادی۔

(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ250)

چرخہ کائنات

ایک عالم نے ایک بڑھیا کو چرخہ کاتنے دیکھ کر فرمایا کہ بڑھیا ’’ساری عمر چرخہ ہی کاتا یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی؟‘‘ بڑھیا نے جواب دیا ’’بیٹا سب کچھ اسی چرخے میں دیکھ لیا۔‘‘ عالم نے پوچھا۔ ’’بڑی بی! تو بتاؤ کہ خدا ہے کہ نہیں‘‘ بڑھیا نے جواب دیا کہ ’’ہاں ہر گھڑی ہر وقت خدا موجود ہے۔‘‘ عالم نے پوچھا مگر اس کی کوئی دلیل؟ بڑھیا بولی۔ دلیل یہ میرا چرخہ، کہ جب تک اس چرخے کو چلاتی رہوں یہ برابر چلتا رہتا ہے اور جب میں اسے چھوڑ دیتی ہوں یہ ٹھہرجاتا ہے۔ جب اس چھوٹے سے چرخے کو ہر وقت چلانے کی ضرورت ہے تو زمین و آسمان، چاند، سورج جیسے بڑے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ہوگی، ہم نے کبھی زمین وآسمان ٹھہرے نہیں دیکھے تو جان لیا کہ اس کو چلانے والا ہر گھڑی موجود ہے۔ مولوی صاحب نے سوال کیا ’’اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان وزمین کا چرخہ چلانے والا ایک ہے یا دو؟‘‘ بڑھیا نے کہا ’’ایک ہے‘‘ اور اس دعویٰ کی دلیل بھی میرا یہ چرخہ ہی ہےاس چرخہ کو جب میں اپنی مرضی سے ایک طرف چلاتی ہوں یہ چرخہ میری مرضی سے ایک ہی طرف چلتا ہے۔ اگر کوئی دوسری چلانے والی بھی ہوتی، پھر یا تو وہ میری مددگار ہو کر میری مرضی کے مطابق چرخہ چلاتی تب چرخے کی رفتار تیز ہوجاتی اور اگر وہ میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتی تو یہ چرخہ چلنے سے ٹھہر جاتا ٹوٹ جاتا، مگر ایسا نہیں ہوتا اس وجہ سے کہ کوئی دوسری چلانے والی ہی نہیں ہے اسی طرح زمین و آسمان کا چلانے والا اگر کوئی دوسرا بھی ہوتا تو دن رات کے نظام میں فرق آجاتا یا تو اس کی رفتار تیز ہوجاتی۔ یا یہ چلنے سے ٹھہر جاتا۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو ثابت ہوا زمین وآسمان کو چلانے والی ایک ہی ہستی ہے۔

(سو دلچسپ واقعات صفحہ24)

ارشادحضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز:
’’اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے۔ بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ191)

’’آج جبکہ دنیا مادہ پرست ہو چکی ہے۔ مذہب سے دُور اور اپنے خالق کو بھول چکی ہے ان حالات میں ہر احمدی کا یہ کام ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کے دلائل سیکھے۔ تعلق باللہ میں ترقی کرے اور سب دنیا کو اس زندگی بخش حقیقت سے روشناس کرائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘

(ہفت روزہ بدر قادیان 24-31دسمبر 2020ء)

(مولانا عطاء المجیب راشد (امام مسجد فضل لندن))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2021