• 26 اپریل, 2024

سلسلہ کی اولاد ۔ واقفینِ زندگی

دین کی خاطر زندگی وقف کرنےکا سلسلہ تو اس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لیے انبیاء کے بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔ انبیاء کرام خود واقفینِ زندگی تھے بلکہ دیگر واقفینِ زندگی کے لئے نمونہ ہوتے ہیں۔ انبیاء کے ذیل میں ان کے ماننے والے، واقفینِ زندگی کا رول ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے بہت ہی ارفع اور اعلیٰ رسول اور نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ایمان لانے والے صحابؓہ تھے جو اشاعتِ اسلام اور اس کے دفاع کے لئے اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہے۔ ان صحابہؓ کو ہی اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک سرٹیفکیٹ یوں دیا کہ کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ

(آلِ عمران: 111)

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حکمًا بھی امّتِ محمّدیہﷺ کے ہر فرد کو واقفِ زندگی بننے کی رغبت دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ

(آلِ عمران: 105)

پھر آنحضور ﷺ کی ایک دعا خلفاء اور حکّا م کے حق میں ملتی ہے۔ مبلغین، مربیان، معلمین، داعیانِ الی اللہ اور واقفینِ زندگی بھی اس دُعا کے مخاطب ہیں کیونکہ وہ احادیث کو بیان کرتے، سنّت رسولﷺ کو زندہ رکھتے اور اسلامی تعلیم لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ دُعا یوں ہے:

اَللّٰهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَآئِیْ الَّذِيْنَ يَأْتُوْنَ مِنۡۢ بَعْدِيْ الَّذِيْنَ يَرْوُوْنَ أَحَادِيْثِيْ وَسُنَّتِيْ وَيُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ۔

(جامع الصغیر السیوطی جزو اول صفحہ60)

کہ اے اللہ! میرے ان خلفاء (جانشینوں) پر رحم فرما جو میرے بعد آئیں گے۔ میری احادیث اور سنت بیان کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ ایسے نیک، فعال خدّام دین لوگوں کے لئے فرماتے ہیں:
’’جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں۔ وہ ہمیں اس بات کا یقین دلاوے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ311)

آپؑ پھر فرماتے ہیں:
’’جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحریک پاتا ہوں۔ وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کر لوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے اور اس کا وجودخدا تعالیٰ کے لئے، خدا کے رسول کے لئے، خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ ایسے شخص کو جو درد و الم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ215)

ایک کامیاب داعی الی اللہ کے لیے جہاں اتنی اہم مقبول دعائیں ملتی ہیں۔ وہاں ایک کامیاب مبلغ، مربی اور داعی الی اللہ کو انہی کامیابیوں کے لئے اور اپنے ساتھ مزید داعیان کو جوڑنے کے لئے بھی دُعائیں ملتی ہیں۔ جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا کے الفاظ ملتے ہیں۔

پھر حضرت موسیٰ ؑ کی دُعا رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾ وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾ وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۸﴾یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۹﴾وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۳۰﴾ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۱﴾ اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ﴿ۙ۳۲﴾ وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۳۳﴾کَیۡ نُسَبِّحَکَ کَثِیۡرًا ﴿ۙ۳۴﴾

(طٰہٰ:26 تا 34)

ترجمہ: اے میرے ربّ! میرا سینہ میرے لئے کشادہ کر دے۔ اور میرا معاملہ مجھ پر آسان کر دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔ اور میرے لئے میرے اہل میں سے میرا نائب بنا دے۔ ہارون میرے بھائی کو۔ اس کے ذریعے میری پُشت مضبوط کر۔ اور اسے میرے کام میں شریک کر دے۔ تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔

اس دعا میں اپنے اہل میں سے وزیر یعنی مددگار طلب کیا گیا ہے۔ تا ہم تیری تسبیح کثرت سے کریں۔ یہ اعلیٰ نتیجہ ہے دعوت الیٰ اللہ کا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اس سلسلہ میں ایک اہم دُعا ان الفاظ میں ملتی ہے جو آپؑ نے حضرت مولانا حکیم نور الدینؓ کے نام ایک مکتوب میں لکھ کر دی۔ جو یہ ہے:

رَبِّ اَعْطِنِیْ مِنْ لَّدُنْکَ اَنْصَارًا فِیْ دِیْنِکَ

(مکتوب نمبر 24 از مکتوبات احمدیہ جلد پنجم صفحہ34)

کہ اے میرے رب! مجھے اپنے حضور سے اپنے دین کے لیئے معاون و مددگار عطاء کر۔

پھر آپؑ اپنے لئے دُعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں:

؎ مجھ کو دے اک فوقِ عادت اے خدا جوش و تپش
جس سے ہوجاؤں مَیں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار
وہ لگا دے آگ میرے دل میں ملت کےلئے
شعلے پہنچیں جس سے ہر دم آسماں تک بیشمار

پھر آپؑ اپنی اولاد کے داعیان الی اللہ بننے کے لیئے یوں دُعا کرتے ہیں:

؎یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر
یہ ہادیٔ جہاں ہوں یہ ہوویں نُور یکسر
یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہرِ انور
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

یہ دُعا آپؑ کی اولاد در اولاد کے حق میں بڑی شان سے پوری ہوئی۔ اور چار خلفاء آپ کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے۔ جو کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (آل عمران: 111) کی زندہ علامت ہیں اور اس وقت ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اس اہم عنوان کے تحت کارہائے نمایاں رقم فرما رہے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ(بانی الفضل) تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں‘‘

(تاریخ احمدیت جلد7 صفحہ50)

واقفینِ زندگی کا ایک مقام ہے۔ جسے ہم میں سے ہر ایک کو مد نظر رکھنا چاہیئے۔ آغاز میں تو واقفینِ زندگی میں صحابہ کرام، مربیان، اور مبلغین کرام شامل تھے۔ آہستہ آہستہ جماعت احمدیہ میں یہ دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریکِ وقفِ جدید سے معلمین کرام کا اضافہ ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی بابرکت اسکیم نصرت جہاں کے تحت ڈاکٹرز اور ٹیچرز حضرات نے زندگیاں وقف کیں اور اس مبارک نظام میں شامل ہوئے اور ابھی ہو رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مبارک انقلابی تحریک وقفِ نو کے تحت ہزاروں کی تعداد میں نفوس نے اپنے لختِ جگروں اور بچیوں کو دینِ اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کیا جن کی تعداد 60 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ پھر دعوت الی اللہ کے تحت داعیان کی تحریک بھی تھی۔ اور اب ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے متعلق الہام: ’’اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْرُ‘‘ کے تحت آپ کی تائید و نصرت اور مدد کے لئے احبابِ جماعت دنیا بھر سے واقفینِ زندگی کی صورت میں حضور کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں۔ جن میں دنیا بھر میں جامعہ احمدیہ کے پھیلے جال میں آنے والے واقفِ زندگی تو موجود ہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف فیلڈز سے تعلق رکھنے والے نو جوان ، بچے، بوڑھے شامل هو رهےہیں۔ جن میں انجینئرز، کمپیوٹر، شعبہ تعمیراتی اور اکاؤنٹس سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور خواتین شامل ہیں۔ اس وسیع و عریض نظام کے علاوہ رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے ہزاروں کی تعداد میں عہدیداران اور داعیان الی اللہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت کے سینکڑوں شعبوں میں آنریری اور طوعی خدمات بجا لانے والے ہزاروں کی تعداد میں امراء،صدران اور سیکرٹریان اس کے علاوہ ہے۔ جیسے روزنامہ الفضل آن لائن لندن ہی کو دیکھیں تو سینکڑوں احباب و خواتین کی مجموعی رضاکارانہ خدمت سے یہ روحانی اور علمی مائدہ تیار ہو کر منصہ شہود پر آتا ہے۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ خَیْرًا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کا خاتمہ بالخیر کرے۔ آمین۔

ان واقفینِ زندگی کا بلند مقام و مرتبہ اپنے اللہ کے حضور تو مسلم ہے ہی۔ احبابِ جماعت اور خلیفۃ المسیح کی نظر میں بھی قابل دید ہے۔ ایک وقت تھا کہ احبابِ جماعت اپنا تعارف اپنے خاندان سے جڑے صحابی کے نام سے کروایا کرتے تھے۔ اب اس میں اس لحاظ سے اضافہ ہوا ہے کہ احبابِ جماعت اپنا تعارف واقفینِ زندگی کی اولاد یا اولاد اپنے واقفینِ زندگی والدین کے حوالہ سے کرواتی ہے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نکاحوں کے اعلانات میں واقفینِ زندگی، واقفین (واقفات) نواور واقفینِ نو کی اولادوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ ؓ کے بیٹے کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ سوائے اپنے عزیزوں کے یا ایسے لوگوں کے جن کے تعلقات دینی یا تمدنی لحاظ سے اس قسم کے ہوں کہ جن کی وجہ سے وہ گویا اقرباء ہی سمجھے جانے کے قابل ہیں جب تک میری صحت اچھی نہیں ہوتی میں کوئی نکاح نہیں پڑھایا کروں گا۔ اس اعلان کے بعد میں نے بعض واقفین تحریک جدید کے نکاح پڑھے ہیں کیونکہ جو شخص زندگی وقف کرتا ہے وہ ایسا تعلق دین اور اسلام سے پیدا کر لیتا ہے گویا وہ سلسلہ کی اولاد ہے اور جو سلسلہ کی اولاد ہو جائے وہ کسی صورت میں ہمیں اپنی اولادوں سے کم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا تعلق دینی لحاظ سے ہے اور رشتہ داروں کا دنیوی لحاظ سے۔ گو رشتہ داروں کا دینی لحاظ سے بھی تعلق ہوتا ہے مگر ظاہری اور ابتدائی تعلق ان کا دنیوی لحاظ سے ہی ہوتا ہے۔ آج بھی اس اصول کے تحت میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے لڑکے کا نکاح پڑھنے کھڑا ہوا ہوں۔‘‘

(ایاز محمود صفحہ290)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ’’اور جیسا کہ میں نے کہا مختلف قوموں اور طبقوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھتی بھی چلی جائے گی۔ فی الحال صرف موجودہ وقت میں ضرورت نہیں ہے بلکہ آئندہ اس ضرورت نے مزید بڑھنا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 2016ء)

اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں پھیلے واقفین و واقفاتِ زندگی، واقفین و واقفاتِ نو اور رضاکارانہ و طوعی خدمات بجا لانے والوں کی خدمات کو مقبول و منظور فرمائے اور جو اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ والدین کو ان حسین پھولوں کی صحیح رنگ میں پرورش و پرداخت کرنے کی توفیق دیتا جائے اور یہ مبارک نظام دن بدن ترقی کرتا چلا جائے تا آنکہ اسلام و احمدیت کا غلبہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

پروگرام جلسہ سالانہ یو کے 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2021