اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سال میں بارہ مہینے رکھے ہیں اور ساتھ ہی ان میں سے چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳۶﴾
(التوبہ: 36)
ىقىناً اللہ کے نزدىک جب سے اس نے آسمانوں اور زمىن کو پىدا کىا ہےاللہ کى کتاب مىں مہىنوں کى گنتى بارہ مہىنے ہى ہے اُن مىں سے چار حرمت والے ہىں ىہى قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا دىن ہے پس ان (مہىنوں) کے دوران اپنى جانوں پر ظلم نہ کرنا اور (دوسرے مہىنوں مىں) مشرکوں سے اکٹھے ہو کر لڑائى کرو جس طرح وہ تم سے اکٹھے لڑتے ہىں اور جان لو کہ اللہ متقىوں کے ساتھ ہے۔
نیز فرمایا کیا کہ
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَصَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَکُفۡرٌۢ بِہٖ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَاِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَالۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ
(البقرہ: 218)
وہ تجھ سے عزت والے مہىنے ىعنى اس مىں قتال کے بارہ مىں سوال کرتے ہىں (ان سے) کہہ دے کہ اس مىں قتال بہت بڑا (گناہ) ہے اور اللہ کى راہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجدِ حرام سے روکنا اور ان لوگوں کو وہاں سے نکال دىنا جو اس کے (حقىقى) اہل ہىں خدا کے نزدىک اس سے بھى بڑا (گناہ) ہے اور فتنہ قتل سے بھى بڑھ کر ہے۔
ان حرمت والے مہینوں میں رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ، اور محرم کے مہینے شامل ہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ
کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے جب اسلام آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے۔ یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اشہر حج شوال ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے اور حرمت والے مہینے یہ ہیں۔ رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
(جامع الترمذی کتاب الحج باب منہ حدیث نمبر932)
اسلام سے پہلے بھی عرب میں چار مہینوں کو حرمت والے مہینہ قرار دیا جاتا تھا۔ مکہ کے مشرکین کفر و شرک کی حالت میں بھی ان مہینوں کی عظمت و فضیلت کے قائل تھے۔اسلام کے آغاز تک ان مہینوں میں جہاد و قتال بھی منع تھا اور ساتھ ہی ان مہینوں میں عبادات و اتحاد کی خاص فضیلت رکھی گئی تھی اور اب بھی ان مہینوں میں عبادت کی فضیلت برقرار ہے۔ حج سے پہلے ایک مہینہ یعنی ذی القعدہ کو اس لیے حرمت والا قرار دیا گیا تاکہ وہ اس مہینے میں جنگ و جدال سے باز رہیں۔ ذی الحجہ کو اس لیے حرمت والا مہینہ قرار دیا تاکہ وہ مناسک حج ادا کر سکیں اور اس کے بعد ماہ محرم کو اس لیے حرمت والا قرار دیا تاکہ امن و سکون سے اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ جائیں اور سال کے درمیان میں ماہ رجب کو اس لیے حرمت والا قرار دیا تاکہ جزیرۃ العرب کے دور دراز کے علاقوں میں سے آکر اگر کوئی عمره کرنا چاہے تو اس سے فارغ ہو کر اپنے وطن بآسانی لوٹ جائے۔
ان تمام مہینوں کی جہاں اپنی اہمیت ہے وہاں محرم کے مہینہ کی خاصیت اپنی جگہ ہے کیونکہ احادیث میں محرم کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ
عن ابي هريرة قال قال رسول اللّٰہؐ افضل الصيام بعد شهر رمضان شهر اللّٰہ المحرم
(سنن ترمذی كتاب الصيام عن رسول اللّٰہؐ باب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ الْمُحَرَّمِ)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینےمحرم کا روزہ ہے۔
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم افضل الصيام بعد رمضان شهر اللّٰه المحرم وافضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ)
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب روزوں میں افضل روزے رمضان کے بعد محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے اور بعد نماز فرض کے تہجد کی نماز ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھاماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سے کہا میں نےاس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنامیں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے سنا اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا اللہ کے رسول ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں کی توبہ قبول کی اور اس میں دوسرے لوگوں کی توبہ قبول کرے گا۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ دوسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن (یعنی دس محرم) روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے شریک مسرت ہونے میں ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا
(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ)
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عاشورے کا روزہ جاہلیت میں رکھا جاتا تھا پھر جب اسلام آیا تو اب چاہے کوئی رکھے چاہے چھوڑ دے
(صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَام باب صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ)
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن روزہ رکھا تو دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا تو لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! یہ دن تو ایسا ہے کہ اس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اگلا سال آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھیں گے۔ آخر اگلا سال نہ آنے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
(صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب أَيُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ روزہ کیونکر رکھتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں پھر جب سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے رَضِينَا بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ غَضَبِ اللّٰهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِم راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔ غرض سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ تھم گیا پھر سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی طاقت کس کو ہے۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا پھر کہا جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو۔ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے۔
(صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب اسْتِحْبَابِ صِياَمِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)
ان احادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں رسول اللہ ﷺ نے محرم کے مہینہ کو خاص اہمیت دی۔ آپؐ محرم میں روزے رکھتے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے کہ رمضان کے بعد محرم کے مہینہ کے روزے بہترین روزے ہیں۔نیز دس محرم کا روزہ جسے عاشوریٰ کا کہا جاتا ہے زمانہ جہالیت میں بھی رکھا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود اس دن کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں۔چنانچہ رسول للہ ﷺ نے بھی اسے رکھنے کا حکم دیا نیز بعد میں یہ بھی فرمایا کہ امت مسلمہ اور یہود میں فرق کرنے کے لیے بہتر ہے کہ 9 یا 11 محرم کے کو بھی روزہ رکھا جائے۔
اسلامی تاریخ میں محرم کا مہینہ اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ محرم میں رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر نواسے حضرت امام حسین ؓ کو بے دردی سے شہید کیا گیا نیز اہل بیت کے بے شمار افراد کو شہید کیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں حضرت امام حسین ؓ کا مقام بہت بلند بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ مندرجہ ذیل میں چند ایسی احادیث پیش کی جائیں گی جس سے حضرت امام حسین ؓ کا مقام و مرتبہ ہمارے سامنے ظاہر ہوگا۔
احادیث میں حضرت امام حسین ؓ کا مرتبہ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں کالے بالوں کی۔ اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں ان کو بھی اندر کر لیا پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا بعد اس کے فرمایاِ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَیُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا یعنی اللہ تعالیٰ جل جلالہ چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے ناپاکی کو اور پاک کرے تم کو اے گھر والو۔
(صحيح مسلم كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ باب فَضَائِلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمَا)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
(سنن ابن ماجه باب فى فضائل اصحاب رسول اللّٰہؐ باب فَضْلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمْ)
یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے آگے نکل گئے اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے ادھر ادھر بھاگنے لگےاور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنسانے لگے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا اور فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے اور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔
(سنن ابن ماجه باب فى فضائل اصحاب رسول اللّٰہؐ بَابُ فَضْلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ)
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی فاطمہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے فرمایا میں اس شخص کے لیے سراپا صلح ہوں جس سے تم لوگوں نے صلح کی اور سراپا جنگ ہوں اس کے لیے جس سے تم لوگوں نے جنگ کی۔
(سنن ابن ماجه باب فى فضائل اصحاب رسول اللّٰہؐ بَابُ فَضْلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمْ)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِؓ)
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین رضی الله عنہما تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے یعنی خواب میں آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی تو میں نے عرض کیا آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا ’’میں نے حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے‘‘
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا حسن اور حسین رضی الله عنہما۔ آپ فاطمہ رضی الله عنہا سے فرماتے میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین رضی الله عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَاَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حسن رضی الله عنہ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے اور حسین رضی الله عنہ اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا اب مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیجئے۔ میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا۔ چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ نوافل پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا۔ آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا ’’کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں حذیفہ ہوں۔ آپ نے فرمایا ما حاجتك غفر الله لك ولأمك کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو۔ پھر آپ نے فرمایا یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان کے سردار ہیں۔
(سنن ترمذي كتاب المناقب عن رسول اللّٰہؐ باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے محرم کے بارے میں پوچھا تھا شعبہ نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ پوچھا تھا کہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں مکھی مار دے تو اسے کیا کفارہ دینا پڑے گا؟ اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا عراق کے لوگ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جب کہ یہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو قتل کر چکے ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دونوں نواسے حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
(صحيح البخاري كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة بَابُ مَنَاقِبُ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمَا)
قال ابو بكر ارقبوا محمداؐ في اهل بيته۔
(صحيح البخاري كتاب فضائل الصحابةباب مناقب الحسن والحسين)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کو آپ کے اہل بیت کے ساتھ محبت و خدمت کے ذریعہ تلاش کرو۔
ان احادیث سے حضرت امام حسین کا مقام و مرتبہ ہمارے سامنے خوب کھل آتا ہے نیز یہ بھی پتہ چلتا ہےکہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسوں سے کتنی محبت تھی۔
محرم کے مہینہ میں رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کے ساتھ وہ ظلم کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے ہی اپنے نبی ﷺ کے لخت جگر نواسے کو شہید کر دیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ
’’امام حسین کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلأ آیا تھا کتنا خوفناک ہے۔لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سو لہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور اس طرح کی گبھراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہو اتو پھر ان پر پانی کا پینا بند کردیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ336)
احادیث میں درود شریف پڑھنے کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ کی عظیم الشان قربانی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم کثرت سے رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی آل پر درود بھیجیں اور اس مہینہ کو درود سے معطر کر دیں۔ احادیث میں بھی رسو ل اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کی بے شمار برکات بیان کی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پر درود بھیجنے کی گواہی قرآن کریم میں دی ہے اور ساتھ ہی ہمیں بھی ہدایت کی ہے کہ مسلمان بھی کثرت سے درود شریف پھڑیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۵۷﴾
(الاحزاب: 57)
ىقىناً اللہ اور اس کے فرشتے نبى پر رحمت بھىجتے ہىں اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تم بھى اس پر درود اور خوب خوب سلام بھىجو۔
اس طرح احادیث میں آیا ہے کہ
عن عبد اللّٰه بن مسعودان رسول اللّٰہؐ قال اولى الناس بي يوم القيامة اكثرهم علي صلاة۔ وروي عن النبيؐ انه قال من صلى علي صلاة صلى اللّٰہ عليه بها عشرا وكتب له بها عشر حسنات۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ درود بھیجے گا۔
(سنن ترمذي أبواب الوتر مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
قال رسول اللّٰہؐ إن من افضل ايامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فاكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قال قالوا يا رسول اللّٰہ وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد ارمت؟ يقولون بليت فقال إن اللّٰہ عز وجل حرم على الارض اجساد الانبياء۔
(سنن ابي داودتفرح أبواب الجمعة باب فَضْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ)
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن چیخ ہو گی۔ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اوس بن اوس کہتے ہیں لوگوں نے کہا اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ وفات پاکر بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کر دیا ہے۔
سمعت عبد الرحمن بن ابي ليلى قال لقيني كعب بن عجرة فقال الا اهدي لك هدية؟ إن النبيؐ خرج علينا فقلنا يا رسول اللّٰہ، قد علمنا كيف نسلم عليك فكيف نصلي عليك؟ قال فقولوا اللّٰہم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللّٰہم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد۔
(صحيح البخاري كِتَاب الدَّعَوَاتِ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ یعنی ایک عمدہ حدیث نہ سناؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں تشریف لائے تو ہم نے کہا:یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم آپ کو سلام کس طرح کریں، لیکن آپ پر درود ہم کس طرح بھیجیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہو اَللّٰهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد اے اللہ! محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے ابراہیم پؑر رحمت نازل کی بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔ اے اللہ! محمدﷺ پر اور آل محمد پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم ؑاور آل ابراہیمؑ پر برکت نازل کی بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ … تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ654 اشتہار تبلیغ الحق 8 اکتوبر 1905ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں محرم کے مہینہ میں کثرت سے دعائیں کرنے کی توفیق عطأ کرے اور قرآن کریم اور احایث کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی آل پر کثرت سے درود بھیجنے کی توفیق ملے۔آمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍوَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(مبارک احمد منیر۔ مبلغ سلسلہ برکینا فاسو)