حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں حضرت امام حسینؓ کام مقام ومرتبہ
نیز ماہ محرم اور درود شریف کی اہمیّت وبرکات
بعض معاندین احمدیت حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام پرمحض تعصب اور دشمنی میں یہ بے بنیادالزام اور تہمت لگاتے ہیں کہ آپؑ کے دل میں اہل بیت خصوصاً حضرت امام حسینؓ کےلیے احترام نہ تھا اور آپؑ نےاس پاک ہستی کی توہین کی ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حضرت مسیح پاکؑ سر تاپا عشق رسولؐ و اہل بیت میں سرشار تھے۔ اگرکوئی شخص بغض وتعصب کی عینک اُتار کر آپؑ کی کتب کا مطالعہ کرے تووہ یہ بات ماننے پر مجبور ہوجائے گا کہ آپؑ کا کلام اور آپؑ کی تحریرات عشق رسول ﷺ و اہل بیت کے پاک نمونوں اور مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس وقت ہم قارئین الفضل آن لائن کے لیے آپؑ کی تحریرات اور ملفوظات سے چند حوالہ جات اور مثالیں پیش کریں گے جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے گی کہ آپؑ کی تحریرات اور ملفوظات سے عشق رسولﷺ و اہل بیت اورخصوصا ً حضرت امام حسینؓ سے جو عقیدت و محبت تھی وہ کس طرح جھلکتی ہے۔ آپؑ کی نثر اٹھا کر دیکھ لیجیئے، آپؑ کا منظوم کلام اٹھا کر دیکھ لیجیئے، آپؑ کا اردو کلام دیکھ لیجیئے، آپؑ کا فارسی یا عربی کلام دیکھ لیجیئے،ہر جگہ یہی نظارہ نظر آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام اپنے منظوم فارسی کلام میں فرماتے ہیں:
جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است
(درثمین فارسی مع نقل صوتی اردو ترجمہ اور فرھنگ جلد اول صفحہ218)
میری جان و دل محمدؐ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آلِ محمدؐکے کوچے پر قربان ہے۔
آل محمدٌ اور اہل بیت رسول ہاشمیﷺ میں ایک بہت بڑا نام، ایک معتبر نام نواسہ رسولٌ حضرت امام حسینؓ عالی مقام کا بھی ہے۔ حضرت امام حسینؓ سےبانی جماعت احمدیہ ؑکے غیر معمولی عشق ومحبت کا ایک عظیم واقعہ کچھ اسطرح ہے۔
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے باغ میں ایک چار پائی پر لیٹے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا آؤ! میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسورواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کر ب کے ساتھ فرمایا۔
’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘
اس وقت آپؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور سب کچھ رسول پاکؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔
(روایات حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓسیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ31)
حضرت امام حسینؓ خدا کے برگزیدہ، صاحبِ کمال، صاحبِ عفّت و عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’… خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے روحانی آل کا لقب نہایت موزوں ہے۔ اور وہ روحانی آل اپنے روحانی نانا سے وہ روحانی وراثت پاتے ہیں جس کو کسی غاصب کا ہاتھ غصب نہیں کر سکتا اور وہ اُن باغوں کے وارث ٹھہرتے ہیں جن پر کوئی دوسرا قبضہ ناجائز کر ہی نہیں سکتا…حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفّت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے… سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اِس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے۔ وہ بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ہوتے۔ جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں؟ بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآنِ شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے۔ اب ایک عقلمند انسان سوچ سکتا ہے کہ کیا لازوال اور ابدی طور پر آلِ رسول ہونا جائے فخر ہے یا جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا جو بغیر تقویٰ اور طہارت اور ایمان کے کچھ بھی چیز نہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرِ شان کرتے ہیں۔ بلکہ اس تحریر سے ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق صرف جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا نہیں کیونکہ وہ بغیر روحانی تعلق کے ہیچ ہے۔ اور حقیقی تعلق اُن ہی عزیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ جو روحانی طور پر اُس کی آل میں داخل ہیں۔ رسولوں کے معارف اور انوار روحانی رسولوں کے لئے بجائے اولاد ہیں جو اُن کے پاک وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور جو لوگ اُن معارف اور انوار سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں اور ایک پیدائشِ جدید اُن انوار کے ذریعہ سے پاتے ہیں وہی ہیں جو روحانی طور پر آل محمدؐ کہلاتے ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ364-366حاشیہ)
حضرت امام حسینؓ - امامِ کامل
حضرت مسیح موعودؑ اپنی معرکۃ الآراء کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں۔
’’… اسی طرح علماء کی عادت رہی اور ایسے سعید ان میں سے بہت ہی کم نکلے جنہوں نے مقبولان درگاہ الٰہی کو وقت پر قبول کرلیا امام کامل حسین رضی اللہ عنہ سے لیکر ہمارے اس زمانہ تک یہی سیرت اور خصلت ان ظاہر پرست مدعیان علم کی چلی آئی کہ انہوں نے وقت پر کسی مرد خدا کو قبول نہیں کیا…‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ34)
حضرت امام حسینؓ سرداران بہشت میں سے
ایک مرتبہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی کہ حضرت امام حسین ؓ کے مقام اور رُتبے کے بارہ میں کسی احمدی نے غلط بات کی ہے۔ تو اِس پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسینؓ بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ لَعْنَتُ اللّٰہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔۔ ۔ بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مؤمن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجودنہ تھے۔ مؤمن بننا کوئی امرِ سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے۔
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا
(الحجرات: 15)
مؤمن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لیے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تیئں دُور تَر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دُنیاکی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہرمطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن بر گزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبر، استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوب صورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دُنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دُنیا سے بہت دُور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی۔ کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور بر گزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی اَوربزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ376-374 اشتہار نمبر 272 ایڈیشن 2019ء قادیان)
کوئی انسان حسین جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے
ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں نے اِس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ یہ انسانی کارروائی نہیں۔خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَ وَلِیًّا لِیْ دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ149)
حضرت علیؓ اور حضرت امام حسینؓ
سے ایک مناسبت
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ سے اپنی ایک مناسبت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور مَیں حضرت علیؓ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جواُن سے عداوت رکھے اس سے مَیں عداوت رکھتا ہوں‘‘
(سرالخلافۃ اُردو ترجمہ صفحہ112)
آیت تطہیر کس کی شان میں ہے؟
ایک دفعہ امام آخرالزّمان علیہ السّلام کی خدمت میں سوال ہوا کہ سورت الاحزاب کی آیت 34 کس کی شان میں ہے؟ آپ علیہ السّلام نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اگر قرآن شریف کو دیکھا جاوے تو جہاں یہ آیت ہے وہاں آنحضرت ﷺ کی بیویوں ہی کا ذکر ہے۔ سارے مفسر اس پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُمہات المؤمنین کی صفت اس جگہ بیان فرماتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے۔
وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ
(النور: 27)
یہ آیت چاہتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے گھر والے طیبات ہوں۔ ہاں اس میں صرف بیبیاں ہی شامل نہیں بلکہ آپٌ کے گھرکے رہنے والی ساری عورتیں شامل ہیں اور اس لئے اس میں بنت بھی داخل ہوسکتی ہے بلکہ ہے اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں تو حسنین بھی داخل ہوئے۔ پس اس سے زیادہ یہ آیت وسیع نہیں ہوسکتی جتنی وسیع ہوسکتی تھی ہم نے کردی۔ کیونکہ قرآن شریف ازواج کو مخاطب کرتا ہے اور بعض احادیث نے حضرت فاطمہ اور حسنینؓ کو مطہرین میں داخل کیا ہے پس ہم نے دونوں کو یکجا جمع کرلیا ہے۔ شیعہ نے ازواج مطہرات کو سب وشتم سے یاد کیا ہے اور چونکہ خداتعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ ایسا کریں گے اس لئے قبل از وقت ان کی برأت کردی۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ29 ایڈیشن 2016ء)
شیعہ احباب کی طرف سے امام حسینؓ کی شان میں غلو
ایک شخص کے اس سوال پر کہ کیا اولیاء اللہ سے محبت رکھی جاوے کہ نہ فرمایا کہ۔
’’ہم اس کے مخالف نہیں ہیں کہ صلحاء اور اتقیاء اور ابرار سے محبت رکھی جاوے مگر حد سے گذر جانا حتی کہ آنحضرت ﷺ پر ان کو مقدم رکھنا یہ مناسب نہیں ہے جیسے کہ گذشتہ ایام میں بعض شیعہ کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی اس میں لکھا تھا کہ صرف امام حسین علیہ السّلام کی شفاعت سے تمام انبیاء نے نجات پائی۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کی کسر شان ہے۔ اس سے تو ثابت ہوا کہ خدا نے غلطی کی کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن نازل کیا اور حسین پر نہ کیا۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ82 ایڈیشن 2016ء)
حضرت امام حسینؓ سے بے وفائی کی گئی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’حقیقت میں یہ بڑی عبرت کا مقام ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر ایک وقت آیا تھا کہ مسلم نے ۷۰ ہزار آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھی اور عہد کیا۔ کسی نے آکر یزید کی خبر دی سب کے سب چھوڑ بھاگے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ340 ایڈیشن 2016ء)
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے دردناک واقعہ کا ذکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؓ کی شہادت کا حال اِس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے۔ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کردیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ336 ایڈیشن1988ء)
امام معصوم حضرت امام حسینؓ کو بہت دکھ دیا گیا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’اسلام میں بھی یہودی صفت لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنی غلط فہمی پر اصرار کر کے ہر ایک زمانہ میں خدا کے مقدس لوگوں کو تکلیفیں دیں۔ دیکھو کیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے۔ اور اس امام معصوم کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیا۔ آخر بجز قتل کے راضی نہ ہوئے اور پھر وقتاً فوقتاً ہمیشہ اس امت کے اماموں اور راستبازوں اور مجددوں کو ستاتے رہے اور کافر اور بےدین اور زندیق نام رکھتے رہے۔ ہزاروں صادق ان کے ہاتھ سے ستائے گئے اور نہ صرف یہ کہ ان کا نام کافر رکھا بلکہ جہاں تک بس چل سکا قتل کرنے اور ذلیل کرنے اور قید کرانے سے فرق نہیں کیا۔‘‘
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلدنمبر14 صفحہ254-255)
حضرت امام حسین ؓکی شجاعت وبہادری
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کربلا کے واقعات کے دوران حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بے مثال صبر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’انسان کا خُلق اس کی فتح اور کامیابی کے متعلق ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ صبر وغیرہ اَخلاقِ فاضلہ مصیبت اور بلا کے وقت دکھلاتا ہے وہی فتح اور اقبال کے وقت دکھلاوے … امام حسین علیہ السلام … اگر چاہتے تو جاسکتے تھے مگر جگہ سے نہ ہلے اور سینہ سپر ہوکر جان دی…‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ295، ایڈیشن 2016ء)
فتنوں کی بہتات اورسید المظلومین حسینؓ
آپؑ نے اپنی ایک عربی تالیف میں حضرت امام حسینؓ کو ’’سیّد المظلومین‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اور فتنوں کے دروازے اور حسد اور کینے کی راہیں کھل گئیں۔ اور ہر نئے روز کا نیا جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، زمانے کے فتنوں کی بہتات ہوگئی اور امن کے پرندے اڑ گئے۔ اور مفاسد میں جوش پیدا ہوا اور فتنے موجزن ہوگئے۔ یہاں تک کہ سیّد المظلومین حسینؓ قتل کردئیےگئے۔‘‘
(سر الخلافة اردو ترجمہ صفحہ97)
ماہ محرم
’’یہ محرم کا مہینہ بڑا مبارک مہینہ ہے۔ ترمذی میں اس کی فضیلت کی نسبت آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث لکھی ہے کہ فیہ یوم تاب اللّٰہ فیہ علیٰ قوم اٰخرین یعنی محرم میں ایک ایسادن ہے جس میں خدا نے گذشتہ زمانہ میں ایک قوم کو بلا سے نجات دی تھی اور مقدر ہے کہ ایسا ہی اسی مہینہ میں ایک بلا سے ایک اورقوم کو نجات ملے گی۔ کیا تعجب کہ اس بلا سے طاعون مراد ہو اور خدا کے مامور کی اطاعت کرکے وہ بلا مُلک سے جاتی رہے۔‘‘
(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد18 صفحہ223 حاشیہ)
محرم اور بد رسومات
حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے مختلف مواقع پر محرم کی رسومات کے حوالہ سے سوالات ہوئے وہ سوال و جواب حسبِ ذیل ہیں۔
٭…ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہواکہ محرم کے دنوں میں اما مَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
(فقہ المسیح صفحہ387) (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ253)
٭…سوال پیش ہوا کہ محرّم میں جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ فرمایا:
’’گناہ ہے۔‘‘
(بدر14؍مارچ 1907ء صفحہ5)
٭…قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت وچاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ لِلّٰہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:
’’ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم وبدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس سے پرہیز کرنا چاہئے کیوں کہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں۔ ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کرلیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے۔‘‘
(بدر14؍مارچ 1907ء صفحہ5)
٭… حضرت شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالویؓ تحریر فرماتے ہیں کہ خاکسار نے (حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں۔ ناقل) عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔
جواب: حضورؑ نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشوروشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے۔ لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے ادا کرنا اور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کا تکرار بطور علاج فرمایا۔
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ نمبر87-88 روایت نمبر1114)
درُودشریف کی برکات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درُود کی برکات اور اہل بیت سے تعلق کا جو ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے وہ آپؑ کے الفاظ میں پیش ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہےلیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پرشخص مُحْیِیْ کی تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْیِیْ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ہٰذَا رَجُلٌ یُحِبُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جوآل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبّین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبتِ حسّ سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ حضرت علیؓ و حسنینؓ و فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علیؓ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ598-599 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں۔
’’درود شریف کے طفیل … میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت ﷺ کے سینے میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہوجاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینًا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت ﷺ دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔‘‘
(الحکم 28 فروری 1903ء صفحہ7 بحوالہ کتاب شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ59)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(بشارت احمد شاہد۔ لٹویا)