• 19 مئی, 2024

جاپانیوں کی اسلام کی طرف رغبت

جاپانیوں کی اسلام کی طرف رغبت
حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ اس لیے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔”

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 372۔371)

1905ء میں جاپان اور روس کے مابین ہونے والی جنگ کے بعد پریس میں خبریں شائع ہوئیں کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ ان خبروں کا ذکر کرتے ہوئے ایک مسلمان مؤرخ Dr. Salih Mahdi al-Samarrai لکھتے ہیں:

After the Russo-Japanese War, international news were published about Japan’s interest in Islam and the Muslim world, prompting Muslims everywhere to spread Islam in Japan

History of Islam in Japan published by (Islamic Center Japan in 2009)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دربار میں ان خبروں کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
26اگست 1905ء نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک قادیان میں ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور ہندوستان سے بعض مسلمانوں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’جن کے اندر خودہی اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔ جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسرے پر کیا اثر ڈالیں گے۔ یہ لوگ صرف اپنے پر ظلم نہیں کرتے بلکہ دوسروں پربھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کو اپنے بدعقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے غیرمذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔

جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ ان کی بوسیدہ اور ردی متاع کو کون لے گا۔ چاہئے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے واسطے تیارکئے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اورتقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر4 صفحہ351)

’’اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کر دے گا‘‘

ایک دوست نے تحریک کی کہ جاپان میں تہذیب کی بہت ترقی ہوئی ہے اور عیسائی لو گ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام جاپانی عیسائی ہوجائیں۔ آریوں نے بھی لاہور میں جاپانی زبان سیکھنے کے واسطے ایک مدرسہ قائم کیا ہے اور جاپان میں کئی آدمی بھیجے ہیں۔ اگر مناسب ہو تو سلسلۂ حقہ کی اس ملک میں اشاعت کے واسطے تجویز کی جائے۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا:
’’ہر نبی اور رسول کا آخری زمانہ اس کے سلسلہ کی نصرت کا وقت ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانۂ نبوت کا پہلا بہت سا حصہ مصائب اور تکالیف میں گذرا تھا اور فتوحات اور نصرت کا زمانہ آپ کی عمر کا آخری حصہ ہی تھا۔ ہم بھی اپنی عمر کا بہت سا حصہ طے کر چکے ہیں۔ اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ اب خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے دن ہیں۔ ہماری حالت وہ ہے کہ عدالت میں مدت سے کسی کا مقدمہ پیش ہے اور اب فیصلہ کے دن قریب ہیں۔ ہمیں مناسب نہیں کہ اور طرف توجہ کر کے اس فیصلہ میں گڑبڑ ڈال دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس فیصلہ کو دیکھ لیں۔ اس مُلک میں جو جماعت تیار ہوئی ہے ابھی تک وہ بھی بہت کمزور ہے۔ بعض ذرا سے ابتلا سے ڈر جاتے ہیں اور لوگوں کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں ہم کو خط لکھتے ہیں کہ ہمارا انکار دلی نہیں ہے …… تا ہم جن کے دلوں میں حلاوتِ ایمانی پورے طور سے بیٹھ جائے وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے۔

فی الحال موجودہ معاملات میں ہی توجہ اور دعا کی بہت ضرورت ہے اور ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں کہ اب معاملہ دور ہو جانے والا نہیں۔ ایسے معاملات میں آریوں کے ساتھ ہماری کوئی مناسبت نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم کوبڑھانا چاہتے ہیں اور ہم دنیا میں تقویٰ اور نیکی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم آریوں کی نقل کرنا چاہیں تو ان کی پیروی ہمارے لیے منحوس ہوگی۔ اور ہم کو وحی کرنے والے گویا وہی ٹھہریں گے۔

اگر خدا تعالیٰ جاپانی قوم میں کسی تحریک کی ضرورت سمجھے گا تو خود ہم کو اطلاع دے گا۔

عوام کے واسطے امور پیش آمدہ میں استخارہ ہوتا ہے اور ہمارے واسطے استخارہ نہیں جبتک پہلے سے خدا تعالیٰ کا منشاء نہ ہو۔ ہم کسی امر کی طرف توجہ کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارا دارومدار خدا تعالیٰ کے حکم پر ہے۔ انسان کی اپنی کی ہوئی بات میں اکثر ناکامی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کردے گا جو خود ہماری طرف توجہ کرے گا۔ اب آخری زمانہ ہے۔ ہم فیصلہ سننے کے انتظار میں ہیں۔

’’خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں‘‘

’’ہاں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ میں اپنی جماعت کے سب لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں۔ خدا سے ہر اساں و ترساں رہو …… اگر تم دوسرے لوگوں کی طرح بنوگے تو خدا تم میں اور ان میں کچھ فرق نہ کرے گا۔ اور اگر تم خو د اپنے اندر نمایاں فرق پیدا نہ کروگے تو پھر خدا بھی تمہارے لیے کچھ فرق نہ رکھے گا۔ عمدہ انسان وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا ساری دنیا کو بھی غرق کر دیتا ہے، لیکن اگر ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کافر سے بدتر ہے۔

سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے۔ ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اورقوت سے۔ ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی ہے اگر ہم اپنے آپ کو درست نہ کریں گے تو ہم سب سے پہلے ہلاک ہوں گے۔ اگر خدا نہ چاہے تو جاپان میں کیا رکھا ہے؟ ہاں زبان سیکھنے میں کوئی حرج نہیں، داشتہ آید بکار۔

اگر ہمیں خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں۔ ہم ایسے معاملات میں کسی کے مشورہ پر نہیں چل سکتے۔ خدا کے منشاء کے قدم بقدم چلنا ہمارا کام ہے۔‘‘

(ملفوظا ت جلد4 صفحہ297تا299)

جاپانیوں کے لیے ایک جامع کتاب کی ضرورت

یہاں تک آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اور احباب تشریف لے آئے ۔۔۔۔ زاں بعد جاپان اور اشاعت اسلام کے مضمون پر سلسلہ کلام شروع ہو گیا۔ جس کا مفہوم درج ذیل ہے۔

(ایڈیٹر الحکم)

’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ اس لیے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔ اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے۔

(حاشیہ) بدر سے

اسلام کا پورا نقشہ کھینچا جاوے کہ اسلام کیا ہے۔ صرف بعض مضامین مثلاً تعدد ازدواج وغیرہ پر چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنا ایسا ہے جیسا کہ کسی کو سارا بدن نہ دکھایا جائے اور صرف ایک انگلی دکھادی جاوے۔ یہ مفید نہیں ہو سکتا۔ پوری طرح دکھانا چاہیے کہ اسلام میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور پھر ساتھ ہی دیگر مذاہب کا حال بھی لکھ دینا چاہیے۔ وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شئے ہے۔ تمام اصول فروع اور اخلاقی حالات کا ذکر کرنا چاہیے۔ اس کے واسطے ایک مستقل کتاب لکھنی چاہیے جس کو پڑھ کر وہ لوگ دوسری کتاب کے محتاج نہ رہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 372۔371)

’’میں دوسری کتابوں پر جو لوگ اسلام پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا۔ کیونکہ ان میں خود غلطیاں پڑی ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپان یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر ہنسی کرانا ہے۔ اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے ہیں۔ ہاں اشاعت اسلام کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ374)

’’اس ضعف اسلام کے زمانے میں جبکہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے۔اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہیے جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 373)

7اگست 1902ء کی صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام حسب معمول سیر کو نکلے۔ ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ حضور امسال شکاگو کی طرز پر ایک مذہبی کانفرنس جاپان میں ہونے والی ہے جس میں مشرقی دنیا کے مذاہب کے سرکردہ ممبروں کا اجتماع ہوگا اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں پر لیکچر دئیے جائیں گے۔ کیا اچھا ہوا گر حضور کی طرف سے اس تقریب پر کوئی مضمون لکھا جائے اور اسلام کی خوبیاں اس جلسہ میں پیش کی جاویں۔ ہماری جماعت کی طرف سے کوئی صاحب چلے جائیں۔ جاپان کے مصارف بھی بہت نہیں ہیں اور جاپان والوں نے ہندوستانیوں کو دعوت دی ہے بلکہ وہ ہندوستان سے جانے والوں کے لئے اپنا الگ جہاز بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ:
’’بے شک ہم تو ہر وقت تیار ہیں اگر یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ کب ہوگی اور اس کے قواعد کیا ہیں تو ہم اسلام کی خوبیوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کر کے دکھا سکتے ہیں اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو کہ ہر میدان میں کامیا ب ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب کے تین جزو ہیں۔ اول خدا شناسی،مخلوق کے ساتھ تعلق اوراس کےحقوق اور اپنے نفس کے حقوق۔ جس قدر مذاہب اس وقت موجود ہیں بجز اسلام کے جو ہم پیش کرتے ہیں سب نے بےاعتدالی کی ہوئی ہے۔ پس اسلام ہی کامیاب ہوگا۔

ذکر کیا گیا کہ وہاں بدھ مذہب ہے اس کا ذکر بھی اس مضمون میں آجانا چاہیے۔ فرمایا:
’’بدھ مذہب دراصل سناتن دھرم ہی کی شاخ ہے۔ بدھ نے جو اوائل میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دیا اور قطع تعلق کر لیا شریعت اسلام نے اس کو جائزنہیں رکھا۔ اسلام نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے اور مخلوق سے تعلق رکھنے میں کوئی تناقض بیان نہیں کیا۔ بدھ نے اول ہی قدم پر غلطی کھائی ہے اور اس میں دہریت پائی جاتی ہے۔ مجھے اس بات سے کبھی تعجب نہیں ہوتا کہ ایک کتا مردار کیوں کھاتا ہے۔ جس قدر تعجب اس بات سے ہوتا ہے کہ انسان انسان ہو کر پھر اپنی جیسی مخلوق کی پرستش کیوں کرتا ہے۔ اس لئے اس وقت جب خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے تو سب سے اول میرا فرض ہے کہ خدا کی توحید قائم کرنے کے لئے تبلیغ اور اشاعت میں کوشش کروں۔ پس مضمون تیار ہوسکتا ہے اور وہاں بھیجا جا سکتا ہے۔ پہلے قواعد آنے چاہئیں۔ پھر فرمایا کہ:
اس مضمون کے پڑھنے کے لئے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے۔ ان کی آواز بڑی بارعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہوا ہو تو اسے خوب پڑھ سکتے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک اور شخص بھی چاہیے۔ الرفیق ثم الطریق‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ234۔ 235)

’’میری مخالفت میں جاپان تک جاپہنچیں گے‘‘

’’جس طرح پر ایک طوفان قریب آتا ہو تو انسان کو فکر ہوتا ہے کہ یہ طوفان تباہ کردے گا اسی طرح پراسلام پر طوفان آرہے ہیں۔ مخالف ہر وقت ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام تباہ ہو جاوے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ان تمام حملوں سے بچائے گا اور وہ اس طوفان میں اس کا بیڑا سلامتی سے کنارہ پر پہنچا دے گا۔ انبیاء علیہم السلام کے حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو مشکلات نظر آتی تھیں تو بجز اس کے او ر کوئی صورت نہ ہوتی تھی کہ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے تھے۔ قوم تو صُمٌّۢ بُکۡمٌ ہوتی ہے وہ ان کی باتیں سنتی نہیں بلکہ تنگ کرتی اور دکھ دیتی ہے۔ اس وقت راتوں کی دعائیں ہی کام کیا کرتی تھیں۔ اب بھی یہی صورت ہے۔ باوجودیکہ اسلام ضعف کی حالت میں ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی بحالی کے لئے پوری کوشش کی جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہم سے جو اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرح سے ہماری مخالفت کے لئے سعی کی جاتی ہے یہ میری مخالفت نہیں خدا تعالیٰ سے جنگ ہے۔

میں تو یہاں تک یقین رکھتا ہوں کہ اگر میری طرف سے کوئی کتاب اسلام پر جاپان میں شائع ہو تو یہ لوگ میری مخالفت کے لئے جاپان بھی جا پہنچیں ۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ 480۔481)

(انیس احمد ندیم۔جاپان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2021