• 19 مئی, 2024

طارق بن زیاد کے سپین کو دیکھنے کا خواب

ویلنسیا ۔ سپین
طارق بن زیاد کے سپین کو دیکھنے کا خواب جس کی تعبیر مل گئی

بچپن سے ہی سپین کا نام سنتے آرہے ہیں ۔ کیونکہ اس کے شاندار ماضی کا ذکر تو ہر مسلمان ملک میں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ جب کبھی دوست احباب سے سپین کے حوالے سے بات ہوتی تھی۔سب ہی سپین کی بہت تعریف کرتے اور یہ بھی سننے میں آتا تھا کہ جس نے سپین نہیں دیکھا پھر اس نے کیا دیکھا ہے؟ لیکن عجیب اتفاق ہے کئی دفعہ تو قریب پہنچ کر بھی کسی مجبوری کی وجہ سے سپین نہ جاسکے۔

سال 2018ء میں عزیزم ناصر احمد نے فیملی کے ساتھ سپین جانے کا پروگرام بنالیا اور مجھے بھی دعوت دی کہ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ چلیں۔ پروگرام کچھ ایسے بنایا گیا ۔ یہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز پر ویلنسیا جائیں گے پھر وہاں سے کار کرائے پر لے کر سیر وسیاحت کا پروگرام کرلیں گے۔

ویلنسیا میں پہلی میزبانی

ہم لوگ حسب پروگرام شام کے وقت ویلنسیا ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ ہماری کرایہ کی کار کمپنی کی مہربانی سےہمارے لئے ائرپورٹ پر پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہم سب پہلی بار سپین آئے تھے۔ جس کی وجہ سے شہر کی گلی کوچوں سے بالکل ناآشنا تھے۔ اس پر ایک افتاد یہ پڑی کہ ہمارے موبائلز نیٹ ورک نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ جس کے باعث اپنے میزبان سے رابطہ بھی ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ اب رات کا وقت ہے ہم مختلف گلیوں میں چکر لگارہے ہیں۔ اتنے میں، میں نے دیکھا دو پنجانی سکھ میاں بیوی ایک مکان کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا۔ انہیں اپنی بپتا بیان کی۔پھر ان کے فون سے مکرم کلیم احمد سے رابطہ کیا۔وہاں سے ہمارا مشن ہاؤس کافی دور تھا۔ سردار صاحب کہنے لگے۔ بزرگو! کافی سردی ہے اورابھی کلیم صاحب کو یہاں پہنچنے میں کافی دیر لگنی ہے۔ بہتر یہ کہ آپ ہمارے گھر آجائیں۔ کیونکہ ہم سب کا ان کے ہاں جانا ممکن نہ تھا۔ اس لئے ہم لوگ کار میں ہی بیٹھے رہے۔ کچھ دیر کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ دونوں میاں بیو ی ہمارے لئے گرم گرم چائےاوربسکٹ لے کر آرہے ہیں۔ سردار صاحب کی محبت آج تک یادہے۔اتنے میں مکرم کلیم صاحب بھی تشریف لے آئے اور جلد ہم لوگ اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ ہمارا قیام ویلنسیا میں جماعت احمدیہ کےمشن ہاؤس میں تھا۔

ویلنسیا ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔

سپین کے واقفین نو کا سالانہ اجتماع

جن دنوں میں ہم لوگ سپین میں تھے۔انہی ایام میں وہاں ویلنسیا میں واقفین نو سپین کا سالا نہ اجتماع ہونا تھا۔ مجھے مرکزی ارشاد پر بطور جماعتی نمائندہ اجتماع میں خطاب کرنے کی توفیق ملی۔ جس کی وجہ سے احباب جماعت کے ساتھ ایک تعارف ہوگیا۔ پھر وہ تعارف ایسا بابرکت ہوا کہ حضور انور نے مجھے افریقن اقوام کےتبلیغی پروگرامز کے لئے سپین جانے کا ارشاد فرما دیا۔ پھر یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ دوسال تک جاری وساری رہا۔ الحمد للّٰہ

ویلنسیا کے بارے میں مضمون لکھنے کا محرک

حال میں قرطبہ اور بارسلونا کے بارے میں میرے دو معلوماتی مضامین الفضل اخبار کی زینت بنے۔ جس پر ایک عزیز نے پیار کے رنگ میں تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ کی میزبانی کی توفیق تو ویلنسیا کو ملی تھی۔ ویلنسیا کا بھی تو حق بنتا ہے کہ اس کے بارے میں بھی مضمون لکھ دیتے۔ میں اس عزیز کی خواہش اورارشاد کی تعمیل میں یہ مضمون رقم کررہا ہوں۔اس عزیز دوست کا تحریک کرنے اور آپ کے پڑھنے کے لئے آپ سب قارئین کرام کا مشکور ہوں۔

ویلنسیا کا تعارف

سپین کے بڑے شہر میڈرڈ اور بارسلونا کے بعد ویلنسیا کا نمبر ہے۔ جس کی موجودہ آبادی آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن بعض مخصوص خوبیوں کی بنا پر اس شہر کی طرف کافی لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

یہ شہر بارسلونا، قرطبہ اورمیڈرڈ کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ ان سب معروف مقامات کا یہاں سے فاصلہ تین چار گھنٹے کا ہے۔

ویلنسیا شہر کوئی اتنا بڑا شہر نہیں ہے۔اس لئے اس میں دیہات اور شہر دونوں کے مزے ہیں۔ دیگر شہروں کی طرح گنجان آباد نہ ہونے کی وجہ سے افراتفری اورہیجانی کیفیت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سےجرائم کی شرح نسبتاً کم ہے۔

زراعت

یہ علاقہ میدانی علاقہ ہے۔ جس کی وجہ سے یہ زراعت کے اعتبار سے بہت مشہور ہے۔ جس طرح پاکستان میں سرگودھا کا علاقہ کینو کے لئے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔اسی طرح ویلنسیا بھی یورپ بھر میں خوبصورت مالٹوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ سپین کے مختلف مقامات،بلکہ یورپ بھر سے لوگ سبزیاں خریدنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ جیسے ہی آپ شہر سے باہر نکلتے ہیں مالٹوں کے باغات آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ مالٹے مختلف اقسام کے ہونے کی وجہ سے سال بھر صحت مند ماحول ، خوبصورتی کے علاوہ اپنے پھل پھولوں سے سجےرہتے ہیں۔

شہر کو خوبصورت بنانے میں مالٹوں کا کردار

ویلنسیا شہر کے گلی کوچوں میں ایک منفرد چیز مالٹے کے بے شماردرخت ہیں ،جو گورنمنٹ نے تزئین شہر کے لئے بہت ہی ترتیب سے لگارکھے ہیں۔یہ بہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔لیکن یہ مالٹے کھانے کے کام نہیں آتے۔ یہ صرف خوبصورتی کے لئے لگائے گئے ہیں۔ویلنسیا کے علاوہ قرطبہ میں بھی یہ نظارہ ملتا ہے۔

گرم پانیوں کی تلاش میں

ویلنسیا شہر معتدل موسم اور سمندر کے ساحل پر ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکاہے۔ یہاں سینکڑوں میل تک اطراف میں سمندر ہی سمندر ہے۔ جس کے گرم پانی کی وجہ سے سیاحت کے علاوہ مچھلی بھی وافر مل جاتی ہے۔

کہتے ہیں ۔روس اور امریکہ کی افغانستان میں سرد جنگ دراصل گرم پانی کی تلاش تھی۔امریکہ تو اپنے دشمن کے قریب پہنچنا چاہتا تھا۔تاکہ بوقت ضرورت اس کی گوشمالی کی جاسکے اور روس کو بھی گرم پانی کی احتیاج تھی۔جس کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ جنگ جاری رہی ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں۔

ویلنسیا شہر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ ویلنسیا کا موسم بہت خوبصورت ہے۔ جن دنوں میں ،یورپ بھر میں سردی کی سخت لہر ہوتی ہے ۔ان دنوں میں بھی وہاں آپ تمازتِ آفتاب سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

یہاں کے لوگ بہت ہی ملنسار اور ہمدرد ہیں اور آپ کی مدد کو ہرآن تیار رہتے ہیں۔ کوئی اجنبی کسی سے رستہ پوچھ لے تو مخاطب کوشش کرتا ہے کہ اسے گھر ہی چھوڑ کرآئے۔

ایک خاص چیز جو ویلنسیا کو دیگر شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔وہ اس شہر کا ائیرپورٹ ہے۔ متوسط آبادی والاشہر ہونے کی وجہ سے ائیرپورٹ شہری آبادی سے زیادہ دور نہیں ہے۔ جس کے باعث بہت جلد آپ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔دیگر شہروں میں تو بسا اوقات گھنٹوں کا سفر بن جاتا ہے۔جو خوش گوار سفر کو بھی بوریت میں بدل دیتا ہے۔

مسیح موعود علیہ السلام کا ایک معجزہ

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔ میں نے آپ کو اس سے بچا لیا اور پھر میری نعمت سے آپ بھائی بھائی بن گئے۔

ایک روز میں ویلنسیا میں اپنے ڈیالیسز کے سلسلہ میں مقامی سنٹر میں گیا ہوا تھا۔ انتظار گاہ میں کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں بیشتر لوگ سپینش تھے۔جو آپس میں باہمی گپ شپ میں مصروف تھے۔ایک جانب ایک پاکستانی دوست ایک ویل چیئر میں اداس بیٹھے نظر آئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ دوست اپنی ویل چیئر چلا کر میرے قریب آگئے۔ مجھ سے کہنے لگے کیا آپ پاکستانی ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔بڑے خوش ہوئے۔انہوں نے بتایا۔میرا نام شاہد ہے اور میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔کافی عرصہ سے سپین میں ہوں۔میرا بڑا اچھا کاروبار تھا۔بہت سارے دوست تھے۔زندگی بڑے آرام وسکون کے ساتھ گزررہی تھی۔ پھر اس موذی مرض نے آ لیا۔ کاروبار ختم ہوگیا ہے۔ سب دوست احباب کچھ آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئے۔ بہت سارے دوستوں کو رقوم دے رکھی تھیں۔ اب تو وہ دوست فون تک نہیں اٹھاتے۔میں اب کئی مہینوں سے اسپتال میں ہی مقیم ہوں۔ اب تو اپنے لوگوں ،ہم زبان، ہم وطنوں کو دیکھنے کو ترس گیا ہوں۔یہاں اسپتال سے ملنے والا کھانے پر مجبور ہوں۔ اپنے وطن کے کھانوں کو بھی آنکھیں ترستی ہیں۔ہر کسی نے رخ پھیر لیا ہے۔سب اپنے بیگانے ہوگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھی نہیں جاسکتا کیونکہ وہاں جاکر کیا کروں گا۔ میں تو ڈیالیسز کے اخراجات تک برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے اپنی زندگی کے بقیہ ایام ادھر ہی گزارنے پر مجبور ہوں کیونکہ یہاں گورنمنٹ کی جانب سے کئی ایک مراعات ہیں۔ جن کے سہارے زندگی کی گاڑی رواں ہے۔ اس شخص کی داستان نے بہت دکھی کر دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں احمدی ہوں اور انگلستان سے آیا ہوں۔ میں نے مکرم صدر جماعت اور دیگر احباب کو ان کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی درخواست کی۔ الحمد للہ احباب جماعت نے اس مریض کی ہر ممکنہ مددکی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک بڑا معجزہ ایک پاک جماعت کا قیام ہے۔ جو خونی رشتوں سے بالا ہوکر ایک کنبہ کی طرح رہتے ہیں۔ایک دوسرے کی بنیادی ضروریات کا خیال کرتے ہیَں۔

مسجد احمدیہ بیت الرحمان

یہ مسجد جماعت احمدیہ کی سپین میں سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ خوبصورت مسجد ویلنسیا شہر سے چند کلومیٹر دور ایک پہاڑ پرعین موٹر وے کے کنارے پر واقع ہے۔ روزانہ سینکڑوں گاڑیاں اس کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ جو مسجد کے دیدہ زیب میناروں کو دیکھے بغیر نہیں گزرسکتے۔ خاص طور پر یہاں رات کا منظر بڑا ہی دلفریب ہوتا ہے۔ طلوع شمس اور غروب شمس کا نظارہ بہت دلکش ہوتا ہے۔ یہاں پر مسجد کے علاوہ کئی ایک وسیع و عریض گیسٹ ہاؤسز بھی ہیں۔ سال بھر مختلف ممالک سےزائرین یہاں آئے رہتے ہیں۔یہاں ایک کافی کشادہ ماڈرن کچن بھی ہے۔جس میں مکرم حنیف احمد صاحب مسکراتے چہرہ کے ساتھ ہر مہمان کو خوش آمدید کہنے اور مہمان نوازی کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں۔

کسی بھی مقام کی خوبصورتی وہاں کے فطرت کے نظاروں کے علاوہ وہاں کے خوبصورت لوگوں سے ہوتی ہے۔ میرے سپین میں قیام کے عرصہ میں زیادہ وقت ویلنسیا میں ہی گزارنے کا موقع ملا ہے۔ جس کی کئی ایک وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے تو یہاں پر ملک بھر کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ مسجد کے اعتبار سے یہاں سب سے بڑی مسجد اور مشن ہاؤس اور گیسٹ ہاؤسز کی سہولت موجود ہے۔

یہاں پر مجھے بفضلہ تعالیٰ مقامی احباب مکرم کلیم احمد صاحب مربی سلسلہ ویلنسیا، ان کے اہل خانہ، مکرم شمریز صاحب صدر جماعت، مکرم سلمان طاہر صاحب قائد خدام الاحمدیہ ،مکرم شفیق احمد صاحب صدرانصاراللہ اور دیگر احباب جماعت کے تعاون اور محبت کی وجہ سے خوب خدمت دین کی سعادت نصیب ہوی۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء

سپین بھر کے دورہ جات

چونکہ ویلنسیا کو فاصلوں کےلحاظ سے بھی ایک مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس لئے مجھے یہاں سے بارسلونا، میڈرڈ، قرطبہ، پیڈروآباد، بن کارلو، مرسیہ ، غرناطہ اور ملاگا وغیرہ جانے کا موقع ملتا رہا۔ان مقامات کے دورے کرنےکے بعد پھر واپس ویلنسیا میں ہی آجاتا تھا۔ قریباً دوسال کے عارضی قیام سپین میں، ویلنسیا ہی میرا صدر مقام رہا۔جس کی وجہ سے ویلنسیا شہر اور اس کے مضافاتی دیہاتوں سے خوب آشنائی ہوگئی ہے۔احباب جماعت کی انسیت،محبت اور تعاون کی وجہ سے ویلنسیا سے ایک محبت کا تعلق بن گیا۔ان شاء اللہ ان کے لئے دعائیں اور ان کی دعاؤں کا یہ رشتہ تادم حیات رہے گا۔

ویلنسیا شہر کے علاوہ دیگر مضافاتی شہروں اور دیہاتوں میں سفروں کے دوران مکرم کلیم احمد صاحب اور مکرم سلمان طاہر صاحب کا تعاون مثالی رہا ہے۔

عرب احمدیوں کی جماعت

ویلنسیا سے آگے مرسیہ سے تھوڑے فاصلہ پر مراکش کے احمدی بھائیوں پر مشتمل ایک جماعت ہے۔جہاں مکرم طیب الفرح صاحب صدر جماعت ہیں۔ جاکر ان مخلص بھائیوں کو مل کر بہت خوشی ہوئی۔ان دوستوں سے قبول احمدیت کے ایمان افروز واقعات سن کر ایمان کو ایک جِلا نصیب ہوئی۔ان کے اہل خانہ کی جانب سے عرب مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ مکرم صدر صاحب بہت ہی مخلص احمدی ہیں۔ ماشاءاللّٰہ

نیز ایک اور قریبی گاؤں میں ایک الجیرین احمدی مکرم مصطفی صاحب اور ان کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی۔جو حال میں ہی الجیریا میں جماعتی نامساعد حالات کی بنا پر سپین میں تشریف لائے ہیں۔اس خاندان کی اللہ کی راہ میں ظلم وستم کی درد ناک داستان سننے کو ملی۔ دل سے ان سب احمدیوں کے لئے دعا نکلی جو محض اللہ کی خاطر دنیا کے مختلف خطوں میں نشانہ ظلم و ستم بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کی مشکلات معجزانہ دور فرمائے۔آمین۔یہ سفر مکرم سلمان طاہر صاحب صدر جمات ویلنسیا کے ساتھ کیا گیا۔ جنہوں نےاپنا کاروبار بند کرکے اپنی گاڑی میں اس تبلیغی وتربیتی سفر کی سعادت پائی۔ فجزاھم اللّٰہ

ثمرات حسنہ

اللہ تعالی کے فضل اور احباب جماعت کے تعاون سے ویلنسیا میں کئی ایک افریقن دوستوں کو معجزانہ طور پر بیعت کی توفیق ملی ہےاور اللہ کے فضل سے باوجود کرونا کی مشکلات کے یہ لوگ باقاعدہ نماز جمعہ میں شریک ہورہے ہیں۔ تبلیغ کے میدان میں بھی بہت فعال ہیں۔ کَانَ اللّٰہُ مَعَھُمْ

خصوصی اظہار تشکر

میں مکرم چوہدری عبدالرزاق صاحب امیر جماعت احمدیہ سپین کی محبت، اخلاص اور بھر پور تعاون کا از حد مشکور ہوں جنہوں نے میری ہر قسم کی ضرورت کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ میں نے جب بھی کوئی پروگرام تشکیل دیا ۔ہمیشہ ہی انہوں نے میرا ساتھ دیا۔

ان کے علاوہ مربیان کرام مکرم عبدالصبور نعمان صاحب، مکرم کلیم احمد صاحب، مکرم ظفر رشید صاحب۔مکرم قیصر احمد ملک صاحب اور عزیزم قاصد احمد صاحب کا بھی مشکور ہوں۔ جنہوں نے میرے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیا۔ مجھے اپنا ایک بزرگ بھی جانا اور خدمت بھی کی ۔اللہ تعالی ان سب کو اپنے بےشمار فضلوں سے نوازے اور اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین

(منور احمد خورشید۔ مربی سلسلہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2021