• 27 اپریل, 2024

This week with Huzur (20 مئی 2022ء)

This week with Huzur
20 مئی 2022ء

پچھلے اتوار انگلستان کی واقفاتِ نو کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ جس کے لیے واقفات نو بیت الفتوح مسجد میں جمع ہوئی تھیں۔ اس موقعہ پر واقفاتِ نو نے مختلف سوالات کے ذریعہ پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسےجو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حضور نے السلام علیکم کہنے کے بعد فرمایا: ‎’’مجھے لگتا ہے کہ واقفاتِ نو کی بجائے پورے یوکے کی لجنات اکٹھی کر لی ہیں۔‘‘ جس پر بتا یا گیا کہ ساری واقفاتِ نو ہیں۔پھر فرمایا کہ ’’پوری جماعت ایک طرف ہو گئی اور واقفات ایک طرف ہو گئی ہیں‘‘۔اس کے بعد فرمایا کہ ’’اگر ہمارے پاس اتنی واقفاتِ نو ہیں تو پھر تو یوکے میں انقلاب آجانا چاہیے۔‘‘

سوال: ہمار ا مذہب اسلام ہے لیکن کچھ لوگ روایات اور مذہب کو مکس کر دیتے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ ہم مذہب کی طرف زیادہ رجوع کریں؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ہمارا مذہب اسلام ہےاور اسلام کے بارے میں ہمیں کہاں سے پتا لگتا ہے؟‘‘ جس پر موصوفہ نے جواب دیا کہ قرآن پڑھنے سے۔ جس پر پیارے آقا نے فرمایا کہ ’’قرآن کریم کے ذریعہ سے اور پھر آنحضرت ﷺ کی سنت ہے اور سنت کے بعد پھر حدیث ہے۔ آنحضرت ﷺ نے وہی کام کر کے دکھایا ہے جو قرآن کریم میں احکامات ہیں۔ بعض احکامات اورباتوں کی اپنے عمل اور ارشادات سے تشریح یا تفصیل کی اور وہ حدیث میں آیا۔ اسلام کے جو بنیادی کام ہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا،اس کی عبادت کرنا، اس کا حق ادا کرنا۔ دوسری بات یہ کہ ایک دوسرے کا حق ادا کرنا، بندوں کے حق ادا کرنا۔اپنی social obligations جتنی ہیں ان کو پورا کرنا۔ obligations کو نبھانا اور اپنے morals کو دکھانا۔ اپنے اخلاق اچھے دکھانا۔یہ چیزیں ہیں جو مذہب ہمیں کہتا ہے۔اس کے علاوہ جو باتیں مذہب ہمیں کہتا ہے۔وہ بعض کلچر میں شامل ہو چکی ہیں۔بعض ایشین ہیں جو انڈو پاکستان کے ہیں وہ ہندؤں اور سکھوں کے ساتھ مکس رہتے تھے تو ان کے ان کے ساتھ ان کے کلچر مکس ہو گئے۔ مثلاً شادی بیاہ کی رسمیں شامل ہو گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نکاح جو ہے وہ شادی کا اعلان ہے۔ لیکن ہمارے ہاں، مثلاً شادی کی ہی مثال ہے، اس کے بعد رخصتانہ ہوتا ہے۔ ایک روایت بن چکی ہے کہ اس کے بعد رخصتانہ بھی ہوگا۔نکاح کے بعد بھی رخصت کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ بڑے ڈھول ڈھمکے کیے جائیں اور بڑے علیحدہ فنکشن کیے جائیں ہر ایک چیز کے (مثلاً) ایک مہندی کا فنکشن ہو اور ایک شادی کا فنکشن ہو۔اسلام میں تو نکاح کا اعلان ہی شادی ہے اور اس کے بعد ولیمہ کی دعوت ہے۔ آنحضرت ﷺ سے تو یہی دو باتیں ثابت ہیں۔ اسی طرح اسلام ہمیں کہتا ہے کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ۔ قرآن کریم کا بھی حکم ہے۔ اپنے لباس کو حیادار بناؤ اور حجاب رکھو۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فاصلہ رکھو یہ اسلام کی تعلیم ہے۔اس میں کلچر کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں Interaction ہو بھی سکتا ہے۔ رابطہ ہو بھی سکتا ہے۔ بات بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی لڑکی ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں اس کے ساتھ ریسرچ کرنے والے دوسرے مرد ہیں تو علم حاصل کرنے کی حد تک آپس میں بات چیت ہو بھی سکتی ہے۔باقی جو روایتیں ہیں وہ تو ادھر ادھر کی اکٹھی ہو چکی ہیں۔دنیا میں بے شمار ممالک ہیں۔ مختلف لوگ ہیں،مختلف قومیں ہیں،مذہب کے علاوہ ان کی اپنی Traditions ہیں۔ افریقہ میں Tribe ہیں، قبائل ہیں ان کی اپنی Traditions ہیں۔ان کو بتا نا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے حکموں سے متصادم ہوتی ہےاس کو چھوڑنا ہے۔شرک نہیں کرنا۔بنیادی چیز ہے کہ اللہ کے تقدس کو قائم کرنا ہے اور شرک نہیں کرنا۔ قرآن کریم میں جو بنیادی احکامات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئےروایات میں سے جو اچھی ہیں ان کو کرنا چاہو توکر سکتے ہو۔ اگر یہاں کی کوئی برٹش عورت احمدی ہوجاتی ہے اس کو یہ کہنا ہے کہ تم نے یہ کرنا ہے اور یہ کرنا ہے اور وہ اسلامی تعلیم میں نہیں ہے بلکہ تمہارے کلچر میں ہے تو وہ غلط ہے۔نہ ہی افریقنوں کو یہ کہنا کہ تم یہ کرو ہاں افریقنوں کی بعض روایات ہیں مثلاً اگر وہ اللہ تعالیٰ کو مقابل پر نہیں لاتیں اور شرک کا کوئی اظہار ان سے نہیں ہوتایا بنیادی اخلاق سے دور نہیں لے کر جاتیں تو اپنے کلچر میں رہ کر وہ کر سکتی ہیں۔ مختلف قوموں کے کلچر میں بعض باتیں اچھی بھی ہیں، ان کو اختیار کر سکتے ہیں اگر وہ براہ راست اسلام کی تعلیم سے متصادم نہیں ہوتیں تو۔

سوال: جب آپ جلسہ، اجتماع، اور بڑی Gathering پر تشریف لا تے ہیں اور ہم آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور Excited ہو کر ہاتھ ہلا رہے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’تم خوش ہوتے ہو تو میں بھی خوش ہو جاتا ہوں۔ میں بھی تمہیں ہاتھ ہلا دیتا ہوں۔ جو تمہیں محسوس ہو رہا ہوتا ہے وہی مجھے محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ کہ اچھے اور مخلص احمدی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پیار کرنے والے احمدی بیٹھے ہیں۔ خلافت کے وفا دار احمدی بیٹھے ہیں۔ یہی feel ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘

سوال: کسی بھی رشتے میں جھگڑے اور فساد سے بچنے کے لیےکس حد تک compromise کرنا چاہیے اور کس وقت اپنی self –respect کو ترجیح دینی چاہیے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ کس قسم کے رشتے ہیں؟ بعض بہن بھائیوں کے رشتے ہیں۔بعض ماں باپ کے رشتے ہیں۔ بعض چچا ماموں کے رشتے ہیں بعض خاوند بیوی کے رشتے ہیں۔بعض ساس بہو کے رشتے ہیں۔تو ہر رشتے کی مختلف نو عیت ہے۔ اور جھگڑے کی نوعیت کیا ہے؟ جہاں تک ماں باپ کا سوال ہے، ان کی تو ہر وقت عزت کرنی ہے۔ احترام کرنا ہے۔ یہی قرآن کریم کا حکم ہے۔ سوائے شرک کی یا دین سے ہٹانے کی بات کریں۔اس کے علاوہ ان کے سامنے اُف بھی نہیں کرنی، ہر جگہ compromise ہی compromise ہے۔ ان کی تو خدمت کرنی ہے۔ ماں باپ کے اگر آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اس میں اگر تمہیں ہو کہ ماں کی سائیڈ لینی ہے یا باپ کی سائیڈ لینی ہے تو کسی کی بھی نہیں لینی۔ دونوں کو اگر سمجھا سکتے ہو تو سمجھاؤ۔بہن بھائیوں کا جہاں تک سوال ہے تو بہن بھائیوں سے صلح کے لیےاپنا حق چھوڑنا بھی پڑے تو چھوڑ دینا چاہیے۔اسلام یہی کہتا ہے کہ دوسروں کے حق کا خیال رکھو۔اسلام یہ تو کہتا ہے کہ جہاں تمہارا حق بنتا ہے وہاں تم حق لو۔لیکن اس سے پہلے یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے حق کا خیال رکھو۔اگر دوسرے کے حق کا خیال رکھو گے اور اس کے لیے دعا بھی کر رہے ہو گے کہ میں حق کا بھی خیال رکھنے والی ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو بھی عقل دےکہ یہ بھی بات سمجھ جائےاور لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں تو وہاں لڑائی جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔تیسری بات آ جاتی ہے رشتے داروں سے، ماموں چاچا سے تو وہ تو ویسے ہی بڑے ہیں اور روزانہ کا میل جول تو ہے نہیں، کبھی کبھاران سے ملنا ہے۔ ان سے اچھی طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کرو۔ ہر ایک سے سلام کرو، خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ یہی اعلیٰ اخلاق ہیں۔ رہ گئی ساس بہو کی بات تو سا سوں میں عمر کے لحاظ کی وجہ سے ان کی عادتیں بڑی پکی ہو چکی ہوتی ہیں۔ تو جہاں تک ان کی عزت اور احترام کا سوال ہے وہ کرو۔ اور عورتوں کو کرنا چاہیے۔ خاوندوں کو ساسوں کی مسلسل شکایتیں بھی نہیں کرنی چاہیے۔ صرف یہ کہنا چاہیے کہ دعا کرو میں صحیح طرح کام کر سکوں۔ بات یہ ہے کہ اگر اپنے اچھے اخلاق ہوں تو خاوند بھی رام ہو جاتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی ڈھیٹ قسم کا آدمی ہو تو اور بات ہے۔اسی طرح اگر کوئی ساس ہے اس کے لیے اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ بہو کا خیال رکھے۔ یہ تو اسلام کی تعلیم ہے کہ ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھو۔ ساس کو بہو کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بہو کو ساس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔اور پھر ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ جس سے آپس میں کسی بھی قسم کی دراڑ پیدا ہو رہی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دور کر دے۔ اعلیٰ اخلاق اگر ہوں تو انسان رام کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو تمہارے دشمن ہیں اگر ان کو بھی اعلیٰ اخلاق دکھاؤ تو وہ بھی بہتریں دوست بن جاتے ہیں۔تو جو آپس کی رشتے داریاں ہیں، یا ایک مذہب میں رہنے والے ہیں۔ وہ کیوں نہیں آپس میں ایک دوسرے کو اچھے اخلاق دکھا کر دوست بن سکتے؟ اللہ تعالیٰ کا تو دعویٰ ہے کہ دشمن بھی تمہارے دوست بن جاتے ہیں۔ تو جو ایک ہی قبیلے کے ہیں ایک ہی خاندان کے ہیں ایک ہی گھر کے ہیں ایک ہی قوم کے ہیں ایک ہی مذہب کے ہیں وہ کیوں نہیں دوست بن سکتے۔ اگر کوئی معین سوال ہے تمہارا تو بتاؤ مجھے۔‘‘ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’کس سے صلح کروانی ہے؟ ساری باتیں جو تمہارے ذہن میں تھی وہ ساری باتیں بیچ میں آ گئی ہیں یا نہیں آئی ؟‘‘ جس پر موصوفہ نے جواب دیا کہ ’’جی حضور۔‘‘

سوال: تاریخ سے ثابت ہے کہ جس طرح پہلے زمانے کے لوگ اپنے Gender کے مطابق اپنے آپ کو present کرتے تھے یہ طریقہ اب تبدیل ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر قدیم مصری زمانے میں مرد عام طور پر میک اپ استعمال کرتے تھے اور یہ ان کی مردانگی اور دولت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب یہ بات Gender norms کے خلاف سمجھی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ذکر ہےکہ آنحضور ﷺنے فرمایا آخری زمانے میں مرد عورتوں جیسا لباس پہننے لگیں گے اور عورتیں مردوں جیسا۔ حضور کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ آج کل کے زمانے میں اس حدیث کا مطلب کس طرح سے لیا جا سکتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کو generalize نہیں کر سکتے۔آپ نے جو پہلے بیان کیا کہ مرد جو تھے وہ سنگھار کیا کرتے تھے اور یہ کیا کرتے تھے۔ دراصل بعض قبیلوں کی بعض Traditions ہیں۔ وہ خاص festival ہوتے تھے جس میں وہ ایک خاص قسم کا میک اپ کر کے اور لباس پہن کر آیا کرتے تھے اور اسی طرح عورتیں بھی میک اپ کر کے اور لباس پہن کر آتی ہیں۔پرانے قبیلے جیسے کہ آسٹریلیا کے Aborigines، یا نیوزی لینڈ کے Maoris ہیں، یا امریکہ کے ریڈ انڈین ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے رواج ہیں۔ پرانی قوموں کے بھی رواج تھے جس کے مطابق وہ کیا کرتے تھے۔ لیکن عمومی طور پر یہ کہنا کہ مرد عورتوں کی طرح پہنتا تھا اور عورت بن جاتا تھا یہ غلط ہے۔ مرد کی تو نشانی یہی تھی کہ مردانگی ظاہر ہو۔ اس لیے آنحضور ﷺ نے اس وقت بھی فرمایا کہ مرد کو مرد ہی نظر آنا چاہیے۔ لیکن ایک وقت ایسا آئے گاجب مرد عورت کی پہچان نہیں رہے گی۔ ترجیحات بدل جائیں گی۔اس وقت ہر کوئی اپنا حق پہچاننے والا نہیں ہو گا اور اسی کا نتیجہ نکل رہا ہے کہ یہ برائیاں پھیل رہی ہیں۔ اب gender تبدیل کرنے کا رواج پید اہو گیا ہےاس لیے اس قسم کی برائیوں میں جب انسان ملوث ہوتا ہےتو خیال بھی پیدا ہو جاتا ہےماحول اس پر اثر ڈالنے لگ جاتاہے اور لڑکی کہتی ہے کہ میں لڑکا بننا چاہتی ہوں اور لڑکا کہتا ہے کہ میں لڑکی بننا چاہتا ہوں اگر نہیں بھی بننا چاہتے تو بعض ایسی حرکتیں کر تے ہیں مثلاً لڑکوں نے کان میں بوندے پہننا شروع کر دئیے، لمبے بال رکھنا شروع کر دئیے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مرد اور عورت میں فرق ہونا چاہیے۔مرد کو مردانگی کے اصول کے مطابق مردانگی دکھانی چاہیےاور عورت صنفِ نازک ہےاس کو اس کے حساب سے لباس میں رہنا چاہیے۔جب یہ چیزیں بدل جاتی ہیں تو یہی آخری زمانے کی نشانی ہے۔ پھر جب ایسے حالات بدلتے ہیں جب دنیا میں سارا بگاڑ اور فساد پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ اپنے فرستادوں کو، اپنے قریبیوں کو، اپنے پیاروں کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجتا ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ صحیح تعلیم بتا کر اور انسانوں کو ان کے حق بتا کر کہ تمہارے کیا کام ہیں؟ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہے کہ میں دو مقصد لے کر آیا ہوں۔ایک یہ کہ بندے کو خدا سے ملانا۔اور دوسرا یہ ہے کہ بندوں کے آپس کے حقوق ادا کرنا اور اعلیٰ اخلاق دکھانا۔ یہ اخلاق کیا ہیں؟ یہی کہ بندے کا جب اللہ تعالیٰ سے تعلق قا ئم ہو گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرے گا۔اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو بنایا ہے اس پر ہی چلے گا نہ یہ کہ دنیا کے پیچھے چل کے دنیا کے دکھاوے کے لیے، یہ ایک رسم بن گئی ہےبعض توبیمار ہوتے ہیں ان کو آپ چھوڑ دولیکن اکثر یت ایسی ہے کہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے دیکھا دیکھی فیشن کے طور پراس قسم کی حرکتیں کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر وہ اللہ سے بھی دور چلے جاتے ہیں دین سے بھی دور چلے جاتے ہیں اور بالکل دنیا میں ڈوب جاتے ہیں تو ایسے لوگ اگر صحیح رستے پر نہیں آتے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو سزا بھی دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کے اس دنیا میں ہی سزا ملے اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں بھی سزا دیتا ہے کہ تم کو جو بنایا تھا تم کیوں نہیں بن رہے؟ میں نے تمہارے پاس پیغام بھجوایا تھا کہ یہ یہ اچھے اخلاق ہیں یہ مذہب کی تعلیم ہے۔تم نے کیوں نہیں عمل کیا؟ کیوں تم نے ان کی مخالفت کی ؟کیوں دنیا میں ڈوبے رہے؟ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ کس طرح بندے کے ساتھ deal کرتا ہے۔ یہی بات ہے کہ انسان اس زمانے میں آزادی کے نام پر اور Freedom of expression اور ہر قسم کا جو Freedom ہے اس کے نام پرجو چاہے کرنے لگ جاتا ہےپھر یہ برائیوں کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اس سے آہستہ آہستہ پھر انسانی نسل بھی ختم ہو رہی ہے اور یہ برائیاں بڑھ کر آخر میں جن قوموں میں زیادہ ہو جائیں گی وہ تباہ ہو جائیں گی۔ جس طرح پہلی قومیں تباہ ہوتی رہیں۔‘‘

سوال: بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ مثلاً انبیاء، خلفاء، شہداء، صالحین، صادقین کی اولاد دعائیں ملنے کے باوجود اور نیک نمونہ دیکھنے کے باوجود صحیح راستے سے ہٹ جاتے ہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ہر ایک کا اپنا عمل ہے۔حضرت نوحؑ کے بیٹے نے نہیں مانا تو اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دی اور وہ غرق ہو گیا۔حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا ہے، حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور میں گزشتہ کسی خطبہ میں اس کو quote کر چکا ہوں کہ فاطمہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم پیغمبر کی بیٹی ہو تو بخشی جاؤ گی۔ تمہارے اپنے عمل تمہیں بخشنے کی طرف لے کر جائیں گے۔ انبیاء اور نیک لوگ نمونہ تو قائم کر دیتے ہیں لیکن اگر ان کے نمونوں کے اوپر کوئی عمل نہ کرے۔ نہ چلے، ڈھیٹ ہو، ضدی طبیعت ہو اور اس نمونہ کو دیکھ کر بھی نصیحت حاصل نہ کرے توپھر اللہ تعالیٰ کا قانون چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ نیک آدمی کا بیٹایا بیٹی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے عمل کیا ہیں؟ اس نے میری تعلیم پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں کیا تو پھر اس کو سزا ملتی ہے اس دنیا میں یا اگلے جہاں میں۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ تعلیم تو ہرا یک کے لیے ایک ہی ہے۔ اگر عقلمند انسان ہو تو وہ دوسرے سے نمونہ لے کر سبق حاصل کرتا ہےنیک نمونہ دیکھ کر نیکیوں پر عمل کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بد فطرت ہے، دنیا کی چیزوں اور چمک دھمک نے اس کو زیادہ قائل کر دیا ہےیا اس کی ذاتی خواہشات زیادہ بڑھ گئی ہیں تو وہ پھر برائیوں میں بڑھ جاتا ہے قطع نظر اس کےوہ کس کا بچہ ہے،کس کا بچہ نہیں ہے۔ یہ تو ہر ایک کا اپنا عمل ہے۔انبیاء بھی ساروں کو ایک جیسی نصیحت کرتے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے نصیحت کی تو سب مسلمانوں کو کرتے تھے۔ اگر individually کرتے تھے تو اپنے بچوں کو بھی کرتے تھے۔اسی طرح جو نیک لوگ ہیں وہ نصیحت کرتے ہیں اپنے بچوں کو بھی کرتے ہیں اب کوئی نہ مانے اور ڈھیٹ ہو تو پھر اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ حضرت علی ؓ کے گھر گئے۔تہجد نہیں پڑھی تھی تو انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ جگا دیتا ہے تو جاگ جاتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ عجیب لوگ ہیں، کج بحثی کرتے ہیں۔خود جس کام کو کرنا نہیں چاہتے ا س پر اللہ کا نام لگا دیتے ہیں۔ یہ تو غلط ہے۔ خیر حضرت علیؓ کو اس سے سبق آ گیا اور پھر انہوں نےاٹھنا شروع کر دیا تہجد کے لئے بھی۔ حضرت فاطمہ ؓ کو بھی ایسے ہی نصیحت کیا کرتے تھے۔ تو یہ نصیحتیں ہیں۔ اگر کسی کو عقل ہے تو وہ اس پرعمل کر لے گا۔ نوحؑ کے بیٹے کو نصیحت کی کہ میرے پاس آ جاؤ اور نہ بگڑو لیکن اس نے عمل نہیں کیا تو وہ ڈوب گیا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے بچے کو نصیحت کی اس نے عمل کیا اور وہ بچ گیا۔تو یہ تو ہر ایک پر منحصر ہے۔ یہ کہنا کہ یہ ضروری شرط ہے کہ ہر نیک بندے کا بچہ نیک ہو،ہاں عمومی طور پر نیک ہوتے ہیں لیکن بعض برے بھی نکل آتے ہیں۔یہ قانون قدرت ہے برائیوں کی طرف جاؤ گے تو برے بن جاؤ گے لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جو نیک لوگ ہیں اپنے بچوں کے لیے دعا کرنے والے لوگ ہیں چاہے وہ نبی ہیں، صدیق ہیں، یا کوئی بھی ہیں یا صالح ہیں یا شہید ہیں اگر وہ نیک ہیں اور اپنے بچوں کے لیے دعا کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا ئیں کرنے والے ہیں توعموماً ان کے بچے بہتر ہوتے ہیں۔اِکا دکا ایسی مثالیں ہیں جو برے بھی نکل آتے ہیں۔‘‘

سوال: آج کل یہ رواج ہے کہ اگر کوئی شخص کسی Topic پر اپنی کوئی ایسی رائے دیتا ہے جو ٹرینڈ سے الگ ہوتی ہے یا مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے تو لوگ اسے Ostracized کر دیتے ہیں اس ٹرینڈ کو cancel culture کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے کچھ نوجوان اپنی رائے نہیں دیتے اور اپنے دوستوں کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ حضور ایسی صورت میں آپ کی واقفاتِ نو کے لیے کیا رہنمائی ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’تم لوگوں نے تو انقلاب پیدا کرنا ہے۔ ابھی میں نے کہا نہیں کہ ماشاءاللہ اتنی زیادہ ہو گئی ہو، اب انقلاب پیدا کر دو؟ اسی رو میں بہہ جانا تو ہمارا کام نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی بھیجتا ہے تو اس وقت بھیجتا ہے جب زمانہ بہت زیادہ بگڑ چکا ہو۔ آنحضرت ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے بھیجاتو اس وقت قرآن شریف نے بھی کہا ہے کہ بحر و بر میں فساد برپا ہوا تھا۔سب لوگ بگڑے ہوئے تھے۔ تو آپﷺ کواصلاح کے لیے بھیجا۔اور عیسائی بھی مانتے ہیں یہودی بھی مانتے ہیں کہ وہ زمانہ بہت بگڑا ہو تھا۔ لوگ مذہب سے دور ہٹ رہے تھے۔تو پھر ان کی اصلاح کے لیے آنحضرت ﷺ کو بھیجا۔اور آپ ﷺ نے بتایا کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے، اور خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے کا طریقہ کیا ہے، کس طرح عبادت کرنی چاہیے، اچھے اخلاق کیا ہیں، مذہب تم سے کیا چاہتا ہے، اور اس کا اثر ہوااور دنیا میں اس کا اثر پھیلا۔اور جب عیسائیوں اور یہودیوں نے دیکھا کہ اسلام پھیل رہا ہے تو انہوں نے بھی اپنی تعلیم کو بہتر کرنا شروع کر دیا اس کو مقابلے میں لانے کے لیےاچھے اخلاق پھیلانے شروع کر دئیے۔تو بہرحال عمومی طور پر وہ مانتے ہیں کہ وہ انتہائی بگڑا ہوا زمانہ تھا۔پھر بارہ سو سال، چودہ سو سال کا زمانہ گزر گیا تو مسلمانوں میں بھی بگاڑ پیدا ہو گیا۔پھر دوسرے مذاہب میں بھی دوبارہ اسی طرح بگاڑ پیدا ہو گیا۔ مذہب سے دور جانے لگ گئے۔ آج کل دیکھ لو کہ دوسرے مذاہب والے 65 فیصد سے زیادہ لوگ تو خدا کو نہیں مانتے۔ مذہب سے دور ہو گئے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق بھیجا ہے اور ہمیں توفیق دی کہ ہم ان کو مان لیں۔ اور آپ لوگوں کو توفیق دی کہ آپ وقف کر کےان کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ لوگ مذہب سے دور ہٹے ہوئے ہیں اس لیے مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔اور نہ صرف مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ انبیاء کا بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ آج سے آٹھ نو سال پہلے ایک زمانے میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی انہوں نے کئی قسم کے کارٹون اور لطیفے بنائے اور غلط قسم کی باتیں اور حرکتیں کی۔ اور اب تک قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں ایک بندہ ہے جو قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہا ہے اور اسلام کا مذاق اڑاتا ہے۔ اسی طرح فرانس میں اسلام کی تعلیم پر پابندیاں لگ گئیں اور بھی ملک ہیں جو مسلمانوں کو بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کےاپنے عمل ایسے ہو گئے ہیں کہ مذاق اڑانے والی باتیں بن گئی ہیں۔ غلط قسم کی روایات شامل ہوگئی ہیں جن کو مذہب کانام دے دیا۔تو ایسے حالات میں ہم احمدی ہی ہیں جنہوں نے صحیح اسلامی تعلیم لوگوں کو بتا نی ہے۔ اگر ہمارے اچھے اخلاق ہوں گے،اچھے Morals ہوں گے ہمارا علم ہو گا، دنیاوی علم بھی ہوگا تو لوگ ہماری بات سنیں گے۔ جب ہم بحث کریں گےیا بات کریں گےتو لوگ کہیں گے یہ پڑھا لکھا ہے یہ جاہل انسان نہیں ہے۔ اس کو دنیا کا بھی علم ہے اور یہ سائنس کو بھی جانتا ہے اور اس کی جو approach ہے وہ بہت scientific اور philosophical ہے اور اس approach کے ساتھ جب یہ دلیل دیتا ہے اس کو ہمیں سننا چاہیے۔ پھر وہ مذاق نہیں اڑائیں گے۔ ہاں بعض ڈھیٹ لوگ ہوتے ہیں مذاق اڑانے والے۔ لیکن عمومی طور پر تمہیں avoid کریں گے۔لیکن بحث کر کے تمہار امذاق نہیں اڑائیں گےاور اگر اڑائیں گے بھی توانہیں میں سے بعض لوگ اور پیدا ہو جائیں گے کہ یہ غلط طریقہ ہے، ہم نے مذاق اڑایا ہے، ہمیں بات سننی چاہیے تھی۔ آہستہ آہستہ بات سننے والے بھی پیدا ہوتے جائیں گے۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کتنی مستقل مزاجی سے ہم کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے ڈرنا نہیں ہے اور رکنا نہیں ہے۔اپنے عمل سے، اچھے اخلاق سے اور اپنے علم سے جس کو بڑھا کر ہم نے لوگوں کو قائل کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعا سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے دعا کرتے ہوئے یہ کام کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کام کو آگے بڑھائیں اور دنیا کو صحیح راستے پر چلانے کا جو ہمارا وعدہ ہے، ہماری کوشش ہے، اس کو ہم پورا کریں۔ اپنے اپنے حلقہ میں جو تمہار اماحول ہے یا جن لوگوں سے بھی تمہارا interaction ہوتا ہے کسی بھی ذریعہ سے یا رابطہ رہتا ہے، تعلقات قائم ہوتے ہیں، ان کو اگر تمہارے بارے میں پتہ لگ جائے کہ یہ مذہبی بھی ہے علمی بھی ہے اور بڑی دلیل سے بات کرتے ہیں تو پھر وہ تمہاری بات سنیں گے۔‘‘

سوال: ہم غیر مسلم vegans کو کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا morally غلط نہیں ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ balanced خوراک کھاؤ۔ گوشت بھی کھاؤسبزی بھی کھاؤ اور اگر کوئی پسند نہیں کرتا کھانا، بعض لوگوں کو گوشت پسند نہیں ہوتا وہ گوشت نہیں کھاتے تو نہ کھائیں۔ لیکن صرف اس لیے کہ ذبح کرنا جرم ہےاس لیے ہم نے نہیں کھانا، توپھر تو ہم سانس بھی نہ لیں۔ پانی میں بھی تو ہزاروں جراثیم ایسے ہیں جو ہمارے پیٹ میں جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں یا ہوا میں بھی بہت سے جراثیم پھر رہے ہوتے ہیں جو ہمارے سانس لینے سے مر جاتے ہیں۔ پھر سبزی ہے اس میں بھی کئی قسم کے insects کو مار کر سبزی اگاتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ اتنی organic سبزی بھی تو نہیں اگارہے ہوتے۔ اگر کر بھی رہے ہوں تب بھی ایک زندگی تو ختم کر رہے ہوتے ہیں۔ تو جانور کو ذبح کر کے کھانایا indirectly کھا نا، بات توایک ہی ہے۔ایک زندگی تو ختم کر رہے ہوتے ہیں۔اسلام کی تعلیم ایک balanced تعلیم ہے۔یہ نہیں کہتی کہ گوشت ہی کھاتے جاؤاور نا صرف یہ کہتی ہے کہ سبزیاں ہی کھاتے جاؤ۔دونوں طرح کی چیزیں کھانی چاہیے balanced خوراک کھانی چاہیے۔ Nutritionally بھی یہ ثابت ہے کہ balanced diet اگر کھائی جائے، تبھی انسان کے جسم کی جو requirements ہے وہ پوری ہوتی ہیں، باقی اس قسم کی جو موومنٹ میں شامل ہوتے ہیں وہ کتنے لوگ ہوتے ہیں؟ باقی دنیا کی اکثرآبا دی تو گوشت بھی کھا رہی ہے، سبزی بھی کھا رہی ہے۔کچھ بھی نہیں چھوڑتی۔ اس لیے زیادہ قائل کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔ ان باتوں میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پڑنے کی بجائے اوربہت سی باتیں ہیں جن میں بحث کرو، تبلیغ کرو۔ اسلام کی تبلیغ اس سے نہیں رکنی چاہیے۔تم یہ کرو کہ کہو، اچھا ٹھیک ہے تم نے سبزی کھانی ہے تو بیشک کھاؤ۔لیکن تم اللہ تعالیٰ کی طرف آؤ۔اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو اور دین سیکھو۔جب وہ ایک طرف دین سیکھ لیں گے، اللہ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں گےتو جو بلاوجہ فیشن کے طور پرvegans کی تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں، وہ بھی ہٹ جائیں گے۔‘‘

(ٹرانسکرائب و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2022

اگلا پڑھیں

مالدار لوگ بلند درجوں پر پہنچ گئے